بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط ۶۲)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭…اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے مختلف صیغے کیوں استعمال کیے ہیں؟

٭…مسئلہ رضاعت کی بابت ایک معاملہ کے بارے میں راہنمائی

٭… اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن آرہا ہو تو کیا اس دن روزہ رکھنا جائز ہے؟

٭…جب ساری دنیا کے مسلمان وقوفِ عرفات کے دن پر متفق ہیں

تو پھر عید الاضحیہ کے دن پر اختلاف کی کیا وجوہات ہیں؟

٭… ترکہ کی تقسیم کے سلسلہ میں راہنمائی

سوال: کینیڈا سے ایک خاتون نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ ہم کلمہ طیبہ میں کہتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے کبھی مَیں،کبھی ہم اور کبھی وہ کے الگ الگ صیغے کیوں استعمال کیے ہیں، اس میں کیا حکمت ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۱؍جولائی ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:

جواب: اللہ تعالیٰ کے لیے مفرد، جمع اور غائب کے جو مختلف صیغے استعمال ہوئے ہیں ان کے بارے میں لوگوں نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس کی مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ مَیں ،جو کہ مفرد متکلم کا صیغہ ہے اس کے ذریعہ ایک عام حکم دیا جاتا ہے اور ’ہم‘ جو جمع متکلم کا صیغہ ہے اس میں پورا جلال ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جبکہ وہ جو کہ مفرد غائب کا صیغہ ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی صفت غائب کے اظہار کے لیے آتا ہے۔

میں اور وہ دونوں مفرد کے ہی صیغے ہیں، ایک متکلم کے لیے جبکہ دوسرا غائب کے لیے استعمال ہوتا ہے اور عام محاورہ میں ایک انسان بھی ان دونوں صیغوں کو اپنے ہی لیے اپنے مختلف انداز بیان کرنے کے لیے استعمال کر لیتا ہے۔لیکن جب اللہ تعالیٰ مفرد کے ان صیغوں کو اپنے لیے استعمال کرتا ہے تو اس میں اس کی توحید کی صفت کا خاص طور پر اظہار مقصود ہوتا ہے۔ اور جب ہم جو کہ جمع کا صیغہ ہے،اللہ تعالیٰ اپنے لیے استعمال کرتا ہے تو اس میں اس کے جلال کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:خدا تعالیٰ جب تو حید کے رنگ میں بولے تو وہ بہت ہی پیاراور محبت کی بات ہو تی ہے اور واحدکا صیغہ محبت کے مقام پر بولا جاتا ہے۔ جمع کا صیغہ جلا لی رنگ میں آتا ہے جہاں کسی کو سزا دینی ہو تی ہے۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۲۵۵، ایڈیشن ۲۰۱۶ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف کتاب البریہ میں عیسائیوں کی طرف سے تثلیث کے حق میں دیے جانے والے دلائل کا ردّ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے لیے میں اور ہم کے صیغہ کے استعمال کی بابت فرماتے ہیں:پس واضح ہو کہ اصل مدعا جمع کا صیغہ لانے سے خدا کی طاقت اور قدرت کا ظاہر کرنا ہے اور یہ زبانوں کے محاورات ہیں جیسا کہ انگریزی میں ایک انسان کو یُو یعنی تم کے ساتھ مخاطب کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے لیے باوجود تثلیث کے عقیدہ کے ہمیشہ داؤ (Thou)یعنی تُو کا لفظ لاتے ہیں۔ ایسا ہی عبرانی میں بجائے ادون کے جو خداوند کے معنے رکھتا ہے ادونیم آ جاتا ہے۔ سو دراصل یہ بحثیں محاورات لغت کے متعلق ہیں۔ قرآن شریف میں اکثر جگہ خدا تعالیٰ کے کلام میں ہم آ جاتا ہے کہ ہم نے یہ کیا اور ہم یہ کریں گے۔ اور کوئی عقلمند نہیں سمجھتا کہ اس جگہ ہم سے مراد کثرت خداؤں کی ہے۔(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۹۵،۹۴)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کریم کی آیات فَاَوۡحٰۤی اِلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ لَنُہۡلِکَنَّ الظّٰلِمِیۡنَ۔ وَلَنُسۡکِنَنَّـکُمُ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِھِمۡ۔(سورۃ ابراہیم:۱۵،۱۴)یعنی تب ان کے ربّ نے ان کی طرف وحی کی کہ یقیناً ہم ظالموں کو ہلاک کر دیں گے۔ اور ضرور ہم تمہیں ان کے بعد ملک میں آباد کر دیں گے۔ میں اللہ تعالیٰ کے اپنے لیے جمع کے صیغوں کے استعمال کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:(ان آیات میں )اللہ تعالیٰ نے متکلّم مع الغیر کے صیغہ کو استعمال کیا ہے، جو کہ جمع کے معنے دیتا ہے۔ حالانکہ ہلاک کرنے والی اور جگہ دینے والی تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، جو واحد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ قبضہ اور تصرف کا اظہار کرنا مقصود ہے۔ چونکہ جماعت میں قوت اور طاقت زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں قرآن کریم میں قبضہ اور تصرف بتانا مقصود ہوتا ہے اور اسے نمایاں کر کے دکھانا ہوتا ہے وہاں جمع کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے اور جہاں استغناء کا اظہار مقصود ہوتا ہے یا قبضہ اور تصرف پر زور دینا مقصود نہیں ہوتا، وہاں واحد کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض صوفیوں نے یہ بھی لکھا ہے، جس کام کو اللہ تعالیٰ ملائکہ کے توسّط سے کرتا ہے، اس کے لیے جمع کا صیغہ استعمال فرماتا ہے اور جس کام کو خالص امر سے کیا جاتا ہے، وہاں مفرد کا صیغہ استعمال فرماتا ہے۔(تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ۴۵۵)

پس اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے جو واحد،جمع اور غائب کے الگ الگ صیغے استعمال فرمائے ہیں، ان سے اللہ تعالیٰ کی مختلف قسم کی الگ الگ صفات اور طاقت و قدرت کا اظہار مقصود ہے۔

سوال: یمن سے ایک خاتون نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ ایک لڑکی نے اپنے پھوپھی زاد سے شادی کی، جس سے اس کا ایک بچہ بھی ہے۔ اس کے خاوند نے اپنی امی کی خالہ کا دودھ پیا تھا۔ علماء کہتے ہیں کہ ان کی طلاق ہونی چاہیے کیونکہ اس کا خاوند اس کا رضاعی چچا لگتا ہے۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۰۷؍ اگست ۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: آپ نے جو صورتحال بیان کی ہے، اس کے مطابق لڑکے کی نانی لڑکی کی دادی ہیں۔ اور لڑکے نے جس عورت یعنی اپنی ماں کی خالہ کا دودھ پیا ہے، وہ اصل میں لڑکے کی نانی کی بہن ہے اورلڑکی کی دادی کی بہن ہے۔پس اس رضاعت کے نتیجہ میں ان میاں بیوی کے درمیان کوئی حرمت واقع نہیں ہوتی، کیونکہ اس لڑکے کا رضاعی رشتہ اپنی نانی اور لڑکی کی دادی کی اولاد سے نہیں بن رہا بلکہ لڑکےکی نانی کی بہن اور لڑکی کی دادی کی بہن کی اولاد سے بن رہا ہے۔

ہاں اگر لڑکے نے اپنی نانی کا دودھ پیا ہوتا تو چونکہ لڑکے کی نانی لڑکی کی دادی ہیں، اس لیے یہ لڑکا اس لڑکی کا رضاعی چچا ہوتا، جس سے شادی کی ممانعت تھی۔ لیکن آپ کی بیان کردہ صورت میں ان دونوں میاں بیوی کے درمیان کوئی حرمت رضاعت واقع نہیں ہوتی۔

سوال: نائیجیریا سے ایک دوست نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ حدیث میں پڑھا ہے کہ جمعہ کو روزہ نہیں رکھ سکتے۔ لیکن اس سال یوم عرفہ جمعہ کو آ رہا ہے۔ کیا اس دن ہم جمعہ کا روزہ رکھیں گے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۰۷؍اگست ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور نے فرمایا:

جواب: احادیث سے پتا چلتا ہے کہ حضورﷺ نے صرف جمعہ کے دن اور صرف ہفتہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ترمذی کتاب الصوم بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ صَوْمِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَحْدَهُ و بَاب مَا جَاءَ فِي صَوْمِ يَوْمِ السَّبْتِ)علمائے حدیث نے اس کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ جن میں سے یہ بھی ہے کہ جمعہ چونکہ ہماری عید کا دن ہے اور عید کھانے پینے کا دن ہوتا ہے اس لیے عید والے دن روزہ نہ رکھا جائے۔ اسی طرح صرف جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے خاص کرنے کی ممانعت کے حکم کی ایک وجہ مسلمانوں کو اس دن کی ظاہری تعظیم میں مبالغہ سے بچانا ہے۔ تا کہ جس طرح یہود سبت یعنی ہفتہ کے دن کی تعظیم میں مبالغہ کے نتیجہ میں فتنہ میں پڑ گئے، مسلمان جمعہ کے دن کی ظاہری تعظیم میں مبالغہ کر کے فتنہ کا شکار نہ ہو جائیں۔(تحفۃ الاحوذی شرح سنن ترمذی کتاب الصوم بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ صَوْمِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَحْدَهُ)

نیز ہفتہ کے دن روزہ سے اس لیے منع فرمایا کہ اس دن چونکہ یہود روزہ رکھتے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو یہود سے مشابہت سے بچانے کے لیے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ہفتہ کے دن روزہ نہ رکھیں۔(سنن ترمذی کتاب الصوم بَاب مَا جَاءَ فِي صَوْمِ يَوْمِ السَّبْتِ)

علاوہ ان احکامات کے حضورﷺ نے یوم عرفہ (نو ذی الحجہ) اوریوم عاشورہ(دس محرم) کے روزہ کی بھی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے۔(صحیح مسلم کتاب الصیام بَاب اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ) البتہ جو شخص حج پر موجود ہو اس کے لیے یوم عرفہ کا روزہ رکھنا منع ہے۔(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بَاب صِيَامِ يَوْمِ عَرَفَةَ)

خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات سے آگے بڑھ کراز خود کسی دن کو روزہ کے لیے خاص کر لینا منع ہے، لیکن جن خاص ایام میں خدا اور اس کے رسول نے روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے، ان میں اگر جمعہ یا ہفتہ کا دن آ جاتا ہے تو ان خاص ایام میں صرف جمعہ یا ہفتہ کے دن روزہ رکھنے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔

پس یوم عرفہ اور یوم عاشورہ وہ دن ہیں جن میں حضورﷺ نے نفلی روزہ رکھنے کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ اس لیے ان ایام میں صرف جمعہ یا صرف ہفتہ کے دن روزہ رکھنے میں کوئی ممانعت نہیں۔

سوال: مصر سے ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ میں وقوفہ عرفات کے وقت اور اس کے نتیجہ میں عیدالاضحیہ کے دن کے سلسلہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب ساری دنیا کے مسلمان وقوف عرفات کے دن پر متفق ہیں تو پھر ہم ان سے عید الاضحیہ کے دن کے بارے میں کس طرح اختلاف کرتے ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۸؍اگست ۲۰۲۲ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:

جواب: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ۹؍ذی الحجہ کا دن وقوف عرفہ کہلاتا ہے، کیونکہ اس روز حج کی سعادت پانے والے لوگوں کے لیے عرفات کے میدان میں کچھ دیر قیام کرنا لازمی ہے، کیونکہ یہ حج کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ اور ۱۰؍ذی الحجہ جس دن حاجی رمی الجمار کرتے، قربانی کرتے اور بال کٹوا کر یا سر منڈوا کر احرام کھولنے کے بعد طواف افاضہ کے لیے مکہ جاتے ہیں، اسے یوم النحرکہا جاتا ہے۔ اگرچہ حج پر موجود لوگ اس روز نہ عیدالاضحیہ کی نماز پڑھتے ہیں اور نہ ہی عیدالاضحیہ کی قربانیاں کرتے ہیں۔جبکہ ۱۰؍ذی الحجہ کو دنیا کے باقی علاقوں میں بسنے والے مسلمان عیدالاضحیہ مناتے ہیں اور جن لوگوں کو توفیق ہو وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں آنحضورﷺ کی سنت مستمرہ پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور قربانیاں بھی پیش کرتے ہیں۔

اب سوال یہ رہ جاتا ہے، جس کا آپ نے بھی اپنے استفسار میں اشارہ کیا ہے کہ کیا یوم عرفہ سے مراد وہ دن ہے، جس دن حج پر موجود لوگ میدان عرفات میں قیام کرتے ہیں یا یوم عرفہ سے مراد ذی الحجہ کی ۹ تاریخ ہے؟

اگر تو یوم عرفہ سے مراد وہ دن اور وہ گھڑی ہے جس میں حج کی سعادت پانے والے لوگ میدان عرفات میں وقوف کرتے ہیں تو پھر وہ دن اور گھڑی دنیا کے کسی علاقہ میں ۸؍ذی الحجہ کو ہو گی اور کسی علاقہ میں ۱۰؍ذی الحجہ کو ہوگی، کیونکہ دنیا کے مختلف علاقوں کے مطالع پر چاند مختلف دنوں میں طلوع ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی ملک میں اُس گھڑی دن کا کوئی وقت ہو گا اور کسی ملک میں اُس گھڑی رات کا کوئی پہر ہوگا۔ لیکن اگر یوم عرفہ سے مراد ۹؍ذی الحجہ کا دن لیا جائے، بسبب اس کے کہ مکۃ المکرمہ کے مطلع پر ذوالحجہ کے مہینہ میں نکلنے والے چاند کی ۹ تاریخ کو اُس جگہ حج کی سعادت پانے والے لوگ مکہ کے علاقہ میں میدان عرفات میں وقوف کرتے ہیں تو پھر یہ دن دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ہر علاقہ کے لوگ اپنے مطلع پر طلوع ہونے والے چاند کی ۹ تاریخ کو یہ دن شمار کریں گے۔

پس ان دو مختلف صورتوں کی بنا پر فقہاء و علماء نے بھی اس معاملہ میں اختلاف کیا ہے۔چنانچہ جو لوگ اختلاف مطالع کو معتبر مانتے ہیں، ان کے نزدیک جس ملک میں اس علاقہ کے مطلع پر نکلنے والے چاند کے مطابق جب ۹؍ذی الحجہ ہوگی، وہاں اسی دن یوم عرفہ ہوگا اور وہاں کے لوگ اسی دن یوم عرفہ کا روزہ رکھیں گے۔ اس کی دلیل میں ان لوگوں کے پاس آنحضورﷺ کا یہ فرمان ہے کہ صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَيْتُمْ الْهِلَالَ فَصُومُوا وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا)یعنی چاند دیکھ کر رمضان کا آغاز کرو اور چاند دیکھ کر روزوں کا اختتام کرو اور اگر تم پر چاند مخفی ہو جائے تو پھر تم شعبان کے ۳۰ دن پورے کر لو۔اس حدیث میں چاند دیکھنے اور اس کے مطابق قمری مہینہ کے آغاز اور اختتام کی بابت راہنمائی کی گئی ہے۔

پس اب اگر یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور ایشیا وغیرہ کے مسلمان اپنے اپنے مطالع پر چاند دیکھے بغیر کسی دور دراز کے ملک میں دیکھے جانے والے چاند کے مطابق رمضان کے روزے شروع کر دیں اور عید منا لیں تو کیا یہ طریق درست ہوگا؟جماعت احمدیہ کے نزدیک ایسا کرنا حضورﷺ کے مذکورہ بالا ارشاد کے منافی ہے۔

اس کے برعکس جو لوگ اختلاف مطالع کو ضروری نہیں سمجھتے، ان کے مطابق موجودہ تیز رفتار نقل و حرکت اور ذرائع ابلاغ کے زمانہ میں چونکہ حجاج کرام کے میدان عرفات میں ہونے کی خبر لمحہ بہ لمحہ دنیا بھر میں پہنچ رہی ہوتی ہے، اس لیے یوم عرفہ کا روزہ اسی دن رکھا جائے جب حجاج کرام عرفات میں وقوف کرتے ہیں، اور عیدالاضحیہ اس سے اگلے روز منائی جائے۔

لیکن اس دلیل پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ بعض ممالک ایسے ہیں جہاں چاند مکہ مکرمہ سے بھی پہلے نظر آتا ہے۔ یعنی ان ممالک میں جب ۱۰؍ذی الحجہ کا دن ہوتا ہے، وہ مکہ مکرمہ میں یوم عرفہ کا دن ہوتا ہے۔ اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کرام کے وقوف عرفات والے دن روزہ رکھیں تو یہ گویا، ان کے ہاں عید کے دن کا روزہ ہو گا اور یہ سب کو معلوم ہے کہ اسلام نے عید کے دن روزہ کی ممانعت فرمائی ہے۔

مزید یہ کہ اگر اختلاف مطالع کو پیش نظر رکھنا ضروری نہیں ہے تو پھریہ ہر چیز میں ضروری نہیں ہونا چاہیے۔مثلاً افطاری و سحری کے اوقات بھی وہی ہونے چاہئیں جو مکہ اور مدینہ کے اوقات ہوں۔ نمازوں کے اوقات بھی وہی ہونے چاہئیں جو مکہ اور مدینہ میں نمازوں کے اوقات ہوں۔جو کہ ناممکن ہے۔ پس اگر ان چیزوں میں اختلاف مطالع معتبر ہے تو پھر رمضان کے روزوں، یوم عرفہ، یوم عاشورہ اور عیدین کے انعقاد کے لیے بھی اختلاف مطالع کو معتبر ماننا پڑے گا۔

علاوہ ازیں حضرت ابن عباسؓ کی یہ روایت بھی ہمارے موقف کی تائید کرتی ہے جس میں حضرت کریبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ام الفضل بنت حارثؓ نے انہیں حضرت معاویہؓ کی طرف ملک شام بھیجا۔ میں ملک شام پہنچا اور حضرت ام الفضل نے جو کام دیا تھا اسے پورا کیا اور میں نےملک شام میں ہی جمعہ کی رات چاند دیکھا پھر میں مہینہ کے آخر میں مدینہ آیا تو حضرت ابن عباسؓ سے چاند کا ذکر ہوا تو انہوں نے پوچھا کہ تم نے چاند کب دیکھا تھا ؟ میں نے کہا کہ ہم نے جمعہ کی رات چاند دیکھا تھا۔ آپؓ نے پھر فرمایا تم نے خود دیکھا تھا ؟ میں نے کہا ہاں ! اور لوگوں نے بھی دیکھا اور انہوں نے روزہ رکھا اور حضرت معاویہؓ نے بھی روزہ رکھا۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے فرمایا کہ ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا تھا اور ہم تیس روزے پورے کریں گے یا چاند دیکھیں گے۔اس پر میں نے عرض کیا کہ کیا حضرت معاویہؓکا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے ؟ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا نہیں ! رسول اللہﷺ نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام بَاب أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوْا الْهِلَالَ بِبَلَدٍ لَا يَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ)

پس آنحضورﷺ کے ان ارشادات کی روشنی میں ہمارا مئوقف یہی ہے کہ جس علاقہ میں جب چاند طلوع ہو، اس علاقہ کے لوگ اسی طلوع چاند کے مطابق قمری مہینہ کا آغاز اور اختتام کریں گے اور اپنے علاقہ میں طلوع ہونے والے چاند کے مطابق ہی قمری مہینوں کے تحت آنے والے اسلامی تہوار منائیں گے۔

سوال: ملائیشیا سے ایک خاتون نےاپنے والد صاحب کے ترکہ کی تقسیم کے سلسلہ میں بعض سوالات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بھجوائے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۸؍اگست ۲۰۲۲ء میں ان سوالات کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:

جواب: آپ نے پوچھا ہے کہ ہمارے والد صاحب کی پہلی دو غیر احمدی بیویوں (جن سے ان کی طلاق ہو گئی تھی)سے جو اولاد ہےکیا وہ بھی ہمارے والد صاحب کی وارث ہوگی، جبکہ اس اولاد کے ساتھ والد صاحب کا کوئی رابطہ نہیں تھا اور وہ ہمارے والد صاحب کے بہت قریب بھی نہیں تھے؟

آپ کے والد صاحب کی پہلی دوبیویوں(جنہیں آپ کے والد صاحب نے طلاق دےدی تھی) سے جو اولاد ہےوہ بھی آپ کے والد صاحب کے ترکہ میں شرعاً وارث ہے۔ پس اگر وہ اولاد چاہے تو اپنا شرعی حصہ لینے کا اختیار رکھتی ہے۔ لیکن اگر آپ کے والد صاحب نے اس اولاد کو ترکہ نہ دینے کے بارے میں کوئی تحریروغیرہ چھوڑی ہو جس میں اس اولاد کو ترکہ نہ دینے کی وجوہات بھی درج ہوں جبکہ وہ اولاد اپنے حصہ کا مطالبہ کر رہی ہو تو پھر یہ ایک متنازع معاملہ بن جاتا ہے جس کا فیصلہ کرنا قضاء یا ملکی عدالت کاکام ہے جو شواہد اور ثبوت وغیرہ دیکھ کر اس معاملہ کا فیصلہ کرے گی۔

۲۔ آپ نے دوسری بات یہ لکھی ہے کہ والد صاحب کی وصیت کے مطابق ان کے ترکہ کی مساویانہ تقسیم کے نتیجہ میں جو رقم مجھے اور میری بہن کو ملی تھی، اب پتا چلا ہے کہ وہ ہمارے حصہ سے زیادہ ہے، اس لیے اس میں سے کچھ رقم مجھے اور میری بہن کو واپس کرنی پڑے گی اور ہمارے بھائیوں کو کچھ زائد رقم ملے گی۔ میرے حصہ میں آنے والی یہ زائد رقم کیا میں از خود کسی خیراتی کام کے لیے دے سکتی ہوں، یا میرے لیے ضروری ہے کہ میں یہ رقم ٹرسٹی کو واپس کروں؟

آپ کی بیان کردہ صورت کے مطابق یہ رقم چونکہ دوسرے ورثاء کا حق ہے جو غلطی سے آپ اور آپ کی بہن کو زائد مل گئی تھی، اس لیے اس رقم کی واپسی ٹرسٹی کو ہی ہونی چاہیے تا کہ وہ اس رقم کو اس کے جائز حقدار تک پہنچا دے۔

۳۔ تیسرا سوال آپ نے یہ پوچھا ہے کہ ہمارے والد صاحب کی جو وصیت ہے، کیا ترکہ میں سے وصیت کا یہ تیسرا حصہ پہلے ادا کیا جائے گا یا باقی ترکہ پہلے تقسیم ہو گا؟

قرآن کریم میں جہاں وراثت کی تقسیم کے تفصیلی احکامات بیان ہوئے ہیں، وہاں متعدد مرتبہ اس فقرہ کو دوہرایا گیا ہے کہ ورثہ کی تقسیم سے پہلے اس وصیت کو ادا کیا جائے جو مرنے والے نے کی ہے۔یا اس قرض کو ادا کیا جائے جو مرنے والے کے ذمہ ہے۔ (سورۃ النساء :۱۳،۱۲)پس جو وصیت آپ کے والد صاحب نے کی ہےوہ ترکہ کی تقسیم سے پہلے ادا کی جائے گی اور اس کے بعد آپ کے والد صاحب کا باقی ترکہ ان کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہو گا۔

۴۔چوتھی بات آپ نے یہ لکھی ہے کہ وصیت کے اس حصہ کی رقم کے خرچ کرنے کا فیصلہ ٹرسٹی کرے گا یا میری والدہ اور ہم بہن بھائی فیصلہ کریں گے کہ اس رقم کو کہاں خرچ کیا جائے؟

آپ کا یہ سوال پوری طرح واضح نہیں ہے۔ لہٰذا آپ پہلے اس بات کی وضاحت کریں کہ آپ نے جو اپنے والد صاحب کی وصیت کا ذکر کیا ہے، اس سے کیا مراد ہے اور یہ وصیت کس کے حق میں کی گئی ہے؟ کیونکہ اسلام نے وصیت کے بارے میں بھی مختلف ہدایات دی ہیں۔ اس لیے جب تک یہ امور واضح نہیں ہو جاتے، آپ کے اس سوال کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح اس سوال میں ٹرسٹ سے آپ کی کیا مراد ہےِ؟ اس کی بھی وضاحت کریں تا کہ آپ کو صحیح اور تفصیلی جواب بھجوایا جا سکے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button