سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

ایک کامیاب اور خوددار طبیب حاذق

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ ایک قابل اور حاذق طبیب بھی تھے حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے خود بیان فرمایا کہ’’اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اوروہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے…‘‘ (کتاب البریہ صفحہ ۱۵۰ حاشیہ، روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ۱۸۱حاشیہ)

طبابت میں آپؒ کا وسیع تجربہ اورشہرہ تھا۔حضرت مسیح موعودؑ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ہمارے گھر میں مرزا صاحب (مراد اپنے والد بزرگوار مرزا غلام مرتضیٰ خان صاحب مرحوم) پچاس برس تک علاج کرتے رہے۔وہ اس فن طبابت میں بہت مشہور تھے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ۴۵۹)

آپ نے طب کی تعلیم ایک معروف طبیب باغبانپورہ ضلع لاہور (پاکستان) کے حافظ روح اللہ صاحب سے حاصل کی تھی۔اور پھر دہلی میں شریف خان فیملی سے استفادہ کیا تھا۔

“Mirza Ghulam Murtaza was a great physician. He had studied medicine at Baghbanpura under Roohulla and at Delhi under the Sharif Khan family.”

(Life of Ahmad by A.R.Dard page : 16)

علم طبابت کے حصول کے لئے جب آپ دہلی تشریف لے گئے تووہاں کچھ کٹھن اور تنگدستی کے مراحل بھی آئے لیکن آپ نے ان مشکل اورتنگدستی کے مراحل کوانتہائی خوش اسلوبی سے طے کیا۔ حصول تعلیم کے ان مراحل کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :’’جب انکے والد (یعنی حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کے والد صاحبؒ۔ ناقل) کپورتھلہ میں انتقال فرما گئے تو…اس وقت بے سروسامانی کی یہ حالت تھی کہ کسی سے پانچ سیر دانے قرض لے کرگھرمیں دئے اور گھر سے پیدل ہی طبابت سیکھنے کے لئے دلی روانہ ہوگئے کہ عزت پاکر وطن واپس آؤں گا۔وہاں قیام وطعام کی بے حد مشکلات کا سامنا کرناپڑا اورفاقوں تک نوبت پہنچی۔مگروہ پوری جوانمردی،استقلال اور دل جمعی سے تحصیل علم طب میں مشغول رہے اوردلی کے مشہور حکیم محمدشریف صاحب سے طبابت میں یہاں تک دستگاہ حاصل کرلی کہ ان کا شمار چوٹی کے حکماء میں ہونے لگا۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ ۱۴۰)

دہلی میں آپ ؒکو تحصیل علم کے اس زمانے میں فاقوں تک بھی نوبت پہنچ جاتی رہی جس کا اندازہ ’’سیرت المہدی‘‘ میں موجوداس روایت سے لگایاجاسکتاہے :’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے والد صاحب اوائل میں تعلیم کے لئے باہر گئے تو شائد دلّی کی بات ہے کہ وہ ایک مسجد میں ٹھہرے ہوئے تھے چونکہ زاد ختم ہوگیا تھا کئی وقت فاقے گذر گئے تھے آخر کسی نے ان کو طالب علم سمجھ کر ایک چپاتی دی جو بو جہ باسی ہو جانے کے خشک ہو کر نہایت سخت ہوچکی تھی۔والد صاحب نے لے لی مگرابھی کھائی نہ تھی کہ آپ کا ساتھی جوقادیان کا کوئی شخص تھا اور اس پر بھی اسی طرح فاقہ تھا بولا۔’’مرزا جی ساڈا وی دھیان رکھنا‘‘ یعنی مرزا صاحب ہمارا بھی خیال رہے۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ اس پر والد صاحب نے وہ چپاتی اس کی طرف پھینک دی جو اس کے ناک کے اوپر لگی اور لگتے ہی وہاں سے ایک خون کی نالی بہہ نکلی۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ ساتھی بھی قادیان کا کوئی مغل تھامگر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب سے سنا ہے کہ وہ کوئی نائی یا مراثی تھا چنانچہ حضرت صاحب لطیفہ کے طور پر بیان فرماتے تھے کہ ان لوگوں کو ایسے موقعہ پر بھی ہنسی کی بات ہی سوجھتی ہے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۴۳)

ایک اہم اورقابل ذکر بات یہ ہے کہ ہرچند کہ آپ اپنے علاقہ کے مشہور و معروف طبیب حاذق تھے لیکن آپ کی سوانح سے ہمیں یہ پتہ چلتاہے کہ آپ نے طب کو کبھی بھی ذریعہ معاش نہیں بنایاتھا۔کبھی کسی سے علاج کا کوئی روپیہ پیسہ نہیں لیا۔بلکہ محض نفع رسانی مخلوق کے لیے وہ اس شغل کو رکھتے تھے۔ان کے علاج میں جو بات قابلِ قدر ہوتی تھی وہ یہ تھی کہ علاج ہمیشہ سہل الحصول تجویز کیا کرتے۔لیکن امراء اور غریب اورنادارلوگوں کے مزاج اور طبیعت کے موافق نسخہ جات تجویز فرماتے جس سے امراء کی اصلاح بھی مدنظر ہوتی۔

’’سیرت المہدی‘‘ میں پنڈت دیوی رام صاحب ولد متھراداس کی ایک تفصیلی روایت درج ہے۔یہ صاحب ۱۸۷۵ء میں قادیان کے سکول میں نائب مدرس تھے۔وہ اپنی روایت میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی طبابت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’مرزا صاحب قابل حکیم تھے اور پنجاب میں گیارھویں درجہ پر کرسی ملتی تھی اور ان کی جاگیر آٹھ میل چوڑی تھی۔…حکمت دھرم ارتھ کرتے تھے اور کوئی معاوضہ نہ لیتے تھے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۷۵۹)

طبابت وحذاقت کاایک عجیب واقعہ

انہی پنڈت صاحب نے آپ کی طبابت کا ایک عجیب واقعہ بیان کیا ہے جو آپ کی حذاقت وفراست اور علم طب میں رسائی کی زبردست مثال ہے۔یہ واقعہ انہوں نے خود حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب سے ہی سنا تھا۔چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں : ’’مرزا غلام مرتضےٰ صاحب والد مرزا غلام احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب مَیں کشمیر سے واپس آیا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد نواب یارقند نے اپنے علاج کے واسطے مراسلہ بھیجا تھا اور مَیں چند آدمی ہمراہ لے کر وہاں پہنچا۔ اور میرے استقبال کے لئے شاہی حکیم اور چند معزز عُہدیدار آئے اور مَیں نے اسلامی طریق کے مطابق نواب صاحب کو السَّلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا اور اپنی رہائش کا بندوبست ایک باغ میں کرایا۔ شاہی حکماء نے میرا امتحان کرنے کے لئے ایک سوال مجھ سے کیا کہ ایک بچہ ماں کے شکم میں کس طرح چھانگا ہو جاتا ہے۔ مَیں نے اسی وقت جملہ حکماء کو کہا کہ ایک سوال مجھ سے بھی حل نہیں ہو سکا۔ شاید آپ میں سے کوئی حل کر سکے کہ کیا پہلے مرغی پیدا ہوئی یا پہلے انڈا پیدا ہوا۔ اس پر جملہ حکماء خاموش ہو گئے۔ اگلے دن صبح کو مَیں نے مریض کو دیکھا اور بیماری کی تشخیص کی۔ اور علاج شروع کرنے سے پہلے چند شرائط نواب صاحب سے منظور کروائیں کہ اگر کوئی غلیظ چیز یا پاک چیز جس طریق پر استعمال کراؤں نواب صاحب کو کرنا ہو گا اور کسی حکیم یا متعلقین میں سے کسی کو ناراض ہونے اور اعتراض کرنے کا حق حاصل نہ ہو گا۔ نسخہ علاج ذیل میں درج ہے۔

ستر من بھینس کا گوبر اور کچھ لکڑی حرم سرائے کے صحن میں جمع کرائی جائے۔ اور مستورات کو پردہ کا حکم دیا جائے۔ چنانچہ نواب صاحب کو برہنہ کھڑا کیا گیا اور گوبر کا چبوترہ ان کے گردا گرد کیا گیا۔ سر کے اُوپر ایک ڈھکنا رکھا گیا۔ آنکھیں نتھنے اور منہ کھلا رہا۔ گوبر کے ارد گرد باہر کی طرف لکڑی چنائی گئی اور ان کو آگ لگا دی گئی۔ نواب صاحب روتے اور چلاتے رہے۔ جب لکڑیاں جل گئیں مزدوروں نے ان کو دُور پھینکا اور گوبر بھی ہٹا دیا گیا۔ جب چھ چھ انچ تک گوبر ان کے گرد رہا۔ تو مَیں نے حکماء کو ایک لائن میں کھڑا کر دیا۔ وزراء اور اس کے متعلقین کی موجودگی میں مَیں نے وہ گوبر ان کے جسم سے خود اتارا۔ اور ان دوستوں کو دکھلایا مری ہوئی جوئیں اس گوبر کے ساتھ تھیں۔ اور واپسی پر نواب صاحب نے ایک حقہ چاندی کا اور ایک تھال سونے کا اور ایک لوٹا سونے کا اور ایک دُھسہ، ایک لنگی، ایک یار قندی ٹٹو اور چار بدرے نقد روپیہ بطور تحفہ کے نذر کے دئیے۔ مَیں نے اس وقت نواب سے سوال کیا کہ کیا یہ اشیاء میری حکمت کے عوض ہیں یا کہ بطور تحفہ۔ نواب صاحب نے وزیروں کی طرف اشارہ کیا کہ معقول جواب دیں۔ کچھ مدّت خاموش رہنے کے بعد بطورتحفہ بتلایا۔ مَیں نے روپے کے بدرے واپس کر دئیے۔ اور باقی اشیاء جو تحفہ کے طور پر تھیں لے لیں۔ اور واپس چلا آیا۔ مرزا صاحب نے سوال حکماء کا یہ جواب دیا کہ جس وقت نطفہ رحم میں داخل ہوتا ہے۔ کل اجزائے بدن اس میں گر جاتے ہیں۔ اور اپنی اپنی مدتوں پر جیسے کہ قدرت ہے بڑھتے رہتے ہیں۔ اور وہ مادہ جو کہ بازوؤں کی طرف آتا ہے چلتے چلتے کسی خاص وجہ سے رک جائے اور وہ منتشر ہو کر دو جگہ پر تقسیم ہو کر پڑ جاتا ہے جیسا کہ پانی آتے آتے کسی تھوڑی سے رکاوٹ یا اونچائی کے سبب دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے ویسے ہی اس مادہ کی خاصیّت ہے۔ کبھی نرانگشت کی طرف رکاوٹ ہو گئی۔ تو دو حصے ہو گئے اور کبھی چھنگلی کی طرف رکاوٹ ہوئی تو وہ دو ہو گئیں۔ مگر مرزا صاحب کے سوال کا جواب حکماء نے نہ دیا۔ نواب صاحب کی بیماری جسم میں جوؤں کی تھی اور مرزا صاحب کی شہرت حکمت یار قند سے سُن کر حکماء نے بلوایا تھا۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۷۵۹)

آپ کی طبابت کی شہرت دوردراز کے شہروں تک تھی۔اس ضمن میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت میرناصر نواب صاحبؓ کی قادیان میں اوّلین آمد بھی طبابت کی شہرت سن کر علاج کے لیے ہی تھی۔یعنی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی والدہ ماجدہ کے علاج کے لئے۔چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’خاکسار کی نانی اماں نے مجھ سے بیان کیا کہ جب تمہارے نانا جان کی اس نہر کے بنوانے پر ڈیوٹی لگی جو قادیان سے غرب کی طرف دو ڈھائی میل کے فاصلہ پر سے گذرتی ہے تو اس وقت تمہارے تایا مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ ان کا کچھ تعارف ہو گیا اور اتفاق سے ان دنوں میں مَیں کچھ بیمار ہوئی تو تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ میرے والدصاحب بہت ماہر طبیب ہیں۔ آپ ان سے علاج کرائیں چنانچہ تمہارے نانا مجھے ڈولے میں بٹھا کر قادیان لائے۔جب میں یہاں آئی تو نیچے کی منزل میں تمہارے تا یا مجلس لگا ئے ہوئے بیٹھے تھے اور کچھ لوگ ان کے آس پاس بیٹھے تھے اور ایک نیچے کی کوٹھری میں تمہارے ابا (حضرت مسیح موعودؑ ) ایک کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے قرآن شریف پڑھ رہے تھے اور اوپر کی منزل میں تمہارے دادا صاحب تھے۔تمہارے دادا نے میری نبض دیکھی اور ایک نسخہ لکھ دیا اور پھر میر صاحب کے ساتھ اپنے دہلی جانے اور وہاں حکیم محمد شریف صاحب سے علم طب سیکھنے کا ذکر کرتے رہے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۴۴۱)

خدمت خلق

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب قبلہ باوجود اپنی طبی حذاقت کے بلا تفریق ہندو مسلمان۔چوہڑہ،چمار،امیر،غریب سب کو فیض پہنچاتے تھےاور دور دور سے لوگ ان کے معالجہ سے فائدہ اٹھانے کے لیے آتے تھےاور یہ مسلّم بات ہےکہ ان کا ہاتھ دستِ شفا مشہور تھا۔اورآپ کی طبابت کا ایک غالب عنصر مخلوق خداوندی سے ہمدردی بھی تھی۔چنانچہ ایک مرتبہ قادیان میں ہیضہ کی سخت وارداتیں شروع ہوئیں۔مرزا صاحب ان دنوں بٹالہ میں تھےجہاں آپ کی جائیداد غیر منقولہ از قِسم مکانات و دکانات تھی۔ہیضہ کی وارداتیں ابھی چوہڑوں میں ہو رہی تھیں۔وہاں جب آپ کو اطلاع ملی تو آپ فوراً قادیان آئے اور چوہڑوں کے گھروں کے پاس آ کر ٹھہر گئے۔اورنہایت ہمدردی ظاہر کی اور ان کو تسلی دی۔وہاں ہی کھڑے کھڑے حکم دیا کہ قادیان کے عطار آملہ کشٹے۔گڑ اور نمک لیتے آویں۔ اور مٹی کے بڑے بڑے برتنوں میں ڈلوا دیااور حکم دیاکہ جو چاہے گڑ ڈال کر پیئے اور جو چاہےنمکین پیئے۔ دوسرے دن ہیضہ سے قادیان پاک ہو گیا۔(ماخوذ از حیات احمدؑجلد اول صفحہ۴۹-۵۰)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button