متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ ششم)

احمدیوں کے جذبات

اس دن پچھلے پہر، میری ملاقات ایک احمدی دوست مکرم چودھری منور احمد گِل (عمر ۶۰؍سال )سے ہوئی جن کا تعلق جرمنی سے تھا اور جو بہت جذباتی تھے۔ اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میں ہمیشہ اپنی زندگی خلافت کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہوں۔آپ میرا دل کھول کر دیکھ سکیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ میری صرف یہی خواہش ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی خدمت ہی (میرا ) اصل مدعا ہے۔

میری ملاقات مکرم حفیظ الرحمان صاحب (عمر ۴۹؍ سال) سے ہوئی جن کا تعلق امریکہ سے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک چیز جو مَیں نے دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ حضورِانور کو لوگوں میں، خاص طور پر ہم احمدیوں کے معمولات زندگی میں گہری دلچسپی ہے۔ حضور کو از خود جان لیتے ہیں کہ ہمارے دلوں اور ذہنوں میں کیا ہے۔ آپ کس قدر مصروف ہیں لیکن پھر بھی آپ کو خوب اچھی طرح اس بات کا علم ہے کہ ہر احمدی اپنی روزمرہ زندگی میں کن مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ہمارے خلیفہ عاجزی سے پُر ہیں اور اس قدر بلند مرتبت والے مقام کے باوجود آپ عاجزی میں اپنی مثال آپ ہیں۔

میری ملاقات ایک خاتون مکرمہ راشدہ بشیر صاحبہ سے بھی ہوئی۔ انہوں نے مجھے اپنے ایک پرانے تجربہ کے بارے میں بتایا کہ میری ایک مرتبہ حضورِانور سے ۲۰۰۳ء میں کراچی میں ملاقات ہوئی تھی۔جب میں آپ سے ملی تو میں آپ کو بالکل نہیں جانتی تھی لیکن آپ کو دیکھاتو میرے دل میں کچھ خاص احساس پیدا ہوا۔ مجھے آپ کی طرف سے امن اور روحانیت محسوس ہوئی۔ ایک ماہ بعد آپ بطور خلیفۃ المسیح منتخب ہوئے اور اب جب ہم آپ کو ملتے ہیں تو آپ کے آس پاس روحانی نور کا احساس ہوتا ہے۔

میری ملاقات ایک نوجوان احمدی خاتون مکرمہ عدیلہ جاوید صاحبہ سے ہوئی جن کی حضورِانور سے ابھی ابھی اپنے شوہر کے ہمراہ ملاقات ہوئی تھی۔ حضورِانور کے دفتر سے نکلتے وقت وہ جذبات سے بے حد مغلوب تھیں اور ہماری گفتگو کے دوران بھی وہ جذبات نمایاں رہے۔

مکرمہ عدیلہ صاحبہ نے بتایا کہ اس لمحے میں خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین شخصیت محسوس کر رہی ہوں۔ ہمارے حضور کس قدر شفیق ہیں۔ ہم آپ کی خدمت میں جو بھی عرض کرتے ہیں حضور ازراہِ شفقت اسے شرفِ قبولیت بخشتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں رو رہی ہوں لیکن یہ خوشی کے آنسو ہیں کیونکہ میں اس کرۂ ارض پر سب سے زیادہ خوش قسمت ہوں۔ حضورِانور کے دفتر میں گزارے ہوئے دو منٹوں نے میری زندگی بدل کر رکھ دی ہے اور مجھے یکسر نیا احمدی بنا دیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ میں ایک واقفۂ نو ہوں اور ہماری ملاقات کے دوران حضورِانور نے مجھ سے استفسار فرمایا کہ کیا میں کسی بھی حیثیت سے جماعت کی خدمت کر رہی ہوں؟ حضورِانور کا سوال نہایت جذباتی کر دینے والا تھا کیونکہ اس نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آپ ہمارا کس قدر خیال رکھتے ہیں۔ حضورِانور کو میری خدمات کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن اپنی طبعی محبت کی وجہ سے آپ چاہتے ہیں کہ میں اس بابرکت سکیم سے پوری طرح مستفیض ہوں۔

جلسہ سالانہ کی تیاری

۱۱؍ اگست کو جلسے سے ایک روز قبل شام کے وقت میں حضورِانور سے آپ کے دفتر میں ملا۔ جب میں دفتر میں داخل ہوا تو حضورِانور اپنے دست مبارک سے اپنا سوٹ کیس پیک کر رہے تھے۔ اس بیگ میں حضورِانور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب اور جلسہ سالانہ کے لیے اپنے نوٹس بھی پیک فرما رہے تھے۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جو میں نے گذشتہ سالوں میں بھی دیکھا ہے۔ حضورِانور کے بیرونی ممالک کے دورہ جات سے قبل بھی مجھے ایسا تجربہ ہوا ہے۔

میری ہمیشہ یہی خواہش ہوتی ہے کہ میں حضورِانور کی معاونت کر سکوں اور یہ کہ آپ کو اپنی پیکنگ خود نہ کرنی پڑے۔تاہم میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر مَیں نے معاونت کی درخواست کی تو یہ حضورِانور کی رفتار میں کمی کا باعث ہوگا کیونکہ آپ کو مجھے ہر چیز کے لیے الگ الگ ہدایات دینی پڑیں گی۔ ان کتابوں کی پیکنگ کے دوران حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایاکہ میں آج کل اپنا علم بڑھا رہا ہوں۔

ایک مرتبہ پھر حضورِانور کے الفاظ سے آپ کی عاجزی جھلکتی تھی۔ (حضرت خلیفۃ المسیح ) کا علم اس قدر وسیع ہوتا ہے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت حاصل ہوتی ہے پھر بھی حضورِانور پڑھنے کے لیے وقت نکال لیتے ہیں تاکہ اپنے علم کو مزید بڑھا سکیں۔ ذاتی طور پر جب میں نے یہ تبصرہ سنا تو میں شرمسار تھا کہ میں اس قدر مطالعہ نہیں کرتا جتنا مجھے کرنا چاہیے۔

احمدیوں کے جذبات

اس حقیقت کے باوجود کہ اگلے روز جلسہ سالانہ شروع ہو رہا تھا اور اس شام حضورِانور حدیقۃ المہدی تشریف لے جا رہے تھے تاہم آپ نے اس شام فیملیز سے ملاقات کرنے کے لیےایک مکمل نشست کاوقت دیا۔

اس شام میری ملاقات ایک دوست مکرم مرزا رمضان شریف صاحب (عمر۴۸؍ سال )سے ہوئی جو اپنی اہلیہ کے ساتھ آسٹریلیا سے سفر کر کے تشریف لائے تھے۔ میں رمضان صاحب کو اچھی طرح جانتا تھا کیونکہ حضورِانور کے ۲۰۱۳ء کے دورہ کے دوران میں ان کے قریب رہا تھا جہاں آپ بطور سیکرٹری امور خارجہ خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔مجھے حیرت ہوئی جب مجھے پتا چلا کہ ان کے ۲۸؍ گھنٹے کے سفر میں ان کی اہلیہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔ ان کے گُردوں میں پتھری تھی اور جلسے کے لیے لندن سفر کرنے سے ایک روز پہلے وہ سرجری کے لیے ہسپتال میں داخل تھیں۔

مکرم رمضان صاحب کی اہلیہ نے اپنی داستان سناتے ہوئے بتایا کہ میں نے اپنے ڈاکٹرز کو نہیں بتایا تھا کہ میرا لندن جانے کا ارادہ ہےکیونکہ اگر انہیں میرا ارادہ پتا لگ جاتا تو وہ مجھے روکنے کی کوشش کرتے اور ہسپتال سے رخصت ہونے کی اجازت نہ دیتے۔بہرحال (لندن کے) سفر سے ایک رات پہلے میری سرجری ہوئی تھی اور اگلی صبح چھ بجے جب میں بیدار ہوئی تو میں نے نرسوں کو بتایا کہ میں گھر جانا چاہتی ہوں۔الحمدللہ، سب خیریت تھی اس لیے ڈاکٹرز نے مجھے وقت سے اتنا پہلے گھر بھجوا دیا کہ میں فلائٹ پکڑ سکتی تھی۔

انہوں نے مجھے مزید بتایا کہ یہ سفر کچھ مشکل تھا اور مجھے تھکاوٹ کا احساس بھی تھا، ویسے الحمدللہ میں ٹھیک تھی۔ میں بےحد خوش ہوں کہ مجھے اپنے خلیفہ کی قربت نصیب ہو رہی ہے اور بین الاقوامی جلسہ سالانہ میں شمولیت اختیار کر رہی ہوں۔

میری ملاقات مکرم یوسف سیگر صاحب (عمر۳۲؍سال)سے ہوئی جن کا تعلق کیلگری سے تھا، جنہوں نے اپنی اہلیہ مکرمہ مریم سیگر صاحبہ کے ساتھ جلسہ میں شمولیت کی غرض سے سفر اختیار کیا تھا۔ مکرم یوسف صاحب نے سات سال قبل احمدیت قبول کی تھی۔

حضورِانور سے ملاقات کے بعد انہوں نے بتایا کہ جب کبھی بھی میں حضورِانور کو دیکھتا ہوں تو یہ بات مجھے احساس دلاتی ہے کہ میں کس قدر خوش قسمت ہوں کہ مجھے خلافت کی برکات مل رہی ہیں۔یہ یقینی طور پر ایک روحانی خزانہ ہے جو ہماری حفاظت فرماتا ہے۔احمدی ہونے سے پہلے میرے ذہن میں کچھ شبہات تھے اور احمدیت قبول کرنے سے پہلے کچھ تذبذب کا شکار تھا۔ اب میں اس بات کی خواہش کرتا ہوں کہ کاش میں اُس تذبذب کےشکار اپنے آپ کو بتا سکتا کہ وہ اپنے شبہات کو بھول جائے تاکہ اس سے بھی پہلے جماعت میں جلد شامل ہو سکتا۔

جماعتی خدمت اور اہلِ خانہ کے مابین وقت کا توازن

اس دن میری ملاقات ایک نوجوان احمدی دوست مکرم سعود اقبال (عمر ۳۰؍ سال )سے ہوئی جو امریکہ سے سفر کر کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کی غرض سے آئے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا چھوٹا سا بیٹا ہے جو بہت شرارتی ہے۔اپنی ملاقات میں انہوں نے یہ بات حضورِانور کو بتائی۔ اس کے جواب میں حضورِانور نے فرمایا کہ فکر نہ کریں۔ اگر آپ کا بچہ کوئی چیز مانگے تو یا تو اس کی خواہش پوری کر دیں یا اگر آپ کو لگے کہ وہ اس کے لیے ٹھیک نہیں ہے تو پھر اس کی توجہ کسی اَور طرف کر دیں تاکہ وہ خود ہی اس کو بھول جائے۔اس طرح اس کی ضد کرنے کی عادت ان شاءاللہ دور ہو جائے گی۔

سعود صاحب نے مجھے بتایا کہ انہوں نے حضورِانور سے عرض کی کہ وہ جماعتی خدمت اور اہل خانہ کے مابین وقت کا توازن کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اس کے جواب میں حضورِانور نے فرمایا کہ ہر مہینے ایک ایک اینڈ خاص طور پر اپنی فیملی کے ساتھ گزاریں اور باقی تین ویک اینڈز جماعتی خدمت میں صرف کریں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ چند دنوں کے بعد میری ملاقات ایک افریقن امریکن احمدی خادم مکرم جنید لطیف سے ہوئی جو جلسہ سالانہ میں شرکت کی غرض سے آئے ہوئے تھے۔ اتفاقاً انہوں نے بھی حضورِانور سے عرض کی تھی کہ اپنی فیملی اور جماعتی خدمت میں توازن کیسے قائم رکھیں؟جواب میں حضورِانور نے انہیں فرمایا کہ تمہیں ہر ماہ تین ویک اینڈز اپنی فیملی کے ساتھ گزارنے چاہئیں اور ایک ویک اینڈ جماعتی خدمت میں صرف کرنا چاہیے۔ ہمارے بچوں کی تربیت بھی دراصل جماعتی کام ہے۔

یہ سننے پر مجھے حیرت ہوئی۔ اس سے مجھ پر ظاہر ہوا کہ کوئی بھی فیصلہ فرمانے سے قبل حضورِانور احباب کے ذاتی حالات اور پس منظر کو مدنظر رکھتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح حضورِانور کو ہر احمدی کو پیش آنے والی مشکلات کا گہرائی سے علم ہوتا ہے۔

سعود کے معاملے میں اس کا تعلق پاکستانی گھرانے سے تھا اور اس کے جملہ رشتہ دار اور افراد خانہ احمدی تھے۔ اس لیے انہیں کوئی خاص مشکلات یا پریشانیوں کا سامنا نہ تھا جن کی وجہ سے انہیں مستقل جماعتی خدمت کرنے میں کوئی مشکل درپیش ہو۔

تاہم جنید کا معاملہ مختلف تھا۔اگرچہ ان کی والدہ مرحومہ، والد اور بہن بھائی مخلص احمدی تھے لیکن ان کے خاندان کے چند افراد اور بعض سسرالی رشتہ دار یا تو غیر احمدی تھے یا جماعت سے قریبی تعلق نہ تھا۔ ایسے حالات میں یہ خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے کہ ان کے نوجوان بچوں پر منفی اثرات پڑیں اور جماعت سے دور ہو جائیں۔

اس لیے حضورِانور نے ان کو اس راہنمائی سے مختلف راہنمائی فرمائی جو آپ نے سعود کو فرمائی تھی اور یوں جنید پر واضح فرما دیا کہ اپنے بچوں کی اچھی اخلاقی تربیت ان کا خاص ہدف ہونا چاہیے۔(جاری ہے)

(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button