محترم پروفیسر ڈاکٹرناصراحمد خان صاحب المعروف پرویز پروازی وفات پاگئے
آپ مایہ ناز ماہرِ تعلیم ، اردو کے قادر الکلا م شاعر، اعلیٰ پائے کے نقاد، انشاپردازاور مصنف تھے
انا للہ وانا إلیہ راجعون
احبابِ جماعت کو بہت دکھ اور افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ جماعت احمدیہ کے اردو کے معروف شاعر،ادیب، مصنف اور مایہ ناز ماہرِتعلیم محترم پروفیسر ڈاکٹرناصر احمد خان صاحب المعروف پرویز پروازی مورخہ ۲۸؍ ستمبر بروز جمعرات ۲۰۲۳ء بعمر ۸۷ سال کینیڈا میں بقضائے الہٰی وفات پاگئے، انا للہ وانا إلیہ راجعون۔
آپ نے ایک لمبا عرصہ بیماری میں گزارا۔ آپ محترم مولانا احمد خان صاحب نسیم (مبلغ سلسلہ) کے بیٹے، مولانا محمد احمد جلیل صاحب کے داماد اور محترم مولانا نسیم مہدی صاحب مرحوم (مبلغ سلسلہ) کے بھائی تھے۔
آپ کا اصل نام ناصر احمد خاں تھا جبکہ قلمی نام پرویز پروازی استعمال کرتے تھے اور اسی نام سے دنیائے ادب اور تعلیم کے میدانوں میں پاکستان اور پھربیرون پاکستان مشہور ہوئے۔ آپ ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۳۶ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ربوہ میں مقیم ہوگئے۔ جون۱۹۵۶ء میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا۔ اور ۱۹۵۸ء میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۶۰ء میں ایم اے، یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے پاس کیا۔
آپ نے سلسلۂ تدریس کا آغاز ۱۹۶۰ء میں گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ سے کیا۔ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۹ء تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں بطور لیکچرار پڑھاتے رہے۔ پھر ترقی حاصل کرکے بطور پروفیسر ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۵ء تعلیم الاسلام کالج میں ہی تدریس کی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۷۵ء تا ۱۹۷۹ء آپ وزیٹنگ پروفیسر اوساکا یونیورسٹی آف فارن سٹڈیز جاپان رہے۔ ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۲ء انٹر کالج کمالیہ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر تدریس کا کام کیا۔ ۱۹۸۲ء تا ۱۹۸۶ء مسلم انٹر کالج چک ۴۱ ج۔ب فیصل آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر رہے۔ ۱۹۸۶ء تا ۱۹۹۰ء بطوراسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں پڑھایا۔ ۱۹۹۱ءء تا ۲۰۰۱ء پروفیسر ریسرچ ایٹ اپسالا یونیورسٹی سویڈن میں خدمات انجام دیں۔
آپ کی متعدد تصنیفات اور تالیفات منظرعام پر آچکی ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
٭…۱۹۶۴ء ۔ ذکرِاردو، تعلیم الاسلام کالج کی پہلی کل پاکستان اردو کانفرنس کے مضامین کا مجموعہ
٭…۱۹۷۷ء۔ خوبصورت جاپان اور میں، کاواباتایاسوناری کی نوبیل تقریر کا اردو ترجمہ
٭…۱۹۷۸ء یوکی گونی، کاواباتا کے ناول کا اردو ترجمہ
٭…۱۹۸۰ء۔ جاپان کا سب سے لمبا دن
٭…۱۹۸۰ء ۔ جاپان کی ہائیکو شاعری کا انتخاب اور ترجمہ
٭…۱۹۸۱ء ۔ سورج کے ساتھ ساتھ، جاپان کا سفر نامہ
٭…۱۹۹۷ء ۔ صدائے آب، ہائیکو پر تنقیدی مضامین
٭…۲۰۰۲ء ۔ آکی مے، ہیروشیما کے المیہ کے پس منظر میں ناول
٭… ۲۰۰۳ء۔ احمدیہ کلچر
٭… ۲۰۰۳ء ۔ سر ظفر اللہ کا تحریکِ آزادی میں حصہ
٭… ۲۰۰۳ء۔ پس نوشت ۔ اردو کی خود نوشت سوانح عمریوں کا جائزہ
٭… ۲۰۰۵ء۔ سر ظفر اللہ کی یادداشتیں
٭… ۲۰۰۶ء۔ Reminiscences of Sir ZafarUllah
٭… ۲۰۰۸ء ۔پس نوشت اور پسِ پسِ نوشت(مزید خود نوشت سوانح عمریوں کا تجزیہ)
٭… ۲۰۱۰ء۔ پس نوشت سوم (مزید خود نوشتوں کا جائزہ)
آپ کا حاصل عمر ”حبل الورید“ قرآن کریم کا اردو ترجمہ (غیر مطبوعہ) ہے۔ خود نوشتوں کے تجزیے کا کام آپ نے آخر تک جاری رکھا۔ آپ پاکستان سے تیسری ہجرت کے بعد ۲۰۰۳ء سے کینیڈا میں مقیم رہے۔ آپ بذلہ سنج اور مرنجان مرنج طبیعت کے حامل اور بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ دورِ طالبعلمی سے لے کر آخر عمر تک اپنے دوستوں، قریبیوں اور رشتہ داروں میں ہردلعزیز رہے۔ جس محفل میں ہوتے صاحب ِ محفل ہوتے۔ کالج کے اسٹیج پر ہوتے یا بعد میں کسی تقریب میں آ پ کا طرزِ خطابت منفرد ہوتا۔ ساتھی طلبہ کو آپ کی ڈیبیٹ کا اچھوتا انداز بہت پسند تھا جس کی وجہ سے آپ جہاں بھی جاتے اور مقابلوں میں حصہ لیتے وہاں سامعین آپ کے منتظر ہوتے۔ آپ بہت ہمدرد اور پیار کرنے والی شخصیت تھے۔ دوستوں کے دوست اور غمخوار بھی تھے۔ خلافتِ احمدیہ سے ہمیشہ وابستہ رہے اور خوب فیض بھی پایا۔ ایسی نستعلیق شخصیت اور نایاب لوگ دیکھنے کو بہت کم ملتے ہیں۔ آپ کی وفات کے ساتھ ترقی پسند اردو ادب اور منفرد انداز کا درس و تدریس کا ایک شاندار دور اختتام کو پہنچا۔ دنیا بھر میں آپ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ آپ اردو کا گہرا ذوق رکھنے والے قیمتی سرمایہ تھے اس سلسلہ میں آپ کی خدمات یاد رکھی جائیں گی۔
آپ کے لواحقین میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے، مغفر ت کی چادر میں لپیٹ لے، اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل سے نوازے۔
٭…٭…٭