جلسہ سالانہ

جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۳ء: اجلاس مستورات کی کارروائی

’’سیرت حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا‘‘، ’’اسلامی اقدار کی حفاظت ایک احمدی عورت کی ذمہ داری‘‘، ’’قرآن کریم ایک مکمل ضابطۂ حیات‘‘ اور ’’خلافت۔ روحانی ترقیات کا ذریعہ‘‘ کے عناوین پر سیر حاصل تقاریر

پروگرام جلسہ گاہ مستورات

جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۳ء کے دوسرے روز کا آغاز نماز تہجد اور فجر کی ادائیگی سے ہوا۔ناشتہ کے بعد ممبرات اجلاس میں شامل ہونے کے لیے مین ہال اور بچگان کے ہال میں تشریف لے آئیں۔

مستورات کی جلسہ گاہ میں کارروائی کا آغاز صبح دس بج کر ۳۰ منٹ پر ہوا۔ نیشنل صدر صاحبہ جرمنی مکرمہ حامدہ سوسن چودھری صاحبہ نے مکرمہ ناصرہ واگس ہاؤزر صاحبہ کو اجلاس کی صدارت کے لیے مدعو کیا۔ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس بابت جلسہ سالانہ کے انعقاد کے اغراض و مقاصد پیش کرتے ہوئے لجنہ اماء اللہ کو توجہ دلائی کہ جلسہ سالانہ ان مجالس کی طرح ہے جس پر فرشتے پر پھیلائے رہتے ہیں چنانچہ ممبرات مکمل خاموشی اختیار کرتے ہوئے ذکر الٰہی میں مشغول رہیں۔

اس کے بعد مکرمہ ثمینہ طاہر صاحبہ نے سورۃ الحدید آیت ۲۱ و۲۲ مع اردو ترجمہ پیش کیں۔ درثمین سے منظوم اردو کلام ’’اسلام سے نہ بھاگو راہ ھدیٰ یہی ہے‘‘ مکرمہ عنبر نصیر صاحبہ نے پیش کیا ۔

اس اجلاس کی پہلی تقریر اردو زبان میں بعنوان سیرت حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓمکرمہ مبشرہ شفیع صاحبہ نائب صدر و نیشنل سیکرٹری تعلیم لجنہ اماء اللہ جرمنی نے پیش کی۔اس تقریر کے مکمل متن کے لیے ملاحظہ کریں صفحہ ۲۲۔

اس کے بعد اجلاس مستورات کی پہلی جرمن تقریر مکرمہ مونا فاطمہ صاحبہ نیشنل سیکرٹری مال اور صدر احمدیہ سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن نے اسلامی اقدار کی حفاظت، ایک احمدی عورت کی ذمہ داری کے موضوع پر کی۔

مقررہ نے تقریر کے آغاز پر سورۃ النحل آیت ۴۸ مع ترجمہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ قرآن کریم نے عورتوں اور مردوں کے رضائے الٰہی کے حصول کے طریق تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔ لیکن جب دور حاضر میں قرآن کریم کی اس تعلیم کو بھلا دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق زمانہ کی اصلاح کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معبوث فرمایا جنہوں نے تمام انسانیت کو حی و قیوم خدا کی طرف بلایا۔

مقررہ نے آنحضورﷺ کی حدیث کی روشنی میں حقیقی عبادت گزار اور شکرگزار بننے اور اچھے اخلاق کی بدولت جنت کے حصول کے طریق بیان فرماتے ہوئے کہا کہ اچھے اخلاق کی تعلیم کا بہترین نمونہ ہمیں آنحضورﷺ کی زندگی سے ملتا ہے۔ پس اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرماتا ہے کہ ’’یقیناََ تو بہت بڑ ے خُلق پر فائز ہے۔‘‘

آپﷺ نے با اخلاق بننے کے لیے یہ طریق بتا یا کہ انسان اپنے اخلاق کو خدا تعالیٰ کی اس تعلیم کے مطابق بنائے جو قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کی صفات کے بیان میں مذکور ہیں۔

مقررہ نے حاضرین کی توجہ اس امر کی طرف دلوائی کہ گو مغربی معاشرہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے مطابق خواتین کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے لیکن جرمنی کے امورِ داخلہ کے ایک سروے کے مطابق پچاس فیصد جرمن شہری ایسے بیانات سے متفق ہیں جن سے مسلمانوں کے خلاف تعصب ظاہر ہو تا ہے۔ تیس فیصد سے زیادہ جرمنی میں رہنے والے مسلمانوں کو امتیازی رویّہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور خواتین کو ہمیشہ تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اس تعصب کی بنیادی وجہ ایسی خبریں اور خیالات کی تشہیر ہے جو مسلمان عورتوں کو دیگر عورتوں سے کم تر اور مظلوم دکھایا جاتا ہے۔ایسی خبروں کی وجہ سے ناصرف مسلمان عورتیں دنیا میں غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ احساس کمتری کا بھی شکار ہو جاتی ہیں۔

مقررہ نے احمدی عورتوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ اگر دنیا وی تعلیم کے حصول کے نتیجہ میں ہمیں تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس سے نپٹنے کا واحد حل دین کی مکمل تعلیم حاصل کرکے دنیا کو اعتراضات کے جواب دینا ہے۔ دنیا سے اپنے خلاف تعصب ختم کرنے کا واحد طریق ذاتی اصلاح ہے جو بالآخر انفرادی سے اجتماعی اصلاح کا باعث بنتا ہے۔ مقررہ نے اس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان کردہ ایک واقعہ سےدی جس کے مطابق ایک انسان کی دعا سے ساری کشتی طوفان سے محفوظ رہی کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہے۔

آپ نے مزید اسلام کے عورت کو دیے گئے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام نے عورتوں کو تعلیم سے لے کر معاشرتی و معاشی ہر طرح کے حقوق دیے ہیں۔ وہ حقوق جو آج کے جرمن معاشرے میں بھی عورت کو بحیثیت ماں حاصل نہیں ہیں اسلام نے وہ حقوق عورت کو کئی سال پہلے دیے۔ اسی طرح اسلام ماؤں کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے اور باپوں کو ان کی مدد کرنے کو کہتا ہے اور ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے وقت میں عورت کے حقوق قائم کیے جب عرب کا معاشرہ برائیوں سے بھرا ہوا تھا اور جہاں بیٹی کا پیدا ہونا نہایت بے عزتی اور شرم کا باعث سمجھا جاتا تھا آنحضورﷺ کی بعثت اور اسلام کی آمد نے اس رویہ کا خاتمہ کیا اور عورت کے حقوق قائم کیے۔ عورت کی حیثیت محض ایک معمولی چیزسے تبدیل کر کے قابل عزت و احترام وجود بنا دیا گیا۔اسے شوہر سے علیحدگی کا حق دیا گیا۔ اسلام نے عورت کو بحیثیت ماں وہ مقام دیا کہ کسی دوسرے معاشرتی نظام میں ایسی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ اسلام کے بانی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جنہوں نے خدا کے حکم سے عورت کے حقوق قائم کرتے ہوئے فرمایا کہ جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔

عورتوں کو حق اظہار رائے دہی دینے کی مثال حضرت اسماء بنت یزید انصاری رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ سے ملتی ہے کہ جب انہوں نے عورتوں کی ذمہ داریوں کے ثواب کے متعلق نہایت فصیح انداز میں آنحضورﷺ کی خدمت میں ایک سوال پیش کیا تو آپﷺ نے ان کے اس انداز کی صحابہؓ کے سامنے تعریف فرمائی۔

آج کے دور میں جہاں کئی ممالک میں عورتوں کو وہ حقوق نہیں دیے جا رہے جو اسلام نے قائم فرمائے ہیں وہیں ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے بد اثرات کی وجہ سے لوگ دن بدن ایسی برائیوں میں مبتلا ہوتے جا رہےہیں جو ان کو بے حیائی کے قریب تر لے جا رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا ایک مقصد ہمیں ایسی غیر اسلامی رسموں اور طریق سے آزاد کرنا تھا۔

جہاں ارٹیفیشل انٹیلیجنس کی پھیلائی گئی برائیاں آج بچوں تک پہنچ گئی ہیں وہیں مسیح الزمان کے خلیفہ عورتوں کو، بچوں کو ان فتنوں سے مسلسل آگاہ رکھنے کے لیے خطبات سے رہنمائی کر رہے ہیں تاکہ ایسا معاشرہ قائم ہو جس میں ہر فرد کو اہمیت حاصل ہو۔ اسی لیے آپ نے عورتوں کو بارہا توجہ دلائی کہ حیا ایمان کا حصہ ہے اور حیا عورت کا ایک خزانہ ہے اس لیے ہمیشہ حیادار لباس پہنیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی عورت کا، ایک احمدی بچی کاایک تقدّس ہے اس کو قائم رکھنا ہے۔

لجنہ اماء اللہ کا قیام بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس کا مقصد اسلامی اقدار کی حفاظت کرنا ہے۔ لجنہ اماء اللہ کے قیام کے موقع پرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ’’دین کی ترقی عورتوں کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہے یاد رکھو کہ کوئی دین ترقی نہیں کر سکتا جب تک خواتین ترقی نہ کریں۔ اسلام کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ تم ترقی کرو خواتین کمرے کی چار دیواروں کی طرح ہیں اگر دو دیواریں کمرے کی گر جائیں تو اس کمرے کی چھت اسی طرح قائم رہے گی؟، نہیں، بالکل نہیں ‘‘

سلسلہ احمدیہ نے ہمیشہ عورتوں کی آزادی اور تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جس کی ایک مثال مدرسۃ البنات ہے جسکی بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی رکھی تھی۔حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ خود اس میں قرآن کی تدریس کا کام سر انجام دیتے تھے تاکہ خواتین علم اور تفہیم میں ترقی کر سکیں۔

اسی طرح ناصرات الاحمدیہ، رسالہ مصباح اور نصرت گرلز ہائی سکول وغیرہ بھی عورتوں کی آزادی کی مثال ہے۔

مقررہ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ جہاں جماعت احمدیہ نے عورتوں کی آزادی کے لیے سامان مہیا کیے وہیں عورتوں کو یہ بھی بتلایا کہ ایک بہترین ماں، بیٹی اور بہن کا کام دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے اپنی نمازوں اور عبادتوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اس کی بہترین مثال ہمیں حضرت اماں جان کے نمونہ میں ملتی ہے۔آپ اپنے شوہر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہمیشہ مدد گار ساتھی بن کر رہیں اور نہ صرف اپنی اولاد بلکہ اپنی روحانی اولاد کا بھی خیال رکھتیں۔آج بھی ایسی خواتین موجود ہیں جن کا نمونہ ہمارے لیےقابل تقلید ہے۔ ایک تازہ مثال برکینا فاسو کے ایک شہید کی اہلیہ کا قابل رشک حوصلہ ہے جس کا ذکرحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں بیان فرمائی۔

آخر پر مقررہ نے موضوع کا لب لباب خلافت سے مضبوط تعلق قائم کرنے کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم خلیفہ وقت کے حکم پر چلتے ہوئے باپردہ، حیا دار عورتیں بنیں گی اور اسلامی اقدار کو اپنانے والی ہوںگی تب ہی ہم اگلی نسلوں کو بچانے والی ہوںگی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اسلامی اقدار کو سیکھیں، سمجھیں اور ان کے مطابق عمل کریں، آمین۔

اس تقریر کے بعد اردو نظم از درثمین ’’لوگو سنو کہ زندہ خدا وہ خدا نہیں‘‘ ندا منصور صاحبہ نے پڑھی۔

مستورات کے اجلاس کی تیسری تقریر مکرمہ صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ جرمنی محترمہ حامدہ سوسن چودھری صاحبہ نے بزبان جرمن خلافت روحانی ترقیات کاذریعہ کے موضوع پر کی۔

آپ نے تقریر کے آغاز پر جدید ٹیکنالوجی کے اثرات اور اس کے ذریعہ سے حاصل ہونے والی آزادی کا ذکر کیا۔یہی آزادی آج لوگوں کے پیروں کی زنجیر بن کر ان کو اخلاقی ترقی سے پیچھے کھینچنے والی ہے۔ مسلسل اپنے آپ کا دوسروں سے موازنہ کرتے ہوتے تفخر یا حسرت کے جذبات ہمیں اخلاقی پستی کی طرف لے جا رہا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دنیا کی اسی اخلاقی پستی کو اپنی صداقت کا ثبوت بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ دنیا کی حالت بھی اسی بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ کوئی مصلح اس کی اصلاح کی غرض سے آئےاور روحانی پانی سے روحوں کی پیاس بجھائے۔

صدر صاحبہ نے انسانی زندگی میں روحانیت کی ضرورت کے متعلق فرمایا کہ اسی کے ذریعہ ہی انسان زندگی میں شخصی آزادی حاصل کرسکتا ہے اور قرآن کریم نے روحانیت کے حصول کا ذریعہ حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامنا قرار دیا ہے۔ آپ نے وضاحت فرمائی کہ رسی کو تھامنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس طرح مضبوطی سے پکڑا جائے جیسے ایک سمندر میں ڈوبنے والا شخص مدد کے لیے پھینکے جانے والی رسی کو مضبوطی سے تھامتا ہے۔

آج دنیا حرص و حوس میں مبتلا ہے ایسے میں صرف اللہ تعالیٰ کی ہی رسی ہے جو ہمیں زندگی کے حقیقی مقصد کی پہچان کراسکتی ہے۔

مکرمہ صدر صاحبہ نے حبل اللہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس حبل اللہ کا پہلا کڑا خدا تعالیٰ کا وجود ہے، پھر رسولِ خدا اور پھر خلیفۃ الرسل چنانچہ آج جماعت احمدیہ کے پاس خلافت جیسی نعمت موجود ہے یہ خلیفہ وقت کا وجود ہی ہے جو ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق قائم کرواتا ہے اور اسے مضبوط بناتا ہے۔

آج ہمارے پاس ایک ایسی نعمت موجود ہے جو ہمیں دنیا کے ہر میدان میں راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ خلافت کے نظام کی اس مرکزی حیثیت کی مثال حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے نظامِ شمسی سے تشبیہ دے کر بیان فرمائی ہے۔

مزید برآں مکرمہ صدر صاحبہ نے اس پہلو پر روشنی ڈالی کہ کس طرح خلافت ہی وہ واحد ذریعہ ہےجو آج انسان کا خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کرتے ہوئے اس کو روحانیت کی بلندیوں پر لے جا سکتی ہے۔ یہی وہ ذریعہ ہے جو ہماری سورہ توبہ میں بیان کردہ ’’سچائی کے راستوں‘‘ کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے۔

ان راستوں کی طرف لے جانے والا ایک راستہ دعاؤں کا ہے۔ خلیفہ وقت کی دعائیں ہی ہیں جو ہماری روحانی کمیوں کو پورا کرنے والی ہیں۔ اسی نسبت سے صدر صاحبہ نے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قبولیت دعا کے واقعات بہنوں کے سامنے پیش فرمائے جن میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں سے معجزانہ پیدائش اور طوفان کے ٹل جانے کے واقعات شامل ہیں۔

اسی طرح خلفاء کے ہاتھوں پر جماعت کی غیر معمولی ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے محترمہ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ ایم ٹی اے کی نعمت بھی خلافت کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے جو اس زمانہ کے امام کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح ایم ٹی اے کی نعمت خلیفہ وقت سے تعلق کی مضبوطی کا ذریعہ بھی ہے جہاں سے روحانی مائدہ خلیفہ وقت کے خطبات اور خطابات کے ذریعہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اسی سلسلہ میں صدر صاحبہ نے ایک احمدی کا ذکر فرمایا جس نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات میں بیان تفسیرِ قرآن سے متاثر ہو کر جماعت میں شمولیت اختیار کی۔

اسی طرح ایم ٹی اے پر ہر ہفتہ نشر ہونے والے پروگرام This Week with Huzoor کے اور بذریعہ خطوط حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رابطہ بڑھانے کا ذریعہ ہے۔

پھر آپ نے جلسہ سالانہ کے دوران ملاقات کرنے والے غیر احمدی مہمانوں کے جذبات بیان فرمائے جن میں سے ایک شخص نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی شخصیت کو مقناطیس سے مماثلت دیتے ہوئے کہا کہ آپ ایدہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ پُر اثر اور دلوں تک پہنچنے والے ہیں۔

پس یہ آپ ایدہ اللہ تعالیٰ کا خداتعالیٰ سے تعلق اور بلند مقام ہی ہے جو غیروں پر بھی اثر کرنے والا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں ہماری روحانی ترقی خلافت سے جڑ کر ہی ممکن ہے۔

محترمہ صدر صاحبہ نے تقریر کا اختتام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لجنہ جرمنی کے سالانہ اجتماع پر بھیجے گئے پیغام کا ایک حصہ پڑھ کر کیا جس میں لجنہ ممبرات کو توجہ دلائی گئی کہ اخلاقی تبدیلی پیدا کرکے ہی لجنہ بیعت کا حق ادا کرنے والی بن سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقصد میں کامیاب کرتے ہوئے خلافت کے ذریعہ روحانی ترقی حاصل کرنے والا بنائے۔ آمین

اجلاس کی آخری تقریر نائب صدر لجنہ اماء جرمنی، پرنسپل عائشہ دینیات اکیڈمی اور نیشنل سیکرٹری تربیت امۃالجمیل غزالہ صاحبہ نے اردو میں ’’قرآن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات‘‘ کے موضوع پر کی۔

آپ نےآغاز میں سورة المائدہ کی آیت ۴ کی تلاوت و ترجمہ پیش کیا۔ اور کہا کہ قرآن مجید نے دعوی کیا ہے۔ کہ وہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور انسانوں کی سب ضروریات کا کفیل ہے۔ تمام انسانی امراض اور احتیاجوں کا مداوا پیش کرتا ہے۔اس کا دعوی ٰہے کہ میں نے انسانوں کو اپنے مقصد تخلیق کے پانے کے سارے گر بتا ئے ہیں۔ اور اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو لفظ حیات یعنی حقیقی زندگی کی حقیقت بھی یہی پاک کتاب بیان کرتی ہے چنانچہ فرمایا: اور یہ دنیا کی زندگی غفلت اور کھیل تماشہ کے سوا کچھ نہیں اور یقیناً آخرت کا گھر ہی دراصل حقیقی زندگی ہے۔ کاش کہ وہ جانتے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے کیا خوب فرمایا:

یا الٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے

جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا

مقررہ نے کہا کہ انسان در حقیقت دو محبتوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ ایک اللہ تعالیٰ کی محبت اور دوسری دل میں بنی نوع انسان کی نہایت گہری محبت ودیعت کی گئی ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر انسان، انسان کہلانے کا ہی مستحق نہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ کامل شریعت پر قائم ہونے والا حق اللہ اور حق العباد کو کمال کے نقطہ تک پہنچا دیتا ہے۔

قرآنی تعلیم کی اکملیت اور جامعیت کا یہ نہایت نمایاں پہلو ہے کہ قرآن مجید نے انسانوں کی حیات عارضی اور حیات ابدی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نہایت جامع اور عین مطابق فطرت ہدایات دی ہیں۔ جن پر عمل پیرا ہو کر انسان دونوں جہاں کی جنتوں کا وارث بن سکتا ہے۔ اور جن سے منہ موڑ کر انسان جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے۔

قرآن کریم کیسے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ انسان مجموعہ ہے روح اور جسم کا۔ وہی کتاب مکمل ضابطہ حیات ہو سکتی ہے جو انسان کی جسمانی اور روحانی دونوں طرح کی ربوبیت کا کامل نظام پیش کرے۔

مقررہ نے کہا کہ سب سے اوّل ہم انسان کی جسمانی ربوبیت کا قرآنی نظام دیکھتے ہیں۔انسان کی جسمانی ربوبیت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

1۔ وہ ضروریات جو انسانوں کی معاشرتی زندگی کے نتیجہ میں پیش آتی ہیں۔

2۔ وہ ضروریات جو انسانوں کو انفرادی زندگی میں پیش آتی ہیں۔

انسانوں کی ضروریات میں سے سب سے اوّل اس کے زندہ رہنے کا حق ہے۔ اور ز ندگی کا حق قرآن کریم نے ہر مولود کو دیا ہے۔ چنانچہ فرماتاہےکہ اور کسی ایسی جان کو جسے اللہ نے حرمت بخشی ہو قتل نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔

آج کل پوری دنیا میں جو بد امنی پھیلی ہوئی ہے اسی بنیادی اصول کو پس پشت ڈالنے کا سبب ہے۔ قرآن نے اس انسانی زندگی کی نشو ونما اور خدا کی تخلیق میں دخل دینے سے اور اپنی ناقص توجیحات کے دینے سے منع کیا ہے۔اور پوری انسانیت کے وقار اور تحفظ کے قیام کے لیے قرآن کریم بطور مکمل ضابطہ حیات توجہ دلائی ہے۔ مقررہ نے کہا کہ زندہ رہنے کے حق کو قائم کرنے کے بعد دوسری اہم ضرورت اس کی حصول معیشت میں آزادی ہے۔

1۔ قرآن کریم نے زندگی کا حق دینے کے ساتھ ہی ہر انسان کو اپنی جسمانی ضروریات کے لیے روزی کمانے کا حق بھی دیا ہے۔

انسان کی بنیادی ضروریات اور اسے دی گئی سہولیات کا ذکر کرنے کے بعد ارباب اقتدار کو انسانی ضرورتوں کے مہیا کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔

قرآن میںلازمی اسباب معیشت کا بھی ذکر کیا جن کا ملنا ہر شخص کو ضروری ہے۔ اس کے متعلق فرمایا: تیرے لیے مقدر ہے کہ نہ تُو اس میں بھوکا رہے اور نہ ننگا۔ اور یہ (بھی) کہ نہ تُو اُس میں پیاسا رہے اور نہ دھوپ میں جلے۔ گویا خوراک، پوشاک اور مکان کی تمام سہولتیں ہر انسان کو حاصل ہوں گی۔ آج ووٹ کے لیے روٹی کپڑا مکان کے نعرہ لگانے والے تو بہت ہیں لیکن مکمل قرآنی تعلیمات پر عمل نہ کر نے کے نتیجے میں وہ عوام کو سکھ مہیا کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں

مقررہ نے کہا کہ تیسری ضرورت انسانی مساوات ہے۔ انسانی معاشرہ اپنے امن کے قیام کے لیے ہر انسان کے بطور انسان مساوی ہونے کے اعلان کا محتاج ہے۔جن کا ملنا ہر شخص کو ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو پاک فطرت پیدا کیا ہے۔قرآن کریم سب انسانوں کو پیدائشی طور پر یکساں قرار دیا۔

پھر چوتھی ضرورت یکساں عدل و انصاف ہے۔ قرآن کریم نے تمام انسانوں کو عدل و انصاف کے لحاظ سے ایک ہی سطح پر قرار دیا ہے۔ سب کے یکساں حقوق قرار دیے ہیں۔اور دشمن سے بھی عدل کا حکم دیا ہے۔

پھر پانچویں ضرورت معاشرہ میں رہتے ہوئے ایک انسان فطری طور پر آزادی سوچ کا ضرورتمند ہے قرآن کریم ہی وہ پہلی آسمانی کتاب ہے جس نے حریت فکر اور آزادی رائے کا حق برملا عطا کیا۔قرآن کہتاہے کہ اور کہہ دے کہ حق وہی ہے جو تمہارے ربّ کی طرف سے ہو۔ پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے۔

اسی طرح یہ جو اسلام کے ٹھیکیدار ہیں۔ اور مرتد کی سزا قتل ہے کا فتویٰ دے کر خون کا بازار گرم کیا ہوا ہے ان کے اس فعل کو ٹھکرانے کا اعلان یہ آیت کر رہی ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ یقیناً ہدایت گمراہی سے کھل کر نمایاں ہوچکی۔

مقررہ نے کہا کہ دوسرا حصہ انسان کی انفرادی ضروریات کی کفالت ہے۔قرآن کریم نے جہاں انسانی معاشرہ کے جنت نظیر بنانے کے لیے ہر طرح کی ہدایات دی ہیں وہاں اس معاشرہ کے افراد کی ضروریات کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔اس میں انسانی فطرت کے مطابق رشتہ داروں اور معاشرہ کے کمزور اور ضعیف طبقات کی ضروریات مہیا کرنے کا ایسا بے نظیر نظام پیش کیا ہے کہ آج بھی عقل اسے سوچ کر دنگ رہ جاتی ہے۔ اور اس نے رشتہ داروں اور دوسرے ضرورتمندوں کی ضرورتوں کو ایسے رنگ میں بیان کیا ہے کہ ان میں بظاہر کوئی دُوئی نہیں ہے۔ اور فرمایا: پس اپنے قریبی کو اس کا حق دو نیز مسکین کو اور مسافر کو۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے اچھی ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

سائل اور محروم کی ضروریات کا بیان کیا کہ اور ان کے اموال میں سوال کرنے والوں اور بے سوال ضرورت مندوں کے لیے ایک حق تھا۔

پھر ماں باپ کی ضروریات کا ذکر کیا کہ دین فطرت ہونے کیوجہ سے رشتہ داروں کی ضروریات پوری کرتے وقت انکے درجات کا خیال رکھا۔ادب و احترام کے لحاظ سےوالدین کا خاص مقام ہے اس لیے ان کا خاص خیال رکھنے کے لیے قرآن کریم میں متعدد بار الگ بیان فرمایا۔

کس سے اُس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ

وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا

یہاں ذکر سے مراد قرآن کریم ہے۔ یعنی جو کوئی قرآنی تعلیمات سے پہلو تہی کرے گا تو وہ اپنے لیے تنگی کی راہیں خود کھولے گا اسی بارے میں حضرت مسیح موعودؑ متنبہ کرتے ہوئے اورقرآن کریم کے ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ یہ خدا ہی کا کلام ہے جس نے اپنے کھلے ہوئے اور نہا یت واضح بیان سے سے ہم کو ہما رے ہر یک قول اور فعل اور حرکت اور سکون میں حدود معیّنہ مشخّصہ پر قائم کیا اور ادب انسا نیّت اور پاک روشنی کا طریقہ سکھلایا۔

پھر قرآن کریم کے حیاتِ روحانی کے لیے کامل ضابطہ حیات ہونے کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ہمارا مشاہدہ اور تجربہ اور ان سب کا جو ہم سے پہلے گذر چکے ہیں اس بات کا گواہ ہے کہ قرآن شریف اپنی روحانی خاصیت اور اپنی ذاتی روشنی سے اپنے سچے پیرو کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کے دل کومنور کرتا ہے۔

پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں

پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا

پھر اپنی جماعت کو نصیحت کرتے فرمایا کہ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔ اور حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے۔ سو تم قرآن کو تدبّر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِیْ الْقُرْآن۔ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں…تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے… تمہارے ایمان کا مُصَدِّق یا مُکَذَّب قیامت کے دن قرآن ہے۔’’… قرآن ایک ہفتہ میں انسان کو پاک کر سکتا ہے اگر صوری یا معنوی اعراض نہ ہو قرآن تم کو نبیوں کی طرح کر سکتا ہے اگر تم خود اس سے نہ بھاگو۔

’’قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے

بے اُس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے‘‘

قرآن کریم کی محبت سے محبت الہی کے پیدا ہونے کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیںپَرَسْتِشْ کی جڑ تلاوت کلام الٰہی ہے کیونکہ محبوب کا کلام اگر پڑھا جائے یا سنا جائے تو ضرور سچے محب کے لیے محبت انگیز ہوتا ہے اور شورش عشق پیدا کرتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔پھر یہ یاد رکھو کہ قرآن کریم خداکی کتاب اور اسکے منہ کی باتیں ہیں اس کا ادب واحترام کرو۔ قرآن کریم کے بغیر کوئی دین نہیں اور اس دین کے بغیر کہیں ایمان نہیں اور ایمان کے بغیر نجات نہیں۔ وہ شخص ہر گز جنت نہیں پا سکتا جو قرآن کریم پر عمل نہ کرے۔

مقررہ نے اپنی گزارشات کو اپنے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر ختم کیا۔ آپ فرماتے ہیں:

آج یہ ہم احمدیوں کا کام ہے کہ ہم اپنے اندر تقویٰ پیدا کرتے ہوئے اس تعلیم کی خوبیوں کو اپنے قول و فعل سے کر کے دکھائیں، عمل کر کے دکھائیں۔ دنیا کو بتائیں کہ قرآن کریم ہی ہے جو ہر قسم کی بیماریوں کا علاج ہے اور اس کو بھیجنے والا وہ خدا ہے جس نے اسے بامقصد بنا کر دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ پر چلتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

لجنہ ممبرات چار سال بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دیدار کے لیے بیتاب تھیں اسی انتظار میں حضور پُرنور کی آمد سے قبل مستورات درود شریف و دعاؤں کا اجتماعی طور پر ورد کرتی رہیں جس سے جلسہ گاہ نہایت بابرکت اور پرسکون ماحول پیش کر رہا تھا۔

(رپورٹ: لبنہ ثاقب، ناظمہ رپورٹنگ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button