متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عشقِ رسولﷺ

(سید حاشر۔ جامعہ احمدیہ کینیڈا)

حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰة و السلام کو اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے لیے مبعوث فرمایا ان میں سے ایک عظمت و محبتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیا میں قائم کرنا بھی تھا۔ آپ علیہ السلام نے اپنے اس کام کو بخوبی نبھایا۔ مگر یہ ضروری تھا کہ دنیا کے دلوں میں حضرت خاتم الانبیاء سید الاصفیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت اور عظمت ڈالنے کے لیے خود آپ اپنا نمونہ دکھائیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کا مطالعہ کیا جائے یا تقریروں کو پڑھا جائے یا آپؑ کی عملی زندگی کو سامنے رکھا جائے تو صاف واضح ہو گا کہ آپؑ کی زندگی کا ذرہ ذرہ اپنے آقا و مطاع حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے عشق و وفا سے لبریز تھا۔ آپ علیہ السلام واقعی میں اپنے اس شعر کی عملی تصویر تھے کہ

بعد از خدا بعشق محمد مخمرم

گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو بھی مرتبہ پایا وہ محض آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل محبت اور کامل پیروی اور کامل اطاعت اور کامل غلامی سے ہی پایا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپؐ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۷)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اس محبت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق ذاتی کا مطالعہ کیا جاوے تو خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت ایک نمایاں حصہ لئے ہوئے نظر آتی ہے۔ آپ کی ہر تقریر و تحریر ہر قول و فعل ہر حرکت و سکون اسی عشق و محبت کے جذبہ سے لبریز پائے جاتے ہیں۔ اور یہ عشق اس درجہ کمال کو پہنچا ہوا تھا کہ تاریخ عالم میں اس کی نظیر نہیں ملتی…دشمن اور دوست، اپنے اور بیگانے سب اس بات پر متفق ہیں کہ جو عشق و محبت آپ کو سرورِ کائنات کی ذات والا صفات سے تھا اس کی نظیر کسی زمانہ میں کسی مسلمان میں نہیں پائی گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کی زندگی کا ستون اور آپ کی روح کی غذا بس یہی محبت ہے۔‘‘(سیرت المہدی روایت نمبر ۳۲۴جلداوّل)

انسان جب کسی سے کمال درجہ کا عشق کرتا ہے تو اسے چھپا نہیں سکتا۔ اس سچے عاشقِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہر قول اور ہر تحریر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کے آثار نظر آتے تھے۔ چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کسی تقریر یا مجلس میں رسول کریم صلے اللہ علیہ و سلم کا ذکر فرماتے تو بسا اوقات ان محبت بھرے الفاظ میں ذکر فرماتے۔ کہ ’’ہمارے آنحضرت‘‘نے یوں فرمایا ہے۔ اسی طرح تحریر میں آپ آنحضرتﷺ کے نام کے بعد صرف آپؐ نہیں لکھتے تھے بلکہ پورا درود یعنی ’’صلے اللہ علیہ و سلم‘‘لکھا کرتے تھے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ ۵۳۷ روایت نمبر۵۴۷) حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اسی روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ’’آنحضرتﷺ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اس کمال کے مقام پر تھی جس پر کسی دوسرے شخص کی محبت نہیں پہنچتی۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کمال عشقِ رسول اللہﷺ اس واقعہ میں ملتا ہے۔ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ دوپہر کے وقت میں مسجد مبارک میں داخل ہوا تو اس وقت حضرت مسیح موعودؑ اکیلے گنگناتے ہوئے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا یہ شعر پڑھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ ٹہلتے بھی جاتے تھے۔

کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرُ

مَنْ شَآءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ‘‘

تُو میری آنکھ کی پتلی تھا۔ پس تیری موت سے میری آنکھ اندھی ہو گئی اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے پروا نہیں کیونکہ مجھے تو بس تیری ہی موت کا ڈر تھا جو واقع ہو چکی۔

’’میری آہٹ سن کر حضرت صاحب نے چہرے پر سے رومال والا ہاتھ اُٹھا لیا تو میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔‘‘ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ شعر کنت السواد لناظری الخ مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے سامنے پڑھا اور مجھے سنا کر فرمایا کہ کاش! حسّان کا یہ شعر میرا ہوتا اور میرے تمام شعر حسّان کے ہوتے۔ پھر آپ چشم پُر آب ہو گئے۔ اس وقت حضرت اقدس نے یہ شعر کئی بار پڑھا۔‘‘(سیرت المہدی روایت نمبر ۳۳۴جلد اوّل) حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے شانِ اقدسِ رسول اللہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم میں بےشمار اشعار ارشاد فرمائے اور اعلیٰ قصائد تحریر فرمائے۔ مگر آپ علیہ السلام کو وہ ایک شعر انتہائی پسند تھا۔

عاشق اپنے معشوق کی اتباع اور اس کا نمونہ اپنانے کے لیے ہر دم کوشش کرتا ہے۔ فعل خواہ چھوٹا سا بھی ہو عاشق اس میں بھی اپنے معشوق کی کامل پیروی کرتا ہے۔ اس بارےمیں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی آنحضرتﷺ کی اتباع کرتے تھے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ ۵۱۴) اس کی ایک جھلک آپ علیہ السلام کے اس واقعہ سے بھی ملتی ہے کہ مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال بیان کرتے ہیں کہ ’’جب میں حضرت صاحب کے پاس سوتا تھا تو آپ تہجد کے لئے نہیں جگاتے تھے مگر صبح کی نماز کے لئے ضرور جگاتے تھے اور جگاتے اس طرح تھے کہ پانی میں انگلیاں ڈبو کر اس کا ہلکا سا چھینٹا پھوار کی طرح پھینکتے تھے۔ میں نے ایک دفعہ عرض کیا کہ آپ آواز دے کر کیوں نہیں جگاتے اور پانی سے کیوں جگاتے ہیں۔ اس پر فرمایا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ و سلم بھی اسی طرح کرتے تھے اور فرمایا کہ آواز دینے سے بعض اوقات آدمی دھڑک جاتا ہے۔‘‘(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ ۵۱۴روایت نمبر ۴۹۲)

اسی طرح ایک اور مثال آپؑ کی اتباعِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس طرح سے بیان ہوئی ہے۔ چودھری غلام محمد صاحب بی اے بیان کرتے ہیں کہ’’جب میں ۱۹۰۵ء میں قادیان آیا تو حضرت صاحب نے سبز پگڑی باندھی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھ کر کچھ گراں گزرا کہ مسیح موعودؑ کو رنگدار پگڑی سے کیا کام۔ پھر میں نے مقدمہ ابن خلدون میں پڑھا کہ آنحضرتﷺ جب سبز لباس میں ہوتے تھے تو آپ کو وحی زیادہ ہوتی تھی۔‘‘(سیرت المہدی روایت نمبر ۱۲۱جلداوّل )

انسان کو جس سے محبت ہوتی ہے اس کی آل، اولاد، نسل، رشتہ داروں، دوستوں سے بھی محبت کرتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سر تا پا عاشقِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو تھے ہی۔ محبتِ آلِ محمدﷺ سے بھی آپؑ سرشار تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی دعاؤں میں بھی اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آل اولاد کو بکثرت یاد فرماتے تھے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت اور عظمت کے ثبوت اور اظہار کے لئے آپ ہمیشہ بے قرار رہتے اور جو موقع بھی اس مقصد کے لئے ملتا اس کو ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ آپ کی نمازوں اور دعاؤں میں مرکزی نقطہ یہی ہوتا تھا چنانچہ فرماتے ہیں

ہر کسے اندر نماز خود دعائے می کند

من دعاہائے بر و بارِ تُو اے باغِ بہار

یعنی ہر شخص اپنی نماز میں (اپنے لئے) دعا کرتا ہے مگر میں اے میرے آقا! تیری آل و اولاد کے لئے دعا مانگتا ہوں۔‘‘ (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ پنجم ۵۲۸ از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ)

اسی طرح آلِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پیار کی ایک جھلک اس واقعہ سے بھی ملتی ہے جو حضرت سید ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے اور دوسری دو چارپائیوں پر مفتی محمد صادق صاحبؓ اور شیخ رحمت اللہ صاحبؓ مرحوم وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اور ایک بوری نیچے پڑی ہوئی تھی اس پر میں دو چار آدمیوں سمیت بیٹھا ہوا تھا۔ میرے پاس مولوی عبدالستارخان صاحب بزرگ بھی تھے۔ حضرت صاحب کھڑے تقریر فرما رہے تھے کہ اچانک حضور کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب آپ میرے پاس چارپائی پر آکر بیٹھ جائیں۔ مجھے شرم محسوس ہوئی۔ کہ میں حضور کے ساتھ برابر ہو کر بیٹھوں۔ حضور نے دوبارہ فرمایا کہ شاہ صاحب آپ میرے پاس چارپائی پر آجائیں۔ میں نے عرض کی کہ حضور میں یہیں اچھا ہوں۔ تیسری بار حضور نے خاص طور پر فرمایا کہ آپ میری چارپائی پر آکر بیٹھ جائیں کیونکہ آپ سیّد ہیں اور آپ کا احترام ہم کو منظور ہے۔‘‘(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ ۷۹۱ تا ۷۹۲روایت نمبر ۹۱۶)

عاشقِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک نہایت اہم صفت اپنے معشوق سے دشمنی کرنے والوں سے دشمنی رکھنا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کوئی بات سننی برداشت نہ کی۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ سفر میں تھے اور لاہور کے ایک سٹیشن کے پاس ایک مسجد میں وضو فرما رہے تھے۔ اس وقت پنڈت لیکھرام حضور سے ملنے کے لئے آیا اور آکر سلام کیا مگر حضرت صاحب نے کچھ جواب نہیں دیا۔ اُس نے اس خیال سے کہ شاید آپ نے سنا نہیں دوسری طرف سے ہو کر پھر سلام کیا۔ مگر آپؑ نے پھر بھی توجہ نہیں کی۔ اس کے بعد حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ حضور پنڈت لیکھرام نے سلام کیا تھا۔ آپؑ نے فرمایا۔ ’’ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے۔ اور ہمیں سلام کرتا ہے۔‘‘(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ ۲۵۴ روایت نمبر ۲۸۱) اسی طرح ایک اور واقعہ یہ بھی ملتا ہے کہ حضور علیہ السلام کے اصحابؓ جن میں حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ایک مجلس میں تھے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف باتیں کی گئیں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس واقعہ کا پتا چلا اور یہ علم ہوا کہ آپؑ کے اصحاب وہاں سے اٹھ کر نہیں گئے تو آپؑ سخت ناراض ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بہت غیرت تھی اور آپؑ حضورؐ کی کسی قسم کی مخالفت کو برداشت نہیں کرتے تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر عشق تھا کہ نہ صرف اپنوں اور دوستوں نے اس کی گواہی دی بلکہ دشمنوں نے بھی اس کا مشاہدہ کیا اور اس کی شہادت دی۔ بابو محمد عثمان صاحب لکھنوی بیان کرتے ہیں کہ ’’چونکہ لالا بڈھا مل کا ذکر اکثر کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں موجود ہے۔ اس لئے میں نے ان سے ملنا چاہا۔ ایک دن بورڈنگ سے واپسی پر بازار میں اُسکے پاس گیا اور ایک دکان پر جا کر اس سے ملاقات کی۔ میں نے کہا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اوائل عمر میں دیکھا ہے۔ آپ نے ان کو کیسا پایا۔ کہنے لگا کہ میں نے آج تک مسلمانوں میں اپنے نبی سے ایسی محبت رکھنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا۔‘‘ (سیرت المہدی جلداوّل صفحہ ۵۱۲ روایت نمبر ۴۸۸)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کامل عاشقِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھے اور اس کا اظہار آپ کے ہر قول ہر فعل ہر تحریر ہر تقریر سے ملتا ہے۔ آپؑ نے جو کچھ پایا کامل اتباعِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پایا۔ آپؑ فرماتے ہیں :’’سو آخری وصیت یہی ہے کہ ہر ایک روشنی ہم نے رسول نبی امی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا اور ایسی قبولیت اس کو ملے گی کہ کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیں رہے گی۔‘‘ (سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۸۲)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button