دورہ جرمنی اگست؍ ستمبر ۲۰۲۳ءرپورٹ دورہ حضور انور

سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی (۳۰؍اگست ۲۳ء بروز بدھ)

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

٭…جرمنی کے شہر Karben میں ’مسجد صادق‘ کا افتتاح اور یادگاری تختی کی نقاب کشائی

٭… مسجد کی عمارت کا تفصیلی معائنہ اور احبابِ جماعت سے مختلف امور پر گفتگو٭… مسجد صادق کے قیام کی مختصر تاریخ

٭… مسجد کے افتتاح کے موقع پر علاقے کے معزّزین کے ساتھ منعقد ہونے والی افتتاحی تقریب میں بصیرت افروز خطاب نیز مہمانوں کے تاثرات

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بج کر چالیس منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ پرتشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔ حضور انور کی مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔

آج Karben شہر میں ’’مسجد صادق‘‘ کے افتتاح کا پروگرام تھا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز چار بج کر پچاس منٹ پر اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور فرنکفرٹ سے Karben کے لیے روانگی ہوئی۔ یہاں سے کاربن شہر کا فاصلہ ۱۹؍ کلو میٹر ہے۔ سترہ منٹ کے سفر کے بعد پانچ بج کر سات منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی ’’مسجد صادق‘‘ تشریف آوری ہوئی۔ یہاں کے مقامی جماعت کے افراد نے بڑے پرجوش اور والہانہ انداز میں اپنے پیارے آقا کا استقبال کیا۔ ان کے لیے آج کا دن بے انتہا خوشیوں اور برکتوں کا حامل دن تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک قدم دوسری مرتبہ ان کے مسکن میں پڑے تھے۔ اس سے قبل ۱۷؍ جون ۲۰۱۴ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز یہاں تشریف لائے تھے اور مسجد صادق کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔

آج ہر کوئی بےحد خوش تھا۔ جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ گاڑی سے باہر تشریف لائے تو احباب جماعت نے خوشی سے نعرے بلند کیے اور بچوں اور بچیوں نے گروپس کی صورت میں خیر مقدمی دعائیہ نظمیں پیش کیں۔ اس موقع پر Karben شہر کے صدر جماعت مکرم عاطف شہزاد ورک صاحب،ریجنل امیر مظفر احمد بھٹی صاحب اور یہاں کے مربی سلسلہ تحسین رشید صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خوش آمدید کہا۔

بعد ازاں حضور انور نے مسجد کی بیرونی دیوار میں نصب تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی۔

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد کے ہال میں تشریف لے گئے اور نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں جس کے ساتھ ہی مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔

نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور نے جماعت کی تجنید کے بارہ میں دریافت فرمایا تو لوکل صدر صاحب جماعت نے عرض کیا کہ ہماری تجنید ۲۸۰؍ کے قریب ہے۔

حضور انور کے استفسار پر کہ یہاں سے لوگ کام کاج کے لیے کہاں جاتے ہیں اس پر صدر صاحب نے عرض کیا کہ فرنکفرٹ جاتے ہیں اور آجکل بہت سے لوگ اپنے گھروں سے بھی آن لائن کام کر رہے ہیں۔

بعد ازاں حضور انور نے اس شہر میں نئے آنے والے احباب کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ اس پر ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ احمد خان منگلا صاحب کے بیٹے ہیں اور ۲۰۱۸ء میں ربوہ سے یہاں آئے تھے۔

ربوہ سے آنے والے ایک طالبعلم نے بتایا کہ وہ یہاں فی الحال کام بھی کر رہے ہیں اور ساتھ جرمن زبان کا کورس بھی کر رہے ہیں۔

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد سے ملحقہ کامن روم اور دفتر کا معائنہ فرمایا۔ اس دوران بچے باہر قطاروں میں کھڑے ہوچکے تھے۔ حضور انور نے ازراہ شفقت بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد کے اُس حصہ میں تشریف لے آئے جہاں لجنہ موجود تھیں۔ یہاں بچوں نے حضور انور کی خدمت میں دعائیہ نظمیں پیش کیں۔ خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہوئیں۔ خواتین کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے باہر مارکی میں بھی خواتین کا انتظام کیا گیا تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ خواتین کی مارکی میں بھی تشریف لے آئے اور ازراہ شفقت بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کے بیرونی احاطہ میں بادام کا پودا لگایا۔

اس کے بعد ممبران مجلس عاملہ جماعت Karben اور کارکنان شعبہ سو مساجد اور مسجد کی تعمیر کے دوران وقار عمل کرنے والی ٹیم نے حضور انور کے ساتھ گروپ کی صورت میں تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔

مسجد صادق کے افتتاح کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام مسجد سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع شہر کے ٹاؤن ہال میں کیا گیا تھا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزمسجد سے پانچ بج کر ۴۵ منٹ پر روانہ ہوکر پانچ بج کر ۵۵ منٹ پر اس ہال میں تشریف لے آئے۔ حضور انور کی آمد سے قبل اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمان اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ آج کی اس تقریب میں ۹۱؍ مہمان شامل ہوئے۔ جن میں مختلف سیاسی پارٹیوں CDU، SPD، DIE GRUNEN اور FDP کے مقامی اور صوبائی سیاستدان، CATHOLIC CHURCH کے نمائندے، PROTESTANT CHURCH کے نمائندے، MORMON CULTURE REGION کے نمائندے، پولیس، فائر بریگیڈ، وکلاء، مختلف رفاہی اداروں کے نمائندے، سپورٹس کلب اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مہمان شامل تھے۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم حافظ بدریا سر اشرف صاحب نے کی۔ اور مکرم یاسر احمد صاحب نے اس کا جرمن زبان میں ترجمہ پیش کیا۔

اس کے بعد مکرم امیر صاحب جرمنی نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔

امیر صاحب نے اس شہر کے تعارف میں بتایا کہ سال ۱۹۷۰ء میں شہر کاربن کی پیدائش کا آغاز ہوا۔ لیکن شہر کی جڑیں اس سے بھی بہت قدیم ہیں۔ شہر کاربن کے نام کا ذکر پہلی مرتبہ ۱۸۲۷ء میں ملتا ہے۔

اس شہر میں ۱۹۸۷ء سے احمدی آباد ہونا شروع ہوئے۔ لیکن جماعت کا باقاعدہ قیام ۱۹۸۸ء میں ہوا۔ آغاز میں چھ فیملیز پر مشتمل ۲۵؍ افراد کی جماعت تھی اور اب یہ تعداد ۲۷۶؍ تک پہنچ چکی ہے۔

شروع میں مختلف گھروں میں سینٹر بنا کر نمازیں ادا کی جاتی تھیں۔ بعد ازاں نمازوں اور اجلاسات کے لیے ایک چھوٹا سا گھر کرایہ پر لیاگیا جو سال ۲۰۱۳ء تک استعمال ہوتا رہا۔ اس کے بعد شہر کے ٹائون ہال کے تہ خانہ میں ایک جگہ حاصل کی گئی۔ جہاں جماعت اپنے پروگرام منعقد کرتی رہی۔

کاربن (Karben) میں جماعت احمدیہ مسلمہ کئی سالوں سے فلاحی سرگرمیوں کی وجہ سے معروف ہے۔ سال ۲۰۱۳ء سے ہمارے نوجوانوں کی ذیلی تنظیم کاربن شہر کا کچرا اور گند اٹھانے کی مہم میں شامل ہے۔ اس طرح باقاعدگی سے نئے سال کے موقع پر صفائی کا اہتمام کرتی ہے۔

سال ۲۰۱۳ء میں مسجد کے لیے پلاٹ کے حصول کی بات چیت ہوئی اور عمارت کی ابتدائی درخواست منظور ہوگئی تو سال ۲۰۱۴ء میں ۸۳۴؍ مربع میٹر کا یہ قطعہ زمین حاصل کرنے کی توفیق ملی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ۱۷؍ جون ۲۰۱۴ء کو یہاں تشریف لاکر مسجد صادق کا سنگ بنیاد رکھا۔

نماز ہال کے ساتھ ایک ملٹی پرپز روم بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ ان دونوں کا تعمیراتی رقبہ ۱۲۶؍ مربع میٹر ہے۔ اس کے علاوہ ایک دفتر بھی ہے اور بعض اور چھوٹے کمرے ہیں جو بطور دفاتر استعمال کیے جائیں گے۔ مسجد سےملحقہ ایک کچن اور ایک گیسٹ روم بھی ہے۔ گنبد کا قطر چھ میٹر ہے۔ دو مینار تعمیر کیے گئے ہیں ہر ایک کی اونچائی سات میٹر ہے۔ اس مسجد کی تعمیر ساٹھ لاکھ پچاس ہزار یوروز میں مکمل ہوئی ہے۔

امیر صاحب جرمنی کے ایڈریس کے بعد Natalie Pawlikصاحبہ جو کہ جرمن پارلیمنٹ کی ممبر ہیں نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا

میں His Holiness کی خدمت میں سلام عرض کرتی ہوں۔ اسی طرح نیشنل امیر Abdullah Wagishauserصاحب اور میئر صاحب اور تمام معزز مہمانوں کو سلام پیش کرتی ہوں۔

اس کے بعد موصوفہ نے کہا کہ سب سے پہلے میں آپ لوگوں کی دعوت کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ مجھے صادق مسجد کے افتتاح کے موقع پر آپ سے مخاطب ہونے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ جماعت احمدیہ مسلمہ کے ممبران کو اس مسجد کے افتتاح سے اب ایک ایسی جگہ میسر ہےجس میں وہ امن پاتے ہیں اور جس میں آپ لوگ اپنی عبادتیں وغیرہ اکٹھے مل کر بجا لاسکتے ہیں۔

بعد ازاں انہوں نے کہا کہ مذہبی آزادی جرمنی کے آئین کا ایک بنیادی حصہ ہے۔ لیکن اگر ہم مختلف ممالک کی طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ حقوق ہر جگہ اس طرح سے ہر ایک کو میسر نہیں ہیں۔ لوگوں کو ان کے مذہب کی وجہ سے ظلم سہنے پڑتے ہیں۔ افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ احمدی مسلمانوں پر بھی ایسا ظلم ہوتا ہے۔ کئی ممالک میں جیسا کہ پاکستان یا برکینافاسو میں آپ لوگوں کے پیاروں پر ظلم کیا جاتا ہے، مذہب کی وجہ سے آپ لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، آپ لوگوں کی مساجد اور قبرستان توڑدیے جاتے ہیں۔ آپ لوگوں کے لیے امن میں رہنا ممکن نہیں اور آپ لوگوں کو اپنی جانوں کا خطرہ رہتا ہے۔ میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ ایسے حادثات کو مشہور کردیا جائے تا کہ دنیا کو پتا چلے۔ پھر تمام جمہوریت پسند لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ آپ لوگوں کا ساتھ دیں۔ اقلیتوں کا تحفظ اصل میں امن کا ذریعہ ہوتا ہے۔ امن تب ہی مستقل طور پر قائم کیا جاسکتا ہے، جب ہم ہر ایک کے لیے ایسے حالات پیدا کریں کہ آزادی میں اور ظلم سے بچ کر رہ سکے۔

موصوفہ نے کہا مذہب کی وجہ سے ہم میں فاصلہ نہیں پیدا ہوناچاہیے۔ اس علاقہ میں ہم سب کا آپس میں مل جل کر رہنے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔ اور اس کام میں جماعت احمدیہ مسلمہ کا بھی ایک بہت بڑا کردار ہے۔

بعدازاں موصوفہ نے کہا کہ کچھ ماہ قبل مجھےشہر Nidda میں جماعت احمدیہ مسلمہ کے ساتھ ان کی سو سالہ جوبلی منانے کا موقع ملا۔ لیکن ہمارے بہت سے شہریوں کو معلوم ہی نہیں کہ اتنے لمبے عرصہ سے مسلمان ہمارے درمیان رہتے ہیں۔ اس وقت مجھے یہ موقع ملا تھا کہ میں خود اس بات کی گواہ بن سکی کہ آپ لوگوں کا ماٹو محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ آپ لوگ ایسا عمل بھی کرتے ہیں۔ آپ لوگ کچھ چھپاتے نہیں اور جرمنی میں آپ لوگ فعال ہیں اور سب سے آپ رابطے رکھتے ہیں۔ میری آپ لوگوں کے لیے یہی تمنا ہے کہ مسجد صادق میں آپ لوگ آپس میں خوشی سے ملیں اور امن قائم کرتے چلیں۔ شکریہ۔

بعد ازاں صوبائی ممبر پارلیمنٹ Tobias Utter نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوف نے سب سے پہلے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو سلام پیش کیا اور خوش آمدید کہا۔ اس کے بعد تمام حاضرین کو خوش آمدید کہا۔

اس کے بعد انہوں نے کہا کے مجھے دوسری مرتبہ یہ خاص اعزاز حاصل ہو رہا ہے کہ میں جماعت احمدیہ مسلمہ کی ایک مسجد کے افتتاح کے موقع پر کچھ بیان کرسکوں۔ بطور صوبائی ممبر پارلیمنٹ میں آپ لوگوں کو سب کی طرف سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

پھر موصوف نے کہا کہ احمدیہ مسلم جماعت Karben کو آج مسجد کے افتتاح کا موقع مل رہاہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جرمنی میں حقیقت میں مذہبی آزادی ہر ایک کو میسر ہوتی ہے۔یہ سہولت ہر ایک کو آجکل بھی ہر جگہ اس طرح میسر نہیں۔ یقیناً آپ کو یہ بھی سیکھنا پڑا کہ جرمنی میں تعمیراتی کام کے قانون کتنے مشکل ہیں۔ لیکن آپ نے اب مسجد مکمل کر لی ہے۔ مسجد ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں عبادت کی جاسکے لیکن ساتھ ہی اس جگہ پر لوگ آپس میں ملتے بھی ہیں اور یہ ایک امن کی جگہ بھی ہوتی ہے۔ مجھے ہر بار خوشی ہوتی ہے کہ جماعت احمدیہ کو صرف اپنے جماعت کے ممبران کی فکر نہیں ہوتی بلکہ احمدی مسلمانوں کو اپنے دین میں اس بات کی بھی توجہ ہے کہ انسانیت کی مجموعی طور پر خدمت کی جائے۔ His Holiness نے سوموار کو یہ بات واضح کی کہ ہمسائے کی خدمت مذہبی طور پر فرض ہے۔ مجھے تو Hesse کی احمدی سوسائٹی کے فعال ممبران دیکھنے کو ملتے ہیں۔

موصوف نے پاکستان میں احمدیوں اور عیسائیوں کی مخالفت اور ان پر مظالم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کیونکہ ایسے ظالم لوگ ناجائز طور پر مذہب کا نام استعمال کرتے ہیں تا کہ اپنے غلط کام کرسکیں اس لیے بہت سے لوگوں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ لیکن خاص طور پر ایسے اندھیرے وقت میں خدا کے نور کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اور پیار اور امن کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ہمیں ایسے انسانوں کی ضرورت ہے جو اتنی طاقت رکھتے ہوں جو لوگوں کے غلط نعروں سے مت گھبرائیں۔ خلیفة المسیح نے اپنی مختلف ملاقاتوں اور مختلف خطابات میں امن قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ یہ آپ کی تصنیف D’’Die Weltkriese und der Weg zum Frieden‘‘n سے واضح ہوتا ہے۔

آخر پر موصوف نے کہا کہ ہمارے لیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ خلیفة المسیح ایک بار پھر Karben تشریف لائے ہیں اور اپنی آمد سے مسجد کے افتتاح کو خاص کردیا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا گھر ہمیشہ ایک رواداری والا گھر رہے، جہاں لوگوں کی مدد کی جائے اور انہیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ترغیب دلائی جائے اور خداتعالیٰ کا پیار ہم میں ظاہر ہو۔

اس کے بعد Karben شہر کے میئرGuido Rahn صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کر تے ہوئے کہا

میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خوش آمدید کہتا ہوں۔اسی طرح تمام حاضرین کو سلام عرض کرتا ہوں۔ ہمارے لیے یہ نہایت ہی اعزاز کی بات ہے کہ جماعت احمدیہ کے روحانی سربراہ ۲۰۱۴ء کے بعد اب دوسری بار ہمارے پاس Karben میں تشریف لائے ہیں۔ آج کا یہ پروگرام شہر Karbenکے لیے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔

اس کے بعدمیئر صاحب نے کہا کہ جس چیز کی مجھے بطور میئر ہونے کے خاص طور پر خوشی ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ اگر میں اس ہال میں اپنی نظر دوڑاؤں تو مجھے دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہ پروگرام صرف احمدیہ جماعت کے ممبران کے لیے نہیں ہے بلکہ آپ لوگ تو صحیح رنگ میں Karben کا حصہ بن چکے ہیں۔ کیونکہ ہر طبقہ کے لوگ ادھر مل رہے ہیں۔ آپ نے تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندے بلائے ہوئے ہیں، پولیس کے نمائندگان موجود ہیں، فائر بریگیڈ موجود ہے، لوکل سپورٹس کلبز کے نمائندگان حاضر ہیں۔ آپ سب سیکھ سکتے ہیں کہ Karben کے بہت سے شہریوں نے آپ کی دعوت قبول کی ہے اور آج ادھر یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ لوگ Karbenکا حصہ بن چکے ہیں اور integrate ہو چکے ہیں۔ احمدیہ مسلم جماعت کو Karben میں 25؍ سال ہوچکے ہیں۔ یہ معمولی عرصہ نہیں۔ آپ لوگوں کایہ وطن بن چکا ہے۔

بعد ازاں میئر صاحب نے کہا کہ تعمیراتی کام میں صرف آپ کو ہی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ ہمیں بھی بہت سی رکاوٹیں پیش آتی رہتی ہیں۔لیکن ایک بات ہمارے لیے بالکل واضح تھی اور وہ یہ کہ جس کا وطن اب ادھر ہے وہ پھر ایک عبادت گاہ بھی ادھر چاہتا ہے۔بے شک کچھ دیر لگی ہے لیکن اب یہ کام مکمل ہوگیاہے۔ Karben شہر میں ہم ہر ایک کو خوش آمدید کہیں گے جو ہمارے آئین کے مطابق امن میں رہنا چاہتا ہو۔ آپ لوگ تو خاص طور پر ان تمام چیزوں کا خیال رکھتے ہیں بلکہ سوسائٹی کے مفید وجود بھی ہیں۔ یہ دوسروں کو بھی دیکھنا ہو گا اور آپ لوگوں سے یہ سیکھنا ہو گا۔

اس کے بعد میئر صاحب نے کہا کہ میں اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بات بالکل ناقابل برداشت ہے کہ کسی پر صرف اس کے مذہب یا کسی اور قومیت ہونے کی بنا پر ظلم کیا جائے یا اسے ماردیا جائے۔ نہایت ہی افسوس کی بات ہے کہ اس زمانہ میں بھی ابھی تک ایسے لوگ ہماری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے میں یہی کہتا ہوں کہ Karben شہر ہر ایک کو خوش آمدید کہتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔

آخر پر میئر صاحب نے کہا کہ مجھے نہایت خوشی ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمہ کے سربراہ ہمارے ہاں موجود ہیں اور آپ سب آج یہاں آئے ہوئےہیں۔شکریہ۔

اس کے بعد ۶ بج کر ۳۳ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔

خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع افتتاحی تقریب مسجد صادق Karben جرمنی

تشہد و تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

تمام معزز مہمانان کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اتنے عرصہ کے بعد جماعت احمدیہ مسلمہ کو اس شہر میں مسجد بنانے کی توفیق ملی۔ اس لیے اس شہر کے میئر، کونسلرز اور شہری سب کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر کو ممکن بنانے میں ہماری مدد کی۔ یہ شکریہ صرف زبانی شکریہ نہیں، بلکہ ہمارا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ اسلام کا یہ حکم ہے، بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتے۔ پس ایک لحاظ سے یہ ہمارا مذہبی فریضہ بھی ہے کہ ہم ان کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے اس کام میں ہماری مدد کی اور آج خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ مسلمہ کو اس شہر میں ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد میسر آ سکی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

عبداللہ صاحب امیر جماعت جرمنی نے اس شہر کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ذکر کیا کہ یہ مسجد شہر کے درمیان میں ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ جہاں شہر میں دنیاوی اور مادی چیزوں کے لیے بہت زیادہ سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں وہاں ہی خدا تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں کے لیے بھی جگہ ہونی چاہیے تاکہ وہ وہاں جمع ہو کر ایک خدا کی عبادت کر سکیں۔ مسجد بھی ہو، چرچ بھی ہو اور دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں بھی ہونی چاہئیں اور جب یہ سب اکٹھے ہوںگے تو پھر پتا چلے گا کہ مذہب ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر اور تعاون سے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ کوئی مذہب ایسا نہیں، کسی مذہب کا بانی ایسا نہیں جس نے شدت پسندی کی تعلیم دی ہو، فساد پیدا کرنے کی تعلیم دی ہو۔ تمام انبیاء ہمارے ایمان کے مطابق خدا تعالیٰ کی طرف سے آئےتو خداتعالیٰ نے انہیں یہ تعلیم دے کر بھیجا کہ تم خدا کی عبادت کرنے کی طرف توجہ دلاؤ۔ ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی طرف لوگوں کو توجہ دلاؤ۔ امن اور پیار اور بھائی چارہ کو فروغ دینے کی طرف لوگوں کو توجہ دلاؤ۔ پس اس لحاظ سے یہ ایک اچھی بات ہے کہ یہاں ہمیں ایک ایسی جگہ مسجد مل گئی، جہاں ہم مرکز میں رہتے ہوئے اپنے اردگرد کے لوگوں کو اسلام کی حسین تعلیم کے متعلق بتا سکیں گے۔ جو غلط تصور بعض غلط قسم کے مسلمانوں نے اسلام کے متعلق پیدا کر دیا ہے اور بدقسمتی سے اکثریت اس غلط قسم کے تصور پر چل رہی ہے، اس کو ہم ردّکرنے والے بنیں گے اور قرآن اور حضرت محمدﷺ کی سنت اور عمل سے یہ بتائیں گےکہ اسلام کی اصل تعلیم تو امن، پیار، محبت اور آشتی کی تعلیم ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

مسجد کے خلاف شروع میں بعض لوگوں نے مخالفت بھی کی۔ جیسا کہ ہمارے امیر صاحب نے بتایا اور یہ ان کی مخالفت شاید ایک حد تک جائز بھی ہوکیونکہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا انہوں نے مسلمانوں کے رویّے دیکھے۔ انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں میں شدت پسندی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کے اکثر ملکوں میں ایک دوسرے کے حق نہیں ادا کیے جا رہے۔ تو شاید اس وجہ سے ان کو اعتراض ہوا ہو۔ لیکن جب وہ ہماری مسجد دیکھیں گے، ہمارے رویّے دیکھیں گے، حقیقی اسلام کا نمونہ دیکھیں گےتو ان کے شکوک وشبہات مزید دور ہو جائیں گے۔ اور جیسا کہ خود لوگوں کے عمل نے ثابت کیا کہ وہی لوگ جو مخالف تھے، آج ہمارے دوست بھی ہیں اور انہوں نے مخالفت ترک کر دی۔ آہستہ آہستہ اس مخالفت میں مزید کمی ہوتی جائے گی اور لوگوں کو اسلام کے بارہ میں مزید تعارف ہوتا چلا جائے گا۔ اور یہ دائرہ دوستی کا ہم امید رکھتے ہیں کہ بڑھتا چلا جائے گا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اسی طرح حکومت کی طرف سے اقلیت کی نمائندہ بھی آئیں۔ انہوں نے بڑی اچھی بات کی کہ مذہبی آزادی ہونی چاہیےاور ان کے ملک جرمنی کا جو قانون ہے وہ مکمل طور پر مذہبی آزادی دیتا ہے۔ ہم اس کے لیے حکومت کے شکرگزار بھی ہیں کیونکہ یہ مذہبی آزادی ہی ہے جس کی وجہ سے بہت سے پاکستانی لوگ یہاں آکر اس لیے آباد ہوئے کہ ان کو اپنے ملک میں مذہبی آزادی نہیں تھی۔ یہاں آکر انہیں آرام سے حکومت کی پناہ میں رہنے کی توفیق ملی تاکہ وہ مذہبی آزادی کا حق بغیر کسی روک ٹوک کے صحیح طور پر استعمال کر سکیں۔ اس لحاظ سے بہرحال ہم حکومت کے شکرگزار ہیں کہ جہاں جن ملکوں میں لوگوں کی مذہبی آزادی کو پامال کیا جاتا ہے یا کسی بھی آزادی کو پامال کیا جاتا ہے ان ملکوں میں انہیں خوش آمدید کہا جاتا ہےاور اپنے اندر جذب کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہ بھی بڑی خوش کن بات انہوں نے کی کہ یہاں مختلف مذاہب کے لوگ پیار سے رہتے ہیں اور یہی تعلیم ہے جیسا کہ شروع میں میں نے ذکر کیاکہ ہر مذہب کا بانی یہ تعلیم لے کر آیا کہ جہاں تم اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت کرو، وہاں آپس کے حقوق ادا کرو اور ایک دوسرے کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حقوق ادا کرنا اسلام کا بنیادی حکم ہے۔اسلام یہ تعلیم نہیں دیتا کہ صرف اپنے حقوق کے لیے لڑو۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ دوسروں کے حق ادا کرنے کی کوشش کرو۔ جب تم دوسروں کے حق ادا کرنے کی کوشش کرو گے تو پھر دنیا میں امن بھی قائم ہوگا اور محبت اور پیار کا معاشرہ بھی قائم ہوگا۔ یہی چیز ہے جس کی آج ہمیں دنیا میں ضرورت ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ممبر آف پارلیمنٹ صاحب آئے ان سے دو دن پہلے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ ان کی باتیں بھی سنیں۔ انہوں نے اپنی وہی باتیں آج ایک نئے انداز میں پیش کیں اور جماعت احمدیہ کے ساتھ تعلق کا اظہار کیا۔ اس لیے ان کا بھی شکرگزار ہوں۔ اس بات کا بھی انہوں نے ذکر کیا کہ بعض جگہ پر مذہب کے نام پر خون کیے جا رہے ہیں۔ جس کی کبھی مذہب اجازت نہیں دیتا۔ مذہب تو کہتا ہے دوسروں کی خدمت کرو۔ جماعت احمدیہ، جہاں جہاں ہماری جماعت قائم ہے، جہاں جہاں لوگ ہماری جماعت میں شامل ہوتے ہیں، خاص طور پر افریقہ کے ممالک میں، ساؤتھ امریکہ کے ممالک میں، وہاں ہم یہ نہیں کہ صرف احمدی مسلمانوں کی خدمت کرتے ہیں، بلکہ ہر مذہب کے ماننے والے کی ہم خدمت کر رہے ہیں۔ افریقہ میں ہمارے سکول قائم ہیں، ہسپتال قائم ہیں۔ اسی طرح ماڈل ولیج ہم نے بنائے ہیں۔ پانی کی سہولتیں مہیا کر رہے ہیں۔ اور ان سے فائدہ اٹھانے والے ۸۰ فی صد وہ لوگ ہیں جن کا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں، وہ عیسائی ہیں یا دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ پس جماعت احمدیہ تو مذہبی آزادی کا صرف باتوں میں پرچار نہیں کرتی بلکہ عملاً ہم اس بات کا اظہار دنیا کے مختلف غریب ممالک میں کر رہے ہیں کہ غریبوں کو بلاتفریق مذہب تعلیم مہیا کی جائے، ان کا علاج کیا جائے، ان کو پینے کا پانی میسر کیا جائے۔ ہم یہاں ترقی یافتہ ممالک میں رہتے ہوئے اس بات کا تصور نہیں کر سکتے کہ صاف پانی پینے کی کیا اہمیت ہے۔ باوجود اس کے کہ حکومت کی طرف سے بار بار یہ یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ پانی کو احتیاط سے استعمال کریں۔ وہ لوگ جن کو پینے کا صاف پانی کیا میسر آنا ہے، ان کے بچوں کو تو تھوڑا سا پانی لینے کے لیے کئی کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ پھر وہ ایک بالٹی سر پر اٹھا کر لاتے ہیں اور گھر کی روزمرہ ضرورت پوری کرتے ہیں۔ ان ملکوں میں دوردراز کے گاؤں میں، علاقوں میں ہمارے والنٹیئر جاتے ہیں، کام کرتے ہیں، نلکے لگاتے ہیں، پمپ لگاتے ہیں اور انہیں پانی مہیا کرتے ہیں۔ جب ان کے گھر کے سامنے انہیں ٹیپ واٹر مل جاتا ہے۔ پینے کا صاف پانی میسر آ جاتا ہے تو ان کی خوشی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ شاید یہاں کسی کی بڑی رقم کی لاٹری نکل آئے تو اسے جتنی خوشی ہوتی ہو گی، ان کو صاف پانی دیکھ کر اتنی خوشی ہوتی ہےکہ اس تکلیف سے بچ گئے کہ اتنی دور جا کر پانی لے کر آئیں اور وہ پانی بھی گندا ہو جسے پینے کے بعد پھر بیماریاں پھیلتی ہوں۔پس جماعت احمدیہ یہ خدمات بھی دنیا میں سرانجام دے رہی ہے۔ جہاں جہاں ہماری جماعت قائم ہوتی ہے، مسجدیں بنتی ہیں وہاں ساتھ ساتھ یہ پراجیکٹ ہوتے ہیں اور کوئی ایسی شرط نہیں کہ احمدی مسلمان ہو تو یہ سہولتیں ملیں گی ورنہ نہیں۔ بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے اسّی فی صد وہ لوگ ہمارے پراجیکٹ سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو احمدی نہیں ہیں۔ انہوں نے افغانستان کی مثال دی کہ وہاں عورتوں کے حقوق ادا نہیں کیے جا رہے۔ اسلام اور قرآن کریم کی تعلیم تو یہ ہے کہ عورتوں سے حسن سلوک کرو۔ بلکہ اعلیٰ رنگ میں ان سے حسن سلوک کرو۔ قرآن کا یہ حکم ہے کہ جیسے تمہارے جذبات ہیں ویسے ہی عورتوں کے بھی جذبات ہیں۔ جیسے تمہاری خواہشات ہیں ویسی ہی ان کی بھی خواہشات ہیں۔ ان کو عزت و احترام سے دیکھو اور ان کی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرو۔ ہاں مذہبی اسلامی تعلیم کے اندر رہتے ہوئے عورتوں کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے، ہماری احمدی عورتوں میں بہت ساری ڈاکٹرز ہیں، انجینئرز ہیں، ایگلریکلچرسٹ ہیں، اکانومسٹس ہیں اور مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں اور خدمات کے لیے باہر بھی جاتی ہیں اور اپنی زندگیاں خدمت خلق کے کام کے لیے پیش کرتی ہیں۔ سو اس لحاظ سے عورتوں کے یہ سب حقوق ہیں۔ اسی طرح جائیداد کا حق ہے، اسلام نے عورتوں کو ہر قسم کا حق دیا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

بہرحال مذاہب کی عزت بہت ضروری ہے۔ تمام مذاہب کو اکٹھا رہنے کے لیے اور دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے، معاشرہ میں پیار و محبت پھیلانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی عزت کی جائےاور اسلام ہر مذہب کی عزت کا حکم دیتا ہے۔ میں نے گذشتہ دنوں جہاں ہماری مسجد کا افتتاح ہوا تھا، بتایا تھا کہ اسلام صرف اپنی مسجد کی حفاظت کی تعلیم نہیں دیتا۔ بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی چرچ پر حملہ کرے تو تم نے اس کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ اگر کوئی Synagogue پر حملہ کرے تو تم نے اس کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ اگر کوئی ٹیمپل پر حملہ کرے تو اس کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ پس یہ جو اسلام کے نام پر چرچوں کو جلاتے ہیں اور مختلف قسم کے حملے کرتے ہیں۔ یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے، قرآن کریم کی تعلیم تو جیسا کہ میں نے بیان کیا، اس کے بالکل خلاف ہے، وہ تو کہتا ہے ان تمام مذاہب کی حفاظت کرو۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

میئر صاحب نے بھی بہت اعلیٰ باتیں کیں۔ سیاسی پارٹیوں کا انہوں نے ذکر کیا کہ، آج اس مجلس میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے لوگ شامل ہیں۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ جماعت احمدیہ اپنے آپ کو اس معاشرہ میں نہ صرف integrateکر رہی ہے بلکہ سب کو اکٹھا کرکے ایک پلیٹ فارم پر لے کر آ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپس میں محبت اور پیار اور بھائی چارہ کی فضا قائم ہو۔ انسان کو بحیثیت انسان ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرنا چاہیے۔ یہی چیز ہے جو ہمیں ایک دوسرے کا حق ادا کرنے والا بنائے گی۔ یہی اسلام کا حکم ہے۔ قرآن کریم نے کہا ہے تمہارے لیے دو حکم ہیں، ایک اپنے پیدا کرنے والے کا حق ادا کرو اور دوسرا یہ کہ بندے آپس میں ایک دوسرے کا حق ادا کریں اور اس کے لیے پھر مختلف تفصیل بتائی کہ کس طرح حق ادا کرنا ہے۔ اگر یہ چیزیں پیدا ہو جائیں کہ صرف اپنے حق کے لیے نہ لڑیں بلکہ دوسرے کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ کریں تو پھر ہی حقیقی امن اور پیار کی فضا قائم ہوگی۔ پس ہم لوگ تو حق ادا کرنے والے اور حقیقی امن قائم کرنے والے لوگ ہیں۔ انہوں نے ہمسایوں کے حق کی بات کی ہے تو ہمسایوں کے حق کے بارہ میں صرف اتنا کہہ دیتا ہوں کہ بانی اسلام حضرت محمدﷺ نے ہمسایوں کے حق پر اتنا زور دیا کہ آپ ﷺ کے صحابہؓ نے یہ خیال کر لیا کہ شاید وراثت کے حق میں بھی انہیں شامل کر لیا جائے گا۔ تو اس حد تک اسلام کی تعلیم ہے۔ پس یہ باتیں ایسی ہیں جو پیار اور امن اور بھائی چارہ کو فروغ دیتی ہیں، اس کو پھیلاتی ہیں۔ یہی چیز ہے جس کے لیے آج ہم پوری دنیا میں کام کر رہے ہیں۔ یہی تعلیم ہے جس کے لیے ہم ہر کسی سے بلا تفریق مذہب تعلق رکھنا چاہتے ہیں اور یہی تعلیم ہے جو دنیا میں حقیقی امن اور بھائی چارہ قائم کرنے والی ہو گی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

مجھے امید ہے یہ مسجد بن جانے کے بعد اس کی عمارت آپ کو مزید اسلام کی تعلیم سے روشناس کروائے گی اور آپ کو پتا چلے گا کہ اسلام کے بارہ میں بعض لوگوں نے جو غلط نظریات پیدا کر دیے ہیں، وہ ان لوگوں کے اپنے ذاتی مفادات ہیں، ان کے western interests ہیں۔ ان کا اسلام کی اصل تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کی تعلیم تو پیار، محبت اور بھائی چارہ کی تعلیم ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے انسانوں کو یہ توفیق دےکہ وہ آپس میں پیارو محبت اور بھائی چارہ کے ساتھ رہنے والے ہو ں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے پیداکرنے والے خدا کو پہچاننے والے ہوں اور اس کی عبادت کرنے والے ہوں۔ جزاکم اللہ۔ شکریہ۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےدعا کروائی۔

تأثرات

آج کی اس تقریب میں شامل ہونے والے بہت سے مہمان اپنے جذبات اور تاثرات کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکے۔

یہاں بعض مہمانوں کے تاثرات پیش کیے جاتے ہیں۔

٭…ماغیو بِک (Mario Beck) جو کہ CDU کے لوکل پارٹی لیڈر ہیں نے کہا کہ میں پہلے کبھی کسی مذہبی اور روحانی شخصیت سے نہیں ملا اور خلیفہ سے ملنا میرے لیے باعث اعزاز ہے۔جب خلیفہ نے خطاب فرمانا شروع کیا تو مجھے اچھا لگا کہ آپ ایک عام انسان کی طرح خطاب فرما رہے تھے اور اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود آپ سے قربت محسوس ہو رہی تھی۔مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کے آپ نے اپنے سے پہلے مقررین کے خطابات کے بارہ میں بات کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف اپنی بات بیان کرنے کے لیے پہلے سے کوئی تقریر نہیں تیار کی تھی بلکہ مقامی ضرورت کے مطابق ارشادات فرمائے۔خلیفہ کا یہ فرمانا کہ مسجد کا شہر کے وسط میں ہونا بہت اچھی بات ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت ہمارے ساتھ رہنا چاہتی ہے اور پیار اور محبت کی فضا قائم کرنا چاہتی ہے۔جیسا کہ خلیفہ نے فرمایا کہ جو شروع میں مسجد کے مخالفین تھے اب ہمارے دوست ہیں یہی میں نے بھی محسوس کیا ہے کہ سب کے دلوں سے شبہات ختم ہو گئے ہیں۔خلیفہ کے خطاب سےہمیں معلوم ہوا ہے کہ اسلام تشددپسند مذہب نہیں ہے۔لوگ عموماً سعودی عرب کی طرف دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہی اسلام اصلی اسلام ہے مگر آپ کے خلیفہ نے واضح فرما دیا ہے کہ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔

٭…ایک مہمان خاتون مارگریٹ حاس (Margret Haas) جن کا تعلق New Zealand سے ہے مگر اب جرمنی میں مقیم ہیں۔ ان کو ۱۹۹۸ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ سے جرمنی میں ہی ملنے کا موقع ملا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب بہت دلچسپ تھا۔ خاص طور پر خلیفہ نے یہ جو فرمایا کہ مذاہب تو امن کا ذریعہ ہیں اور جس بھی مذہب سے کوئی تعلق رکھتا ہو اسے tolerant ہونا چاہیے۔ میں سمجھتی ہوں کو یہ بات امن کے قائم کرنے میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ مجھے خلیفہ نہایت عاجزی اختیار کرنے والے معلوم ہوئے۔

٭…ایک مقامی سیاستدان اَلبان کَرَشنِیقی (Alban Krasniqi)نے کہا کہ میں نے آج سیکھا ہے کہ اسلام سب انسانیت کی بہتری چاہتا ہے۔ خلیفہ کے وجود سے میں بہت متاثر ہوا ہوں اور میرے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ خلیفہ سے مجھے ملنے کا موقع ملا اور اسلام کی حقیقت کے بارہ میں سیکھنے کو ملا۔ مجھے خلیفہ کی یہ بات خاص طور پر اچھی لگی کہ ہمیں امن کو قائم کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کرنی چاہیے اور اس کام میں دوسروں کی مدد بھی کرنی چاہیے۔ہمارے لیے تو یہ ایک معمولی بات ہے کہ ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہے مگر آج میں نے سیکھا ہے کہ ایسے امن پسند لوگ بھی دنیا میں ہیں جن کو تکلیفیں دی جاتی ہیں اور مذہبی آزادی حاصل نہیں۔ خلیفہ نے افریقہ میں رہنے والوں اور خاص طور پر افریقن بچوں کے جو حالات بیان فرمائے اور جماعت کس طرح سے بے لوث خدمت کر رہی ہے اس سے میرا دل بھر آیا ہے۔ خلیفہ کا طرز بیان بہت ہی اچھا ہے اور آپ سے امن و سکون کی شعاعیں محسوس ہوتی ہیں۔ آپ کےارشادات بہت گہرے مطالب کے حامل ہیں۔

٭…ایک مہمان خاتون کرِستِینا شُوستَا (Kristina Schuster) جن کا تعلق مقامی catholic community سے ہے انہوں نے کہا کہ خلیفہ کے خطاب سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں۔خلیفہ کیونکہ ایک مذہبی راہنما ہیں اس لیے میں توقع کر رہی تھی کہ وہ صرف اپنے مذہب اور اس کی تعلیم اور اس کی بڑائی کی باتیں کریں گے اور اگر ایسا خلیفہ کرتے تو بھی مجھے آپ کی باتیں اچھی ہی لگنی تھیں مگر مجھے یہ بات بہت پسند آئی کہ آپ نے عمومی امور کے بارہ میں ارشادات فرمائے جن کا تعلق ہم سب سے تھا۔ خلیفہ کے خطاب کی سب سے اہم بات مجھے یہ لگی ہے کہ ہمیں ایک ساتھ امن اور پیار اور محبت کے ساتھ رہنا چاہیے اور یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عیسائیت میں ان امور کے بارہ میں زیادہ توجہ دی جاتی۔ آج خلیفہ کے خطاب سے مجھے دوبارہ ان ضروری امور کی یاددہانی ہوئی ہے۔ خلیفہ کےوجود کے لیے میرے دل میں ایک خاص تعظیم قائم ہوئی ہے۔جس طرح ہمارے لیے پوپ سے ملنا ایک بہت بڑا اعزاز ہے اسی طرح یقیناً احمدیوں کے لیے بھی اپنے خلیفہ سے ملاقات ایک اعزاز ہوگا مگر میرے لیے بھی خلیفہ کی مجلس میں شامل ہونا بہر حال ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔

ایک مہمان خاتون گابرِیئیلے راتَتسی شٹول (Gabrielle Ratazzi Stoll) جو کہ ایک رفاہی ادارہ کی کارکن ہیں انہوں نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب ایک امن کا خطاب تھا۔ مجھے آپ کے خطاب میں یہ بات بہت پسند آئی کہ اگر احترام اور ایک دوسرے کا خیال جیسے بنیادی اصول کا خیال رکھا جائے تو ہم سب امن اور محبت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں چاہے کوئی کس رنگ، نسل یا قوم کا ہو۔ خلیفہ نے جو کچھ بنیادی اصول بیان فرمائے ہیں ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔خلیفہ کے خطاب سے مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ احمدیت وہ اسلام نہیں جو ٹی وی اور میڈیا میں دکھایا جاتا ہے۔خلیفہ کا طرزِ بیان بہت گہرا ہے اور پر حکمت ہے جس کی وجہ سے خلیفہ کے وجود میں سکون و امن محسوس ہوتا ہے اور آپ کے ارشادات بہت مستند معلوم ہوتے ہیں۔ میں اس بات سے بھی بہت متاثر ہوئی ہوں کہ خلیفہ نے یہاں تشریف لا کر صرف اسلام کا propaganda نہیں کیا بلکہ ایسے امور کے بارہ میں خطاب فرمایا جس کا تعلق سب سے ہے اور سب کے لیے ضروری ہے جس وجہ سے آپ کے خطاب کو سننے میں بہت مزا آیا۔

٭…ایک مہمان اَندرِیاس لنکے (Andreas Linke) تھے جو کہ مسجد کے ان ہمسائیوں میں سے ایک تھے جو شروع میں مسجد کے مخالف تھے مگر بعد میں جماعت کے دوست بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ میرے لیے اصل مسئلہ یہ بنا تھا کہ شہری انتظامیہ نے مجھ سے سچی اور سیدھی بات نہیں کی۔ مثلاً مجھے یہ نہیں بتایا کہ جو property میں خریدنے لگا تھا اس کے ساتھ والے پلاٹ پہ ایک مسجد بننے والی ہے جو کہ ہمارے معاشرہ میں کوئی عام بات نہیں۔ پھر میرے پلاٹ کے ساتھ ایک چھوٹا سا حصہ تھا جو میں خریدنا چاہتا تھا جس کی خرید سے مجھے شہری انتظامیہ نے منع کردیا تھا مگر بعد میں جماعت کو مسجد کی پارکنگ کے لیے دے دیا۔ اس وجہ سے مجھے ناانصافی محسوس ہوئی اور مجھے غصہ تھا۔ ورنہ تو میرا تعلق صدر جماعت ورک صاحب سے بھی اچھا ہے اور احترام والا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خلیفہ کا خطاب بہت اعلیٰ تھا کیونکہ جرمنی میں اسلام کی تصویر بہت بری ہے اور خلیفہ نے ہمیں بتایا کہ اسلام کی اصل تصویر کیا ہے۔ سب سے اہم بات خلیفہ کے خطاب کی یہ تھی کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں اور امن کو قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے رابطہ بھی رکھنا چاہیے اور احترام بھی کرنا چاہیے۔

٭… ایک مہمان نوربرت گغوئےلِش (Norbert Greulich) جن کا تعلق protestant church سے ہے اور retirement کے بعد اب صرف مختلف رفاہی کام طوعی طور پر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بہت اچھا لگا ہے کہ خلیفہ نے اپنا خطاب بڑے آرام اور تحمل سے دیا اور اپنا خطاب مقامی حالات کے مطابق دیا۔ایک بات مجھے بہت اچھی لگی ہے کہ خلیفہ نے بہت سادہ انداز میں نہایت ہی ضروری امور کے بارہ میں خطاب فرمایا۔خلیفہ کے خطاب کا میں نے تو ترجمہ ہی سنا ہے مگر ساتھ ساتھ خلیفہ کی اپنی آواز بھی سنی جو کہ بہت سکون دینے والی ہے۔مجھے یہ بات بھی بہت اچھی لگی ہے کہ خلیفہ نے خاص طور پر آپس میں اچھے تعلقات رکھنے کی اہمیت پر توجہ دلائی ہے۔میرے لیے اسلام احمدیت کے بارہ میں کوئی بات نئی نہیں تھی کیونکہ میں جماعت احمدیہ کو لمبے عرصہ سے جانتا ہوں اور مجھے پتا ہے کہ جماعت احمدیہ جو کہتی ہے وہ عملاً کرکے بھی دکھاتی ہے۔

٭… ایک مہمان والٹر ہورتس (Walter Horz) جو کہ مقامی پلاننگ ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کوئی خاص سوچ یا امید کے ساتھ یہاں نہیں آیا تھا مگر میں حیران رہ گیا ہوں کہ یہ کیسی عظیم مجلس تھی اور کتنی عظیم باتیں یہاں پر ہوئیں اور مہمان نوازی کتنی اچھی تھی۔میں ساتھ والے گاؤں سے ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپ ہمارے پاس بھی آئیں۔ مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ خلیفہ نے خطاب پہلے سے تیارنہیں کیا ہوا تھا جسے انہوں نے بس پڑھ کر سنا دیا بلکہ مقامی حالات اور ضروریات کے بارہ میں خطاب فرمایا اور اپنے سے پہلے مقررین کے خطاب کو بھی اپنے ارشادات میں شامل کیا۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر مجھے یہ بات اچھی لگی کہ خلیفہ نے جو بھی سمجھایا وہ بغیر جوش و خروش کے بڑے تحمل اور سلجھے ہوئے انداز میں نہایت عمدگی کے ساتھ بیان فرمایا۔ میں اس بات سے بھی متاثر ہوا ہوں کہ خلیفہ کی آمد بھی بڑی خاموشی اور عاجزی سے ہوئی اورکوئی تکلفانہ اور شوخ طرز نہیں اختیار کیا گیا۔خلیفہ نے اپنی باتیں آرام سے تحمل سے اور غیرجانبدار ہو کر بیان فرمائی ہیں مگر ان کا اثر بہت گہرا ہے۔میں دوبارہ کہتا ہوں کہ خلیفہ کا وجود بہت احترام اور رواداری والا ہے۔

٭… ایک مہمان گوکمین اَبسارسلان (Gorkmen Absarsalan) جو کہ Hanau سے تشریف لائے تھے انہوں نے کہا کہ میں خلیفہ سے ملنے سے پہلے بہت nervous تھا اور جب آپ کو میں نے براہ راست دیکھا تو حیران رہ گیا۔خلیفہ کا خطاب میرے لیے بہت متاثر کن تھا اور بالکل درست تھا اور بہت ضروری تھا کیونکہ جو اہم ارشادات خلیفہ نے فرمائے ہیں وہ ہم بعض دفعہ بھول جاتے ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ حضور کے خطاب کا کونسا حصہ انہیں سب سے زیادہ پسند آیا ہے تو انہوں نےجواب دیا کہ مجھے سارے کا سارا خطاب بہت پسند آیا ہے۔ ایک بھی ایسی بات نہیں جو مجھے کم پسند آئی ہو۔

٭… ایک مہمان خاتون اَستغِد برگمَن A(Astrid Bergman)n جو کہ آنے والے صوبائی الیکشن میں امیدوار ہیں انہوں نے کہا کہ مجھے ایک عورت ہونے کے ناطہ سےخلیفہ کے خطاب میں سب سے اچھی عورتوں کے حقوق والی بات لگی۔ اس سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں۔ میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوں کہ خلیفہ کا وجود نہایت پرسکون معلوم ہوتا ہے۔ خلیفہ کی شخصیت بہت پیاری ہے۔شکر ہے کہ ہمیں صرف خلیفہ کے خطاب کا ترجمہ ہی نہیں بلکہ آپ کی آواز بھی سننے کا موقع ملا کیونکہ آپ کی آواز بھی بہت خوبصورت ہے۔

٭… ایک مہمان خاتون زابِینے ( . Sabine F ) جو کہ ایک سوشل ورکر ہیں انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے زیادہ تر پروگرام اور جماعت کے ماٹو ’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘ کی تعریف کی۔لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ پروگرام کی سب سے اچھی چیز ان کو کیا لگی تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سارے پروگرام کی سب سے اچھی چیز انہیں خلیفہ کا وجود لگا کیونکہ ان میں ایک خاص کشش ہے اور آپ ایک متاثر کن شخصیت ہیں۔

٭…ایک خاتون مہمان لوسیا وورنر(Lucia Worner) جو کہ بینک میں کام کرتی ہیں اور ساتھ والے ایک گاؤں میں CDU پارٹی کی نمائندہ ہیں انہوں نے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ ان کو اس مجلس میں مدعو کیا گیا اور ان کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ یہ مجلس کتنی عظیم ہو گی۔ خلیفہ کے خطاب سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہماری آپس میں مشترکہ چیزیں بہت زیادہ ہیں۔خلیفہ کا خطاب اچھا لگا۔ میرے لیے عورتوں کے اسلام میں حقوق کے بارہ میں جو تعلیم ہے وہ نئی اس لیے نہیں تھی کیونکہ میں جس بینک میں کام کرتی ہوں وہاں مسلمان خواتین بھی ہیں اور ان کے ذریعہ اسلام کی عورتوں کے بارہ میں تعلیم کی حقیقت کا پتا چلتا رہا ہے۔

ان کے میاں بھی ان کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب ایسا تھا جو عموماً جرمنی کو سننے کو نہیں ملتا لیکن یہ ایک بہت عظیم خطاب تھا کیونکہ اس سے واضح ہوا ہے کہ ہم انسانوں میں بہت مشترکہ چیزیں ہیں جن پہ توجہ کرنے سے ہم امن کو بہتر طور پر قائم کر سکتے ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button