خلاصہ خطبہ جمعہ

غزوۂ بدر کے بعض ایمان افروز واقعات نیز اس تناظر میں اہلِ روم کی شاندار فتح کی پیشگوئی کے بارے میں تفصیلی بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۲؍ستمبر ۲۰۲۳ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭… جنگِ بدر کے دوران نَضْر بن حارِث اور عُقْبَہ بن اَبی مُعَیط کے قتل کے معاملہ پر سیر حاصل بحث

٭…صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ نے بدر کے دن ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا یعنی ستر قیدی اور ستر مقتول ہوئے

٭… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن واقعات کی پیشگوئی کی ہے ان میں ایک صاف اور صریح اور معرکہ آراغلبہ روم کی پیشگوئی تھی

٭…مسلمان اہل روم کی فتح کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ اہل کتاب تھے۔جبکہ کفار قریش اہل فارس کی فتح کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ مجوسی تھے

٭…معرکہ جنگ سے بہت دُور خشک اور بنجر زمین کی سُنسان پہاڑی سے ایک شہزادہ امن نے واقعات عالم کے بالکل خلاف غلبہ روم کی پیشگوئی فرمائی

٭…والدین خود بھی اور بچوں کوبھی پیشگوئیاں دکھائیں کہ کس طرح یہ اسلام کی سچائی پر دلیل ہیں۔ ہماری تنظیموں کو بھی اس بارے میں علم دینا چاہیے

٭…حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ غور کرکے دیکھو کہ یہ کیسی جلیل القدر پیشگوئی ہے

٭…مکرم فراس علی عبدالواحدصاحب یوکے کی وفات پر ان کا ذکر خیر، جماعتی خدمات کا تذکرہ اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۲؍ستمبر ۲۰۲۳ء بمطابق ۲۲؍ تبوک ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۲؍ستمبر۲۰۲۳ء کومسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا خطبہ جمعہ سے قبل جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: کچھ عرصہ پہلے غزوۂ بدرکے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق میں واقعات بیان کیے تھے۔ آج بدر کے حوالے سے ہی بعض متعلقہ واقعات پیش کروں گا جن کا تاریخ میں ذکر ہے اور جاننا بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ پہلے خطبات میں ذکر ہوچکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین روز تک میدان بدر میں مقیم رہے اور تیسرے روز آپؐ نے سواریوں کے کجاوے کسنے کا ارشاد فرمایا۔

میدان بدر سے ہی آپؐ نے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اور حضرت زید بن حارثہؓ کو مدینے کی جانب بدر کی فتح کی خوشخبری کا پیغام دیتے ہوئے بھیجا۔پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمدینہ کی طرف واپسی کا سفر شروع کیا۔

اس فتح نصیب قافلے میں قریش مکہ کے ستر قیدی بھی ساتھ تھے۔کتب تاریخ میں مذکور ہے کہ ان میں سے دو قیدیوں نَضْر بن حارِث اور عُقْبَہ بن اَبی مُعَیط کو جنگی جرائم کے تحت راستے میں ہی قتل کردیا گیا لیکن اس پر سب تاریخ دانوں کا اتفاق نہیں ہے۔علامہ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام صَفْراء پر پہنچے تو نَضْر بن حارِث کو حضرت علی ؓنے قتل کیاتھا۔ ان کی بہن نے اپنے بھائی کی موت پر کچھ اشعار کہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان اشعار کا علم ہوا تو آپؐ بہت روئے اور فرمایا کہ اگر یہ اشعار نَضْر کے قتل سے پہلے مجھ تک پہنچتے تو میں اُس کو معاف کردیتا۔ بعض سیرت نگار اس کی تردید کرتے ہیں اور بعض اس واقعہ کی ہی تردید کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔

حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں ذکر کیا ہے کہ بعض مؤرخین نے قید ہونے والے رؤساء میں عُقْبَہ بن اَبی مُعَیط کا نام بھی بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ حالت قید میں قتل کیا گیا تھا مگر یہ درست نہیں ہے۔حدیث اور تاریخ میں نہایت صراحت کے ساتھ یہ وضاحت آتی ہے کہ عُقْبَہ بن اَبی مُعَیط میدان جنگ میں قتل ہوا تھا اور اُن رؤسائے مکہ میں سے تھا جن کی لاشیں ایک گڑھے میں دفن کی گئی تھیں البتہ نَضْر بن حارِث کا قتل ہونا اکثر روایات سے ظاہر ہوتا ہے اور اس کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو مکہ میں بے گناہ مسلمانوں کے قتل کے براہ راست ذمہ دار تھے لیکن یہ یقینی ہے کہ اگر کوئی شخص قتل ہوا تو وہ نَضْر بن حارِث تھا جو قصاص میں قتل ہوا۔

غزوۂ بدرمیں مشرکین کے بڑے بڑے سرداروں سمیت ستر کفار مارے گئے اور ستر ہی قیدی بنائے گئے۔

صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ نے بدر کے دن ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا یعنی ستر قیدی اور ستر مقتول ہوئے۔

صحابہ کرام ان قیدیوں سے بہت حسن سلوک سے پیش آتے تھے اور ان میں سے کچھ خوش نصیب قیدی ایسے تھے جو اسلام کی تعلیمات اور صحابہ کے اخلاق سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئےتھے۔ان میں سے بعض کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ عباس بن عبد المطلب، عقیل بن ابی طالب، نوفل بن حارث، ابو العاص بن ربیع، ابو عزیز، خالد بن ہشام، ابو وداعہ بن سہمی، عبداللہ بن ابی بن خلف جمحی، وہب بن عمیرجمحی، سہیل بن عمر وعامری۔ ان سب نے اپنا فدیہ ادا کرکے اسلام قبول کرلیا تھا۔

بدر کی جنگ کے ساتھ ایک تعلق رومی سلطنت کی فتح کا بھی ہے۔ نبوت کے پانچویں سال میں سورہ روم نازل ہوئی جس میں رومی سلطنت کے غلبہ کی بابت پیشگوئی کی گئی تھی۔اللہ تعالیٰ نےاس کی بتدائی آیات نازل فرمائیں تو حضرت ابوبکرصدیق ؓمکہ کے اطراف میں ان آیات کو پڑھتے ہوئے اعلان کرنے لگےکہ الٓـمّٓ۔ غُلِبَتِ الرُّوۡمُ۔ فِیۡۤ اَدۡنَی الۡاَرۡضِ وَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ غَلَبِہِمۡ سَیَغۡلِبُوۡنَ۔ فِیۡ بِضۡعِ سِنِیۡنَ یعنی میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والاہوں۔اہل روم مغلوب کیے گئے۔قریب کی زمین میں۔ اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد پھر ضرور غالب آجائیں گے۔تین سے نو سال کے عرصہ تک۔صحیح بخاری میں روایت ہے کہ جب اہل فارس اور اہل روم کے درمیان جنگ ہوئی تو

مسلمان اہل روم کی فتح کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ اہل کتاب تھے۔جبکہ کفار قریش اہل فارس کی فتح کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ مجوسی تھے۔

اس بات پر حضرت ابوبکرؓ اور ابوجہل کے درمیان شرط لگ گئی اور پانچ سال کی مدت رکھی گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ مدت کو بڑھادو۔ اہل روم غالب آگئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن واقعات کی پیشگوئی کی ہے ان میں ایک صاف اور صریح اور معرکہ آرا غلبہ روم کی پیشگوئی تھی۔ عرب کے دونوں اطراف میں فارس اور روم کی حکومتیں قائم تھیں۔دونوں میں مدت سے معرکہ جاری تھا۔ بعثت نبوی کے پانچویں سال۶۱۴ء میں دونوں میں ایک خونریز جنگ ہوئی۔سلطنت روما کے پُرزے اڑ گئے۔ خلاف توقع جنگ کا نتیجہ نکلا۔ کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ اگر تم ہم سے لڑتے تو ہم بھی غالب ہوتے۔اُس وقت رومیوں کی افسوسناک حالت تھی۔خزانہ خالی تھا۔ فوج منتشر تھی۔ ملک میں بغاوت تھی۔ ہرقل ایسا عیاش بادشاہ تھا جو کسی قابل نہ تھا۔ رومیوں کو باج ادا کرنے کی شرمناک شرائط رکھی گئیں کہ سونا،چاندی، ریشم کے تھان اور ایک ہزار کنواری لڑکیاں اُن کے حوالے کی جائیں۔ رومیوں کی کمزوری کی یہ حالت تھی کہ انہوں نے ان شرمناک شرائط کو قبول کرلیا۔ایران کے مغرور شہنشاہ خسرو نےکہا کہ مجھےیہ سب نہیں چاہیے بلکہ ہرقل زنجیروں میں بندھا ہوا میرے تخت کے نیچے چاہیے اوروہ سورج دیوتا کے آگے سر جھکائے گا تو صلح قبول کروں گا۔

لکھنے والے نے یہ لکھا ہے کہ کارزار عالم کا یہ نقشہ تھا کہ معرکہ جنگ سے بہت دُور خشک اور بنجر زمین کی سُنسان پہاڑی سے ایک شہزادہ امن نمودار ہوااور واقعات عالم کے بالکل خلاف غلبہ روم کی پیشگوئی فرمائی۔

یہ پیشگوئی نہایت ناقابل یقین تھی۔ کفار نے اس کےصحیح ہونے میں کئی سو اونٹوں کی شرط لگائی لیکن چند سال بعد دنیا نےخلاف ِامید پلٹا کھایا۔

تاریخِ زوال روم کا مشہور مصنف اور مؤرخ ایڈورڈ گبن ہرقل کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ شہنشاہ روم اپنے آخری ایام میں نامرد تماشائی تھا۔ دفعتاً ۶۲۱ء میں ہرقل میدان جنگ کا سیزر بن گیا۔عرب کے نبی اُمی ؐکی پیشگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ عین اس وقت جب مسلمانوں نے بدر کی جنگ میں کفارکو شکست دی تو رومیوں نے ایرانیوں کو شکست دی۔

بعض نوجوان اور جوانی میں قدم رکھنے والے بچے مجھےخط لکھتے ہیں کہ کس طرح پتا چلے کہ اسلام سچا مذہب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سچے نبی ہیں۔ یہاں کے ماحول نےان پر یہ اثر ڈالنا شروع کردیا ہے۔ ان کو اسلام کی سچائی پر شک پڑنے لگ گیا ہے۔انہیں غیروں کے اظہار اور قرآن کی پیشگوئیوں کو دیکھنا چاہیے۔

والدین خود بھی پڑھیں اور بچوں کوبھی پیشگوئیاں دکھائیں کہ کس طرح یہ اسلام کی سچائی پر دلیل ہیں۔ والدین کو بھی اور نوجوانوں کو بھی اپنے علم کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سوال کرنا ہے تو خود بھی علم حاصل کریں۔ ہماری تنظیموں کو بھی اس بارے میں علم دینا چاہیے۔

تاریخ کی مطابقت سےیہ ثابت ہے کہ ۶۰۹ء میں آپؐ کی بعثت ہوئی۔ ۶۱۰ء سے روم اور فارس کی چھیڑ چھاڑ شروع ہوئی۔۶۱۳ء میں اعلان جنگ ہوا۔۶۱۴ء سے رومیوں کی شکست کا آغاز ہوا۔۶۱۶ء میں رومی شکست تکمیل کو پہنچ گئی۔۶۲۲ء سے رومیوں نے پھر حملہ شروع کیا۔۶۲۳ء سے ان کی کامیابی کا آغاز ہوا۔۶۲۵ء میں ان کی فتح تکمیل کو پہنچ گئی۔اس ترتیب سے دیکھیں تو اس پیشگوئی کی خوبی یہ ہے کہ آغاز شکست سے آغاز فتح تک جوڑیں تو بھی نو برس ہوتے ہیں اور اگر انجام شکست سے آغاز فتح تک جوڑیں تو بھی نو برس ہوں گے۔اس فتح کے بعد پھرہرقل وہی سست اور عیاش قیصر بن گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دست قدرت نے چند سال کے واسطے اس کے دماغ کو بیدار کیا اور پیشگوئی کے بعد عیش و غفلت کے بستر پر سلا دیا۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب ابوبکرؓ سے کفار نے شرط لگائی اور ابوبکرؓ نے پیشگوئی سامنے رکھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شرط میں ترمیم کے لیے حکم فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایرانی لوگ مشرک تھے اور قیصر روم موحد تھااورمسیح کو ابن اللہ نہیں مانتا تھا۔ اسی پر یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ جب رومی ختم ہوچکے تھے اُس وقت خدا نے ان کی فتح کی پیشگوئی فرمائی تھی کہ جس وقت مسلمانوں کو فتح ہوگی اسی وقت رومیوں کو بھی کوفتح ملے گی۔اب غور کرکے دیکھو کہ یہ کیسی جلیل القدر پیشگوئی ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ یہ سلسلہ ابھی چلے گا باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔

حضور انور نے آخر میں مکرم فراس علی عبدالواحدصاحب یوکے کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور جماعتی خدمات کا تذکرہ فرمایا اور بعد نماز جمعہ ان کا نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان بھی فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button