متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ پنجم)

احمدیوں کے جذبات

اس ہفتے ایک شام میری ملاقات مکرم سید نصیر الدین صاحب (عمر۶۳؍سال)سے ہوئی، جو جماعت احمدیہ قادیان سے بطور نمائندہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کی غرض سے تشریف لائے تھے۔ قادیان میں اس وقت آپ بطور قائد عمومی مجلس انصار اللہ خدمت بجا لا رہے ہیں اور ان کے ساتھ ان کی اہلیہ بھی تشریف لائی تھیں۔ حضورِانور کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں مکرم نصیر الدین صاحب نے بتایا کہ ۲۰۰۸ء میں حضورِانور کا قادیان تشریف لانے کا ارادہ تھا تاہم جنوبی ہند کے دورے کے بعد حضورِانور نےممبئی حملوں کے باعث اپنا دورہ مختصر فرما دیا اور تب سے مجھے افسوس اور پریشانی تھی کہ اس کے بعد سے حضورِانور قادیان تشریف نہیں لائے۔ بہرحال آج میری حضور سے ملاقات ہوئی ہے اور آپ کو دیکھ کر جو دلی سکون اور خوشی کے جذبات ہیں ان کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ آپ میری آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ سکتے ہیں یہ آنسو اس نعمت کے شکرانے کے طور پر ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نظامِ خلافت سے نوازا ہے۔کوئی دوسرا انسان ہمیں ایسی محبت نہیں کر سکتا جیسی ہمارے خلیفہ ہم سے کرتے ہیں۔

ان الفاظ کو بیان کرتے ہوئے مکرم نصیر صاحب رونے لگے اور ان کی اہلیہ جو اُن کے ساتھ کھڑی تھیں انہوں نے بھی اپنے آنسو چھپانے کے لیے اپنا رخ دوسری طرف موڑ لیا۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جسے میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔ دو بڑی عمر کے افراد اپنے خلیفہ کی محبت میں بچوں کی طرح رو رہے تھے۔ درحقیقت میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی بڑی عمر کے فرد کو ایسے روتے نہیں دیکھا جیسے اس دن وہ دونوں رو رہے تھے۔

میری ملاقات ایک احمدی دوست مکرم سردار نسیم الغنی صاحب (عمر ۴۶؍سال) سے بھی ہوئی۔ حضورِانور سے ملاقات کے بعد انہوں نے بتایا کہ ہم احمدی مسلمان کس قدر خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافت کی نعمت عطا کی ہے۔ میں نے ذاتی طور پر حضورِانور کے قریب رہنے کا بہترین طریقہ یہی پایا ہے کہ ہر ہفتے آپ کے خطبہ جمعہ کو سنو ں۔ اگر میرے دل میں کوئی سوال اٹھتا ہے تو جب میں خطبہ سنتا ہوں تو اس کا جواب مل جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے حضورِانور نے یہ خطبہ میرے لیے ہی ارشادفرمایا ہو۔آپ ہر ایک کے لیے خلیفہ ہیں لیکن ساتھ ساتھ آپ صرف میرے ہی خلیفہ بھی ہیں ۔

ہزاروں خطوط

دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں ان دنوں کام کے دوران جس چیز نے مجھے حیران کر دیا وہ خطوط اور کاغذات کے ڈھیر تھے۔ ہر روز میںبلا مبالغہ ہزاروں ذاتی خطوط یا دفتری رپورٹس کا مشاہدہ کرتا جو دفتر کے کارکنان کی میزوں پر موجود رہتے۔ بلا تفریق ہر کاغذ پر حضورِانور کے دستخط موجود ہوتے جس سے ظاہر ہوتا کہ آپ نے ہر خط یا رپورٹ کو ملاحظہ فرما لیا ہے۔ مزید یہ کہ بہت سے (خطوط یا رپورٹس) ایسے ہوتے ہیں جن پر حضورِانور اپنے دست مبارک سے نوٹس تحریر فرماتے ہیں جن پر ہدایات،دعائیں اورراہنمائی شامل ہوتی ہے۔(کاموں کی)اس وسعت کو دیکھنا ناقابل یقین تھا۔ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ حضورِانور اس قدر ڈاک کس طرح ملاحظہ فرما لیتے ہیں اور جوابات بھی عنایت فرماتے ہیں جبکہ دیگر روزمرہ مصروفیات اور ذمہ داریاں بھی ساتھ ساتھ جاری رہتی ہیں۔

احمدیوں کے جذبات

اس ہفتے کے دوران ایک شام میری ملاقات مکرم کریم الدین شمس صاحب (بعمر ۴۴؍سال )سے ہوئی جو پاکستانی مبلغ ہیں جن کی تقرری اس وقت تنزانیہ میں ہے۔ اور ابھی کچھ دیر قبل ہی ان کی حضورِانور سے ملاقات ہوئی تھی۔ میری دلچسپی یہ سننے میں تھی کہ افریقہ کی زندگی میں کیا مشکلات درپیش ہیں جن کا سامنا انہیں اور ان کی فیملی کو ہواہے۔ اس کے جواب میں مکرم کریم الدین صاحب نے بتایا کہ میں ۲۰۰۳ء سے جماعت احمدیہ تنزانیہ میں خدمت بجا لا رہا ہوں اور یہ میرے لیے بالکل بھی مشکل نہ تھا کیونکہ جب آپ وقف کر کے اپنی زندگی جماعت کے سپرد کر دیتے ہیں تو آپ کو پتا ہوتا ہے کہ خلیفۂ وقت کے ارشاد پر آپ کو دنیا میں کہیں بھی بھجوایا جا سکتا ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی دعاؤں سے اور وقف کی برکت سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گا۔ جب حضورِانور ہمیں دور دراز جگہوں پر بھجواتے ہیں تو ہمیں خالی ہاتھ نہیں بھجواتے بلکہ اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت فرماتے ہیں جو ہمارا سرمایۂ حیات ہیں۔

میری ملاقات تنزانیہ میں مقیم ایک اور مبلغ مکرم بشارت بٹ صاحب (عمر ۳۵؍ سال )سے ہوئی جنہوں نے بتایا کہ مجھے آٹھ سال قبل تنزانیہ بھجوایا گیا تھا اور (اچھے طریق پر) وہاں رہنے کا گُر یہ ہے کہ آپ یہ نہ سوچیں کہ آپ اپنے بچپن کے گھر سے ہزاروں میل دور ہیں۔ اگر آپ اپنی پرانی زندگی اور پرانے دوستوں کے بارے میں سوچتے رہیں گے تو پھر تنزانیہ میں بھجوایا جانا بلا شبہ ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔ تاہم اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ مجھے حضرت خلیفۃ المسیح نے بھجوایا ہے جو جماعت احمدیہ عالمگیر کے روحانی پیشوا ہیں اور یہ کہ آپ نے مجھے اپنے نمائندے کے طور پر بھجوایا ہے تو پھر آپ کو دنیا بھر میں اپنے گھر جیسا سکون ملے گا۔

افریقہ میں مقیم احمدیوں کی خلافت سے محبت کے بارے میں مکرم بشارت صاحب نے اپنی چشم دید گواہی دیتے ہوئے بتایا کہ میں افریقن لوگوں میں کئی سال رہا ہوں اور اب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ افریقن لوگ خلافت سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔مکرم بشارت صاحب نے مزید بتایا کہ مثال کے طور پر ہمارے امیر صاحب نے ایک میٹنگ میں اس بات کا اظہار کیا کہ اگرچہ ان کی خواہش تھی کہ وہ حضورِانور کو تنزانیہ تشریف لانے کی دعوت دیں لیکن ان کا خیال تھا کہ ہماری جماعت ابھی پوری طرح حضورِانور کی میزبانی کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ سننے پر ایک ۸۰؍ سالہ افریقن بزرگ کھڑے ہوئے اور نہایت جذباتی انداز میں کہنے لگے کہ ہمارے خلیفہ کو دعوت نہ دے کر آپ نے ہمارے ساتھ سخت ظلم کیا ہے۔ کیونکہ آپ کا خیال ہے کہ ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمیں سب سے بڑی ترقی اور کامیابی اس وقت حاصل ہو گی جب ہمارے خلیفہ ہمارے پاس ہوں گے نہ کہ اس وقت جب وہ ہزاروں میل دور ہوں اور آپ ہمارے تیار ہونے کا انتظار کرتے رہیں گے۔

حضورِانور کے ساتھ چند لمحات

[ایک] ملاقات کے اختتام پر جب مہمان حضورِانور کے دفتر سے باہر نکلنے جانے لگے تو حضورِانور نے خاکسار کو اشارہ کیا کہ دفتر مَیں ہی رہوں ۔اس پر خاکسار نے حضورِانور کی خدمت میں اپنی روز مرہ رپورٹ پیش کی ۔خاکسار نے حضورِانور سے جلسہ سے چند روز قبل کے معائنہ کے حوالہ سے استفسار کیا جیساکہ مجھے بتایا گیا تھا کہ حضورِانور نے اس دن مچھلی تناول نہ فرمائی تھی جبکہ بالعموم آپ سمندری غذا پسند فرماتے ہیں۔ اس لیے مَیں متجسس تھا اوراس کی وجہ پوچھنا چاہتا تھا۔ میرے سوال کے جواب میں حضورِانور نے فرمایا کہ معائنہ کے دوران انہوں نے ہمارے میز پر مچھلی پیش کی تھی مگر میں نے نہیں کھائی۔ میں نے انہیں بتایا کہ رات کا کھانا لنگر خانے کا ہے اور میں وہی لنگر خانے کا کھانا کھاؤں گا جو سب کھا رہے ہیں۔ معائنہ ایسے کھانوں کا وقت نہیں ہوتا۔

حضورِانور کے الفاظ عاجزی ،سادگی اور حکمت سے پُر تھے۔ ان الفاظ سے حضورِانور کی احمدی رضاکاروں اور خدمت گاروں کے لیے محبت جھلکتی تھی کہ آپ نے کوئی (پُرتکلف) کھانا تناول فرمانا پسند نہ کیا۔ مزید برآں میں نے یہ بھی سوچا کہ حضورِانور نے ایسا کیوں فرمایا کہ یہ ایسے کھانوں کا وقت نہیں ہوتا۔ مجھے لگا کہ حضورِانور کا ایسا فرمانے سے مطلب یہ تھا کہ جلسہ سے پہلے کا وقت خاص طور پر سادگی اپنانے کا ہوتا ہے۔

خاکسار نے حضورِانور کو ایک ایسی فیملی کے بارے میں بھی بتایا جن سے خاکسار کچھ دیر قبل مسجد فضل کے باہر ملا تھا۔ میں اپنی گاڑی سے کچھ لینے کے لیے باہر گیا تھا کہ اچانک سے ایک دوسری کار آئی اور میرے بالکل پیچھے پارک ہو گئی۔ تین افراد باہر نکلے اور میرے پاس آئے جن میں ایک احمدی خاتون ان کا بیٹا اور ان کی بیٹی شامل تھے۔ دونوں بچوں کی عمر بیس سال سے کچھ زائد معلوم ہوتی تھی۔

اولاً تو مجھے کچھ حیرت ہوئی کیونکہ میں انہیں پہچانتا نہ تھا لیکن پھر انہوں نے مجھے اپنا تعارف کروایا اور بتایاکہ انہوں نے وہ ڈائریز پڑھی ہیں جو حضورِانور کے دورہ جات کی بابت میں نے لکھی ہیں ۔ پھر ان کی بیٹی کہنے لگیں عابد صاحب، میری ایک درخواست ہے کہ آپ جلسہ سالانہ یو کے یا یو کے میں حضورِانور کے معمولات زندگی کے بارے میں ڈائری لکھیں ۔ میں نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کی کہ میں نے انہیں بتا دیا کہ اس سال حضورِانور کی ہدایت پر میں ایسا ہی کر رہا ہوں۔

میں نے حضورِانور سے گذشتہ دنوں ملنے والے بعض احمدی احباب کا بھی ذکر کیا۔ میں نے ایک فرنچ الجیرین میاں بیوی کا ذکر کیا جو نو مبائع تھے اور ان کی خواہش تھی کہ کاش انہیں ملاقات کا کچھ اَور وقت میسر آ جاتا اور یہ کہ جو وقت انہیں ملا تھا وہ دل کے اطمینان کے لیے کافی نہ تھا۔ یہ سماعت فرمانے پر حضورِانور نے فرمایا کہ جس جوڑے کا تم ذکر کر رہے ہو وہ فرانس میں رہتے ہیں۔ تو وہ دوران سال کسی وقت بھی مجھ سے ملنے آسکتے ہیں کیونکہ فرانس تو قریب ہی ہے۔ ان دنوں یہ ضروری ہے کہ مَیں ان لوگوں کو وقت دوں جو دور دراز ممالک سے آئے ہیں اور انہیں بالعموم لندن آنے کا موقع نہیں ملتا۔ (جاری ہے)

(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button