یادِ رفتگاں

مکرم چودھری محمد اسلم صاحب ایس ڈی او

(انجینئر کیپٹن محمد ایوب کُلا۔ سوئٹزر لینڈ)

مورخہ۲۰؍مئی ۲۰۲۱ء بروز جمعرات کوصبح ساڑھے تین بجے خاکسار کے خالو چودھری محمد اسلم صاحب، جو کہ میرے سُسربھی تھے،ربوہ دارالنصر غربی اقبال میں وفات پاگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خدا تعالیٰ آپ سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔ آپ بفضلہ تعالیٰ موصی تھے

آپ بفضل تعالیٰ ایک اسم بامسمی شخصیت تھے۔ آپ فطرتاً محاذ آرائی کے قائل نہ تھے۔ہمیشہ تسلیم و رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق ملی۔ نہایت صُلح جُو،بہت پُرامن اور خوش اخلاق شخصیت کے مالک تھے۔

آپ ۱۴؍اکتوبر۱۹۳۴ءکو فتح پور گاؤں، ضلع گجرات میں میاں محمد فاضل کی پہلی بیوی آمنہ بی بی کے بطن سے پیدا ہوئے۔آ پ کی والدہ ۱۹۴۱ءمیں فوت ہو گئیں جب کہ آپ کی عمر ابھی صرف سات سال تھی، ساری عمر ماں کی کمی کو بہت محسوس کیا۔ اپنی والدہ کے بارے میں آپ نے لکھا: ’’میرے ننھیال میں جب والدہ ادھر اپنے رشتہ داروں کے ہاں تھوڑے وقت کے لیے جاتیں تو میری روح کتنی بے چین ہو جایا کرتی تھی۔ ماں کا رشتہ کتنا پیارا ہے، ماں الفت، پیار، ایثار اور نصرت و کامرانی کا مرقع ہے۔ ماں کائنات میں ایسی ہستی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اتنا لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود پیاری ماں کی یاد نہیں بھولی…خدا تعالیٰ ان کو جنت میں اعلیٰ مقام دے۔ آمین۔‘‘آپ کے والد صاحب کی پیدائش کا سال ۱۹۰۱ء اور سال بیعت ۱۹۴۳ءتھا جبکہ مورخہ ۲۳؍نومبر۱۹۹۸ءکو وفات ہوئی۔ خالو جان کے دادا کا نام میاں اللہ دتہ اور پڑدادا کا نام میاں عبدالکریم تھا۔ خاندان کا تعلق ضلع گجرات کی مشہور قوم گجر ( چیچی) سے ہے۔ یہ ایک مذہبی گھرانہ ہونے کے ناطے میاں کے نام سے پکارا جاتا تھا۔میاں محمد فاضل صاحب بہت صفائی پسند، راست گو اور متوکل انسان تھے۔ خدا تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوتے۔ جہاں ملازمت کے دوران تعینات ہوتے اپنی عبادت کے لیے وہاں ایک تھڑانما جگہ مخصوص کر لیتے تھے۔ درود شریف بہت زیادہ پڑھتے تھے۔ آپ کی پُرکشش آواز میں ایک جادو تھا۔لفظی ترجمہ والے قرآن سے بِلا ناغہ تلاوت کرتے۔ میاں محمدبخش صاحب کی سیف الملوک، بابا بُلھے شاہ کا کلام اور دیگر صوفیانہ کلام اتنی خوش الحانی سے پڑھتے کہ ساری ساری رات لوگ بیٹھ کر سُنتے اور لطف اندوز ہوتے۔ یہ ان کا ملازمت سے پہلے کا ماحول تھا۔

خالو جان لکھتے ہیں: ’’ابتدائی تعلیم گاؤں کے ورنیکیولر مڈل سکول سے حاصل کی۔ اس وقت پرائمری جماعت چار جماعت تک ہوتی تھی۔ پرائمری کے بعد میونسپل کمیٹی ملکوال میں پانچویں جماعت میں داخلہ لے لیا۔ والد صاحب کی ٹرانسفر،سرگودھا کے پاس ہو گئی۔ وہاں پر کوئی سکول نہیں تھا۔مگر جب خدا فضل فرماتا ہے تو وہ کُن فرماتا ہے اور کام ہونے لگتا ہے اور ہو کر رہتا ہے۔والد صاحب دعائیں تو کرتے ہی تھے۔ ہماری رہائش کے پاس مہر محمد یار لک جو بہت بڑے زمیندار تھے، اپنے گاؤں سے سرگودھا شہر اپنے ذاتی ٹانگے پر جاتے تھے۔ والد صاحب نے ان سے ذکر کیا کہ بیٹا ہے مگر پڑھائی کا کوئی بندوبست نہیں۔ انہوں نے کمال شفقت سے حامی بھر لی کہ سرگودھا شہر میں ان کی کوٹھی میں ایک حصہ جہاں پر پہلے بھی پڑھائی والے لڑکے رہتے تھے، مجھے رہائش کی سہولت دے دیں گے۔اس طرح اسلامیہ خالقیہ ہائی سکول میں داخلہ مل گیا۔ چھٹی جماعت وہاں سے پاس کی۔ اس وقت قائداعظم کی وفات ہوئی تھی اور جنگ آزادی کشمیر جاری تھی۔ سرگودھا میں نو بلاک کی چھوٹی سی مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے جاتا تھا۔ حضرت مرزا عبدالحق صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع ملتا رہا۔ ایک سال وہاں گزارا…آٹھویں کر ہی رہا تھا کہ والد صاحب کی تبدیلی پھر ملکوال کے پاس ہو گئی، وہاں سے سرٹیفیکیٹ لیا اور نویں جماعت میں داخل ہوگیا۔ دسویں جماعت کا امتحانی سینٹر منڈی بہاؤالدین مقرر ہوا۔ خدا خدا کر کے امتحانات ختم ہوئے اور خُدا نے فضل کیا کہ میٹرک فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ الحمدللہ علیٰ ذالک‘‘یہ ۱۹۵۳ء کا پُر آشوب زمانہ تھا۔

خالو جان کو میرٹ پر رسول کالج میں داخلہ مل گیا۔رسول کالج ڈپلومہ کورسز کے لیے پنجاب اور سرحد میں واحد ادارہ تھا۔ جب کہ آج کل پولی ٹیکنیکل کالج جگہ جگہ کھل گئے ہیں۔

میاں محمد فاضل کی دوسری شادی نذیر بیگم سے ہوئی۔ جو کہ ضلع سیالکوٹ علاقہ کچھی کی رہنے والی تھیں۔ جن سے آپ کی ایک بہن صفیہ بیگم (پیدائش ۱۹۵۰ء)ہیں، جن کے میاں چودھری عزیز احمد صاحب کھاریاں تھے۔ ان کے ماشاء اللہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ صفیہ بیگم کی والدہ قبرستان نزد ریلوے سٹیشن پھلروان میں مدفون ہیں۔آپ لکھتے ہیں ’’میری یہ والدہ ۱۹۵۴ء میں سول ہسپتال پھلروان میں داخل رہ کر فوت ہوئیں۔اس وقت ڈاکٹر مکرم محمد دین صاحب آف وہاڑی جو احمدی تھے،ہسپتال کے انچارج تھے۔ انہوں نے کفن دفن کا انتظام کیا اور نماز جنازہ پڑھائی۔ اس وقت بہن صفیہ بہت چھوٹی تھیں۔ اور بعد میں جب وہ بال بچہ دار تھی، مَیں دعا کے لیے والدہ موصوفہ کی قبر پر لے کر گیا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالی کشائش عطا فرما ئی ہوئی تھی۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔مالی قربانی میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ خلیفہ وقت کی ہر تحریک پر عموما ً خطبہ سنتے ہی حصہ لیتے۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل آپ نے اپنا اور اپنی بیگم صاحبہ کا چندہ وصیت اپریل تک ادا کر دیا ہوا تھا۔ تحدیث نعمت کے طور پر ایک واقعہ تحریر کرتا ہوں۔ایک دفعہ آپ نے کچھ چندہ دیا تو کچھ دنوں بعد وصول کرنے والے دوست آئے اور کہا کہ چودھری صاحب آپ کے تما م چندہ جات ادا ہو چکے ہیں اور یہ ایک لاکھ روپیہ واپس لے لیں۔ آپ نے کہا اسے کسی اور مد میں ڈال دیں، اب یہ پیسے واپس جیب میں نہیں جا سکتے۔ الحمدللہ

آپ گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی رسول کے فارغ التحصیل تھے۔ آپ کی ملازمت کا تقریباً پورا عرصہ خیبر پختونخواہ میں گزرا۔ کیونکہ آپ نے ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد بھی صوبہ سرحد کو ہی چُناتھا۔ مختلف سکیموں کے اَن گنت سروے کیے، محکمہ میں بہترین سرویئر گردانے جاتے تھے۔ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں بطور سب ڈویژنل آفیسر اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد پینشن پر ریٹائر ہوئے اور جلد ہی ربوہ شفٹ ہو گئے۔آپ نے ملازمت کے آخری سال افغان مہاجرین کیمپس کو واٹر سپلائی سکیمیں مہیا کرتے گزارے۔ جس کی وجہ سے آپ کو تقریباً روزانہ ہی بہت لمبے سفر کرنا پڑتے تھے۔

خیبر پختونخوا میں جہاں بھی جائیں خالو جان کی بنوائی ہوئی واٹر سپلائی سکیمیں جا بجا نظر آتی ہیں۔ ایبٹ آباد شہر کو پانی کی سپلائی بہم پہنچانے میں آپ پہلے شخص تھے۔آپ نے ابتدائی کام کیا اور اس عظیم منصوبہ کو مکمل کیا۔ سال ۱۹۷۳ءمیں محکمہ کی طرف سے بطور SDO ترقی دی گئی اور گزٹ نوٹیفیکیشن میں نام درج ہوا۔ سال ۱۹۷۶ءمیں دیر ہیڈ کوارٹر کی سکیم جو کہ ایک چیلنج تھی اسے مکمل کیا، خاص کر خال کی سکیم۔ دیگر کئی سکیموں کے علاوہ مالَم جَبّہ واٹر سپلائی سکیم میں بھی حصہ لیا۔سوات اور مردان میں تین تین سال گزارنے کے بعد پشاور وارسک روڈ ٹرانسفر ہو گئی۔ اس وقت کوہاٹ کے ارد گرد افغان مہاجرین کیمپوں میں واٹر سپلائی سکیمیں بنا کر مہاجرین کی خدمت کا موقع ملا۔

سال ۱۹۷۴ءمیں ملک گیر ہنگاموں میں ان کی رہائش ایبٹ آباد میں تھی، جہاں مخالفت زوروں پر تھی۔ ڈاکٹر سعید احمد صاحب غیرمبائع کے کلینک اور گھر کو جلوس نے جلا دیا۔ کئی احمدیوں کے گھروں اور دکانوں کو جلا دیا گیااور کئی احمدی شہید ہوئے۔ خالو جان بمشکل اپنی اور فیملی کی جانیں بچا پائے۔ فیملی کو ملک میں تین مختلف جگہوں پر بھیجنا پڑا۔ سال۱۹۷۴ءمیں نوتعمیر شدہ گھر کوخدا تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ کئی دفعہ لوگ اس کو گرانے کے لیے آئے، مگر خُدا کے فضل اور چوکیدار کی عقلمندی سے نقصان سے بچ گئے۔آپ نے اس گھر کا پلاٹ خریدتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ احمدیہ مسجد اوربچیوں کا کالج نزدیک ہوں۔ آپ کی پوری فیملی پردہ اور صوم وصلوٰۃ کی پابند ہے۔الحمدللہ

آپ جہاں بھی رہے، مختلف عہدہ جات کے حوالے سے جماعت کی خدمت کی توفیق پائی۔ جن جگہوں پر زیادہ وقت گزرا ان میں سے چند ایک یہ ہیں: ایبٹ آباد، راولپنڈی، پشاور،لاوا تحصیل تلہ گنگ، دیر، سوات، مردان اور چترال۔آپ لکھتے ہیں ’’مجلس خدام الاحمدیہ پشاور میں ناظم مال اور جماعت میں سیکرٹری مال حلقہ وسطی پشاور، صدر حلقہ سول کوارٹرز پشاور کام کیا۔اسی طرح سیکرٹری رشتہ ناطہ پشاورخدمت کی۔‘‘ربوہ شفٹ ہونے پر دو محلوں میں رہے۔ پہلے محلہ دارالعلوم غربی صادق میں سیکرٹری امور عامہ، پھردارالنصر غربی اقبال میں سیکرٹری رشتہ ناطہ، سیکرٹری امور عامہ رہے۔آپ حقیقتاً ایک تحمل مزاج، وسیع النظر اور لبرل سوچ کے حامل انسان تھے۔ بفضلہ تعالیٰ آپ کو معجزانہ طور پر عُمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس طرح مقاماتِ مقدسہ میں دعائیں مانگنے کا موقع ملا۔ الحمد للہ۔ قادیان دارالامان جلسہ سالانہ پربھی جانے کا موقع ملا۔قیام پاکستان سے پہلے اپنے بچپن میں والد کے ساتھ تو جاتے ہی رہتے تھے۔

پی ایم اے لنک روڈ منڈیاں ایبٹ آباد میں واقع جناح کالونی میں موسم گرما کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تشریف لایاکرتے تھے تو آپ کو مختلف حیثیتوں سے خدمت کا موقع ملتا رہا۔بعد میں مفتی محمود صاحب کے دور میں ان پانچ کوٹھیوں پر قبضہ کر لیا گیا۔یہاں جماعت کے کل ۲۹پلاٹ تھے۔موسم گرما میںیہاں آپ کواپنی فیملی کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے بارہا ملاقات کے مواقع ملتے رہے۔ جب مویشیوں کو اندر آنے سے بچاؤ کے لیے گیٹ کو گارے کی چُنائی والی دیوار سے بند کرنے کی وجہ سے، وہاں پر موجود چوکیدار( دو یا تین افراد) کو گرفتار کر لیا گیا تو خالہ جان کھانا تیار کرتیں جسے آپ جیل میں گرفتار شدگان کوباقاعدگی سے پہنچاتے رہے۔

بفضلہ تعالیٰ آپ کی بیگم صاحبہ کو بھی جماعتی خدمات کی توفیق ملتی رہی۔ خالہ جان ایبٹ آباد میں سیکرٹری اور صدر لجنہ اما ء ا للہ رہیں۔ یہاں سترہ سال خدمت کا موقع ملا۔مردان میں بھی چار سال تک صدر رہیں۔ کافی عرصہ تک آپ صدر لجنہ پشاور بھی رہیں جہاں لجنہ کے آٹھ حلقے بنا کر جماعت کے کام کو توسیع دی، وصیت کے نظام کو باقی صدرانِ حلقہ کے تعاون سے مضبوط کرنے کا موقع ملا۔خالہ جان کو دو دفعہ قادیان بھی جانے کا موقع ملا۔ ایک دفعہ تو آپ کے بھانجے حافظ انوار رسول صاحب بھی ساتھ تھے۔ اپنی بیٹی فہمیدہ اسلم صاحبہ کے سپانسر کرنے پر ۲۰۰۰ء میںمیاں بیوی کو لندن جانے کا موقع ملا،حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے ملاقات نصیب ہوئی۔

خالہ جان ایک تو ضعیف ہیں، دوسرے اپنے میاں کی وفات کا بہت گہرا اثر لیاہے۔ ان کی صحت کے لیے بھی محترم قارئین سے دعا کی درخواست ہے۔اس مثالی احمدی جوڑے کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں اور چار بیٹیوں سے نوازا۔

خالو جان کو اپنی کمزوری صحت کا علم تھا۔انہوں نے اپنے تمام بچوں کواپنی آواز میںقرآنی دعائیں، نظمیں اور اپنے حالات ِزندگی ریکارڈ کر کے دیے ہیں،جو ان کے بچوں کے پاس ان کی یاد کا بہترین اثاثہ ہے۔ خاکسار نے وعدہ کیا ہوا تھا کہ آپ کے حالات کو ضبطِ تحریر میں لاؤں گا۔ میرے ساتھ اُن کا بہت پیار کا سلوک تھا، میری موجودگی سے بہت خوش ہوتے اور بہت سی دینی و دنیاوی معلومات پرمجھ سے تبادلہ خیال کرتے رہتے تھے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button