متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ چہارم)

احمدیوں کے جذبات

میری ملاقات ربوہ پاکستان سے تشریف لائے ہوئے ایک احمدی دوست مکرم ج الف خان صاحب( بعمر 54سال) سے ہوئی جلسہ سالانہ میں بطور مرکزی نمائندہ شرکت کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھے خلافت سے قبل ربوہ میں حضورِانور سے ایک ملاقات کا احوال بتایا۔ انہوں نے بتایا کہ میں دراصل حضورِانور کو خلافت پر متمکن ہونے سے قبل بھی ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں ربوہ میں آپ کے دفتر میں داخل ہوا تھا تو جس روحانیت اور امن کا مجھے اس دن احساس ہوا وہ بالکل منفرد تھا۔ پھر اس وقت جب مجھے کوئی وہم و گمان بھی نہ تھا کہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایک دن ہمارے خلیفہ ہوں گے۔پھر بھی مجھے ایسا لگا کہ میں ایک نہایت مصفیٰ فرشتے یا خدا کے کسی خاص بندے سے ملا ہوں۔

میری ملاقات مکرم سید آفتاب احمد صاحب سے ہوئی جو جلسہ سالانہ میں شمولیت کی غرض سے قادیان سے تشریف لائے تھے۔ آپ قادیان میں جماعت کی لائبریری کے انچارج ہیں۔ مکرم آفتاب صاحب نے بتایاکہ ملاقات کے دوران حضورِانور نے مجھے ایک خوشبو بطور تحفہ عطا فرمائی۔ میں اس تحفےاور حضورِانور ایدہ اللہ کی شفقت کو خزانے کی طرح سنبھال کر رکھوں گا۔ تاہم جو سب سے بڑا تحفہ حضورِانور نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ دائمی ہے اور وہ آپ کی دعائیں ہیں۔ خلیفہ وقت کی دعائیں ہی ہیں جن کی مجھے ضرورت ہے۔

میں نے ان سے دریافت کیا کہ ان کی ملاقات کیسی رہی تو انہوں نے بتایا کہ ’ میرے خیال میں اس ملاقات پر تبصرہ کرنا بھی غلط ہے کیونکہ میں کون ہوتا ہوں کہ امام مہدی کے روحانی نمائندہ پر کوئی تبصرہ کر سکوں۔ میں صرف الحمدللہ ہی کہہ سکتا ہوں۔ یہ الفاظ کہتے ہوئے وہ بہت زیادہ جذباتی ہو گئےاور اپنا رومال نکال کر آنسو صاف کرنے لگے۔ بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ انہوں نے بتایا کہ ایک لمبے عرصے تک میرے اور میری اہلیہ کے ہاں اولاد نہ تھی۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا کہ وہ ہمیں اولاد عطا فرمائے جو خلافت سے مضبوط تعلق رکھنے والی ہو اور اگر ہماری اولاد کا مقدر ایسا ہے کہ وہ خلافت سے دور جا پڑنے والی ہے تو میری یہی دعا ہے کہ ہمیں اولاد ہی نہ عطا ہو۔

انہوں نے مزید بتایا کہ محض خلیفۂ وقت کی دعاؤں کا ثمرہ ہے کہ ہمیں ایک بیٹا اور بیٹی کی نعمت عطا ہوئی اور دونوں وقفِ نو کی بابرکت سکیم میں شامل ہیں اور آج ماشاءاللہ میرے بچوں کے بچے بھی ہو چکے ہیں۔ میری محض یہ خواہش ہے کہ میری نسل دین کی خدمت گار ہو۔ مجھے ان سے اس کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔

ایک کھڑکی کا ٹوٹنا اور پُر حکمت سبق

اس ہفتے ایک شام جب میں ملاقات کے لیے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں انتظار کر رہا تھا تو مجھے میری اہلیہ کی طرف سے ایک فون کال موصول ہوئی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ چند منٹ قبل انہیں ہمارے لاؤنج میں ایک زور دار آواز سنائی دی اور وہ تیزی سے وہاں گئیں تاکہ دیکھیں کہ کیا ہوا ہے اور دیکھا کہ ہمارے لاؤنج کی کھڑکی ٹوٹ گئی تھی۔ انہیں کچھ اندازہ نہ تھا کہ وہ کھڑکی کیسے ٹوٹی ہے۔ چند منٹ بعد ہی ایک خاتون نے ہمارے گھر کی گھنٹی بجائی جو ہماری ہمسائی تھی۔ وہ اندر آنا چاہتی تھیں تاکہ وہ بتا سکے کہ ہماری کھڑکی کے ساتھ کیا ہوا ہے۔وہ خاتون ہمارے گھر میں اپنے نوجوان بچے کے ساتھ داخل ہوئیں اور کہنے لگیں کہ میں بہت معذرت خواہ ہوں، میرا بیٹا فٹبال کھیل رہا تھا اور غلطی سے آپ کی کھڑکی کی طرف کِک لگائی اور آپ کی کھڑکی توڑ دی۔

اس خاتون نے مزید بتایا کہ ہم اس نقصان کو ادا کریں گے، دراصل مجھے کہنا چاہیے کہ میرا بیٹا اس نقصان کو پورا کرے گا،ہم یہ رقم اس کے جیب خرچ سے لیں گے۔

اس خاتون کے ہمراہ آنے والے بچے نے بھی معذرت کی۔ بہرحال جب میں چند لمحات کے بعد ملاقات کے لیے داخل ہوا تو میرے دل میں قدر کے جذبات تھے کہ وہ خاتون اور اس کا بیٹا ہمارے گھر معذرت کرنے آئے ہیں اور میں شکر گزار تھا کہ انہوں نے اس نقصان کو پورا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ دوسری طرف کچھ ناراضگی اور پریشانی بھی تھی جو اس تکلیف کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھی۔

یہ واقعہ کیونکہ میرے ذہن میں ابھی تازہ تھا تو مَیں نے حضورِانور کی خدمت میں بیان کرنا شروع کر دیا۔ جب میں یہ واقعہ بیان کر رہا تھا تو حضورِانور نے اپنی مصروفیت کے باوجود اوپر دیکھا اور مسلسل میری طرف دیکھتے رہے۔ حضورانور نے میری ساری بات سن کر نہایت با رعب آواز میں فرمایا تم اس لڑکے اور اس کی فیملی سے ایک آنہ بھی نہیں لو گے۔

مجھے ماننا پڑے گا کہ اس بات سے مجھے ایک جھٹکا لگا اور میں حیران ہو گیا۔ اس کے بعد حضورِانور نے جو اگلی بات بیان فرمائی اس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ حضورِانور نے فرمایا جب تم نے بتایا کہ ایک دھماکا ہوا تو مجھے فوراً خیال آیا کہ شاید ماہد گر گیا ہو، اس کو کوئی حادثہ پیش آ گیا ہو۔ اس لیے تمہیں اللہ کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ یہ معاملہ نہیں ہوا۔

حضورِانور نے مزید فرمایا کہ دوسرے یہ کہ تمہیں اپنے ہمسایوں کو بتانا چاہیے کہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ سب سے محبت کرو اور دوسروں کے حقوق ادا کرو۔ یہ سکھاتا ہے کہ دوسروں کی خاطر اور ان کے مفاد کے لیے اپنے حقوق کی قربانی دے دو اور خاص طور پر ہمسایوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ اس لیے تمہیں انہیں بتانا چاہیے کہ اس محبت کی وجہ سے جو اسلام نے تمہیں ہمسایوں کے متعلق سکھائی ہے تمہارے لیے یہ ناممکن ہے کہ تم ان سے ایک آنہ بھی وصول کرو۔ تمہیں انہیں بتانا چاہیے کہ تم ان پر کوئی احسان نہیں کر رہے بلکہ بطور ہمسایہ، یہ ان کا حق ہے۔

آپ نے مزید فرمایا اپنے ہمسایوں کو بتاؤ کہ یہی حقیقی اسلام ہے یعنی دوسروں کی مدد کرنا اور ہمدردانہ رویہ دکھانا اور ویسا نہیں ہے جو آپ میڈیا میں دیکھتے یا سنتے ہیں۔ مزید برآں اگر وہ کچھ نہ کچھ رقم ادا کرنے پر مُصِر ہوں تو ان کو بتا دینا کہ وہ اس رقم کو کسی بھی خیراتی ادارے کو دے سکتی ہیں تاکہ وہ کسی ضرورت مند کے کام آ جائے۔

حضورِانور کے ان الفاظ کو سننے پر میں بے حد خوش تھا اور جذباتی بھی ہو رہا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ کس طرح ہماری اکثریت اپنے حقوق کو ہی مدنظر رکھتی ہے اور اپنے آرام اور سکون کا ہی خیال رہتا ہے تاہم خلیفہ وقت ایسے وجود ہیں جو ہمیشہ اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ حضورِانور کی راہنمائی میں کئی سال تک خدمت کرنے کے باوجود بھی بسا اوقات حضور کوئی ایسی بات بیان فرما دیتے ہیں جو میرے لیے باعثِ حیرت ہوتی ہے اور میرے دل کو خوشی اور اسلامی تعلیمات کے نور سے بھر دیتی ہے۔

(میری اہلیہ) مالا نے مجھے اس خاتون کا فون نمبر میسج کیا، یوں حضورِانور کے دفتر سے نکلتے ہی میں نے ان کو فون کیا اور بتایا کہ انہیں یا ان کے بیٹے کو اس کھڑکی کے نقصان کے لیے کچھ بھی ادا کرنے کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔اس خاتون کی آواز میں جو خوشی، جذبات اور حیرت کا امتزاج تھا وہ میں کبھی بھلا نہیں پاؤں گا۔انہوں نے کہا کہ آپ کی اس مہربانی نے مجھے جذبات سے مغلوب کر دیا ہے۔مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ اس قدر سخی اور شفیق ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں۔

انہوں نے اشارۃًیہ بھی ذکر کیا کہ اگرچہ وہ ارادہ رکھتی تھیں کہ ان کا بیٹا اس نقصان کی تلافی کرے تاہم مالی طور پر ان کے لیے یہ بوجھ اٹھانا مشکل ہو جاتا۔ میں نے ان کو بتایا کہ ان کے شکر گزار ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ میں قرآن اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیمات پر عمل کر رہا ہوں جو انہوں نے ہمیں سکھائی ہیں۔یہ سننے پر انہوں نے خود ہی کہا کہ جس اسلام کو میں بیان کر رہا ہوں وہ اس سے یکسر مختلف ہے جو میڈیا پر دکھایا جاتا ہے۔

اس دن کے پچھلے حصہ میں مَیں نے حضورِانور کو اس خاتون کے ردعمل کے بارے میں بتایا۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا اس طرح ہم تبلیغ کے لیے دروازے کھولتے ہیں۔

اس میں میرے لیے ایک بہت بڑا سبق تھا۔ اول تو یہ کہ ہمیں ہمیشہ مثبت پہلو پر غور کرنا چاہیےنہ کہ منفی پہلو پر۔ جیسا کہ حضورِانور کا یہ واقعہ سماعت فرمانے پر پہلا رد عمل یہ تھا کہ مجھے شکر گزار ہونا چاہیے کہ میرا کوئی بچہ زخمی نہیں ہوا اور شیشے کے ٹوٹنے کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ دوسرا اس (واقعہ) نے یہ سکھایا کہ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں اسلامی تعلیمات کو عملاً لاگو کرنا چاہیے اور محض ان کو بیان کر دینا کافی نہیں ہے۔

(مترجم:’’ابو سلطان‘‘ معاونت :مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button