متفرق مضامین

بچپن سے ہی بچوں کے دل میں محبت الٰہی ڈالیں (حصہ دوم۔ آخری)

(فہمیدہ بٹ۔ جرمنی)

ماں کی تربیت کا رنگ بہت گہرا ہوتا ہے۔ باقی سب رنگ کچے ہوتے ہیں، بہت جلد اتر جاتے ہیں ۔بچوں کے دلوں میں شروع سے ہی خدا کی محبت بٹھائیں اور اس کی رضا اور ناراضگی کا احساس پیدا کریں۔ اللہ کی ذات پر یقین کرنا سکھائیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مستورات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ عباد الرحمٰن بنائیں۔ بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کریں جب ذرا بات سمجھنے لگ جائیں تو جب بھی کوئی چیز دیں ابھی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں تویہ کہہ کر دیں کہ یہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ شکر کی عادت ڈالیں پھر آہستہ آہستہ سمجھائیں کہ جو چیز مانگنی ہے اللہ میاں سے ما نگو پھر نمازوں کی عادت بچپن سے ہی ڈالنی ضروری ہے۔ آج کل بعض محنتی مائیں اپنے بچوں کو پانچ ساڑھے پانچ سال کی عمر میں قرآن شریف ختم کروا لیتی ہیں۔اکثریت ایسی ماوٴں کی ہے کہ سکول تو بچے کو ساڑھے تین چار سال کی عمر میں بھیجنے کی خواہش کرتی ہیں اور بھیج بھی دیتی ہیں اور بچے اس عمرمیں فقرے بنا بھی لیتے ہیں اور لکھ بھی لیتے ہیں لیکن نماز اور قرآن سکھانے اور پڑھانے کے متعلق کہو تو کہتے ہیں کہ ابھی چھوٹا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ کس عمر میں آپ بچے کو نماز پڑھنے کے لیے کہیں اور سکھائیں۔(الازھار لذوات الخمار (جلد سوم حصہ اول) صفحہ نمبر ۷ جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۰۳ء مستورات سے خطاب)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ کے گھر رات گزاری۔ رات کو آنحضرتﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔میں بھی حضور کے ساتھ حضور کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا۔حضور نے مجھے سر سے پکڑا اور مجھے اپنی دائیں طرف کھڑا کر دیا۔(صحیح بخاری کتاب الاذان)آپؐ نے انہیں ساتھ کھڑے ہو نے سے منع نہیں کیا بلکہ بڑے پیار سے یہ تاکید کی کہ دوسرا آدمی دائیں طرف کھڑا ہو۔حضرت عمرو بن شعیبؓ سے مروی ہےکہ اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو۔پھردس سال کی عمر تک انہیں اس پر سختی سے کاربند کرو۔نیز ان کے بستر الگ الگ بچھاوٴ۔(سنن ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب متی یومر الغلام بالصلوٰۃ)

حضرت مصلح موعودؓ ماوٴں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’میں احمدی ماوٴں کو خصوصیت سےاس امرکی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے ننھے ننھے بچوں میں خدا پرستی کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہیں۔ وہ انہیں لغو، مخرب اخلاق اور بے سر و پا کہانیاں سنانے کی بجائے نتیجہ خیز، مفید اور دیندار بنانے والے قصے سنائیں۔ ان کے سامنے ہرگز کوئی ایسی بات چیت نہ کریں جس سے کسی بد خلق کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔بچہ اگر نادانی سے کوئی بات خلاف مذہب اسلام کہتا ہے یا کرتا ہے اسے فوراً روکا جائے اور ہروقت اس بات کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے قلب میں جاگزیں ہو۔

اپنے بچوں کو کبھی آوارہ نہ پھرنے دو، ان کو آزاد نہ ہونے دو کہ حدوداللہ کو توڑنے لگیں، ان کے کاموں کو انضباط کے اندر رکھو اور ہر وقت نگرانی رکھو، اپنے ننھے بچوں کو اپنی نوکرانیوں کے سپرد کر کے بالکل بے پروا نہ ہوجاوٴ کہ بہت ساری خرابیاں صرف اسی ابتدائی غفلت سے پیدا ہوتی ہیں۔

ماں اپنے بچے کو باہر بھیج کر خوش ہوتی ہےکہ مجھے کچھ فرصت مل گئی ہے لیکن اسے کیا معلوم ہے کہ میرا بچہ کن کن صحبتوں میں گیا اور مختلف نظاروں سے اس نے اپنے اندر کیا کیا برے نقش لئے جو اس کی آئندہ زندگی کے لئے نہایت ضرررساں ہوسکتے ہیں۔پس احتیاط کرو کہ اس وقت کی تھوڑی سی احتیاط بہت سے آنے والے خطروں سے بچانے والی ہے۔خود نیک بنو اور خدا پرست بنو کہ تمہارے بچے بھی بڑے ہو کر نیک اور خدا پرست ہوں۔‘‘(الازھار لذوات الخمار صفحہ ۲)

اپنا سارا وقت اولاد کی آسائشوں کے لیے بھاگ دوڑ کی بجائے ان کی تربیت کے لیے صَرف کریں بچوں کو صحیح، غلط، جھوٹ، سچ اور اچھے، بُرے کی پہچان کروائیں اور ہر حال میں صبر کا دامن پکڑ کر رکھیں۔ اپنی اور اپنے بچوں کی عبادتوں کو بہتر سے بہترین بنائیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے بچوں سے ایک خطاب کا مختصر حوالہ درج کیا جا رہاہے جس سے والدین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انہیں کس رنگ اور کس طریق پر اپنے بچوں کی تربیت کرنی چاہیے۔ حضورؒنے بچوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’خدا کی محبت ایک ایسا پاکیزہ جذبہ ہے، ایک ایسا باوفا جذبہ ہے جو دل میں ایک دفعہ داخل ہوجائے تو بڑھتا تو رہتا ہے، چھوڑتا کبھی نہیں اور اس کے لئے بہت ہی اچھی عمر، بہت ہی صحیح عمر بچپن کی عمر ہے۔ جن دلوں میں بچپن میں اللہ تعالیٰ کی محبت داخل ہوجائے وہ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں۔ کیونکہ پھر ساری زندگی یہ محبت وفا کرتی ہے۔ انسان کسی حالت میں بھی چلا جائے وہ اس محبت سے خالی نہیں رہ سکتا۔ اسی لئے یہی وہ عمرہے جس میں آپ کواپنے ربّ سے پیارکرنا چاہئے۔ اپنے ربّ سے محبت کے آداب سیکھنے چاہئیں اور ذاتی تعلق قائم کرلینا چاہئے۔ یہاں تک کہ ہر بچہ کے دل میں یہ یقین پیدا ہوجائے کہ میرا خدا میر ا ہے اور میرے ماں باپ کا بھی واسطہ بیچ میں نہیں۔ میں براہ راست اپنے اللہ سے محبت رکھتا ہوں۔ اس سے میرا ذاتی تعلق ہے۔‘‘(مشعل راہ جلد سوم صفحہ 57)

انسان جس قدر اللہ سے محبت کرتا ہے اتنی ہی زیادہ ایمان کی لذت اور مٹھاس حاصل ہوتی ہے اور جس کا دل اللہ کی محبت سے بھر جائے اللہ اسے دوسروں کی محبت اور ان پر توکل کرنے سے بے نیاز کر دیتا ہے۔اللہ کی محبت دل سے ہر اس چیز کو نکال دیتی ہے جس سے اللہ کو نفرت ہوتی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع ۲۰۰۷ء کے موقع پر خدام اور اطفال کے نام اپنے پیغام میں فرمایا: ’’خلافت احمدیہ سے اپنی وفا، اخلاص اور محبت کے رشتے کو مضبوط تر کرتے چلے جائیں۔ اس سے ایسی للّٰہی محبت آپ کے دلوں میں ہو کہ اس کے مقابل پر تمام دوسرے رشتے آپ کو کمتر نظر آنے لگیں۔ یادرکھیں وہی شاخ پھول پھل سکتی ہے جو درخت کے ساتھ پیوستہ ہو۔ آج آپ کی تمام خوشیاں کامیابیاں اور ترقیات خلافت احمدیہ سے وابستہ کردی گئی ہیں۔ خلافت ہی آپ کے دین کو مضبوط کرے گی، آپ کے خوف کو امن میں بدلے گی۔ جس قدر آپ کا تعلق خلافت سے مضبوط ہوگا اسی قدر آپ روحانیت میں ترقی کریں گے۔ اسی سے آپ کی آئندہ نسلوں کی تربیت ہوگی، اسی سے آپ کا دین سنورے گا اور اسی سے آپ کی دنیوی فلاح وبہبود کے راستے کھلیں گے۔ آپ خوش قسمت ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے خلافت جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی ہے۔ اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھام لیں۔ اس سے دلی وابستگی کی برکت سے آپ کا آپس میں پیار ومحبت بھی بڑھے گااور دنیا میں حقیقی توحید کا قیام ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو اس نعمت کی قدر کرنے کی توفیق دے اور ہمیشہ اپنے شکر گزار بندوں میں شامل رکھے۔ دعائیں بھی کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت اور خلیفۂ وقت کے باہمی تعلق کو ہمیشہ تقویٰ پر استوار رکھے اور اسے مضبو ط سے مضبوط تر کرتا چلاجائے اور حاسدین یا منافقین کی کوئی شرارت کبھی اس تعلق میں کوئی رخنہ نہ ڈال سکے۔ (آمین )‘‘(بحوالہ نورالدین جرمنی۔ شمارہ نمبر ۳۔ ۲۰۰۷ء صفحہ ۴)

بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے

حاصل ہو تم کو دیدکی لذت خدا کرے

توحید کی ہو لب پہ شہادت خدا کرے

ایمان کی ہو دل میں حلاوت خدا کرے

(کلام محمود صفحہ۲۵۲)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم احمدی عورتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھتے ہوئے عمل کرنے والیاں بنائے تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کی بہترین پرورش کی جا سکے ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button