متفرق مضامین

کیا کائنات کی تخلیق چھ مرحلوں میں ہوئی تھی؟

(ابو نائل)

اب یہ حقیقت بھی ظاہر ہو چکی ہے کہ چوٹی کے کئی سائنسدانوں کے نزدیک کائنات کی تخلیق کو سائنسی طور پر چھ مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے

کائنات کیسے پیدا ہوئی ؟ کس نے پیدا کی ؟ یہ سوالات ہمیشہ سے حضرت انسان کے ذہن کو پریشان کرتے رہے ہیں۔ کبھی انسانوں نے افسانے بنا کر اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی۔ کبھی مذہبی روایات اور کتب میں اس الجھن کا حل ڈھونڈا۔ اور جب سائنس نے ترقی کی تو اس سوال کو حل کرنے کا بیڑا سائنسدانوں نے اٹھا لیا۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ بحثیں بھی شروع ہو گئیں کہ کیا جدید زمانے کی دریافتیں کسی خالق کی موجودگی کی طرف اشارہ کر رہی ہیں یا ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس عالم کا کوئی خالق موجود نہیںاور یہ ہنگامہ از خود بھی برپا ہو سکتا ہے۔کیا مختلف مذاہب کی مقدس کتب میں تخلیق کائنات کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں وہ درست ہیں یا جدید سائنس نے ان پر پانی پھیر دیا ہے؟ ایک طویل عرصہ سے ان سوالات کے بارے میں تبادلہ خیالات ہو رہا ہے اور جب تک اس عالم میں سوچنے والی کوئی مخلوق موجود ہے یہ بحث مباحثہ بھی چلتا رہے گا۔اس مضمون میں ہم اس بارے میں قرآن مجید کے بیان کردہ صرف ایک نکتہ کے بارے میں کچھ سائنسی تحقیقات پیش کریں گے۔

قرآن مجید کے بیان کردہ مراحل

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِؕ (الحدید: ۵)ترجمہ: اسی نے آسمانوں اور زمین کو چھ وقتوں میں پیدا کیا ہے۔پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا…

اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِؕ(السجدہ:۵)ترجمہ:اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اس سب کو چھ وقتوں میں پیدا کیا۔اس کے بعد وہ عرش حکومت پر مضبوطی سے قائم ہو گیا۔

اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ(الاعراف:۵۵)ترجمہ:تمہارا رب یقیناً اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کوچھ وقتوں میں پیدا کیا ہے پھر (اس کے بعد ) وہ (حکومت کے ) تخت پر مضبوطی سے قائم ہو گیا…

اس آیت کی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں: ’’تمہارا خدا وہ خدا ہے جس نے چھ۶ دنوں میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا پھر عرش پر قرار پکڑا یعنی اوّل اس نے اس دنیا کے تمام اجرامِ سماوی اور ارضی کو پیدا کیا اور چھ دن میں سب کو بنایا (چھ۶ دن سے مراد ایک بڑا زمانہ ہے ) اور پھر عرش پر قرار پکڑا یعنی تنزّہ کے مقام کو اختیار کیا۔‘‘ (چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۱۹)

وَ لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ وَّ مَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ (ق :۳۹)ترجمہ : اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے۔ان سب کو چھ اوقات میں پیدا کیا اور ہم بالکل نہیں تھکے۔

الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِۚۛ-اَلرَّحْمٰنُ فَسْــٴَـلْ بِهٖ خَبِیْرًا (الفرقان: ۶۰)ترجمہ:وہ خدا جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کو چھ اوقات میں پیدا کیا ہے پھر وہ مضبوطی سے عرش پر قائم ہو گیا۔ وہ رحمٰن ہے پس جب بھی (اے انسان )تو اس کے متعلق کوئی سوال کرے تو خَبِیْرسے سوال کر جو بہت باخبر ہے (اور ٹھیک ٹھیک جواب دے سکتا ہے)

مندرجہ بالا آیات میں ان چھ اوقات یا ادوار کےلیے جن میں اس کائنات کی پیدائش ہوئی ’ایام‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہ دن اور رات نہیں ہو سکتے جن کی بنیاد پرہم اپنا کیلنڈر ترتیب دیتے ہیں کیونکہ ان دن اور رات کا ہونا سورج کے گرد زمین کی گردش پر منحصر ہے اور جب اس کائنات کی پیدائش شروع ہوئی اس وقت نہ سورج موجود تھا اور نہ زمین موجود تھی۔چنانچہ قرآنی الفاظ کی لغت مفردات امام راغب میں ’الیوم‘ کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’عربی زبان میں مطلقاََ وقت اور زمانہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔خواہ وہ زمانہ کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓفرماتے ہیں: ’’فِیْ سِتَّۃاَیَّامِِ: چھ دوروں میں۔یوم ایک وقت اور ایک دورہ کو کہتے ہیں۔یوم کا لفظ ایک دن پر۔ایک برس پر۔ایک ہزار برس پر۔پچاس ہزار برس پر یا کسی کام کے پورا ہونے کی ایک منزل کی میعاد کو کہتے ہیں۔‘‘ (بدر ۷؍ستمبر ۱۹۰۵ءصفحہ۳)

پیبلز (Peebles)کے بیان کردہ مراحل

ان معانی کی روشنی میں اگر مندرجہ بالا آیات کریمہ پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید کی رو سے ہماری کائنات کی پیدائش چھ مراحل یا ادوار میں ہوئی تھی۔علم فلکیات کی جدید تحقیقات نے اس کائنات کی پیدائش اور ترقی کے مراحل کے بارے میں بہت سے انکشافات کیے ہیں۔گو جب سائنسدان کسی عمل کا سائنسی جائزہ لیتے ہیں اور اسے مختلف مراحل میں تقسیم کرتے ہیں تو مختلف زاویوں سے جائزہ لے کر اسے مختلف مراحل میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ اور ہر سائنسی ذہن مختلف معیار کی بنا پر مختلف مراحل کا تعین کرسکتا ہے۔ ان مراحل کی تعداد اور نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہے۔بہر کیف یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ چوٹی کے ماہرین نے تخلیق کائنات کو کتنے اور کون کون سے مراحل یا ادوار میں تقسیم کیا ہے۔

فلپ جیمز پیبلز (Philip James Peebles)ایک نامور سائنسدان ہیں اور کائنات کی فزکس کے بارے میں ان کی تحقیقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ۲۰۱۹ءمیں انہیں فزکس کا نوبیل انعام بھی دیا گیا تھا۔اکتوبر۱۹۹۴ءمیں کائنات کے ارتقا کے بارے میں ان کا ایک مقالہ مشہور جریدے سائنٹیفک امریکن (Scientific American)میں شائع ہوا تھا۔ اس مقالہ میں انہوں نے تخلیق کا ئنات کے عمل کو ان مراحل یا ادوار میں تقسیم کیا تھا۔

۱۔جب کائنات کے آغاز کے بعد اس نے پھیلنا شروع کیا تو اس وقت اس کا درجہ حرارت نا قابل یقین حد تک زیادہ تھا۔جب اس کا درجہ حرارت گر ا تو بھی جتنا آج سورج کے مرکز کا درجہ حرارت ہے، اُ س وقت یہ درجہ حرارت اس سے بھی سو ملین گنا زیادہ تھا۔ اس مرحلہ پر قدرت کی قوتوں (Forces) نے اپنے موجودہ روپ میں جلوہ گر ہونا شروع کیا۔ ابھی نہ ایٹم بنے تھے اور نہ ان کے مرکز میں موجود ذرات یعنی نیوٹرون اور پروٹون کا کوئی وجود تھا۔ مادہ ان سے بھی چھوٹے ذرات quarksکی صورت میں موجود تھا۔

۲۔دوسرے مرحلہ میں کائنات مزید وسیع ہو کر جب پہلے مرحلہ سے ہزار گنا بڑی ہو گئی تو اس مرحلہ پر کُل کائنات اتنی وسیع تھی جتنا وسیع آج ہمارا نظام شمسی ہے۔اس مرحلہ پر مادہ کے مختصر ذرات quarks نے مل کر نیوٹرون اور پروٹون کو جنم دیا۔ ابھی بھی ایٹم کی تخلیق نہیں ہوئی تھی۔

۳۔ جب کائنات مزید ایک ہزار گنا زیادہ پھیل چکی تھی تو پروٹون اور نیوٹرون نے ملنا شروع کیا اور اس طرح ایٹم کا نیوکلئس (مرکز) وجود میں آیا۔ اگر چہ ابھی کائنات کا درجہ حرارت اتنا زیادہ تھا کہ اس مرحلہ پر ایٹموں کے نیوکلئس کے ارد گرد الیکٹران گردش کرنا شروع نہیں ہوئے تھے۔ اب تک کی یہ انقلابی تبدیلیاں کائنات کی پیدائش کے پہلے منٹ میں برپا ہو چکی تھیں۔

۴۔چوتھا مرحلہ تین لاکھ سال بعد شروع ہوا۔ جب اس وقت کی کائنات آج کی کائنات کی نسبت ایک ہزار گنا چھوٹی تھی اور اس وقت مکمل ایٹم وجود میں آئے۔اور اس وقت کائنات کا مادہ گیس کے بادلوں کی صورت میں جمع ہونا شروع ہوا۔

۵۔ پانچویں مرحلہ میں یہ مادہ جو کہ گیس کے بادلوں کی صورت میں موجود تھا کئی مقامات پرکشش ثقل سے اکٹھا ہونا شروع ہوا اور ستارے وجود میں آئے۔

۶۔ چھٹے مرحلہ پر ان تخلیق شدہ ستاروں نے اربوں ستاروں کے عظیم مجموعہ کی صورت میں جمع ہونا شروع کیا اور اس طرح عظیم کہکشاؤں کا وجودعمل میں آیا۔

(P. James E. Peebles, David N. Schramm, Edwin L. Turner and Richard G. Kron. “The Evolution of The Universe”. Scientific American, 1st October 1994, P. 53.-57)

ایرک چیسن کے بیان کردہ ادوار

مشہور امریکی ماہر فلکیات (Astrophysicist)ایرک چیسن (Eric Chaisson)جو اس وقت بھی ہارورڈ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اورفلکیات کے موضوع پر کئی کتب تحریر کر چکے ہیں۔انہوں نے کائنات کے ارتقا کے مراحل پر ایک کتاب

Epic of Evolution: Seven Ages of the Cosmos

لکھی تھی۔ اس کتاب کے نام سے یہ تاثر ملتا ہے کہ انہوں نے کائنات کی پیدائش کو سات مراحل میں تقسیم کیا ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اس کتاب میں کائنات کا ساتواں دور C‘‘Cultural Epoch-Intelligence to Technology’’y یعنی ’’ثقافت کا دور- ذہانت سے ٹیکنالوجی تک‘‘ بیان کیا ہے۔ظاہر ہے اس کا تعلق کائنات کی پیدائش کے مراحل کی بجائے انسانی معاشرے کی ترقی سے ہے۔ جہاں تک اپنے آغاز یعنی بگ بینگ سے لے کر کائنات میں کم از کم ایک مقام یعنی زمین میں زندگی تک کائنات کی ترقی کا تعلق ہے تو اسے انہوں نے چھ مراحل یا ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ لیکن اس کے لیے انہوں نے پیبلز سےبالکل مختلف معیار استعمال کیا ہے۔اس کتاب میں کائنات کی پیدائش اور ترقی کے یہ چھ ادوار بیان کیے گئے ہیں۔

۱۔Particle Epochیعنی ذرات کا دور: یہ دور کائنات کے آغاز یعنی بگ بینگ سے شروع ہوا۔ شروع میں یعنی کائنات کے آغاز کے بعد ایک سیکنڈ کے معمولی سے حصہ میں ایک مختصر سے نقطہ میں توانائی کا بے پناہ طوفان موجزن تھا۔ اور اس دور کے اختتام پر مادہ کے بنیادی ذرات یعنی quarks، پروٹون اور نیوٹرون کی تخلیق ہو چکی تھی اور صرف دو سب سے کم وزن والے عناصر ہائیڈروجن اور ہیلیم کے ایٹم وجود میں آئے تھے۔ابھی کہکشاؤں، ستاروں اور سیاروں کا کوئی وجود نہیں تھا۔

۲۔Galctic Epoch: اس مرحلہ پر کائنات کا مادہ کائنات کے بعض مقامات پر زیادہ جمع ہونا شروع ہوا اور پھر اس کی کشش ثقل نے اَور زیادہ مادہ کو جمع کیا۔ یہ عمل جاری رہا تو کہکشائیں وجود میں آئیں۔ اور کہکشاؤں سے بھی بڑھ کر کہکشاؤں کے عظیم مجموعے clustersاور superclusters کی ابتدائی صورت نے جنم لیا۔

۳۔Stellar Epoch یعنی ستاروں کا مرحلہ: اس مرحلہ پر ستاروں کا وجود بنا۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ہم بھی زمین پر توانائی کے لیے اپنے ستارے یعنی سورج کی خارج کردہ توانائی کے مرہون منت ہیں۔اور جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ ہلکے وزن کے عناصر یعنی ہائیڈروجن اور ہیلیم تو کائنات کی پیدائش کے ساتھ ہی پیدا ہو گئے تھے۔ اس کے بعد ان سے زیادہ وزنی عناصر مثال کے طور پر لوہے کا جنم ان ستاروں کے مرکز میں ہونے والے عمل کے نتیجہ میں ہوا۔ اور اس سے بھی زیادہ وزنی عناصر کی پیدائش بعض ستاروں کے پھٹنے اور supernovaکا روپ دھار لینے کے نتیجہ میں ہوا۔یعنی زمین میں بلکہ ہمارے جسم میں بھی موجود ان عناصر کے ایٹموں کی پیدائش مختلف ستاروں میں ہوئی تھی۔

۴۔Planetary Epoch یعنی سیاروں کا مرحلہ: اس مرحلہ سے پہلے ستارے تو موجود تھے لیکن وہ آگ اور توانائی کے عظیم کُرّے تھے۔ ان کی سیاروں کی طرح ٹھوس سطح نہیں تھی۔پہلے تو کائنات میں ہائیڈروجن اور ہیلیم جیسے ہلکے عناصر ہی موجود تھے۔ یہ گیس کی صورت میں ہوتے ہیں اور ان سے ٹھوس سیارے نہیں بن سکتے تھے۔کتنے ہی ستاروں نے اپنی زندگی کا دور مکمل کیا یا آخر میں ان کے پھٹنے کے نتیجہ میں بھاری عناصر پیدا ہوئے اور کائنات کی پیدائش کے اربوں برس بعد ان عناصر سے زمین جیسے اربوں سیاروں کا وجود پیدا ہوا جو کہ اپنے ستاروں کے گرد گردش کر رہے ہیں۔

۵۔Chemical Epoch: یعنی وہ مرحلہ جس میں مختلف عناصر نے آپس میں کیمیاوی عمل کے ذریعہ ملنا شروع کیا اور ان گنت تعداد اور اقسام میں مالیکیول وجود میں آنے لگے۔ مثال کے طور پر دو ہائیڈروجن اور ایک آکسیجن کے ایٹم مل کر پانی کا ایک مالیکیول بنا لیتے ہیں۔

۶۔Biological Epoch: یہ وہ دور ہے جس میں کائنات کے کم از کم ایک گوشہ یعنی زمین میں زندگی کا آغاز ہوا۔ اور پھر یہ زندگی ترقی کرتی ہوئی کرہ ارض پر پھیل گئی۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ اس کے بعد اس کتاب کے مصنف نے ساتواں دور کلچر اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا بیان کیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس مرحلہ کا تعلق انسانی معاشرہ سے ہے کائنات کی تخلیق سے نہیں۔ دوسرے الفاظ میں Eric Chaissonکے نزدیک بھی کائنات چھ مراحل میں ترقی کرتی ہوئی موجودہ حالت تک پہنچی ہے۔

مارٹن ریس(Martin Rees)کے چھ اہم مرحلے

اسی طرح کیمبرج یونیورسٹی کےنامور ماہر فلکیات مارٹن ریس (Martin Rees) اپنی کتاب Just Six Numbersمیں ایک تصویر کے ذریعہ کائنات کی پیدائش اور ترقی کی تاریخ کا خلاصہ پیش کرتے ہیں اور اس تصویر میں کائنات کی تاریخ کو چھ لائنوں کے ذریعہ مختلف ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔اس تصویر میں ان چھ اہم مرحلوں کی بنیاد پر کائنات کی تخلیق کو چھ مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے۔

۱۔Plank Era: اس مرحلہ پر کائنات ایک مختصر نقطہ میں مقید تھی۔ اور موجودہ کائنات میں جو طبیعیات (فزکس ) کے قوانین کام کرتے ہیں وہ اس مرحلہ کی کائنات میں کارفرما نہیں تھے۔یہ مرحلہ ایک سیکنڈ کے ایک معمولی حصہ تک ہی چلا۔اگر ایک کی دائیں طرف ۴۳صفر لگائیں اور ایک سیکنڈ کو اتنے حصوں میں تقسیم کر دیں تو کائنات کے آغاز کے بعد اتنی ہی مدت تک اس مرحلہ کا راج رہا۔ اس مرحلہ پر کائنات کا درجہ حرارت اتنا زیادہ تھا کہ ایٹم کے اندر موجود چھوٹے ذرات یعنی پروٹون اور نیوٹرون کا وجود بھی قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ کائنات میں چار قسم کی قوتیں کارفرما ہیں۔ اس ابتدائی حالت میں ان چار قوتوں کا علیحدہ وجود بھی نہیں تھا اور صرف ایک قوت کارفرما تھی۔

۲۔ Inflation: جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے کہ اس مرحلہ پر کائنات نے ناقابل یقین حد تک تیز رفتاری سے پھیلنا شروع کیا۔یہ مرحلہ بھی ایک سیکنڈ کے معمولی حصہ تک چلا اور پھر ختم ہو گیا۔

۳۔تیسرا مرحلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب کائنات کے سب سے چھوٹے ایٹموں یعنی ہائیڈروجن نے مل کر ہیلیم کے ایٹم بنانے شروع کیے۔اور کائنات میں مختلف قسم کے عناصر کا ظہور ہوا۔

۴۔چوتھا مرحلہ decouplingکا تھا۔یہ وہ مرحلہ تھا جو کہ کائنات کی پیدائش کے تین لاکھ سال بعد شروع ہوا۔ اس مرحلہ پر کائنات اتنا پھیل چکی تھی کہ اس میں روشنی سفر کر سکتی تھی۔اس سے پہلے کائنات میں اتنے مختصر مقام پر اتنا زیادہ مادہ جمع تھا کہ اس میں روشنی کی کرن بھی سفر نہیں کر سکتی تھی۔

۵۔پانچواں مرحلہ تب شروع ہوا جب کائنات میں کہکشاؤں اور ستاروں کی پیدائش شروع ہوئی۔ اور ستاروں سے روشنی پیدا ہونی شروع ہوئی۔

۶۔اور اس کے بعد کائنات کا چھٹا مرحلہ وہ مرحلہ ہے جس میں کائنات اپنی موجودہ حالت میں موجود ہے اور پہلے سے زیادہ تیز رفتاری سے پھیل رہی ہے۔اس مرحلہ کو مارٹن ریس نے اس تصویر میں Now کی لائن سے ظاہر کیا ہے۔

(Rees, M (2015). Just Six Numbers.Wiedenfeld&Nicolson.p132)

دوسرے سائنسدان کائنات کی تخلیق اور ترقی کو چھ سے زائد یا چھ سے کم مراحل میں بھی تقسیم کر تے ہیں لیکن اب یہ حقیقت بھی ظاہر ہو چکی ہے کہ چوٹی کے کئی سائنسدانوں کے نزدیک کائنات کی تخلیق کو سائنسی طور پر چھ مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔سائنس کی تحقیق کا سفر جاری ہے۔ اور مستقبل کی تحقیقات کیا منظر پیش کریں گی، اس سوال کا جواب آنے والے وقت کی آغوش میں پوشیدہ ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button