از مرکزدورہ جرمنی اگست؍ ستمبر ۲۰۲۳ءیورپ (رپورٹس)

مسجد کے ذریعے اسلام کی پُرامن تعلیم کا پرچار کریں (حضور انور کا مسجد نور فرانکن ٹال کی افتتاحی تقریب سے پُر معارف خطاب)

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آج مورخہ ۹؍ستمبر ۲۰۲۳ء بروز ہفتہ جرمنی کے شہر فرانکن ٹال (Frankenthal) میں ’سو مساجد سکیم‘ کے منصوبے کی تحت تعمیر ہونے والی ’مسجد نور‘ کا افتتاح فرمایا نیز اس حوالے سے علاقے کے معزّزین کے ساتھ منعقد ہونے والی افتتاحی تقریب کو رونق بخشی اور بصیرت افروز خطاب فرمایا۔

خطاب حضورِ انور

تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضورِانورایدہ اللّہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تمام معزز مہمانانِ گرامی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سب سے پہلے تو مَیں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ یہاں ہماری اس مسجد کے افتتاح کی مبارک تقریب میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔

آج یہاں مکرم داؤد مجوکہ صاحب ہمارے نیشنل امیر کے نمائندہ کے طور پر آئے ہیں۔ ہمارے امیر صاحب جرمنی مکرم عبداللّٰہ واگس ہاؤزر صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اس لیے وہ آج یہاں موجود نہیں ہیں۔

مکرم داؤد مجوکہ صاحب نے یہاں پر خدمتِ خلق کے حوالے سے بات کی ہے۔ اس سلسلے میں مَیں یہ بتاتا چلوں کہ اسلامی تعلیم کے مطابق خدمتِ خلق صرف ایک دنیاوی فریضہ نہیں بلکہ یہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے۔ اسلام نے خدمتِ خلق پر بڑا زور دیا ہے۔ ہمیں دین اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ اگر تم خدمتِ خلق کرنے والے نہیں تو تمہاری عبادات بھی بےسود و بےفائدہ ہیں۔

پھر جیسا کہ داؤد صاحب نے کہا کہ اس شہر کا عمومی مزاج امن اور سلامتی والا ہے۔ اس شہر اور یہاں کے باسیوں سے یہ خدشہ نہیں کہ یہاں ہماری اس مسجد کی مخالفت برائے مخالفت کی جائے گی۔ ہمیں بعض دوسری جگہوں پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً ہماری مساجد کی تعمیر کے خلاف عدالتوں میں مقدمات کردیے جاتے ہیں۔ لیکن اس شہر کے باسیوں اور یہاں کی انتظامیہ کا مَیں شکر گزار ہوں کہ انہوں نے نہ صرف ہمارے راستے میں رکاوٹیں نہیں ڈالیں بلکہ ہمیں یہاں خوش آمدید کہا ہے۔ یہ بھی مَیں کہتا چلوں کہ ہمارا یہ شکریہ ادا کرنا کوئی رسمی شکریہ نہیں بلکہ یہ ہمارا دینی فریضہ ہے۔ ہمیں ہمارے دین نے یہ تعلیم دی ہے کہ اگر تم لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے تو تم خدا کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتے۔

جہاں تک ہمسایوں کے حقوق کا تعلق ہے، تو مَیں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہمسایوں کے حقوق پر اسلام نے بہت زوردیا ہے۔ بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تو اس کی اتنی تاکید فرمائی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو یہ خیال پیدا ہوا کہ ہمسایوں کو وراثت میں شامل کردیا جائے گا۔
اسلام نے یہ تعلیم دی کہ تمہارے ہمسائے صرف ساتھ والے گھر میں رہنے والے نہیں بلکہ چالیس گھروں تک تمہارا ہمسایہ ہے۔ پھر ساتھ کام کرنے والے، تمہارے ماتحت کام کرنے والے، ساتھ سفر کرنے والے، ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے سںب کے سب تمہارے ہمسائے ہیں۔ پس جہاں ہمسائیگی کو اتنا وسیع کردیا گیا ہو تو وہاں کسی کی حق تلفی کا سوال کہاں باقی رہتا ہے۔

پھر یہاں بات ہوئی کہ ملک کے ساتھ وفاداری کا نمونہ دکھایا جائے۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔

پھر ممبر آف پارلیمنٹ نے امن کی بات کی۔ یقیناً یہ بات اہمیت کی حامل ہے۔ ہم لوگ بھی امن پھیلانے کی کوشش کرنے والے ہیں اور اس سلسلے میں اس ملک جرمنی کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں یہاں امن سے رہنے کا موقع فراہم کیا۔

اس مسجد کا نام مسجد نور رکھا گیا ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اللّہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے۔ مسلمانوں کو اللّہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کی صفات اپنانے کی کوشش کرو۔ پس اگر خدا نور ہے تو ہر احمدی مسلمان کا فرض ہے کہ خدا کے نور کو آگے سے آگے پہنچائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا نور کیا ہے؟ وہ یہی ہے کہ اس کے پیغام کو جو امن، آشتی اور محبت کا پیغام ہے اسے دوسرے لوگوں تک پھیلایا جائے۔ یہ وہ تعلیم ہے جس پر ہم عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

لارڈ مئیر صاحب نے بھی امن کی بات کی۔ ہمارا تو عقیدہ یہی ہے اور اسی لیے ہم یہ مساجد تعمیر کرتے ہیں۔ مسجد دراصل امن کی جگہ ہے۔ اس لیے مسجد سے حقیقی طور پر وابستہ ہونے والا ہر شخص امن کی طرف بلانے والا ہی ہوگا۔ پس یہی وجہ ہے کہ ہم یہ ایمان رکھنے والے ہیں کہ ہر مذہب سچا ہے اور ہر مذہب کے بانی امن اور سلامتی کی تعلیم دینے والے تھے۔

اسلام نے اگر جہاد کا حکم دیا ہے تو اس کی وجوہات ہیں۔ لمبے عرصے تک مسلمانوں کو مذہب کی وجہ سے تنگ کیا گیا اس لیے مذہبی آزادی کے قیام کے لیے اسلام نے جہاد کی اور مدافعانہ جنگ کی اجازت دی تاکہ مساجد، گرجا گھر، یہود کے معبد اور دیگر تمام مذاہب کی عبادت گاہیں محفوظ ہوسکیں۔ مذہبی آزادی قائم ہوسکے۔

آج جس زمانے میں ہم جی رہے ہیں اس زمانے میں دنیا کو امن کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ ہم تیزی سے جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آج ہم سب کو کوشش کرکے اس جنگ سے دنیا کو بچانے کی کوشش کرنی ہے۔ کیونکہ وہ جنگ جس کی طرف دنیا تیزی سے بڑھتی جارہی ہے وہ بہت ہولناک نتائج پیدا کرنے والی ہے۔ پس آج عدل اور انصاف پر کاربند ہوتے ہوئے معاشرے میں بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ کسی دشمن قوم کی دشمنی بھی تمہیں ناانصافی پر آمادہ نہ کرے۔ عدل کرو کہ یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ پس اسی پائیدار امن کے قیام کے لیے جماعت احمدیہ کوشاں ہے۔ ہم اسی لیے تیسری دنیا کے ممالک میں انسانیت کی خدمت کے منصوبے بناتے ہیں۔ سکول ہسپتال بناتے ہیں تاکہ انسانیت کی خدمت ہوسکے اور وہ امن کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ ہمارا کوئی دنیاوی مقصد یا لالچ نہیں ہے۔ ہم صرف اور صرف انسانیت کو اپنے پیدا کرنے والے کے قریب لانا چاہتے ہیں۔

مئیر صاحب نے اس شہر کے لیے امن کی دعا کی۔ میری بھی یہی دعا ہے خدا کرے کہ نہ صرف یہ شہر بلکہ یہ ملک اور اس سے بھی بڑھ کر تمام دنیا کے لیے میری یہ دعا ہے کہ یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ آئندہ جس طرح کی جنگوں کے بادل انسانیت پر منڈلا رہے ہیں وہ تباہ کن منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔ آج انسان کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ ہتھیار انسانیت کی شدید ترین تباہی کا باعث بننے والے ہیں۔ اگر وہ ہتھیار استعمال ہوئے تو لمبے عرصے تک اپاہج اور معذور نسلیں پیدا ہوں گی۔ پس ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیسی دنیا چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔ کیا ایسی دنیا جو تباہی اور آفت زدہ دنیا ہو یا ایسی دنیا جہاں خوشحالی اور امن ہو۔

آخر میں مَیں وزیراعلی صاحبہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں انہوں نے بہت اچھے خیالات اور نیک جذبات کا اظہار کیا۔ اسی طرح مَیں یہاں بسنے والے احمدیوں کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ آپ کا فرض ہے کہ اس مسجد کے ذریعے اسلام کی پرامن تعلیم کا پرچار کریں۔ خدا آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

استقبالیہ تقریب

یاد رہے کہ مسجد نورFrankenthal کی استقبالیہ تقریب جرمن وقت کے مطابق سوا چھ بجے کے بعد منعقد کی گئی۔ اس پروگرام میں ماڈریٹر نے استقبالیہ کلمات کہے اور پروگرام تعارف پیش کیا۔

تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو حافظ ثاقب محمود صاحب نے سورة البقرة آیت ۱۲۸ تا ۱۳۰ سے کی۔ متلو آیات کا جرمن ترجمہ نے پیش کیا۔

بعد ازاں سیکرٹری امور خارجیہ جماعت جرمنی ڈاکٹرمحمد داؤد مجوکہ صاحب نے محترم امیر صاحب جرمنی کی نمائندگی میں Frankenthal شہر اورجماعت کا تعارف و مختصر تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ شہر ۴۸؍ہزار کی آبادی پر مشتمل ایک خوبصورت شہرہے۔ ۷۷۲ء میں اس شہر کا ذکر ملتا کرتا ہے۔ پندرہویں صدی میں یہاں عیسائی آباد ہوئے۔ بین المذاہب مکالمے میں یہ شہر ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ۱۹۸۴ء میں تین احمدی پاکستان میں مذہبی مخالفت کے سبب ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے۔ ۲۰۰۰ء میں ایک جگہ میسر آئی جہاں نمازیں ادا کی جاتیں۔ پھر ایک دکان اوربعد ازاں مخلتف جگہوں پرنماز سینٹر رہا۔ اس شہر میں جماعت تبیلغی سٹال، نئے سال پروقار عمل اور خون کے عطیات کے علاوہ دیگر فلاحی کاموں میں حصہ لیتی ہے۔ اس علاقے میں سیلاب کے وقت بھی جماعت نے اپنی خدمات پیش کیں۔

مئی ۲۰۱۵ء میں یہاں مسجد بنانے کی اجازت حاصل کی گئی۔ ۳۰؍اگست ۲۰۱۶ء کو حضورِ انور نے اس مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔ اورفروری ۲۰۲۲ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔

موصوف نے بتایا کہ اکثر مساجد کی تعمیر میں مقامی آبادی کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہوتا ہے تاہم اس مسجد کی تعمیر کے وقت اس شہر کے لوگوں نے رواداری کا عمدہ نمونہ دکھایا اور کسی قسم کی مخالفت نہیں کی۔ اس مسجد کی تعمیر کا خرچ مقامی جماعت نے خود اٹھایا ہے۔ نیز یہ پہلی مسجد ہے جس کا ڈھانچہ لکڑی کا بنا ہوا ہے۔

اس کے بعد Dr. Denis Alt (سٹیٹ سیکرٹری ہیلتھ) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مسجد کی تعمیر پر مبارکباد دی اور کہا کہ ایک مصنف نے لکھا ہے کہ نئی چیز کا ایک سحر ہوتا ہے۔ اور اس مسجد کا بھی ہم پر سحر ہے۔ یہ مسجد لکڑی کی بنی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ مستقبل کے متعلق سوچتے ہیں۔ دنیا کے حالات میں یہ تعمیر ایک نمونہ ہے۔

بعد ازاں پروفیسر ڈاکٹر Armin Grau (ممبرنیشنل اسمبلی) نے مسجد کی تعمیر پر نیک تمنائیں پیش کیں اور اسلام کو جرمن کلچر کا اہم جزو قرار دیا۔ موصوف نے بتایا کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مساجد کو مسمار کیا گیا اور ان پر حملے ہوئے۔ ان حملوں کی ہر شریف انسان مذمت کرے گا۔ نیز موصوف نے جماعت احمدیہ کی معاشرے کے لیے مساعی اور اس کے مثبت کردار کو سراہا۔

پھر Martin Hebich صاحب (لارڈ میئر) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حضور انور کو خوش آمدید کہا اور مساجد کی تعمیر کی اغراض کے حوالے سے حضور انور کا ایک خوبصورت ارشاد پیش کرنے کے بعد کہا کہ جمات احمدیہ نے اس مسجد اور آج کے پروگرام کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ موصوف نے کہا کہ مسجد نورکا مطلب روشنی کا گھرہے۔ یہ روشنی ۱۹۸۴ء سے یہاں موجود ہے۔ تین لوگوں کی جماعت آج ۳۴۰؍ افراد کی ہو چکی ہے۔

موصوف نے کہا کہ ہم دیکھتےہیں کہ ہزاروں افراد تشدد کا شکار بنتے ہیں۔ اس زمانے میں بھی لوگوں پر مذہب کے حوالے سے تشدد ہوتا ہے۔ پاکستان میں احمدی، چین میں ایغیور مسلمان اسی طرح عیسائی اور یہودی بھی تشدد کا شکار ہیں۔ جماعت احمدیہ نے امن کے حوالے سے راہنما اصول پیش کیے ہیں۔ جرمن محاورہ ہے کہ جو تعمیر کرتا ہے وہ جڑ پکڑ لیتا ہے۔ اس کی بہترین مثال آپ ہیں۔


آخر پر شرجیل خالد صاحب مربی سلسلہ نے صوبائی وزیر اعلیٰ کی طرف سے مسجد کے افتتاح پر موصول ہونے والا خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا جس میں انہوں نے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور جماعت احمدیہ کے ممبران کی فلاحی و رفاحی کاموں کو سراہا اور جرمنی میں چند سال قبل آنے والے سیلاب کے موقع پر جماعت احمدیہ کی خدمت کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔

موصوفہ نے مسجد کے تعمیر پر حضور انور کی آمد کو مبارک قرار دیا۔ آخرپر انہوں نے مسجد کی تعمیر پر مبارکباد پیش کی۔

ادارہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل حضرت خلیفة المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، جماعت احمدیہ جرمنی اور احبابِ جماعت احمدیہ عالمگیر کی خدمت میں مسجد نور کی تعمیر پر مبارکباد پیش کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کو علاقے میں روحانیت کے نور کو پھیلانے میں بھرپور کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button