متفرق شعراء

مکالمہ (یورپ و خلیفۃ المسیح) حالیہ سفرِ یورپ پر

یورپ

سرزمینِ انقلابِ صنعت و حرفت ہوں میں

عصرِ حاضر کے دھڑکتے قلب کی حرکت ہوں میں

انقلابِ فرانس بھی میرے ہی پہلو سے اُٹھا

اور جدیدیت کا جِن میرے ہی جادو سے اُٹھا

میرے ہی نورِ بصیرت سے ہوئے جَلوَت نشیں

راز جو بھی کھولتی ہیں دُوربین و خوردبیں

ہر ذریعہ میں نے ہی ابلاغ کا جاری کیا

اور پھر دنیا پہ اِس کا سحر بھی طاری کیا

میں نے ہی اَفشا کیا رازِ نفوسُ زُوِّجَت

مجھ سے ہی ظاہر ہوا رنگِ عشارُ عُطِّلَت

انگلیوں سے میری ہی الجھے ہیں سب اشیاء کے تار

’’کیا بشر اور کیا شجر، اور کیا حجر اور کیا بحار‘‘

معجزے میں نے علوم و فن کے تابع کر دیے

سب صحیفے عقل اور دانش سے ضائع کر دیے

اب کہو! میری زمیں پر کس لیے آئے ہو تم؟

آج پھر مردہ خدا کو کیوں اٹھا لائے ہو تم؟

خلیفۃ المسیح

بَر زمینِ سائنس و علم و ہنر آیا ہوں میں

اور اُفق کے پار سے تازہ خبر لایا ہوں میں

وہ افق جس سے پرے تیری نگہ جاتی نہیں

اور دیارِ عقل تک وہ صبحِ نَو آتی نہیں

آج تم نے ہے تراشی علم و حکمت کی پَری

مادرِ ایجاد کی ہے گود بھی تم سے ہَری

تم سے وابستہ ہے دنیا کی معیشت کا قیاس

اور زمانے بھر کے دستورِ سیاسی کی اساس

فلسفے کے خُم تمہارے مے کدے کی شان ہیں

صنعت و حرفت تمہارے روز و شب کی جان ہیں

پر کچل ڈالا اسی تہذیب نے انسان کو

کارخانوں کی مشینیں کھا گئیں ایمان کو

بیج یوں تشکیک کا جب ذہن میں بویا گیا

اِس ترقی میں خدا، انسان سے کھویا گیا

وہ خدا، بخشا تھا جس نے ذہن و عقل و فکر و فن

ذہن و عقل و فکر و فن سے ٹھہرا خارج از وطن

پر خدا کے ساتھ سب قدریں بھی رخصت ہو گئیں

اور نئی رسمیں عذابِ جانِ خلقت ہو گئیں

دین کیا اُٹّھا، سبھی شرم و حیا جاتی رہی

دل سے غیرت اور رشتوں سے وفا جاتی رہی

ازدواجی بندھنوں کے تار ڈھیلے پَڑ گئے

خانگی گلزار کے سب رنگ پیلے پَڑ گئے

جنس کی تفریق پر اُٹھے ہیں لایعنی سوال

مرد کو عورت میں ڈھل جانے کا آیا ہے خیال

پس تمہاری ہر روش اس بات کی تصدیق ہے

شب تمہارے عہدِ روشن کی بہت تاریک ہے

علم و دانش میں تمہارے کام کا قائل ہوں میں

ڈوبتی ناؤ بچانے پر مگر مائل ہوں میں

اِس ترقی کے قلعے کی شان و شوکت میں کہیں

گر خدائے قادرِ مطلق کی گنجائش نہیں

یہ ترقی ہی تمہاری شان کو کھا جائے گی

اور تمہارے جگمگاتے آج کو گہنائے گی

پس خدا کا آخری پیغام اب لایا ہوں میں

اور اِک زندہ خدا کے حکم پر آیا ہوں میں

مسجدیں کچھ تیرے سینے پر بنا دیتا ہوں میں

ارضِ یورپ! برملا یہ بھی بتا دیتا ہوں میں

’’آرہا ہے اِس طرف احرارِ یورپ کا مزاج

نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہ زندہ وار‘‘

(آصف محمود باسط)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button