متفرق مضامین

جہیز، معاشرہ اور اسلام

(حلیم خان شاہدؔ۔ مربی سلسلہ کٹک، اڈیشہ، انڈیا)

یہ راحتِ جاں نورِ نظر تیرے حوالے

یا رب میرے گلشن کا شجر تیرے حوالے

پہنے ہے یہ ایمان کا، اخلاق کا زیور

یہ لعل یہ الماس و گہر تیرے حوالے

جہیز عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’اسباب‘ یا ’سامان‘ ہے۔ یہ اس سامان کو بھی کہتے ہیں جو لڑکی کو نکاح میں اس کے ماں باپ کی طرف سے دیا جاتا ہے۔

بر صغیر کے مسلم معاشرے میں عموماً اور غیر مسلم معاشرے میں خصوصاً جہیز کےلین دین میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کتنی ہی عورتیں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ کم جہیز کی وجہ سے بہت سی عورتوں کی زندگی عذاب ہو جاتی ہے۔ مار پیٹ کے علاوہ بعض دفعہ ان کو جلا دیا جاتا ہے یا ان پر تیزاب پھینکا جاتا ہے۔اب تویہ چیز دیکھنے میں آرہی ہے کہ اس رسم کی وجہ سے بچیاں، ماں باپ خودکشی تک کر لیتے ہیں یا پھر اگر بچی سسرال میں ہے تو موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہے۔ افسوس کامقام یہ ہے کہ یہ تعداد معاشرے میں گھٹنے کی بجائے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ جہیز کی اس قبیح رسم کی وجہ سے بہت سارے لوگوں نے پیٹ میں موجود معصوم کلی کوضائع کرنااوردنیامیں آنے سے قبل ہی اس کو ابدی نیند سلادیے جانے کاسنگین جرم کرناشروع کردیاہے۔ نتیجۃً لڑکوں کے مقابلہ میں لڑکیوں کی شرح پیدائش کم ہوسکتی ہے۔

رسم جہیز نے مار دی ہیں بےشمار بیٹیاں

اب تو اس رواج سے ہیں بیزار بیٹیاں

دورِ حاضر میں جہیز کے مسائل اتنے ہوگئے ہیں کہ BBC کی ۲۰۱۵ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں ۱۱۳۴۰۳؍ جہیز کے معاملات درج کیے گئے۔ اگر ہندوستان کا ہی جائزہ لیں تو ۲۰۱۹ءمیں ہی سات ہزار سے زائداموات جہیز کی وجہ سے ہوئی ہیں۔دنیا ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تاک میں ہیں۔اس کی اوّل وجہ اسلامی تعلیمات کے مطابق بچیوں یا عورتوں کو ان کے حقوق نہ دینا معلوم ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے دین اسلام میں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے ذریعہ بحیثیت ماں عورت کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی اور بحیثیت بیوی خاوند کے اخلاق کا اولین گواہ بنایا۔اس طرح عورت کو بطور بیٹی جہنم کی راہ میں دیوار قرار دیا۔پھر ماں،بیوی،بہن اور بیٹی کو وراثت میں حصہ دلایا۔ الغرض عورت کو ہر قسم کے حقوق ، عزت و تکریم سے نوازا۔

تیرا نبیؐ جو آیا اس نے خدا دکھایا

دینِ قویم لایا بدعات کو مٹایا

آنحضرتﷺ کےدنیا میں آنے کے بے شمار مقاصد میں سے ایک مقصد کا ذکر قرآن نے یوں فرمایا:وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ۔(الاعراف آیت:۱۵۸)اور ان کے بوجھ (جو ان پر لادے ہوئےتھے)اور طوق جو ان کے گلوں میں ڈالے ہوئے تھے وہ ان سے دور کرتا ہے۔

یعنی جو بھی رسم وبدعات تھے ان سے ان کو محفوظ کرنا تھا اور آپﷺنے بڑی خوش اسلوبی سے اس فریضے کو سرانجام دیا اور رہتی دنیا تک ایک مثال قائم کردی لیکن آپؐ کی پیشگوئی لَا یَبْقیٰ مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہٗ کے عین مطابق اسلام میں بھی بگاڑ پیدا ہونا تھا اور ہوا۔آج سے ایک صدی قبل جب چاروں طرف تاریکی کا دَور دورہ تھا اور کشتیٔ اسلام بھنور میں پھنسی ہوئی ہچکولے کھا رہی تھی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ ان بے شمار رسم وبدعات کا مقابلہ کرتے ہوئے کشتیٔ اسلام کو ڈوبنے سے پھر سے بچایا۔آپؑ نے اپنے ماننے والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’ میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے گھروں میں قسم قسم کی خراب رسمیں اور نالائق عادتیں جن سے ایمان جاتا رہتا ہے گلے کا ہار ہو رہی ہیں۔ اور ان بری رسموں اور خلافِ شرع کاموں سے یہ لوگ ایسا پیار کرتے ہیں جو نیک اور دینداری کے کاموں سے کرنا چاہیے…سو آج ہم کھول کر بآواز کہہ دیتے ہیں کہ سیدھا راہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتا ہے، یہی ہے کہ شرک اور رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑ کر دین اسلام کی راہ اختیار کی جائے اور جو کچھ اللہ جلّشانہٗ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور اس کے رسولﷺ نے ہدایت کی ہے۔ اس راہ سے نہ بائیں طرف منہ پھیریں نہ دائیں۔ اور ٹھیک ٹھیک اسی راہ پر قدم ماریں۔ اور اس کےبر خلاف کسی راہ کو اختیار نہ کریں‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۱۰۹۔۱۱۰ ایڈیشن ۲۰۱۹ء)

اسی طرح آپؑ کے خلفائے کرام بھی وقتاً فوقتاً اس طرف توجہ دلاتے رہے۔ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصر ہ العزیز فرماتے ہیں:’’اپنے آپ کو معاشرے کے رسم ورواج کے بوجھ تلے نہ لائیں۔ آنحضرتﷺ تو آپ کو آزاد کروانے آئے تھے اور آپ کو ان چیزوں سے آزاد کیا ا ور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی جماعت میں شامل ہوکر آپ اس عہد کو مزید پختہ کرنے والے ہیں۔ جیسا کہ چھٹی شرط بیعت میں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اتباعِ رسم اور متابعت ہوا وہوس سے باز آجائے گا۔ یعنی کوشش ہوگی کہ رسموں سے بھی باز رہوں گا۔ اور ہوا وہوس سے بھی باز رہوں گا تو قناعت اور شکر پر زور دیا۔ یہ شرط ہر احمدی کے لیے ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب ہواپنے اپنے وسائل کےلحاظ سے اس کو ہمیشہ ہر احمدی کو اپنے مدنظر رکھنا چاہیے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍نومبر ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍دسمبر ۲۰۰۵ء)

جہیز اور اسلامی تعلیمات

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الۡفِضَّۃِ وَ الۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَ الۡاَنۡعَامِ وَ الۡحَرۡثِؕ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ۔ (سورۃ اٰل عمران آیت نمبر:۱۵)ترجمہ:لوگوں کے لیے طبعاً پسند کی جانے والی چیزوں کی یعنی عورتوں کی اور اولاد کی اور ڈھیروں ڈھیر سونے چاندی کی اور امتیازی نشان کے ساتھ داغے ہوئے گھوڑوں کی اور مویشیوں اور کھیتیوں کی محبت خوبصورت کرکے دکھائی گئی ہے۔ یہ دنیوی زندگی کا عارضی سامان ہے اور اللہ وہ ہے جس کے پاس بہت بہتر لوٹنے کی جگہ ہے۔

ان دنیاوی عارضی سامانوں میں سے ایک سامان وہ ہے جو معاشرے میں جہیز کے نام سے موسوم ہے۔جہیز دینا کوئی رسم نہیں ہے بلکہ رسول پاکﷺ کی ایک سنت ہے۔

بچی کی شادی ایک ایسا موقع ہوتا ہے جب ماں باپ اپنی بیٹی کو جوان ہونے پر ہمیشہ ہمیش کے لیے اپنے گھر سے رخصت کرتے ہیں اور وہ دوسرے خاندان کا فرد بننے کے لیے جارہی ہوتی ہے تو اس موقع پر ماں باپ کی محبت فطری طور پر اس بات کا تقاضا کرتی ہے تووہ اپنی توفیق اور استطاعت کے مطابق اپنی بچی کو گھر سے رخصت کے وقت اسے کچھ تحفہ دیتے ہیں اس کو’’جہیز‘‘ کہا جاتا ہے۔اس کی مثال آنحضرتﷺ کی زندگی میں ہمیں ملتی ہے۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ’’حضرت فاطمہ ؓکی شادی کے موقع پر نبی کریم ؐنے ان کو بنیادی ضرورت کا صرف تھوڑا سا سامان دیا تھا جو یہ تھا، ایک خویلا ریشمی چادر، چمڑے کا گدیلا جس میں کھجور کے ریشے تھے، آٹا پیسنے کی چکی، مشکیزہ، دو گھڑے یہ کُل جہیز تھا جو حضرت فاطمؓہ کو دیا۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۱۰۶ مطبوعہ بیروت،ماخوذ خطبہ جمعہ ۳۰ اپریل ۲۰۰۴ء)لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آپﷺ اپنے بچوں کو ان دنیاوی عارضی سامانوں سے بچتے ہوئےسادہ زندگی گزارنےاور قناعت اختیار کرنےکی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐ نے براہ راست نصیحت فرمائی اور نصیحت بھی اپنی انتہائی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ کو فرمائی۔ اس کا روایت میں یوں ذ کر آتا ہے۔’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے چکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف ہو گئی اور ان دنو ں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضور ؐکے پاس گئیں لیکن آپؐ کو وہاں نہ پایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملیں اور آنے کی وجہ بتائی۔جب حضورﷺباہر سے تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کا ذکر کیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر آئے، رات کا وقت تھا، کہتے ہیں کہ ہم بستروں میںلیٹ چکے تھے تو حضورؐ کے تشریف لانے پر ہم اٹھنے لگے تو آپؐ نے فرمایا نہیں لیٹے رہو۔ پھر آپؐ ہمارے درمیان تشریف فرما ہوئے۔ کہتے ہیں کہ یہاں تک کہ حضورؐ کے قدموں کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہارے سوال سے بہتر چیز نہ بتاؤں ؟ جب تم بستروں پر لیٹنے لگو تو ۳۴دفعہ اللہ اکبر کہو، ۳۳بار سبحان اللہ اور ۳۳بار الحمدللہ کہو۔ یہ تمہارے لیے نوکر سے بہتر ہے، ملازمین رکھنے سے بہتر ہے۔ (مسلم کتاب الذکر باب التسبیح اول النھاروعند النوم) جب قناعت اور سادہ زندگی گزارنےکی عادت بچیوں میں ہوگی تو ہر حالات میں بچیاں زندگی بسر کر لیتی ہیں۔اصل چیز خدا کی رضا اور اس کی رحمت ہے اگر وہ مل جائے تو ان عارضی چیزوں کا کیا فائدہ۔یہی تو وہ اصل زیور وجہیز ہے جو ایک باپ کی طرف سے ایک بیٹی کو ملنا چاہیے۔

محبت بھی، رحمت بھی، بخشش بھی تیری

میں ہر آن تیری رضا چاہتی ہوں

مرے خانۂ دل میں بس تو ہی تو ہو

میں رحمت کی تیری رِدا چاہتی ہوں

حضرت مولانا نورالدین خلیفۃالمسیح الاولؓ نے جب اپنی بیٹی حفصہ کی شادی کی تو انہیں علاوہ اس جہیز کے جو عام طور پر لوگ دیا کرتے ہیں ایک بڑا صندوق کتابوں کابھی دیا جو آپ کے زیر مطالعہ رہتی تھیں۔ یہ سب کتابیں قرآن کریم، احادیث اور دینیات کی تھیں۔ مگر جب انہیں ڈولی میں سوار کیا گیا تو آپؓ انہیں رخصت کرنے کے لیے تشریف لائے اور کہا: ’’حفصہ! میں تیرا جہیز لایا ہوں‘‘۔ پھر ایک کاغذ ان کی گود میں رکھ دیا اور کہا کہ ’’بچہ! اس کو سسرال پہنچ کر کھولنا اور پڑھ لینا‘‘۔

اس کاغذ میں درج تھا: ’’بچہ اپنے مالک، رازق، اللہ کریم سے ہر وقت ڈرتے رہنا اور اس کی رضامندی کا ہر دم طالب رہنا اور دعا کی عادت رکھنا، نماز اپنے وقت پر اور منزل قرآن کریم کی بقدر امکان بدوں ایام ممانعت شرعیہ ہمیشہ پڑھنا۔ زکوٰۃ، روزہ، حج کا دھیان رکھنا اور اپنے موقع پر عمل درآمد کرتے رہنا۔ گلہ، جھوٹ، بہتان، بیہودہ قصے کہانیاں یہاں کی عورتوں کی عادت ہے اوربے وجہ باتیں شروع کردیتی ہیں۔ ایسی عورتوں کی مجلس زہر قاتل ہے۔ ہوشیار، خبردار رہنا۔ ہم کو ہمیشہ خط لکھنا۔ علم دولت ہے، بےزوال، ہمیشہ پڑھنا۔ چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کو قرآن پڑھانا۔ زبان کو نرم، اخلاق کو نیک رکھنا۔ پردہ بڑی ضروری چیز ہے۔ قرآن مجید کو ہمیشہ پڑھتے رہنا۔ مرأ ۃ العروس اور دوسری کتابیں پڑھو اور ان پر عمل کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو اور تم کو نیک کاموں میں مدد دیوے۔ والسلام۔ نورالدین‘‘(۳۱؍مئی۱۸۹۱ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا یہ خط مجلس انصاراللہ کینیڈا کے مجلہ ’’نحن انصاراللہ‘‘ اپریل تا ستمبر ۲۰۰۴ء کی زینت ہے۔یہ ہے وہ اصل جہیز جو ایک باپ کی طرف سے اپنی بیٹی کو ملنا چاہیے اگر والدین اس قسم کا جہیز دینا شروع کردیں تو یقینی طور پر عائلی زندگی کے مسائل میں کمی ہوجائے گی۔اس کے لیے نئی آنے والی نسلوں کی ہمیں صحیح رنگ میں تربیت کرنی پڑیگی جس طرح ہمارے پیارے امام نے فرمایا کہ ’’اے احمدی عورتو! تم اپنے اس اعلیٰ مقام کو پہچانواور اپنی نسلوں کو معاشرے کی برائیوں سے بچاتے ہوئے ان کی اعلیٰ اخلاقی تربیت کرواور اس طرح سے اپنی آئندہ نسلوں کے بچاؤ کی ضمانت بن جاؤ۔ اللہ ان لوگوں کی مدد نہیں کرتا جو اس کے احکام کو وقعت نہیں دیتے۔ اللہ آپ کو اپنا مقام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ اپنی آئندہ نسل کو سنبھالنے والی بن سکیں۔ آمین‘‘۔ ( اَلاَزْھَارُلِذَوَاتِ الْخِمَار۔ ’’اوڑھنی والیوں کے لئے پھول‘‘ جلد سوم حصہ اول صفحہ ۲۲۰)

اگر آج ہم احمدی مسلمانوں کو بدعت کی اس شکل سے بچنا ہے تو خدا اور اس کے فرستادوں کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کر کے ہی بچا جا سکتا ہے لہذااس ضمن میں خلفائے احمدیت کے بعض اقتباسات وارشادات پیش ہیں:’’ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں سید ہوں۔ میری بیٹی کی شادی ہے۔ آپ اس موقع پر میری کچھ مددکریں۔حضرت خلیفہ اول یوں تو بڑے مخیر تھے مگر طبیعت کا رجحان ہے جو بعض دفعہ کسی خاص پہلو کی طرف ہو جا تا ہے۔ آپ نے فرمایا : میں تمہاری بیٹی کی شادی کے لئے وہ سارا سامان تمہیں دینے کے لئے تیار ہوں جو رسول کریمﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ کو دیا تھا۔ وہ یہ سنتے ہی بے اختیار کہنے لگا۔ آپ میری ناک کاٹنا چاہتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کیا تمہاری ناک محمد رسول اللہﷺ کی ناک سے بڑی ہے۔ تمہاری عزت تو سید ہونے میں ہے۔ پھر اگر اس قدر جہیز دینے سے رسول کریمﷺ کی ہتک نہیں ہوئی تو تمہاری کس طرح ہو سکتی ہے۔‘‘( حیات نور۔ صفحہ ۵۲۹-۵۳۰ )

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں:’’اس میں شبہ نہیں کہ جہیز اور بری کی رسوم بہت بری ہے اس لئے جتنی جلدی ممکن ہواس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے…ایسی وباء اور مصیبت جو گھروں کو تباہ کر دیتی ہے اس قابل ہے کہ اسے فی الفور مٹا دیا جائے میں نے دیکھا ہے اچھے اچھے گھرانے اس رسم میں بری طرح مبتلا ہیں… پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نہ صرف جہیز بلکہ بری بھی بری چیز ہے اپنی استطاعت کے مطابق جہیز دینا تو پھر بھی ثابت ہے لیکن بری کا اس رنگ میں جیسے کہ اب مروج ہے مجھے اب تک کوئی حوالہ نہیں ملا۔‘‘ ( اوڑھنی والیوں کے لئے پھول صفحہ ۲۴۰-۲۴۱)

نیز آپؓ فرماتے ہیں: ’’ لیکن اس میں بعض دفعہ ایسی غیر معقول باتیں کرتے ہیں اور ایسی لغوشرطیں لگاتے ہیں کہ حیرت آتی ہے۔ مثلاً بعض لوگ جہیز کی شرطیں لگاتے ہیں۔ اتنا سامان ہو تو ہم شادی کریں گے۔ یہ سب لغو ہے۔ میں متواتر سالہا سال سے جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ ان کی اصلاح کی جائے۔ اگر جماعت کے لوگ اس طرف توجہ کر یں تو بہت جلد اصلاح ہو سکتی ہے۔ اگر وہ عہد کر لیں کہ ہرایسی شادی جس میں فریقین میں سے کسی کی طرف سے بھی ایسی شرطیں عائد کی گئی ہوں تو ہم اس میں شریک نہ ہوں گے تو دیکھ لوتھوڑے ہی عرصہ میں وہ لوگ ندامت محسوس کرنے لگیں گے اور ان شنیع حرکات سے باز آ جائیں گے۔ بھلا اس سے زیادہ اور کیا ذلیل کن بات ہو سکتی ہے کہ لڑکیوں کے چار پایوں کی طرح سودے کئے جائیں اور منڈی میں رکھ کر ان کی قیمت بڑھائی جائے۔ پس ہماری جماعت کو ایسی شنیع حرکات سے بچنا چاہیے اور عہد کرنا چاہیے کہ ایسی شادی میں کبھی شامل نہ ہوں گے خواہ وہ سگے بھائی یا بہن کی ہو۔‘‘( الفضل ۱۸؍اپریل ۱۹۴۷ء )

حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث ؒ فرماتے ہیں:’’ جو شخص رسوم اور بدعات کو نہیں چھوڑتا جس طرح اس کا ایمان پختہ نہیں اسی طرح وہ نبی کریمﷺ کی مدد اور اسلام کی تقویت کے لئے وہ قربانیاں بھی نہیں دے سکتا جن قربانیوں کا اسلام اس سے مطالبہ کرتا ہے۔‘‘(خطبات ناصر جلد اول صفحہ ۳۸۵)

نیز ایک مقام پر آپؒ فرماتے ہیں:’’ جس پاکیزگی کے قیام کے لیے محمد رسول اللہﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے ہر بدعت اور بد رسم کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سب میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہوں گے اور اپنے گھروں کو پاک کرنے کے لئے شیطانی وسوسوں کی سب راہوں کو اپنے گھروں پر بند کر دیں گے۔‘‘ (خطبات ناصر جلد اول صفحہ ۷۶۳)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:’’ بچی کو طاقت سے بڑھ کر تکلف کے ساتھ جہیز دینا اس غرض سے دنیا کیا کہے گی کہ بچی کو کچھ نہیں دیا اس کی کوئی شرعی سند نہیں ہے۔حضرت مسیح موعودؑ تو فرماتے ہیں کہ نکاح میں جو لازم ہے وہ صرف اتنا ہے کہ کھڑے ہوکر ایجاب قبول ہو اور رخصتانہ ہو جائے صرف اتنا سا فرض ہے چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں کہ اب بتاؤ اس کے لئے کون سے سودی روپے لینے کی ضرورت ہے اور کیوں بوجھوں کے نیچے دبنے کی ضرورت ہے۔‘‘ (خطبات طاہر جلد۲صفحہ ۶۳۴-۶۳۵)

ہمارے موجودہ امام کے اس تعلق سے کیا ارشادات ہیں وہ پیش کرتا ہوں آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’بعض خاندان ایسے ہیں جو شادی کے بعد لڑکی کو طعنہ دیتے ہیں کہ جہیز لے کر نہیں آئی، اولاد نہیں ہوتی، اس کی تو لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اس طرح لڑکے والے لڑکی کو طعنے دیتے ہیں تو پھر علیحدگی ہو جاتی ہے۔ بعض دادیاں، نانیاں پاکستان سے دیہاتی ماحول سے آئی ہیں اور دیہاتی اثر ان پر غالب ہے اور ان کی جاہلانہ سوچ کی وجہ سے بعض رشتے خراب ہورہے ہیں ‘‘۔ (مطبوعہ الفضل۹؍اگست ۲۰۱۲ء)

نیز آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’شادی بیاہ کے موقع پر بعض فضول قسم کی رسمیں ہیں۔ جیسے بری کو دکھانا یا وہ سامان جو دلہا والے دلہن کے لئے بھیجتے ہیں اس کا اظہار، پھر جہیز کا اظہار۔ با قاعدہ نمائش لگائی جاتی ہے۔ اسلام تو صرف حق مہر کے اظہار کے ساتھ نکاح کا اعلان کرتا ہے۔ باقی سب فضول رسمیں ہیں … صرف رسموں کی وجہ سے، اپنا ناک اونچا رکھنے کی وجہ سے غریبوں کو مشکلات میں، قرضوں میں نہ گرفتار کریں اور دعویٰ یہ ہےکہ ہم احمدی ہیں اور بیعت کی دس شرائط پر پوری طرح عمل کر یں گے۔ تو یہ مختصراً میں نے ایک شادی کی رسم پر عرض کیا ہے۔اگر اس کوکھولوں تواس شادی کی رسم پر ہی خوفناک بھیانک نتائج سامنے لانے والی اور بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں۔ اور جب رسمیں بڑھتی ہیں تو پھر انسان بالکل اندھا ہو جا تا ہے اور پھر اگلا قدم یہ ہوتا ہے کہ مکمل طور پر ہوا و ہوس کے قبضہ میں چلا جا تا ہے جبکہ بیعت کر نے کے بعد تو وہ یہ عہد کر رہا ہے کہ ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی حکومت مکمل طور پر اپنے اوپر طاری کر لے گا۔ اللہ اور رسول ہم سے کیا چاہتے ہیں، یہی کہ رسم ورواج اور ہوا و ہوس چھوڑ کر میرے احکامات پر عمل کرو۔ ‘‘ (شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ ۱۰۱ تا ۱۰۳ )

نیز فرماتے ہیں:’’ شادی بیاہ پر فضول خرچی کرنے سے بچو۔ صرف دکھاوے کے لئے اپنی بیٹی کا جہیز نہ بناؤ بلکہ ضرورت کے مطابق بناؤ۔ اگر اللہ کا فضل نہ ہو تو جہیز لے کر جانے والی بچیاں ہی بعض دفعہ ظالم خاوندوں کے ہاتھوں یا ظالم سسرال کے ہاتھوں تکلیف اٹھا رہی ہوتی ہیں۔ اس لئے ہمیشہ اللہ کا فضل مانگنا چاہئے۔ صرف جہیز پر انحصار نہیں۔ دعاؤں کے ساتھ بچیوں کو رخصت کرنا چاہئے نہ کہ اپنی دولت اور لڑکی کے جہیز یا فلیٹ یا مکان جو اس کو دیا گیا ہے اس پر انحصار کرتے ہوئے، اس پر گھمنڈ کرتے ہوئے۔ کبھی کسی غریب یا اپنے سے کم پیسے والے کی بچی کی رخصتی کو تحقیر کی نظر سے کبھی نہ دیکھیں۔ جب اللہ تعالیٰ کے فضل شامل ہوں گے تبھی بچیاں بھی اپنے گھروں میں خوش رہیں گی،آباد رہیں گی۔‘‘ (جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ ۲۰۰۴ء میں خواتین سے خطاب مطبوعہ روزنامہ الفضل ۱۷؍مارچ ۲۰۰۵ء)

آخر پر حضرت امیر المومنین کی اس دعائیہ نصیحت پر اپنا مضمون ختم کرتا ہوں آپ فرماتے ہیں:پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے عہد کو نبھاتے ہوئے، اپنی بیعت کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے حقیقی ایمان لانے والوں میں شامل ہوں۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جنہوں نے ہمیں صحیح راستہ دکھایا۔ہمیں اچھے اور برے کی تمیز سکھائی۔ اگر اس کے بعد پھر ہم دنیاداری میں پڑ کر رسم و رواج یا لغویات کے طوق اپنی گردنوں میں ڈالے رہیں گے تو ہم نہ عبادتوں کا حق ادا کر سکتے ہیں نہ نور سے حصہ لے سکتے ہیں…

اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والے ہوں۔ اللہ اور اس کے رسول کے قول پر عمل کرنے والے ہوں۔رسم و رواج سے بچنے والے ہوں۔ دنیاوی ہواو ہوس اور ظلموں سے دور رہنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نور سے ہم ہمیشہ حصّہ پاتے چلے جائیں۔ کبھی ہماری کوئی بدبختی ہمیں اس نور سے محروم نہ کرے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ جنوری ۲۰۱۰ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍فروری ۲۰۱۰ء)

آمین اللھم آمین

جو رسموں رواجوں کو چھوڑیں گے ہم

تو ناتا مسیحا سے جوڑیں گے ہم

منائیں اگر سادگی سے خوشی

تو اسراف سے منہ کو موڑیں گے ہم

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button