تعارف کتاب

انمول یادیں (مصنفہ مکرم عبد السمیع نون صاحب۔ ایک قانون دان، ایک مبلغ، ایک منفرد قلمکار)

(محمد انیس دیالگڑھی۔ مدیر اخبار احمدیہ جرمنی)

سرگودھا اور اس کے گردونواح کا علاقہ بڑا خوبصورت اور زرخیز علاقہ ہے۔ لہلہا تے سرسبز کھیت قطاراندرقطار ایستادہ درخت،باغوں کے لا متناہی سلسلہ کی بہار اس علاقے کی شان اور پہچان ہے۔

علم وعرفان کے لحاظ سے بھی یہ زمین بڑی زرخیز ہے۔ ایسے ایسے روحانی وجود، بزرگ،علماء اورنابغے اس زمین پر بہار دکھاتے رہے کہ

ملتے ہیں مشکل سے ایسے سیب اور انار

ان نابغوں میں سے ایک میاں عبدالسمیع نون صاحب بھی تھے جو اپنے دور میں علمی،ادبی حلقوں کی پہچان تھے۔جماعتی اخبارات ورسائل میں ان کے مضامین شائع ہوتے تھے اور پسند کیے جاتے تھے۔حال ہی میں ان کے بھانجے مکرم بشارت احمد چدھڑ صاحب نے ان کے مضامین کا مجموعہ ’’انمول یادیں‘‘کے نام سے شائع کیا ہے۔ جرمنی کی ایک علم دوست شخصیت مکرم عرفان خان صاحب دہلوی جو ایک علمی وادبی گھرانہ میں پیداہوئے اورخود بھی علم وادب کے دلدادہ ہیں اور اس چراغ کو روشن رکھے ہوئے ہیں اور اس کی لَوکودھیما نہیں ہونے دیتے اور ان بزرگوں اور عاشقان پاک طینت کے پاکیزہ ذکر کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے جلسہ یوکے ۲۰۲۳ء کے موقع پر یہ انمول کتاب عنایت فرمائی۔

کتاب کیا ہاتھ آئی بادۂ جانفزا ہاتھ آگیا۔گھر آتے ہی کونے کھدرےکی تلاش شروع کی تا اس انمول خزانے کو پوری دلجمعی اور یکسوئی کے ساتھ پڑھا جائے مگر

سکوں محال ہے یورپ کےکارخانے میں

پر ی وشوں کا بیان اور عبد السمیع نون کی زبان۔گردوپیش کی خبرنہ رہی کسی کونے کھدرےکا خیال نہ رہا۔بزرگوارم نون صاحب کے ساتھ اسی کونے میں پہنچے جہاں اُن کی تحریر لےجاتی۔

دبستان احمدیت نےہر دور میں ایسے قلمکار پیدا کیے جن کی تحریریں خود پُکار کرکہتی ہیں کہ یہ سلطان القلم کا غلام ہے۔ایسے ہی خوش بیاں، خوش نویس اور خوش نصیب قلمکاروں میں مکرم عبد السمیع نون صاحب کا شمار بھی ہوتا ہے۔بعض تحریریں دل کو چھونے بلکہ دل میں اُترنے والی تحریریں ہوتی ہیں اور مضمون بولتاہے کہ اُس کا خالق کون ہے۔

بُراہوجوانی کے باغی اور لااُبالی پن کا کہ علمی، سائنسی، حسابی اور ثقیل مضامین اور ایسےمضمون نگاروں سے گُریز پا تھے۔ اورآج کف افسوس مَلتے ہیں کہ اس وقت کیوں نہ پڑھا۔جوانی میں جن مضمون نگاروں کو ہم شوق سے پڑھا کرتے تھے ان میں سے ایک نام بزرگوارم عبدالسمیع نون صاحب کانام نامی ہے۔گونون صاحب خود پرویز پروازیؔ صاحب کے معترف اور طرفدار ہیں اورہم بھی ہیں اورمکرم پروازی صاحب کے مضامین ڈھونڈ کر پڑھتے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پروازی صاحب جیسی تحریر لکھنے کے لیے تخیل کی بلندپروازی شرط ہے مگر عبد السمیع نون صاحب کا اسلوب اور اندازبیاں بھی کسی طور کم نہیں۔ان کےہاں واقعات ایک عجیب عاشقانہ اور والہانہ انداز میں آتے ہیں۔بہت سے واقعات کئی بار سُنے مگر ان کے قلم سے عشق ومحبت کی روشنائی سےچَھن کرقرطاس کی زینت بنتے ہیں توقند مکررکاکام دیتے ہیں۔ عشق ومحبت کی یہ ادا اور یہ رنگ نصیبوں سے ملتا ہے اور حرف حرف بولتاہے کہ دل کی راجباہ عشق کے پانی سے لبریز ہے بلکہ چھلک رہی ہے اوردوسری زمینوں کو بھی سیراب کررہی ہے۔میری خوش قسمتی ہے کہ نون صاحب سے زندگی میں ایک بار ملنے کی سعادت ملی۔خاکسار اپنے والدگرامی مولانا محمد اسماعیل دیال گڑھی مرحوم ومغفور کے ساتھ ان کے گھر سرگودھا گیا۔مکرم نون صاحب مسیح پاک علیہ السلام کے ہر غلام کے قدردان تھے کہ خود بھی اس کوچہ کے باسی تھے۔والد صاحب سے بھی محبت کا تعلق تھا۔افسوس کہ میری بس یہی ایک ہی ملاقات مکر م نون صاحب مرحوم کے ساتھ ہوئی اُس کے بعد جلسہ سالانہ یا اجتماع وشوریٰ کے مواقع پر

دیکھنا بھی تو اُنہیں دور سے دیکھا کرنا

والا معاملہ رہا۔

مکرم نون صاحب کے سارے مضامین ہی ایک عجیب جذب وشوق اور عشق ومستی کے عالم میں لکھے گئے ہیں اور بعض تو خون جگر سے لکھے گئے ہیں جو حرف حرف سے ٹپکتا محسوس ہوتا ہے۔یادرفتگاں کے مضامین میں تو نون صاحب اپنا کلیجہ نکال کر کاغذ پر رکھ دیتےہیں۔

سُن تو بھی ہمنشیں ذرا دل سنبھال کر

کاغذ پر رکھ رہا ہوں کلیجہ نکال کر

خلفائے سلسلہ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اور دیگر بزرگوں کا ذکر ہو تو نون صاحب کا قلم اُن کے قدموں میں سررکھ کر بولتاہے اور ان کو نوحہ گرکو ساتھ رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔شہید کابل کا ذکر ہو توایسے لگتا ہے کہ سنگساری کے وقت یہ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف رضی اللہ عنہ کے قدموں میں کھڑے ہر پتھر اپنے ہاتھوں پرلینے کی کوشش میں ہیں۔

اے مرے جذب دروں مجھ میں کشش ہے اتنی

جو خطا ہوتا ہے وہ تیر بھی آلگتا ہے

اپنے بزرگ اورصحابی والد مکرم عبد العزیز نون صاحب کا ذکر کرتے ہیں تو دل بچہ کی طرح مچل جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ چشم تصور میں وہ اپنے والد گرامی کی گود میں بیٹھے ہیں۔حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کا ذکر کرتےہیں تو اُن کی مجلس میں لے جاتے ہیں۔حضرت مولانا اسماعیل ہلال پوری، حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ،حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ،حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ،حضرت سیدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ، بزرگوارم سید محمد طیب صاحب،ایم ایم احمد صاحب،مرزا عبدالحق صاحب،مرزا مبارک احمد صاحب، شیخ محمد احمد مظہرصاحب،شیخ بشیر احمد صاحب اور اسی طرح دوسرے بزرگوں کا ذکر کرتے ہیں تو قاری چشم تصور میں خود کو ان بزرگوں کے درمیان پاتاہے۔خلفائے عظام کا ذکر تو اور بھی محبت وعشق اور احترام وعظمت کے ساتھ کرتے ہیں اورایسا نقشہ کھینچتے ہیں کہ

ہر تصور سے تصویر اُبھرنے لگی، نام بن کر زباں پر اُترنے لگی

ذکر اتنا حسیں تھا کہ ہر لفظ نے ،فرط الفت سے بوسے زباں کے لئے

روزنامہ الفضل ۱۲؍اگست ۱۹۹۶ء میں شائع ایک تحریر میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ سے ایک ملاقات کا ذکرلکھتے ہیں۔جوکتاب کے صفحہ ۵۵پر درج ہے:’’حضرت امام ثانیؓ جب آخری بیماری میں صاحب فراش تھے تو۱۹۶۴ء میں ملاقات کیلئے حاضر ہوا حضرت صاحب بستر پرلیٹے ہوئے تھے۔ملاقاتی لائن بناکر گزرتے جاتے اور سلام عقیدت پیش کرتے جاتے تھے۔محترم مولانا عبدالرحمٰن صاحب انورملاقاتیوں کے نام بتارہے تھے۔جب میں قریب ہوا تو مولانا موصوف نے ’’عبد السمیع نون سرگودھا سے ‘‘عرض کیا حضرت صاحب نے مسکراکر فرمایاِ’’ نون کہ نون غنہ ‘‘ اپنی تو یہ حالت ہوئی کہ ؎

مجھے دوجہاں کی دولت ملی وہ جو مسکرائے

یہ سوال یوں بھی جواب طلب توتھا ہی نہیں اور اس دربار میں مجھے کچھ عرض کرنے کی کب طاقت تھی۔‘‘

تحریر کے آخر پر لکھتے ہیں:’’ عرصہ گزرا اس کے بعد نہ کسی نے نون غنہ کہا نہ میں نے سُنا اور اب کان اس شیریں اور دلنواز آواز کو ترستے رہتے ہیں۔

اے کاش موت کے بعد حضرت صاحب کے قدموں میں جگہ ملے اور پھر حضرت صاحب کی زبان مبارک سے ’’نون یا نون غنہ ‘‘کے الفاظ سنوں۔پھر میرا نصیبہ جاگ پڑے اور عرض کروں کہ آقا میں آپ کی خاک پا بن جاؤں توزہے نصیب ورنہ آپ کا غلام در تو اس لائق بھی نہیں۔یہ میٹھی یادیں نہ بھولتی ہیں نہ برستی آنکھیں خشک ہوتی ہیں۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک سفر میں ہم رکاب ہونے کی سعادت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتےہیں:’’میں حضرت صاحب کی کفش برداری کے لئے آپ ہی کی گاڑی میں سوار تھا۔جب پختہ سڑک پر پہنچے تو میں نے عرض کیا۔اجازت ہوتو یہیں سے سرگودھا کی بس میں واپس چلا جاؤں۔فرمایا ہاں ٹھیک ہے۔قافلہ رُک گیا اور میں دست بوسی کرکے اور آداب بجالاکر ویگن سے اُترا تو بلایا ’’نون‘‘ میں گاڑی کے پاس آیا تو فرمایا۔یہ شکارتمہارے لئے ہے۔میں نے عرض کیا ’’جی سارا ‘‘فرمایا ’’ہاں سارا ‘‘ پکڑ لو،میں نے شکریہ ادا کیا۔‘‘

اس واقعہ کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں:۔

’’اے کاش!مجھے اتنی عقل ودانش ہوتی جتنی عبدالاحد خان صاحب کو تھی۔ہر بار طلب فرمانے پر ’’قربانت شوم‘‘کہتے ہوئے حاضر ہوتااب اس لفظ ’’نون ‘‘کو سننے کو کان ترستے ہیں اور میرادل حسرتوں کا مزارہے۔‘‘

ان بزرگوں کے ہجر میں تڑپتے ہوئے نون صاحب کی روح پر ایک تازیانہ اورپڑتا ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے اعلیٰ وارفع رفیق کی طرف رفع کرجاتے ہیں۔اس غم کا ذکر یوں کرتےہیں۔(صفحہ ۲۰)

’’میں گزشتہ صدی کے آخری دودہائیوں سےلے کر آج تک مسلسل گردش میں ہوں ۱۹۸۲ء میں میرے محبوب آقا حضرت ناصرالدین رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات نے میری زندگی کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا تھا اور آج ۲۱سال بعد رہی سہی کسر سیدنا حضرت طاہر ومطہر کی اچانک وفات نے نکال دی۔اب میری محرومیاں اور مسائل عروج پر ہیں میرے ہم راز اور غمگساروں کا بے یارومددگار چھوڑکر چلے جانا اس پر مستزاد۔اگر زندہ جاوید قادرمطلق کا سہارا نہ ہوتا تو

میں تو مرکر خاک ہوتا گر نہ ہوتا تیرا لطف

پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار‘‘

پھر حضرت مسرور کو دیکھ کر مسروربھی ہوتے ہیں اور اپنی خوش گوار یادیں بھی لکھتےہیں کہ جب حضورانوراچانک نون صاحب کے گھر عیادت کی غرض سے پہنچ گئے تھے۔کتاب کے صفحہ ۴۱۹پہ یہ محبت بھری داستان ایک عجیب عشق ومحبت کے عالم میں رقم ہے۔

اس کتاب میں ایسے واقعات بھی ہیں جو مجھے پہلی بار پڑھنے کو ملے اور ایسے واقعات بھی جن کا علم تو تھا مگر نون صاحب کی زبان سے اصل واقعہ کا علم ہوا کہ نون صاحب اس کے شاہد تھے۔اپنے ایک دوست شیخ محمد اقبال پراچہ صاحب (جو ٹرانسپورٹ کاکام کرتے تھے اور ان کی اپنی بسیں تھیں )کے ذکر خیر میں صفحہ ۸۶پر تحریر فرماتےہیں :’’ایک سال دریائے جہلم میں سیلاب آیا۔ابھی پانی پایاب ہی تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ کوہ مری سے واپسی پر خوشاب سے سرگودھا پہنچ گئے۔چند گھنٹے بعد دریائے جہلم میں سیلاب کاایسا خوفناک ریلا آیا جس سےسڑک کا راستہ مسدود ہوگیا اور حضرت صاحب کے قافلے کا ایک حصہ خوشاب سے آگے نہ آسکا۔جس میں حضرت سیدہ ام ناصرصاحبہ اور صاحبزادہ مرزاحفیظ احمد صاحب تھے۔حضرت صاحب ربوہ پہنچے تو سیلاب کی ہولناکیوں کی خبر آپ کو پہنچی ادھر پیچھے رہنے والے قافلے کی کوئی اطلاع نہیں آرہی تھی۔آدھی رات کے وقت انتظار کے بعد حضرت صاحب خود عازم سرگودھا ہوئے اورسیدھے پراچہ صاحب کےمکان واقع بلاک نمبر۱۰پرپہنچے کسی خادم نے پراچہ صاحب کو اطلاع دی یہ آدھی رات کےبعد کا سماں تھا سارا شہر محوخواب تھا۔

اس واقعہ کی تفصیل کئی بارپراچہ صاحب کی زبانی سُنی۔کہتے تھے میں ننگے پاؤں نیم بیداری کی حالت میں سڑک پر آیا اوراپنے محبوب آقا کو آدھی رات کے بعد سڑک پر کھڑے دیکھ کر بے حد پریشان ہوگیا مگر اپنے آپ کو سنبھالادے کر حضرت صاحب سے صورت حال معلوم کرکے بصدادب عرض کیا کہ میرےآقا! اگرچہ سیلاب کاپانی بہت چڑھ چکا ہے تاہم ایک بالکل نئی زیرومیٹر بس جو سب سے زیادہ قابل اعتبار ہے اور ایک ماہر اوروفادار ڈرائیور کو ابھی خوشاب بھجواتا ہوں وہ اللہ چاہے تو قافلےکو بحفاظت ربوہ پہنچا دے گا۔

سمندر عزم پہ جو ہوگیا سوار تو پھر

اسے رکاب سے مطلب لگام سے کیاکام

کبھی بھی عشق میں سودے ہوانہیں کرتے

جو جاں ہی دینےپہ آئے تو دام سےکیا کام

اس طرح نئی بس کے غرق ہوجانے کی ذرہ بھر پروانہ کی اور ایک بس کیا اس وقت اپنی ملکیتی ہر شے حقیر نظر آرہی تھی۔ایک ہی تمنا تھی جو تڑپ کی صورت اختیار کرگئی تھی کہ میرے پیارے دلدار کو خیریت کی خبر ملے اور آپ کی پریشانی دورہو اور آپ کا قلب مطہر تسکین پائے۔

اللہ کا لاکھ لاکھ احسان کہ جلد بعد ہی اس قافلے کے ریل گاڑی کے ذریعے ربوہ پہنچنے کی خبر آگئی۔‘‘

پھر ۱۹۷۴ء کے خونچکاں حالات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا عبدالحق صاحب اور حافظ مسعوداحمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے صفحہ ۲۱۶پر رقم طراز ہیں کہ ’’ 5؍اکتوبر ۱۹۷۴ء کوسرگودھا میں بیشتر احمدیوں کی املاک لوٹ لی گئی تھیں یا نذر آتش کردی گئی تھیں۔حضرت میرزا عبد الحق صاحب کا اثاثہ البیت بھی لوٹ لیا گیا اور توڑ پھوڑ بھی کی حتیٰ کہ ایک درندے نے حضرت موصوف کی جیب سےجبراً قیمتی پین بھی چھین لیا۔برادرم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد کا گھر اور کلینک اوران میں موجود سارے سامان کو جلاکر راکھ کردیا گیا جس میں موٹرسائیکل اورموٹر کار بھی تھی اور بصدمشکل حافظ صاحب محترم اپنے چند افراد خانہ کےہمراہ بچ کرنکلنے میںکامیاب ہوئے۔اور سیٹلائیٹ ٹاؤن میںپروفیسر رحمت علی صاحب مسلم کے گھر کا ایک کمرہ جس کا فرش ناہموار اینٹوں کا تھا اس پر عام سی دری بچھاکر بہت وقت گزارا اور اس دوران چارپائیوں بستروں اوررقوم کی بہت پیشکش ہوئی مگر موصوف نے ہمیشہ معذرت ہی کی۔ حتیٰ کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نےہزار ہا روپے ان دوستوں کی بحالی کیلئے بھجوائے جن کی دوکانیں خاکستر ہوچکی تھیں یا گھر کا سامان جلا دیا گیا یالوٹ لیا گیا۔حضورکی یہ امداد اس غرض سے تھی تالٹے پٹے دوست اپنا کام معمولی سے سرمائے سے شروع کرسکیں یا مثلاً خورونوش کا کچھ سامان یا برتن یا بستر چارپائی وغیرہ خرید لیں۔حضرت میرزا صاحب اور ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب نےکوئی ایسی امدادلینے سے بھی معذرت ہی کی۔جب اس کی رپورٹ حضورکی خدمت میں ارسال کی گئی کہ ان دوحضرات نےکوئی امداد نہیں لی توآپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے انہوں نے کوئی رقم لینی ہی نہیں تھی مجھے معلوم تھا میں ان کے لئے الگ دعا کررہا ہوں۔سچ ہے کہ ولی راولی می شناسد۔ کا ش ہمیں بھی وہ مقام غنا اور توکل نصیب ہو جو سرگودھا کے ان دوبزرگوں کو عطا ہوا تھا۔

اسی دوران حضرت صاحبزادہ میرزا طاہر احمد صاحب نےا پنی کارحافظ صاحب کو بھیج دی اور ڈرائیور کےہاتھ ایک خط ارسال کیا کہ آپ ضرور یہ موٹر کار رکھ لیں۔آپ کو سانس کی بھی تکلیف ہے پیدل آپ چل نہیں سکتے اور بہت تاکید کی کہ یہ واپس نہ بھیجیں مجھے اب اس کی ضرورت نہیں ہم یعنی محمد اقبال صاحب پراچہ قریشی محمود الحسن صاحب اورعاجز راقم جناب حافظ صاحب کےپاس صبح شام جایا کرتے تھے۔اس روز میں اکیلا گیا تو اسی کمرےمیں بیٹھے حضرت صاحبزادہ صاحب کےخط کا جواب لکھ رہے تھے جواب لکھ چکے تو حضرت صاحبزادہ صاحب کا خط اور اس کاجواب مجھے دےکر فرمایا کہ آج کل میری حالت بھی ایسی ہی ہے صاحبزادہ صاحب گو میرے بھائی ہیں مگر حضرت مصلح موعود کے بیٹے اور موجودہ حضرت صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں دونوں خطوط دیکھ لیں کوئی بے ادبی یا گستاخی کا جملہ دیکھیں توکاٹ دیں۔

حضرت صاحب کا خط بڑا جذباتی اورمحبت سےمعمور تھا اور جواب اس کا حافظ بھائی نے جودیا اسکے چند جملے ایسےمیرے ذہن پر نقش ہوچکےہیں کہ وہ میری زندگی کے بقیہ ایام میں میرے قلب وذہن کو منور کرتے رہیں۔حافظ صاحب محترم نےلکھا۔آپ میرے بھائی ہیں آپ نےموٹرکار بھجواکر مجھ پر بہت احسان کیا ہےمگر میری ساری کائنات 9×12فٹ کا کمرہ ہے نہ میرا کوئی کلینک رہا نہ میں نے کہیں جانا ہوتا ہے اور پھر لوگوں کا میرے خلاف ابھی اتنا تعصب ہے کہ جوشے میری طرف منسوب ہوگی اسےلوگ آج بھی آگ لگادیں گے اورپھر لکھا کہ عرش پر سے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے اور گویا مجھے فرمارہا ہے کہ (اگر میں کسی سے کوئی چیز لوں )کہ ’’اوبے غیرت مسعود ساری عمر میں نے تمہیں موجیں کرائیں اورذرا سا جھٹکا دیا ہےتو تجھے بدظنی ہوگئی ہے کہ تمہارے لئے اب میرے خزانے میں کچھ باقی نہیں ہے اور تولوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہے۔‘‘

اب مرزا عبد الحق صاحب کا واقعہ صفحہ ۳۱۹پر ملاحظہ فرمائیں:’’1974ء میں نمازیوں کی ایک یلغار آپ کےگھر پر بھی پڑی کچھ سامان لوٹ لےگئے کچھ توڑپھوڑ کی حتیٰ کہ کسی نادان بدنصیب نے آپ کی جیب سےپارکرکاپین بھی چھین لیا۔

ملک محمد اقبال صاحب ایک معروف اورنامور فوجداری کے ماہر وکیل تھے۔آپ کے دوست تھے رمضان کا مہینہ تھا دوسرے روز سہ پہر کو اپنے وکیل نوجوان بیٹے کے ساتھ احوال پرسی کیلئے آپ کے گھر گئے تو آپ نے فرمایا ملک صاحب آپ ذیابیطس کےمریض ہیں شایدروزہ نہ ہوگا۔اگر ایسا ہی ہے تومیں چائے پیش کروں مگر اس معذرت کے ساتھ کہ ہمارے گھر میں کراکری نام کی کوئی چیز باقی نہیں بچی۔ہم نے مٹی کےپیالے گھر میں رکھ لئےہیں۔اگر محسوس نہ کریں تو چائے انہی مٹی کےپیالوں میںپیش کرسکتا ہوں۔ملک صاحب نےشکریہ اداکیا۔ملک صاحب نے دوسرے روز مجھے بتایا کہ میرے بیٹے نےواپسی پر مجھےکہا کہ ابّا یہ کیا بات ہے کہ یہ 75سالہ بوڑھا ہے گھر میں سامان حتی کہ پرچ پیالی تک بھی نہیں بچی ہے۔وہ خودروزے سےہیں آپ جوان اور میں نوعمر ہمارادونوں کا روزہ نہیں ہے اور وہ کافر اور ہم مسلمان۔‘‘

نون صاحب کے بعض مضامین تو بڑے دل خراش اور جگر پاش ہیں خصوصاً وہ مضمون جب حج کا ارادہ کیا اور محبوب کی گلیوں میں گھومنے کے خیال اور تصور میں مست تھے اورسیٹ بھی بُک کروالی تھی اورجہاز کی پرواز سے قبل ہی عالم تصوّر میں ثریا پر جاپہنچے تھے۔لب بام دوہاتھ ہی رہ گیا تھا کہ ویزے کی کمند ٹوٹ گئی۔دل بُری طرح ٹوٹ گیا۔عاشق کومعشوق سے دورکردیا گیا۔مجنوں پر لیلیٰ کی گلی بند کردی گئی۔ عاشق کا کچاگھڑا بھی توڑ دیا گیا۔مگر اے دنیادارو! یہ تو وہ عاشق ہیں جو بیچ منجدھار ڈوب کر بھی سب کچھ پالیتے ہیں اور تم کنارے بیٹھ کر ہنستے ہو اور تماشا دیکھتے ہو اور پھر ظلم کی کوئی لہر تمہیں بھی آ ڈبوتی ہے مگر عاشق مر کر اپنے محبوب اورمقصد کو پالیتےہیں جبکہ تمہارا کوئی محبوب اور مقصد نہیں۔اور یہ عاشق تو وہ عاشق ہیں جن کے بارے میں شاعر نے کہا ہے کہ

عاشق کی جان عشق میں جانے سے پیشتر

خود حسن ڈوبتا ہے وفاکے چناب میں

خدا خوداُن کے گلے میں محبت وخوشنودی کا ہار پہناتا ہے اور اپنی رضا کی ابدی جنتوں میں لےجاتاہے۔وہ جن کو طواف کعبہ سے روک دیا گیا اُن کو اپنی گود میں بٹھاکر اصل کعبہ کا طواف کرواتا ہے اور ان کے غم غلط کرتا اور ان کی آنکھیں پونچھتا ہے اورکہتاہے کہ آؤ! آج جی بھر کر دیوانہ وار طواف کرو اورآؤ اپنے آقا محمد مصطفےٰﷺ کے قدموں میں بیٹھ کر خود درود وسلام بھیجو کہ تم عمر بھر اس وقت کی انتظار میں رہے کہ

کبھی تو آئے گا وہ زمانہ کبھی تو ہوگا میرا بھی جانا

کہوں گا روضے پر سرجھکا کر درود تم پر سلام تم پر

دعوت وتبلیغ کے واقعات کا بیان بھی اس کتاب میں ہے۔اپنے علاقے اور اپنے گھر میں بھی تبلیغی نشستیں منعقد کرتے رہے ایک تبلیغی نشست کا ذکر ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خود خواہش کا اظہار کیا کہ اپنے گھر سوال وجواب کی میٹنگ رکھ لو۔ صرف چائے پر لوگوں کو بُلالو تو نون صاحب نے کہا کہ جناب آپ تشریف لائیں مگر چائے نہیں کھانا ہی ہوگا۔تو حضورؒنے جو اس وقت خلیفہ نہیں تھے کہا کہ یہ تو بے چارے میزبان پر ظلم ہوگا۔نون صاحب نےجواب میں لکھا کہ نہ تو میں بے چارہ ہوں اور نہ ہی یہ ظلم ہے۔اورآپ نےایسی عمدہ ضیافت کی کہ حضورؒ نے مجلس کے آخر میں نون صاحب کو بلاکر کہا کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتاہوں۔آپ نہ بے چارے ہیں نہ یہ آپ پر ظلم ہے۔اس واقعہ کی تفصیل صفحہ ۲۰۳پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

ایک بار ایک بھرےمجمع میں بلاخوف وخطر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی قبولیت دعا کا واقعہ سناکر ببانگ دہل کہا کہ ’’یہ آقائے قادیانی کی دعائے مستجاب کا چمکتاہوا نشان ہے ‘‘۔ اگلی صبح مقامی اخبار نے یہ ساری خبر شائع کرکےلکھا کہ عبد السمیع نون صاحب آف سرگودھا نے اس سارے خونی ڈرامے کا مداوا مرزا طاہر احمد کی دعا کو قرار دیا۔(صفحہ ۲۰۷)

سچ ہے عشق اور مشک چھپے نہیں رہ سکتے

غرض بے شمار ایسے واقعات ہیں جو باربار پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اورہر واقعہ اپنی مثال آپ ہے اور ہر بارایک نیا لطف عطاکرتا ہے۔

ملک صاحب خان صاحب نون کا واقعہ کئی بار سنا اور اس کتاب میں بھی غالباً دوتین بار درج ہے مگر اس کا مزہ اور لطافت کم نہیں ہوتی۔کتاب کے شروع میں صفحہ ۷۴پر یہ واقعہ درج ہے: ’’ملک صاحب خان صاحب نےمجھے خود یہ واقعہ سنایا کہ حضرت فضل عمرؓ نے مجھے رتن باغ طلب فرمایا اور حکم دیا کہ دونوں ملک صاحبان یعنی سرمحمد فیروز خان صاحب اور میجر سردار خان صاحب سےجاکر معافی مانگیں اور پھر مجھے آکر رپورٹ دیں۔ملک صاحب فرماتے تھے کہ مجھے حضورکے اس حکم سے وقتی طور پر صدمہ پہنچا کہ حضورنے مجھ سے تو کوئی وضاحت طلب ہی نہیں فرمائی نہ کوئی بات سنی اور نون صاحبان سے معافی مانگنے کا حکم دے دیا ہے۔ لیکن فرماتے تھے کہ بلا چون وچرا اسی وقت سرفیروز خان کی کوٹھی گیا۔ملک صاحب نے جب مجھے اپنی کوٹھی میں داخل ہوتے دیکھا تو بھاگ کر آئے اور میری موٹر کادروازہ کھول کر میرے ساتھ لپٹ کرزاروقطار رونے لگے اور کہتے جاتے تھے کہ ’’میں قربان جاؤں اس مرزا صاحب پر جس نے مجھ پر یہ احسان کیا ہے‘‘۔ملک سرفیروز خان صاحب نون روتے جاتے تھے اورملک صاحب خان صاحب سے معافی مانگ رہے تھے۔ادھر ملک صاحب نےکہا کہ مجھے حضورنے معافی قبول کرنے کے لئے نہیں بلکہ معافی مانگنے بھیجا ہے۔خدا کے لئے مجھے معاف کردو۔ان حالات میں بھلاکدورت کہاں باقی رہ سکتی تھی۔چند منٹ کے بعد ملک صاحب خان صاحب نے دوبارہ آنے کا وعدہ کیا اور اجازت چاہی کہ میں نے ابھی چھوٹے بھائی ملک میجر سردارخان صاحب کےپاس جاکر ان سے بھی معافی مانگنی ہے اور پھر حضورکو رپورٹ پیش کرنی ہے۔

چنانچہ میجر سردار خان صاحب کی کوٹھی واقعہ گلبرگ تشریف لے گئے۔وہ تو چھوٹے بھائی تھے۔یہی صورت وہاں پرہوئی۔دونوں بھائی ایک دوسرے سےلپٹ کررورہے تھے اور میجر صاحب حضرت فضل عمر کے احسان عظیم کا ذکر کرتے تھکتے نہیں تھے۔دل صاف ہوگئے غلط فہمی دور ہوگئی۔ملک صاحب خان صاحب اُسی روز حضرت فضل عمر کی خدمت اقدس میں پیش ہوئے اور یہ ساری رپورٹ سنائی۔

اب حضور نے اپنے بظاہر یکطرفہ حکم صادر فرمانےکی مصلحت اور حکمت بیان فرمائی۔فرمایا ملک صاحب آپ کو میرا حکم عجیب تو لگا ہوگا کہ آپ کی بات سنے بغیر عمر میں چھوٹے عزیزوں سے معافی مانگنے کا حکم دے دیا۔حضورنے دو وجوہات بیان فرمائیں ایک تو یہ کہ میں حکم اپنے ارادت مند مرید کو ہی دے سکتا تھا جس کے لئے میرے حکم کی پابندی واجب تھی۔دوسرے یہ کہ حضرت خاتم الانبیاء فداہ نفسی کی بشارت کے مطابق دوروٹھے ہوئے بھائیوں میں سے جو پہل کرے اور صلح کا قدم پہلے اُٹھائے وہ پانچ سوسال پہلے جنت میں جائے گا۔اس لیے حضورنے فرمایا کہ ملک صاحب آپ ہر طرح سے فائدے میں رہے۔جناب ملک صاحب فرماتے تھے کہ مجھے حضورکی گفتگو اس قدردل کو بھائی کہ میں نے حضرت صاحب کا دلی شکریہ ادا کیا۔حضورنے واپسی پر معانقے سے سرفراز فرمایا اور اس طرح ایک بہت بڑا خاندان حضرت فضل عمر کی دعا اور برکت سے انتشار اور افتراق سے محفوظ ہوگیا۔‘‘

غرض سارے مضامین اور سارے واقعات ہی پڑھنے کے قابل ہی نہیں بلکہ ضروری ہیں کہ یہ ہماری تاریخ ہے ہماراسرمایہ ہے ہمار اماضی ہے ہمارا حال ہے اور ہمارا مستقبل ہے۔جو ایک مسیحا کی قوت قدسی اور دعا سے بنا ہے۔

نون صاحب کے مضامین میں بہت سے نئے اشعار بھی پڑھنے کو ملتےہیں اورایسے برمحل ہیں اور ان کے مضمون میں یوں دَرآتے ہیں گویا ان کے اس مضمون کے لیے ہی یہ اشعار تراشے گئےہوں۔

وہ نفرتوں کے سمندر میں اک جزیرہ تھا

تھکن سے چُور ہر پرندہ وہیں اُترتا تھا

لیکن افسوس ہے کہ کتاب میں املاء وکتابت کے بہت سے سقم ہیں اور نون صاحب جیسے عظیم قلمکار کے مضامین میں کھٹکتے ہیں ایسا لگتا ہے جیسےکوئی لذیذ کھانا کھاتے کھاتے ریت کا معمولی ریزہ منہ میں آگیا ہو۔جو بہرحال مزہ کرکرا کرتا ہے۔مضامین لکھنا اور کتاب شائع کرنا آسان کام نہیں مگر اس پر اعتراض اور تنقید کرنا آسان ہے۔

ٹپکا ہے جو قلم سے خون جگر ہے یہ

للہ ہم پر حملۂ نقد و نظر نہ ہو

اس کا تجربہ مجھے بھی ہوا کہ جب ہم نے اپنے والد گرامی مولانا محمد اسماعیل دیال گڑھی مرحوم ومغفور کی ایک کتاب ’’خلیل احمد ‘‘دوبارہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ ہماری خواہش تھی کہ یوکے جلسہ سے قبل زیورطبع سے آراستہ ہوجائے لہٰذا جلد بازی میں شائع تو ہوگئی مگرا ب بہت سی سہوات نظر پڑی ہیں اور بعض غلطیوں کی طرف دوسروں نے بھی توجہ دلائی۔لگتا ہے کہ ’’انمول یادیں ‘‘ بھی اسی جلد بازی کا شکار ہوئی۔تاہم بشارت چدھڑ صاحب کے ساتھ ساتھ مکرم طاہر مہدی امتیاز صاحب بھی خاص طور پرمبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس خزانے کو دوبارہ ڈھونڈ نکالا اور اس مائدے کو افادۂ عام کے لیے شائع بھی کیا۔

لطف یہ ہے کہ آدمی عام کرے بہارکو

کتاب کی ضخامت بہت بڑھ گئی ہے۔بعض بزرگوں کے بارے میں بہت سے مضامین آگئے مثلاً حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ، خلیفہ ثالثؒ،خلیفہ رابعؒ،حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ،اپنے والد گرامی حضرت عبد العزیز نون صاحب،خان بہادر ملک خان صاحب،ثاقب زیروی صاحب۔،حضرت ایم ایم احمد صاحب کے بارے میں ایک سے زائد مضامین ہیں لہذا واقعات کی تکرار بھی ہے۔الفضل میں برسوں کے وقفہ سے شائع ہوتےرہے لہٰذا محسوس نہیں ہوتے تھے اب ایک کتاب کی صورت میں یہ بات بھی کھٹکتی ہے گونون صاحب کا عاشقانہ انداز تحریر پھر بھی مزہ دیتا ہے تا ہم مناسب ہوتا کہ سارے مضامین یکجاکرکےہر بزرگ شخصیت کے بارے میں ایک مضمون مرتب ہوجاتا۔

میں نے عرض کیا ہے کہ املاء اور کتابت کی بہت سی غلطیاں اس کتاب میں ہیں۔ایسے عظیم قلمکار کےمضامین میں تومعمولی سی غلطی بھی کھٹکتی ہے اگر نون صاحب ہوتے تو یقیناً یہ غلطیاں ان کے ذوق سلیم پر گراں گزرتیں۔بہت سے اشعار ایسے ہیں جن کا ایک مصرع ایک صفحہ پر ہے جبکہ باقی اشعار اگلے صفحے پر یا اس کے برعکس صورتحال بھی ہے کہ تین مصرعے ایک صفحہ پر جبکہ چوتھا مصرع اگلے صفحے پر ہے۔صفحہ ۴۲۳پر تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا شعر بھی غلط لکھا گیا ہے۔

دل قوی رکھتےہیں ہم۔دردوں کی ہےہم کو سہار

کی بجائے ’’ دل قوی رکھتے ہیں ہمدردوں کی ہےہم کو سہار‘‘یہ بہت بڑی غلطی ہے۔صفحہ ۲۶۲پر بھی ایک شعر غلط لکھا ہے۔اصل یوں ہے

میں وہ پانی ہوں جو آیا آسماں سے وقت پر

میں وہ ہوں نورخدا جس سے ہوا دن آشکار

صفحہ ۲۷۱پر ’’ ہر گلے راہ ‘‘لکھا ہے جبکہ درست ’’ ہر گلے را ‘‘ہے۔

صفحہ ۲۸۷پر غالب کا شعر بھی غلط درج ہے۔ ’’ چھٹ ‘‘ کی بجائے ’’ جھٹ ‘‘ لکھا ہے۔

صفحہ ۳۵۰پر ’’ وہی مے ‘‘ان کو ساقی نے پلادی کی بجائے ’’ وہی ہے ‘‘ان کو ساقی نے پلادی لکھا ہے۔

صفحہ ۳۵۲پر مَن قبیلہ رامت کردم لکھا ہے جبکہ اصل مصرع یوں ہے کہ ’’ مَن قبلہ راست کردم برسمت کج کلا ہے‘‘

صفحہ ۹۹پر اقبال کا مصرع ’’ لاپھر اک باروہی بادہ وجام اے ساقی ‘‘ کی بجائے ’’ لاپھر وہ بادہ وجام اے ساقی ‘‘لکھا گیا ہے۔

صفحہ ۴۲۰پر تین اشعار ایسےلکھے گئے ہیں گویا وہ ایک ہی نظم کے اشعار ہوں یا نظم کا ایک بند ہو۔حالانکہ درمیانی دومصرعے۔شعر نہیں بلکہ نثر ہے اور دواشعار کے درمیان لکھے گئے فقرات ہیں۔یہ بہت بڑی غلطی ہے جو دورہونی چاہیے۔پھر بھی یہ کتاب کمال کی اور خاصے کی چیز ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button