حاصل مطالعہ

حاصل مطالعہ

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

جنگ میں بھی امن کی نصیحت

حضرت بریدہ ؓبیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ صحابہؓ کی کوئی پارٹی جہاد کے لیے روانہ فرماتے تو اس کے امیر کو نصیحت فرماتے تھے کہ اللہ کا نام لے کر خدا کے رستہ میں نکلو اور کبھی خیانت نہ کرو اور نہ کبھی دشمن سے بد عہدی کرو اور نہ قدیم وحشیانہ طریق کے مطابق دشمن کےمقتولوں کے اعضا وغیرہ کاٹو اور نہ کسی بچے یا عورت کو قتل کرو۔(مسلم کتاب الجہاد و السیر باب تأمیر الامام الامراء حدیث نمبر ۴۵۲۲)

دعا کی فرضیت کے چار سبب

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:دعا جو خدا تعالیٰ کی پاک کلام نے مسلمانوں پر فرض کی ہے۔ اس کی فرضیّت کے چار سبب ہیں۔ (۱)ایک یہ کہ تا ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر توحید پر پختگی حاصل ہو۔ کیونکہ خدا سے مانگنا اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ مُرادوں کا دینے والا صرف خدا ہے۔ (۲)دوسرے یہ کہ تا دُعا کے قبول ہونے اورمراد کے ملنے پر ایمان قوی ہو (۳) تیسرے یہ کہ اگر کسی اور رنگ میں عنایتِ الٰہی شامل حال ہو تو علم اور حکمت زیادت پکڑے۔ (۴)چوتھے یہ کہ اگر دُعا کی قبولیت کا الہام اور رؤیاکے ساتھ وعدہ دیا جائے اور اُسی طرح ظہور میں آوے تو معرفت الٰہی ترقی کرے اور معرفت سے یقین اور یقین سے محبت اور محبت سے ہر ایک گناہ اور غیر اﷲ سے انقطاع حاصل ہو جو حقیقی نجات کا ثمرہ ہے۔(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۲۴۲)

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سیدنا حکیم نور الدین ؓ نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں لکھا ہے:’’میرے ایک محسن عبدالرشید بنارس کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے میرے ساتھ بڑی نیکیاں کی ہیں۔ وہ مراد آباد میں رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک مہمان عشاء کے بعد ان کے ہاں آگیا۔ ان بنارسی بزرگ کے بیوی بچے نہ تھے۔ مسجد کے ایک حجرے میں رہتے تھے۔ حیران ہوئے کہ اب اس مہمان کا کیا بندوبست کروں اور کس سے کہوں۔ انہوں نے مہمان سے کہا کہ آپ کھانا پکنے تک آرام کریں۔ وہ مہمان لیٹ گیا اور سو گیا۔ انہوں نے وضو کر کے قبلہ رخ بیٹھ کر دعا پڑھنی شروع کردی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ یقیناً اللہ اپنے بندوں کے حالات کو خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘جب اتنی دیر گزری جتنی دیر میں کھانا پک سکتا ہے یہ دعا برابر پڑھتے رہے کہ اتنے میں ایک آدمی نے باہر سے آواز دی کہ حضرت میرا ہاتھ جلتا ہے جلدی آؤ۔ یہ اٹھے اور کیا دیکھتے ہیں کہ دروازہ پر ایک شخص تانبے کی ایک رکابی میں گرم گرم پلاؤ لئے ہوئے کھڑا ہے۔ آپ نے لے لیا اور مہمان کو اٹھا کر کھلایا۔ آپ کہا کرتے تھے کہ جس کی رکابی ہو لے جائے لیکن اس کا کوئی مالک نہ نکلا۔(مرقات الیقین صفحہ ۲۲۸)

وصیت معیار ہے ایمان کے کامل ہونے کا

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:جماعت کو وصیت کی اہمیت بتائی جائے اور بتایا جائے کہ یہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ طریق ہے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ ہزاروں آدمی جنہیں تا حال اس طرف توجہ نہیں ہوئی وصیت کے ذریعہ اپنے ایمان کامل کر کے دکھائیں گے… وصیت کی تحریک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور اس کے ساتھ بہت سے انعامات وابستہ ہیں۔ ابھی تک جنہوں نے وصیت نہ کی ہو وہ کر کے اپنے ایمان کے کامل ہونے کا ثبوت دیں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے جو شخص وصیت نہیں کرتا مجھے اس کے ایمان میں شبہ ہے۔ پس وصیت معیار ہے ایمان کے کامل ہونے کا۔ (خطبات محمود جلد ۱۰ صفحہ ۱۶۶۔۱۶۷)اسی طرح ایک اور موقع پر آپؓ نے فرمایا:میں یقین رکھتا ہوں کہ وصیت کرنے سے ایمانی ترقی ضرور ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس زمین میں متقی کو دفن کرے گا تو جو شخص وصیت کرتا ہے اسے متقی بنا بھی دیتا ہے۔(خطبات محمود جلد ۱۳ صفحہ ۵۶۴)

علمی نکات

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ؓ نے تحریر فرمایا:غالباً ۱۹۰۱ء کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ میں حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھا کہ حضور علیہ السلام نے توحید باری تعالیٰ پر ایک تقریر فرمائی اور اس میں ارشاد کیا کہ بعض لوگ کسی کے احسان کرنے پر الحمد للہ کہنے کے بغیر ہی جزاک اللہ کہہ دیتے ہیں حالانکہ بنظر غائر دیکھا جائے تو از روئے معرفت یہ کلمہ بھی اپنے اندر ایک گونہ شرک کا پہلو رکھتا ہے کیونکہ احسان کرنے والے کی ذات اور وہ چیز جس کے ذریعے وہ محسن بنا ہے وہ بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی چیزیں ہیں۔ اس لئے ممنون ِ احسان کو چاہئے کہ وہ جزاک اللہ کہنے سے قبل اللہ تعالیٰ کی توصیف و تحمید بیان کرے اور احسان ہونے پر الحمدللہ کہے کیونکہ معرفت اور حقیقت کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ سب سے اول خالق اسباب کا شکریہ ادا کیا جائے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ تقریر غالباً ۱۹۰۱ء کے اخبار الحکم کی ڈائری میں بھی موجود ہے۔(حیاتِ قدسی۔ حصہ دوم۔ صفحہ ۸۶)

ارشادِ امام

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

اگر تم دعاؤں کی قبولیت چاہتے ہو توایک دلی جوش اور محبت کے ساتھ جس سے بڑھ کر محبت کسی مومن کو کسی دوسرے شخص سے نہیں ہوسکتی اور نہیں ہونی چاہئے، آنحضرت ﷺ پردرود کے ذریعہ سے اپنے مولا کے حضور پیش کرو تو تمہاری ساری دعائیں قابل قبول ہوں گی اور راستے میں بکھر نہیں جائیں گی۔

(خطبہ جمعہ ۵؍ستمبر ۲۰۰۳ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button