سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

مسجداقصیٰ کی دیواراوراس پرلکھے گئے چنداشعار

مسجداقصیٰ کی تعمیروتوسیع کاذکرجاری ہے تو ایک خوبصورت اورایمان افروز واقعہ بیان کیے بغیریہ ذکرمکمل کرنے کودل نہیں کرتا کہ یہ عشق و محبت کا ایک ایسااظہارہے کہ آج بھی اس عاشق دلربا کی روح پر نثارہونےکودل چاہتاہے۔ یہ ایمان افروز واقعہ کوئی ایک سوتیس سال قبل کا ہے۔ قاضی کوٹ ضلع گوجرانوالہ کے رہائشی ایک نیک دل اور معصوم پاکیزہ فطرت قاضی ضیا ءالدین صاحب جوکہ بزرگان اور اولیاء و صلحاء سے ملاقات کاشوق رکھتے تھے۔انہیں جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی نیک شہرت کاعلم ہواتو فروری ۱۸۸۵ء میں وہ صحبت صالحین کے اس شوق سے قادیان تشریف لائے اور پانچ روز تک اس صحبت سے فیضیاب ہونے کے بعد جب واپس جانے لگے تو قادیان اورقادیان کے اس چاندکی محبت ان کے پاؤں کی زنجیربننے لگی۔ دل تو دے ہی چکے تھے اب جانے کوبھی دل نہیں تھا۔لیکن مجبوریاں تھیں کہ آخرکوجاناہی پڑا لیکن جانے سے پہلے اپنے دلی جذبات کااظہارایک عبارت اور کچھ اشعار کی صورت میں مسجداقصیٰ کی ایک دیوارپررقم کرتے گئے۔ یہ عبارت کئی سال تک مسجدکی اس دیوارپرقائم رہی۔اور خداکے اس مسیح پاک کی اپنے پیاروں سے محبت اور ذرہ نوازی کاانوکھااندازبھی دیکھیں کہ مسجدکی اس دیوارپرلکھی ہوئی عبارت کومٹنے بھی نہیں دیا۔یہاں تک کہ گیارہ سال کے بعد حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب ؓنے دوبارہ اس عبارت کواپنے روزنامچہ میں نقل کیا۔وہ عبارت یہ تھی !

’’قال اللّٰہ تبارک وتعالٰی و اتقوا اللّٰہ وکونوا مع الصادقین(توبہ:۱۱۹)مصداق ایں آیۃ شریفہ فی الوقت ذاتِ بابرکات جناب مرزا غلام احمد است سلمہ اللہ الصمد۔حقیرپنج روز بخدمتش مستفیض ماند ہر روز درایمان خودنور تازہ مشاہدہ کرد۔علم ایں معلوم بہ بصارتیکہ بکحل متابعت شریعت حقہ مکتحل است مفہوم۔اما بےچارہ معتقدترہات صوفیہ ایں زمان ازیں دولت محروم۔ذات مبارکش مصداق

حسن و خوبی و دلبری بر تو تمام

صحبتے بعد از لقائے تو حرام

حقیررااگرخیال پائمالی عیال ولحاظ ِ بیماری والدہ ضعیفہ خودعائدِ حال نشدے گاہے فرقت ایں آستانِ فیض نشاں بر خود گوارا نکردے۔

ضرورت است وگرنہ خدائے می داند

کہ ترک صحبتِ جاناں نہ اختیارمن است

خداوندا! بطفیل اخلاصِ ایں مرد بر راقم آثم ہم نصیبہ از اخلاصِ خاص عنایت کن اگر دردعائے خودنامخلصم تانظرمرزاصاحب ممدوح بریں رقیمہ اندازتااخلاص ازذاتِ واحد توبرائے حقیر طلب کنند

بملازمانِ سلطاں کہ رساند ایں دعا را

کہ بہ شکر پادشاہی زِ نظر مراں گدا را

راقم الحروف قاضی ضیاء الدین عفی عنہ،ازکوٹ قاضی تحصیل وزیرآباد (ضلع گوجرانوالہ)محررہ ۷؍فروری ۱۸۸۵ء‘‘(اصحاب احمدؑ جلد۶صفحہ۷-۸)

ترجمہ:اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایااوراللہ کاتقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کی جماعت کے ساتھ شامل ہوجاؤ۔اس آیت کریمہ کے مصداق اس دورمیں حضرت مرزا غلام احمدعلیہ السلام سلمہ الصمد کی ذات مبارکہ ہے۔یہ حقیرآپؑ سے فیض حاصل کرنے کی خاطر پانچ دن تک ٹھہرارہا۔اور ہرروزاپنے ایمان میں ایک تازہ نورپاتارہا۔آپؑ کی آمدکے متعلق شریعت حقہ کی پیروی سے جوکچھ سمجھا گیا اس کے مطابق اس زمانے کے خرافات اور بدرسومات کے پیچھے چلنے والے صوفی حضرات اس دولت عظمیٰ سے محروم ہیں۔آپؑ کی ذات مصداق ہے اس شعر کی کہ حسن وخوبصورتی اور دلربائی تجھ پرختم اورتجھ سے ایک بارملنے کے بعد کسی اَور سے ملاقات حرام ہے۔اس عاجزکواگراپنے اہل وعیال کی بدحالی اور اپنی ضعیف والدہ کی بیماری کااندیشہ اور خیال نہ ہوتا توکبھی بھی فیض نشان آستانہ سے جدائی اوردوری اپنے لیے پسندنہ کرتا۔

یہی ایک مجبوری اور ضروری وجہ ہے وگرنہ میرا خدا جانتاہےکہ اپنی جان سے محبوب ہستی کی صحبت اورمجلس کو چھوڑ کر جانا میرے بس کی بات نہیں۔

اے خداآپؑ سے اس اخلاص کی بدولت اس گناہ گار پرجویہ عبارت لکھ رہاہے اپنے خاص اخلاص سے ایک حصہ عنایت فرمااگرمیں اپنی اس دعامیں مخلص نہیں بھی ہوں تو حضرت مرزاصاحب کی نظرشفقت اس تحریرپرڈال دے تاتیری یکتائی اور ذات یگانہ سے اس عاجزکے لیے وہ اخلاص طلب فرمائیں…

قاضی عبدالسلام صاحب فرماتے ہیں کہ مندرجہ بالاتحریر میں نے بھی مسجداقصیٰ میں دیکھی ہوئی ہے وہ ایک مدت تک دیوارپرمحفوظ رہی۔پھرسفیدی کے نیچے دب گئی۔ گیارہ سال کے بعد دیوارہی سے حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ نے ۱۳؍جنوری۱۸۹۶ء کواپنے روزنامچہ میں اس عبارت کونقل کیا۔ یہ ساری تفصیل اصحاب احمدؑ جلد۶صفحہ ۸،۷ پر موجودہے۔اصحاب احمدؑ کے مؤلف حضرت ملک صلاح الدین صاحب ایم اے کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے ملک کریم الدین صاحب نے اصحاب احمدؑ جلد۶کوقدرے نظرثا نی کے ساتھ شائع کیاہے جواس کاتیسراایڈیشن ہے اور دسمبر۲۰۰۵ء میں شائع ہوا ہے۔اس کے صفحات ۱۲،۱۳ پریہ عبارت مع ترجمہ کے موجودہے۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ کاانتقال

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اپنے والد ماجد کے آخری عمر کے جذبات کا نقشہ کھینچتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:’’حضرت عزت جل شانہ کے سامنے خالی ہاتھ جانے کی حسرت روز بروز آخری عمر میں ان پر غلبہ کرتی گئی تھی۔ بارہا افسوس سے کہا کرتے تھے کہ دنیا کے بیہودہ خرخشوں کے لیے میں نے اپنی عمر ناحق ضائع کردی۔ ایک مرتبہ حضرت والد صاحب نے یہ خواب بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ ایک بڑی شان کے ساتھ میرے مکان کی طرف چلے آتے ہیں جیساکہ ایک عظیم الشان بادشاہ آتا ہے۔ تو میں اس وقت آپ کی طرف پیشوائی کے لیے دوڑا۔ جب قریب پہنچا تو میں نے سوچا کہ کچھ نذر پیش کرنی چاہئے۔ یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا جس میں صرف ایک روپیہ تھا اور جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی کھوٹا ہے۔یہ دیکھ کر میں چشم پُر آب ہوگیا اور پھر آنکھ کھل گئی۔‘‘ اور پھر آپ ہی تعبیر فرمانے لگے کہ دنیا داری کے ساتھ خدا اور رسول کی محبت ایک کھوٹے روپے کی طرح ہے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ میری طرح میرے والد صاحب کا بھی آخری حصہ زندگی کا مصیبت اور غم اور حزن میں ہی گزرا اور جہاں ہاتھ ڈالا آخر ناکامی تھی اور اپنے والد صاحب یعنی میرے پر دادا صاحب کا ایک شعر بھی سنایا کرتے تھے جس کا ایک مصرعہ راقم کو بھول گیا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ

’’جب تدبیر کرتاہوں تو پھر تقدیر ہنستی ہے ‘‘

اور یہ غم اور دردان کا پیرانہ سالی میں بہت بڑھ گیا تھا۔ اسی خیال سے قریباً چھ ماہ پہلے حضرت والد صاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کی کہ جو اس جگہ کی جامع مسجد ہےاور وصیت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو تاخدائے عزوجل کا نام میرے کان میں پڑتا رہے کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو۔ چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت بہمہ وجوہ مکمل ہوگئی اور شاید فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہوگئے اور اسی مسجد کے اسی گوشہ میںجہاں انہوں نے کھڑے ہوکر نشان کیا تھا دفن کیے گئے۔ اَللّٰھُمَّ اَرْحَمْہُ وَادْخِلْہُ الْجَنَّةَ۔ آمین۔ اسّی(۸۰) یا پچاسی(۸۵) برس کے قریب عمر پائی۔‘‘(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ۱۸۹-۱۹۱حاشیہ)

آپ کی سوانح اور سیرت پرایک نوٹ

حضرت مرزا عطامحمدصاحب ؒکے پانچ بیٹے تھے۔مرزاغلام مصطفیٰ صاحب،حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ؒ،مرزا غلام محمد صاحب، مرزا غلام محی الدین صاحب اور مرزاغلام حیدرصاحب

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے والد بزرگوار حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ اندازاً۱۷۹۱ء میں پیداہوئے۔ ریاست کپورتھلہ بیگووال میں آپ اپنی جانشینی کے عرصہ میں تقریباًسولہ سترہ برس رہے۔ قادیان سے جلاوطنی ۱۸۰۲ء /۱۸۰۳ءمیں ہوئی اور بارہ سال بعد حضرت مرزا عطامحمدصاحب کی وفات ۱۸۱۴ء /۱۸۱۵ء میں ہوئی، قادیان واپسی کی جو تواریخ ملتی ہیں وہ زیادہ تر ۱۸۳۲ء کے قریب قریب زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہیں۔تو یوں تقریباً سترہ برس حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب اپنے والدماجدکی وفات کے بعدوہاں یعنی بیگووال میں رہے۔

لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مردِ جری کو عجیب حوصلہ اور طاقت دی ہوئی تھی۔اور ایسا خاندانی وقار اور غیرت کا پاس تھا کہ انہیں اپنی چھینی ہوئی جائیداد واپس لینے کا شدت سے احساس تھا۔اور اگر یہ کہا جائے کہ آپؒ نے اپنی آخری سانسوں تک یہ جدوجہد جاری رکھی تو مبالغہ نہ ہوگا۔جلاوطنی کے اس دور میں قادیان کی ریاست کو واپس پانے کے لیے آپؒ نے اس جدوجہد میں جن مصائب کا سامنا کیا ان میں ایک بہت ہی عجیب اور تکلیف دہ بات کا پتا چلتاہے جو ہمارے پاس صرف ایک فقرے کی شکل میں محفوظ رہ سکا۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ ایک جگہ اپنے والد ماجد کے مصائب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’میری پیدائش سے پہلے میرے والد صاحب نے بڑے بڑے مصائب دیکھے۔ ایک دفعہ ہندوستان کا پیادہ پا سیر بھی کیا۔‘‘(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ۱۷۷ حاشیہ)

سارے ہندوستان کا پیادہ پا یعنی پیدل سفر کرنا جہاں آپ کے شدت غم اورپریشانی کو ظاہر کرتاہے وہاں آپ کے عزم وہمت کی بھی نشاندہی کرتاہے۔اور کہنے کو تویہ ایک فقرہ ہے لیکن اس کے اندر ان ہموم وغموم اور تفکرات ومصائب کا ایک جہان ہے جواس خاندان پر طاری تھا اور بحیثیت ایک سربراہ خاندان کے ان کی خلاصی کے لیے آپ سرتوڑ کوششوں میں مصروف رہے۔اور دوسری طرف یہ فقرہ آپ کی علوہمتی اور عزم و حوصلہ کی ایک ایسی داستان کا عنوان ہے کہ جس کی بہت کم تفاصیل ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ نہ جانے کس کس طرح اپنی کھوئی ہوئی اور غصب شدہ ریاست اور وطن عزیز کو واپس لینے کی جدوجہد میں آپؒ مصروف رہے کہ پورے ہندوستان کا پاپیادہ سفر کیا،راجوں مہاراجوں کے پاس گئے اور اپنا مؤقف پیش کیا،اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامیابی بھی عطا فرمائی کہ بالآخر قادیان آپ کوواپس ملا،اس کی ریاست وسیادت آپ کو واپس ہوئی، گوکہ قادیان کے ساتھ وہ سارے دیہات واپس نہیں ملے صرف پانچ دیہات واپس ہوئے۔لیکن اس وقت کے اعتبار سے یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔رنجیت سنگھ جیسے انسان سے کھوئی ہوئی بلکہ چھینی ہوئی جائیداد اورمال ومتاع واپس پانا گویا شیر کے منہ سے نوالہ واپس پانے کے مصداق تھا۔ بہرحال اب ہم قدرے تفصیل کے ساتھ اس بزرگ صاحب عزم وہمت انسان کے کچھ سوانح اور بیان کرتے ہیں۔

(باقی آئندہ )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button