از مرکزدورہ جرمنی اگست؍ ستمبر ۲۰۲۳ءیورپ (رپورٹس)

مسجد صادق Karben، جرمنی کا افتتاح از دستِ مبارک حضورپُرنور نیز استقبالیہ تقریب سے پُرمعارف خطاب

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آج مورخہ ۳۰؍اگست ۲۰۲۳ء بروز بدھ جرمنی کے صوبہ ہیسن (Hessen) کے شہر کاربن (Karben) میں ’سو مساجد سکیم‘ کے منصوبے کی تحت تعمیر ہونے والی ’مسجد صادق‘ کا افتتاح فرمایا نیز اس حوالے سے علاقے کے معزّزین کے ساتھ منعقد ہونے والی افتتاحی تقریب کو رونق بخشی اور بصیرت افروز خطاب فرمایا۔

مسجد میں ورودِ مسعود، افتتاح اور معائنہ

حضور پانچ بجکر دس منٹ پر مسجد صادق پہنچے تو مقامی صدر عاطف شہزاد ورک ،ریجنل امیر مظفر احمد بھٹی اور ریجنل مشنری تحسین راشد نے آگے بڑھ کر حضور کا استقبال کیا۔ احباب جماعت مسجد میں نماز ظہروعصر کے لئے صفوں میں بیٹھے اپنے امام کا انتظار کر رہے تھے ۔ خواتین کے لئے آج علیحدہ خیمہ لگایا گیا تھا ۔

حضور نے سب سے پہلے نقاب کشائی کی اور دعا کروائی۔ اس کے بعد حضور نے مسجد میں تشریف لا کر نماز ظہر و عصر باجماعت پڑھائیں ۔ نماز کے بعد حضور نے متعدد مقامی احباب سے باری باری گفتگو فرمائی اور ان کے کام کاج اور رہائش کے بارے میں معلومات لیں۔ اس کے بعد حضور نے بلڈنگ کا معائنہ فرمایا اور پلاٹ کے مختلف حصوں میں تشریف لے گئے ۔ خواتین بچوں کے ساتھ جس خیمہ میں موجود تھیں حضور وہاں بھی تشریف لے گئے اور بچوں میں چاکلیٹ تقسیم کیے۔ روانگی سے قبل حضور نے صحن میں پودا لگایا ۔ مجلس عاملہ کے اراکین اور وقارعمل میں نمایاں حصہ لینے والوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ تصویر کھنچوائی ۔ اس دوران مسجد صادق کی فضا اسلامی نعروں سے گونجتی رہی ۔ ساڑھے پانچ بجے حضور استقبالیہ تقریب میں شرکت کے لئے ٹاؤن ہال سے ملحقہ ہال میں تشریف لے جانے کے لئے روانہ ہوئے۔

خطاب حضورِ انور

تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا: تمام معزز مہمانان کرام۔ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایک لمبے عرصے کی روک کے بعد آخر جماعت احمدیہ مسلمہ کو اس شہر میں ایک چھوٹی سی مسجد بنانے کی توفیق ملی۔ اس کے لیے شہر کے میئر، کونسلر اور شہری سب کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمارے اس مسجد کی تعمیر کو ممکن بنانے میں ہماری مدد کی اور یہ شکریہ صرف زبانی شکریہ نہیں بلکہ ہمارا ایک مذہبی فریضہ ہے، اسلام کا یہ حکم ہے۔ بانیٔ اسلام نے یہ فرمایا کہ اگر تم لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتے۔ پس اس لحاظ سےیہ ہمارا ایک مذہبی فریضہ بھی ہے کہ آپ لوگوں کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے اس کام میں ہماری مدد کی اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ مسلمہ کو اس شہر میں ایک چھوٹی سی، خوبصورت مسجد میسر آ گئی۔

عبداللہ صاحب امیر جماعت جرمنی نے اس شہر کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ذکر کیا کہ مسجد شہر کے درمیان میں ہے۔ یہ ایک بڑی اچھی بات ہے کیونکہ جہاں شہر میں دنیاوی اور مادی چیزوں کے لیے بہت ساری سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں وہاں درمیان میں مذہب پر عمل کرنے والوں کے لیے بھی ایک جگہ ہونی چاہیے تاکہ وہ اس جگہ جمع ہو کر اپنے خدا کی عبادت کر سکیں۔ چاہے یہاں مسجد بھی ہو، چرچ بھی ہو اور دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں بھی ہوسکتی ہیں اور ہونی چاہئیں۔ اور یہ سب جب اکٹھے ہوں گے تب پتہ لگے گا کہ مذہب ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر اور تعاون سے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ کوئی مذہب ایسا نہیں، کسی مذہب کا بانی ایسا نہیں جنہوں نے شدت پسندی کی تعلیم دی ہو، فساد پیدا کرنے کی تعلیم دی ہو۔ ہمارے ایمان کے مطابق تمام انبیاء خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے اورخدا تعالیٰ نے ان کو یہ تعلیم دے کر بھیجا کہ تم خدا کی عبادت کرنے کی طرف توجہ دلاؤ، لوگوں کو ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاؤ، امن، پیار، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینے کی طرف توجہ دلاؤ۔

پس اس لحاظ سے یہ ایک اچھی بات ہے کہ یہاں ہمیں ایسی جگہ مسجد مل گئی جہاں سے ہم مرکز میں رہتے ہوئے اپنے ارد گر دکے ماحول میں اسلام کی حقیقی تعلیم کے بارے میں لوگوں کو بتا سکیں گے۔ بعض غلط قسم کے مسلمانوں نے اسلام کے بارے میں جو غلط تصورپیدا کر دیا ہے، اور بدقسمتی سے اکثریت اس غلط تصور کی تعلیم پر چل رہی ہے، اس کو ہم ردّ کرنے والے بنیں گے اور قرآن اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ان کے عمل سے یہ بتائیں گے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم تو امن، پیار، محبت اور آشتی کی تعلیم ہے۔

جیسا کہ ہمارے امیر صاحب نے بتایا کہ بعض لوگوں نے شروع میں مسجد کی مخالفت بھی کی اور شاید ان کی یہ مخالفت ایک حد تک جائز بھی ہو کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے رویے دیکھے۔ انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں میں شدت پسندی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کے اکثر ملکوں میں ایک دوسرے کے حق نہیں ادا کیے جا رہے تو شاید اس وجہ سے ان کو اعتراض ہوا ہو۔ لیکن جب وہ ہماری مسجد دیکھیں گے، ہمارے احمدیوں کے رویے دیکھیں گے، حقیقی اسلام کا نمونہ دیکھیں گے تو مزید ان کے شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے اور جیسا کہ خود لوگوں کے عمل نے ثابت کیا کہ وہی لوگ جو مخالف تھے آج ہمارے دوست بھی ہیں اورانہوں نے مخالفت ترک کر دی اورآہستہ آہستہ آئندہ بھی اس میں انشاء اللہ مزید کمی ہوتی جائے گی اور لوگوں کو مسجد اور اسلام کی تعلیم کے بارے میں مزید تعارف ہوتا چلا جائے گا اورہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا یہ دوستی کا دائرہ بڑھتا چلا جائے گا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسی طرح حکومت کی طرف سے اقلیت کی نمائندہ بھی آئیں۔ انہوں نے بڑی اچھی بات کی کہ مذہبی آزادی ہونی چاہیے اور جرمنی کا ملکی قانون مکمل طور پرمذہبی آزادی دیتا ہے اور اس کے لیے ہم حکومت کے شکرگزار بھی ہیں کیونکہ یہ مذہبی آزادی ہی ہے جس کی وجہ سے بہت سے پاکستانی لوگ یہاں آ کر اس لیے آباد ہوئے کیونکہ اپنے ملک میں مذہبی آزادی نہیں تھی اور یہاں آ کر ان کو آرام سے حکومت کی پناہ میں رہنے کی توفیق ملی تا کہ مذہبی آزادی کا حق صحیح طور پر استعمال کر سکیں اور کوئی روک ٹوک نہ ہو۔ اس لحاظ سے ہم بہرحال حکومت کے شکرگزار ہیں کہ جن ملکوں میں مذہبی آزادی کو پامال کیا جاتا ہے یا کسی قسم کی آزادی کو پامال کیا جاتا ہے اِن ملکوں میں ان کو خوش آمدید کہا جاتا ہے اور اپنے اندر جذب کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہ بھی بڑی خوش کن بات انہوں نے کہی کہ مختلف مذاہب کے لوگ باہم پیار سے رہتے ہیں اور یہی تعلیم ہے جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا کہ ہر مذہب کا بانی یہی تعلیم لے کر آیا کہ جہاں تم اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت کرو وہاں آپس کے حقوق ادا کرو اورایک دوسرے سے خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ حقوق ادا کرنا اسلام کا بنیادی حکم ہے۔ اسلام یہ تعلیم نہیں دیتا کہ صرف اپنے حقوق کے لیے لڑو، اسلام یہ کہتا ہے کہ دوسروں کے حق ادا کرنے کی بھی کوشش کرو۔ جب تم دوسروں کے حق ادا کرنے کی کوشش کرو گے تو پھر دنیا میں امن بھی قائم ہو گا اور محبت اور پیار کا معاشرہ بھی قائم ہو گا اور یہی چیز ہے جس کی ہمیں آج دنیا میں ضرور ت ہے۔

ممبر آف پارلیمنٹ صاحب آئے۔ ان سے دو دن پہلے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ تقریر میں ان کی باتیں بھی سنیں۔ انہوں نے وہی باتیں ایک نئے انداز میں آج بھی پیش کیں اور جماعت احمدیہ کے ساتھ تعلق کا اظہار کیا اس لیے ان کا بھی میں شکرگزار ہوں۔ اس بات کا بھی انہوں نے ذکر کیا کہ بعض جگہ پر مذہب کے نام پر خون کیے جا رہے ہیں جس کی کبھی مذہب اجازت نہیں دیتا۔ مذہب تو کہتا ہے کہ دوسروں کی خدمت کرو۔ جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے، جہاں جہاں لوگ ہماری جماعت میں شامل ہوتے ہیں، خاص طور پر افریقہ اور ساؤتھ امریکہ کے ممالک میں وہاں یہ نہیں کہ ہم صرف احمدی مسلمانوں کی خدمت کرتے ہیں بلکہ ہر مذہب کے ماننے والے کی ہم خدمت کر رہے ہیں۔ افریقہ میں ہمارے سکول اور ہسپتال قائم ہیں۔ اسی طرح ہم نے ماڈل ولیج بنائے ہیں۔ پانی کی سہولتیں مہیا کر رہے ہیں ان سے فائدہ اٹھانے والے اسّی فیصد وہ لوگ ہیں جن کا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں، جو عیسائی یا دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں۔

پس جماعت احمدیہ تو مذہبی آزادی کا صرف باتوں میں پرچار نہیں کرتی بلکہ عملاً ہم اس بات کا اظہار کر رہے ہیں۔ دنیا کے مختلف غریب ممالک میں بلا تفریق مذہب غریبوں کوتعلیم مہیا کی جارہی ہے۔ ان کا علاج کیا جارہا ہے۔ ان کو پینے کا پانی میسر کیا جارہا ہے۔ ہم یہاں ترقی یافتہ ملکوں میں رہتے ہوئے اس بات کا تصور نہیں کر سکتے کہ صاف پانی پینے کی کیا اہمیت ہے۔ باوجود اس کے کہ حکومت کی طرف سے بار بار یہ یاددہانی کرائی جاتی ہے کہ پانی کو احتیاط سے استعمال کریں۔ وہ لوگ جن کو پینے کا صاف پانی کیا میسر آنا ہے، انکے بچوں کو تو تھوڑا سا پانی لینے کے لیے کئی میل یا کلو میٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ پھر ایک بالٹی اٹھا کر سر پر لے کر آتے ہیں اور اپنی روزمرہ کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ ان ملکوں میں چھوٹے چھوٹے گاؤں میں، دور دراز گاؤں میں، ریموٹ ایریاز میں، ہمارے والنٹیئرز جاتے ہیں، کام کرتے ہیں، نلکے لگاتے ہیں، پمپ لگاتے ہیں اور ان کو پانی مہیا کرتے ہیں۔ اور جب انہیں گھر کے سامنے ٹیپ واٹر مل جاتا ہے، پینے کا صاف پانی میسر آ جاتا ہے، تو ان کی خوشی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ شاید یہاں کسی کی لاٹری نکل آئے تو اس کو بڑی رقم کی لاٹری سے جتنی خوشی ہوتی ہو گی ان کو صاف پانی دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ اس تکلیف سے بچ گئے کہ اتنی دور سے جا کے پانی لے کے آئے ہیں اور وہ بھی گندا پانی جس کو پینے کے بعد پھر بیماریاں پھیلتی ہیں۔

پس جماعت احمدیہ یہ خدمات بھی دنیا میں سرانجام دے رہی ہے اور جہاں جہاں ہماری جماعت قائم ہوتی ہے، مسجدیں بنتی ہیں، وہاں ساتھ ساتھ یہ پراجیکٹ ہوتے ہیں۔ اور کوئی شرط نہیں کہ احمدی مسلمان ہو تو سہولتیں ملیں گی۔ نہیں۔ بلکہ جیسا کہ میں نے کہا اسّی فیصد لوگ وہ ہیں جو غیر مسلم ہیں اور ہمارے پراجیکٹس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

انہوں نے عورتوں کے حقوق کے بارے میں افغانستان کی مثال دی کہ ان کے حقوق ادا نہیں کیے جارہے۔ اسلام کی تعلیم، قرآن کریم کی تعلیم تو یہ ہے کہ عورتوں سے حسن سلوک کرو۔ اعلیٰ رنگ میں ان سے حسن سلوک کرو۔ قرآن کا یہ حکم ہے کہ جیسے تمہارے یعنی مردوں کے جذبات ہیں ویسے ہی عورتوں کے بھی جذبات ہیں۔ جیسی تمہاری خواہشات ہیں، ان کی بھی خواہشات ہیں۔ ان کوعزت و احترام سے دیکھو اور ان کی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرو۔ ہاں اسلامی تعلیم اور مذہبی تعلیم کے مطابق، قرآن کریم نے جو لائحہ عمل دیا ہے اس کے اندر رہتے ہوئے اس آزادی کا استعمال جائز ہے۔ ہماری احمدی مسلمان عورتوں میں بہت ساری ڈاکٹرز ہیں، انجنیئرز ہیں، ایگریکلچرسٹ ہیں، اکانومسٹ ہیں اور مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والی ہیں اور بعض خدمت کے لیے بھی باہر جاتی ہیں اور اپنی زندگیاں اس کام کے لیے پیش کرتی ہیں۔ سو اس لحاظ سے عورتوں کے سب حقوق ہیں۔ اسی طرح جائیداد کا حق ہے۔ اسلام میں ہرقسم کا حق دیا گیا ہے۔ بہرحال مذاہب کی عزت بہت ضروری ہے اور تمام مذاہب کو اکٹھا رہنے کے لیے، دنیا میں امن قائم کرنے کے لیےاور معاشرے میں پیار اور محبت پھیلانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی عزت کی جائے۔ اور اسلام ہر مذہب کی عزت کا حکم دیتا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ گذشتہ دنوں جب ہماری مسجد کا افتتاح ہوا تو میں نے بتایا تھا کہ اسلام صرف اپنی مسجد کی حفاظت کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی چرچ پر حملہ کرے تو اس کی بھی تم نے حفاظت کرنی ہے، اگر کوئی synagogue پہ حملہ کرے تو اس کی بھی حفاظت کرنی ہے، اگر کوئی temple پر حملہ کرے تو اس کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ پس یہ جو اسلام کے نام پر چرچوں کو جلاتے ہیں، یا کسی قسم کے حملے کرتے ہیں، یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم تو اس کے بالکل خلاف ہے۔ وہ تو کہتا ہے کہ سب مذاہب کی حفاظت کرو۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ میئر صاحب نے بھی بہت اعلیٰ باتیں کیں۔ انہوں نے سیاسی پارٹیوں کا ذکر کیا کہ آج اس مجلس میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے لوگ شامل ہیں اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ جماعت احمدیہ اپنے آپ کو اس معاشرے میں نہ صرف integrate کر رہی ہے بلکہ ان سب کو اکٹھا کر کے ایک پلیٹ فارم پر لے کر آ رہی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپس میں محبت اور پیار اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو۔ انسان کو بحیثیت انسان ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرنا چاہیے۔ اور یہی چیز ہے جو ہمیں ایک دوسرے کا حق ادا کرنے والی بنائے گی۔ یہی اسلام کا حکم ہے۔ اسلام اور قرآن کریم نے کہا ہے کہ تمہارے لیے دو حکم ہیں۔ ایک اپنے پیدا کرنے والے کا حق ادا کرو اور ایک یہ کہ آپس میں بندے ایک دوسرے کا حق ادا کریں اور اس کے لیے تفصیل بتائی کہ کس طرح حق ادا کرنا ہے۔ اگریہ چیزیں پیدا ہو جائیں کہ صرف اپنے حق کے لیے نہ لڑو بلکہ دوسرے کا حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دو تو پھر ہی حقیقی امن، پیار اورمحبت کی فضا قائم ہوتی ہے۔ پس ہم تو حق ادا کرنے والے اور حقیقی امن قائم کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمسایوں کے حق کی بات کی ہے تو ہمسایوں کے حق کی بات میں مَیں صرف اتنا کہہ دوں کہ بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر اتنا زور دیا کہ ان کے صحابہؓ نے خیال کیا کہ شاید وراثت میں بھی ہمسایوں کو شامل کر لیا جائے گا۔ اس حد تک اسلام کی تعلیم ہے۔

پس یہ باتیں ایسی ہیں جو پیار، محبت، امن اور بھائی چارے کو فروغ دیتی ہیں۔ اس کو پھیلاتی ہیں۔ اور یہی چیز ہے جس کے لیے آج ہم تمام دنیا میں کام کر رہے ہیں اور یہی تعلیم ہے جس کے لیے بلا تفریق مذہب ہم ہر ایک سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں اور یہی تعلیم ہے جو دنیا میں امن اور حقیقی بھائی چارہ قائم کرنے والی ہو گی۔

حضورِانور نے اپنے بصیرت افروز خطاب کا اختتام ان الفاظ میں فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ اس مسجد کے بننے کے بعد یہاں کے لوگ اور مسجد کی عمارت کی یہاں موجودگی آپ لوگوں کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے مزید متعارف کروائے گی اور آپ کو پتہ لگے گا کہ اسلام کے بارے میں جو غلط نظریات بعض غلط لوگوں نے پیدا کر دیے ہیں وہ ان لوگوں کے اپنے ذاتی مفادات ہیں جس کا اسلام کی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کی تعلیم تو پیار محبت اور بھائی چارے کی تعلیم ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ دنیا کے انسانوں کو یہ توفیق دے کہ وہ آپس میں پیار اور محبت اور بھائی چارے سے رہنے والے ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننے والے ہوں اور اس کی عبادت کرنے والے ہوں۔جزاک اللہ، شکریہ۔

حضور کا یہ تاریخی خطاب چھ بجکر پچاس منٹ تک جاری رہا جس کے آخر پر حضور نے اجتماعی دعا کروائی ۔ جس کے بعد سب مہمانوں جن کی تعداد ایک سو سے زائد تھی نے حضور کے ساتھ کھانا تناول کیا۔

استقبالیہ تقریب

یاد رہے کہ مسجد صادق کے افتتاح کی خوشی میں موقعہ پر موجود تمام حاضرین میں مٹھائی تقسیم کی گئی تھی جبکہ شہر کے معززین جن میں سیاسی اور سماجی شخصیات شامل تھیں کے ساتھ حضور انور کا ڈنررکھا گیا تھا ۔ یہ تقریب شہر کے ٹاؤن ہال سے ملحق انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب ہال میں منعقد ہوئی۔

افتتاحی تقریب کا آغازجرمن وقت کے مطابق شام تقریباً چھ بجے تلاوتِ قرآن کریم اور اس کے جرمن ترجمے سے ہوا۔ اس کے بعد سب سے پہلے مکرم عبد اللہ واگزہاوزرصاحب امیر جماعت جرمنی نے کاربن شہر اور جماعت احمدیہ کاربن کا تعارف پیش کیا۔ آپ نے بتایا کہ ۱۹۷۰ء میں یہ شہر قائم ہوا۔ فرینکفرٹ کے قریب ہونے کے باعث یہ شہر جلد جلد ترقی کرتا رہا۔ یہ مسجد جغرافیائی لحاظ سے شہر کے بالکل وسط میں ہے۔ اصل میں تو اس شہر کی بنیاد تو بہت پہلے کی ہے۔ چنانچہ 827ء میں اس شہر کاربن کا ذکر ملتا ہے۔ سلطنتِ روم کے زمانہ سے اس علاقہ میں لوگ آباد تھے۔ یہاں زمانہ قدیم کے قلعے اور عمارات موجود ہیں۔ انیسویں صدی میں زراعت کے لحاظ سے بھی اس جگہ کو اہمیت حاصل ہوئی۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد اس میں ترقی ہوتی گئی۔

جماعت احمدیہ ۱۹۹۸ء میں یہاں قائم ہوئی جب ۲۵؍افراد پر مشتمل چھ خاندان یہاں آباد ہوئے۔ اس مسجد کے سنگِ بنیاد کے وقت یہاں ۱۲۰؍ احمدی افراد موجود تھے جو کہ اب بڑھ کرتین صد تک پہنچ گئے ہیں۔ سنہ ۲۰۰۰ء میں یہاں ایک نماز سنٹر کرائے پر لیا گیا جو ۲۰۱۳ء تک قائم رہا۔ پھر ایک اَور جگہ نماز سینٹر قائم ہوا۔ جماعت احمدیہ اس شہر میں فلاحی وبہبود کاموں میں حصہ لیتی رہتی ہے۔ صفائی، نئے سال کا پروگرام، اسئلم سیکرز کی مدد، open day اور بین المذاہب پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔

مسجد کی تعمیر کے حوالے سے محترم امیر صاحب نے بتایا کہ کاربن میں مسجد کے لیے ۴؍ مئی ۲۰۱۴ء کو اجازت ملی۔ اس پر تین افراد نے اس کے خلاف قانونی چارہ گوئی کرنے کا عندیہ دیا جن میں سے ایک نے تو اپنا ارادہ ترک کر دیا جبکہ دیگر دو کو کامیابی حاصل نہ ہوئی اور عدالت نے ان کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی تعمیر کی اجازت دے دی۔

اس کے بعد حضورِانور کی اجازت سے مسجد کی تعمیر کے کام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ سنہ ۲۰۱۷ء میں اس مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ مئی ۲۰۲۱ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس مسجد کا کُل رقبہ نو سو مربع میڑ پر مشتمل ہے۔ مسجد کا مسقف حصہ ۹۸۷؍ مربع میٹر ہے جبکہ مردوں اور خواتین کے ہالز ۶۵؍، ۶۵؍ مربع میٹر کے ہیں۔ اس پر کُل سات لاکھ پچاس ہزار یورو کا خرچ آیا ہے۔

اس کے بعد ایک مہمان خاتون ممبر قومی پارلیمنٹNatalie Pawlikجو حکومتی سطح پر اقلیتوں کی نمائندہ تھیں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی آزادی آئین کا حصہ ہے۔ دینا میں کئی علاقوں میں لوگوں کو مذہب کی وجہ سے تکلیف دی جاتی ہے۔ پاکستان اور برکینا فاسو کے لوگوں کی پرسیکیوشن کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں۔ قبروں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ زندگیوں کو خطرہ ہے۔ اقلیتوں کے حوالہ سے یہ میری ذمہ داری ہے کہ ان باتوں کو بیان کروں۔ اقلیتوں کے حقوق کی خاطر آواز اٹھانا ضروری ہے تب ہی ہم حقیقی امن قائم کر سکتے ہیں۔ مذہبی آزادی ایک ایسا حق ہے جس کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اس علاقہ میں مختلف مذاہب کے لوگ باہم محبت سے رہتے ہیں۔ جماعت احمدیہ اچھا نمونہ پیش کرتی ہے۔ میں اپنی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کی integration کے حوالہ سے آپ کی مساعی پر ممنون ہوں۔

اس کے بعد ایک اور مہمان مقررممبر صوبائی اسمبلی Tobias Utter نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتا یا کہ اس ہفتہ میں میرے لیے یہ دوسرا موقع ہے کہ میں جماعت احمدیہ کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر آپ سے بات کرسکوں۔ تعمیراتی کاموں میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ بالآخر اس مسجد کا افتتاح ہو رہا ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ جماعت احمدیہ صرف اپنے لوگوں کے لیے کام نہیں کرتی بلکہ ہر ایک کی خدمت کرتی ہے۔

پرسوں محترم خلیفہ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ پڑوسیوں کے حق ادا کرنا ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں آپ عملاً کس طرح پڑوسیوں کا خیال رکھتے یں۔ نوجوانوں میں صفائی اور سپورٹس کے حوالہ سے باہم رابطہ پیدا کرتے ہیں۔ اپنا علم بڑھانا اور باہمی تعارف حاصل کرنا بھی عدمِ برداشت کو ختم کرنےمیں اہم کردار ادا کرتاہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے موصوف نے کہا کہ بہت سے ممالک میں جماعت احمدیہ کے ممبران کو مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں احمدیوں کے خلاف ایسے قوانین موجود ہیں کہ وہ مثلاً اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ وہاں مسیحیوں پر مظالم جاری ہیں۔ حال ہی میں وہاں چرچوں پر بھی حملے ہوئے۔ چونکہ دنیا کے سیاسی اور مذہبی راہنما اپنے اپنے مفاد کے لیے کام کررہے ہیں اس لیے ہمارا اور آپ کا فرض بنتا ہے کہ دنیا کو مذہب کی تعلیمات کے متعلق آگاہ کریں۔ ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو صرف باتیں کرنے والے نہ ہوں۔ حضورانور کی امن کے حوالے سے کتاب پڑھ کر معلوم ہوگا کہ حضورانور نے کس طرح عملاً دنیا میں کام کیا ہے۔ اس وقت دنیا میں امن کی ضرورت ہے۔ میری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔

بعد ازاں کاربن کے مئیرGuido Rahn نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت اعزاز کی بات ہے کہ حضورانور کاربن میں متعدد بار تشریف لائے ہیں۔ یہ صرف جماعت احمدیہ کا پروگرام نہیں بلکہ کاربن کے لوگوں کا پروگرام لگ رہا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے یہاں موجود ہیں۔ کاربن کے لوگوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ یہاں مسجد بنائی جائے اس لیے میرے لیے ضروری تھا کہ میں مسجد کے حوالہ سے آپ کی مدد کروں۔ آپ پُرامن لوگ ہیں۔ آپ اس شہر اور معاشرے کے لیے کام کرتے ہیں۔ میں یہاں کے پرانے لوگوں کو کہوں گا کہ وہ بھی آپ کے کاموں میں ساتھ دیں۔ میری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔

ادارہ الفضل انٹرنیشنل حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور احبابِ جماعت احمدیہ عالمگیر کو عموماً جبکہ جماعت احمدیہ جرمنی کو خصوصاً مسجد مبارک کے بابرکت افتتاح پر مبارک باد پیش کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ جرمنی کو جلد سو مساجد سکیم کو پورا کرنے کی توفیق دے بلکہ ان مساجد کے قیام کو مثمر بثمراتِ حسنہ بنائے۔ آمین

(حضورِ انور کے دورۂ جرمنی کی رپورٹنگ کے لیے ملاحظہ فرماتے رہیے روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button