تقریر جلسہ سالانہ

تقریر جلسہ سالانہ (کینیڈا۲۰۲۳ء) صحابہ رسولﷺ کے توحیدکے اعلیٰ معیار (قسط دوم۔ آخری)

(عبد السمیع خان۔ کینیڈا)

خدائی نصرت

توحید کے ان غلاموں کو خدا نے بے آسرا نہیں چھوڑا ان پر خدا کے فرشتے نازل ہوتےاوران کی ڈھارس بندھاتے تھے اللہ فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَلَا تَحۡزَنُوۡا وَاَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ۔نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَفِی الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَلَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمۡ وَلَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ۔نُزُلًا مِّنۡ غَفُوۡرٍ رَّحِیۡمٍ(حٰم سجدہ:۳۱ تا ۳۳) یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا ربّ ہے، پھر استقامت اختیار کی، اُن پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت (کے ملنے) سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دیے جاتے ہو۔ہم اس دنیوی زندگی میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی۔ اور اس میں تمہارے لیے وہ سب کچھ ہوگا جس کی تمہارے نفس خواہش کرتے ہیں اور اس میں تمہارے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو تم طلب کرتے ہو۔ یہ بہت بخشنے والے (اور) بار بار رحم کرنے والے کی طرف سے مہمانی کے طور پر ہے۔

اور اسی قید و بند اور اذیت کے عالم میں خداتعالیٰ نےاپنے غلاموں کو ایسے معجزانہ طور پر رزق عطا فرمایا کہ دشمن حیران رہ گئے اور یہ امر ان کے لیے ہدایت کا موجب بن گیا۔

حضرت ابوامامہ باہلی ؓ اپنی قوم کو تبلیغ کر رہے تھے مگر قوم مسلسل انکار کر رہی تھی۔ اس موقع پر انہیں سخت پیاس لگی۔ انہوں نے پانی طلب کیا تو ان کی قوم نے کہا: ہم تمہیں ہرگز پانی نہیں دیں گے۔ یہاں تک کہ تم پیاس سے مر جاؤ۔حضرت ابوامامہؓ سر پر کپڑا لپیٹ کر سخت گرمی میں پتھروں پر لیٹ گئے اور بعید نہیں تھا کہ شدت پیاس اور گرمی سے ان کی جان نکل جاتی۔ مگر انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی ان کے لیے ایک قیمتی پیالہ میں ایسا پانی لایا ہے جس سے زیادہ خوبصورت پیالہ اور لذیذ پانی کبھی کسی نے نہیں دیکھا۔ انہوں نے وہ پانی سیر ہو کر پیا۔ یہ معجزہ جب انہوں نے ثبوت کے ساتھ پیش کیا تو ساری قوم ایمان لے آئی۔ (مستدرک حاکم جلد۳ صفحہ۶۴۲ کتاب معرفة الصحابہ مکتبہ النصر الحدیثہ ریاض)

حضرت ام شریکؓ قبیلہ بنو عامر بن لوئی میں سے تھیں۔ مکہ میں اسلام قبول کیا۔ آپ خفیہ طور پر قریش کی عورتوں کے پاس جاتیں اور اسلام کی تبلیغ کرتیں۔ جب اہل مکہ کو پتا لگا تو انہوں نے حضرت امّ شریک کو پکڑ لیا اور ان کے لیے سزا تجویز کی اور انہیں اونٹ کی ننگی پیٹھ پر سوار کرا دیا اور انہیں نامعلوم منزل کی طرف لے کر چل پڑے انہیں تین دن تک کھانے پینے کے لیے کچھ نہ دیا گیا۔ جب کسی منزل پر رکتے تو خود سائے میں بیٹھ جاتے اور ان کو دھوپ میں باندھ دیتے۔ خود کھاتے پیتے اور ان کو بھوکا پیاسا رکھتے۔ مگر خداتعالیٰ نے ان کے ساتھ یہ سلوک فرمایا کہ رؤیا میں انہیں بہترین ٹھنڈا اور میٹھا پانی پلایا گیا جو انہوں نے اپنے اوپر بھی چھڑک لیا اور ان کی حالت بہت بہتر ہوگئی۔ جب ان کے مخالفین نے ان کی یہ کیفیت دیکھی تو سمجھا کہ شاید انہوں نے ان کے مشکیزوں سے پانی لے لیا ہے۔ مگر حضرت امّ شریکؓ نے انہیں اپنا رؤیا بتایا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کے مشکیزے باقاعدہ اسی طرح بھرے ہوئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ تمہارا دین ہمارے دین سے بہتر ہے اور پھر اسلام لے آئے۔ (الاصابہ جلد۴ صفحہ۴۴۶ ازابن حجر عسقلانی )

رحمی رشتوں کا انقطاع

توحید کے جرم میں صحابہ پر جو ایک گہرا جذباتی وار کیا گیا وہ رحمی رشتوں کا انقطاع تھا۔ ان کے اہل خاندان نے نہ صرف ان سے تمام تعلق توڑ لیے بلکہ ان پر مظالم کی بھی قیادت کرتے رہے۔ مگر صحابہ اس امتحان سے بھی سرخرو ہو کر نکلے۔

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ والدہ سے بہت محبت اور حسن سلوک کرنے والے تھے۔ جب وہ اسلام لائے تو ان کی ماں نے کہا یہ تُو نے کیا دین اختیار کرلیا ہے۔ اسے چھوڑ دے ورنہ میں کچھ کھاؤں گی نہ پیئوں گی یہاں تک کہ مر جاؤں۔ مگر حضرت سعدؓ نے انکار کردیا اور ماں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی اور ایک دن رات اسی طرح گزر گیا اور وہ بہت کمزور ہوگئی۔ مگر دین کے معاملہ میں حضرت سعدؓ نے غیرمعمولی استقامت کا مظاہرہ کیا اور انہوں نے اپنی والدہ سے کہا: اگر تیرے سینہ میں ہزار جانیں بھی ہوں اور ایک ایک کرکے ساری نکل جائیں تب بھی میں کسی قیمت پر اس دین سے جدا نہیں ہوسکتا۔ (اسد الغابہ جلد۲ صفحہ۲۹۲ از عبدالکریم جزری)

حضرت ابوسلمؓہ نے قریش کے مظالم سے تنگ آکر مدینہ ہجرت کا ارادہ کیا۔ اپنے ساتھ اپنی بیوی ام سلمہؓ ہند اور بیٹے سلمہ کو اونٹ پر سوار کیا اور مدینہ کی طرف چل پڑے۔ جب امّ سلمہؓ کے قبیلہ بنو مغیرہ کو معلوم ہوا تو وہ لپک کر پہنچے اور ابوسلمہؓ سے کہا کہ تیری ذات تو ہم سے جدا ہوسکتی ہے مگر تُو ہمارے قبیلہ کی عورت کو نہیں لے جاسکتا۔یہ کہہ کر انہوں نے اونٹ کی نکیل کو ابوسلمہ کے ہاتھ سے چھین لیا اور انہیں اکیلے ہجرت کی اجازت دے کر امّ سلمہ کو روک لیا اور قید کر دیا۔

جب ابوسلمہؓ کے قبیلہ بنو عبدالاسد تک یہ خبر پہنچی تو وہ دوڑے آئے اور کہا کہ ابوسلمہ کا بیٹا تو ہمارے قبیلہ کا فرد ہے اسے ہم ماں کے پاس نہیں رہنے دیں گے اور یہ کہہ کر امّ سلمہ سے ان کا بیٹا بھی چھین لیا جو شیر خوار بچہ تھا۔ اس طرح بیوی کو خاوند سے اور بیٹے کو ماں سے جد اکر دیا گیا۔ حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں روزانہ صبح باہر نکل جاتی اور ویرانوں میں بیٹھ کر سارا دن آنسو بہاتی رہتی اور پورا سال اسی حال میں گزر گیا۔ یہاں تک کہ بنو مغیرہ کے ایک آدمی کو ان پر رحم آگیا۔ ان کو بچہ واپس کیا گیا اور مدینہ جانے کی اجازت دی گئی اور وہ اکیلی بچے کو لے کر مدینہ پہنچیں۔ (سیرة ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۱۲) یہی ام سلمہؓ اپنے خاوند کی شہادت کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں اور ام المومنین کہلائیں۔

اموال کی قربانی

صحابہؓ نے اپنی جانیں، اپنے جسم، اپنی عزتیں اپنے تمام دنیوی تعلقات کے ساتھ اپنے تمام اموال بھی راہ مولیٰ میں قربان کر دیے مگر ایمان پر آنچ نہ آنے دی۔ان میں وہ اموال بھی تھے جو صحابہ نے خود راہ مولیٰ میں پیش کیے اور وہ بھی جو دشمنوں نے ان سے چھین لیے۔

حضرت صہیبؓ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ کمزور طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت عمار بن یاسرؓ کے ساتھ اسلام لائے تھے۔ انہوں نے ہجرت کرنا چاہی تو کفار نے سخت مزاحمت کی اور کہا کہ تم مکہ میں محتاج ہو کر آئے تھے لیکن یہاں آکر دولت مند ہوگئے۔ اب یہ مال لے کر ہم تمہیں یہاں سے نہیں جانے دیں گے۔ حضرت صہیبؓ نے کہا اگر میں یہ سارا مال تمہیں دے دوں تو پھر جانے دو گے۔ اس پر کفار راضی ہوگئے اور حضرت صہیبؓ سارا مال دے کر متاع ایمان کے ساتھ مدینہ پہنچ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو فرمایا: صہیبؓ نے کیا ہی نفع بخش سودا کیا ہے۔ (طبقات ابن سعد جلد۴ صفحہ۲۲۷)

حضرت عبداللہ ذوالبجادین ؓنے جب اسلام قبول کیا تو ان کی قوم نے ان کے تمام کپڑے اتروالیے۔ وہ اپنی ماں کے پاس گئے تو اس نے انہیں ایک چادر دے دی۔ انہوں نے اس کے دو ٹکڑے کیے ایک کو تہ بند بنالیا اور ایک ٹکڑا قمیص کے طور پر لے لیا۔ یہی ان کی جائیداد تھی جسے لے کر وہ خوش خوش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دو چادروں کی وجہ سے ہی ذوالبجادین کا لقب عطا فرمایا۔ (اسدالغابہ جلد۳صفحہ۱۲۲۔ از عبدالکریم جزری)

یہ کیفیت دوچار صحابہ کی نہیں سب مہاجرین کی تھی۔ وہ جہاں جہاں سے بھی آتے اپنے تمام اموال اور جائیدادیں یا خود چھوڑ کر آگئے یا دشمنوں نے زبردستی چھین لیں اور ان پر قبضہ کرلیا۔ چنانچہ بڑے بڑے مالدار اور تاجر صحابی اس حال میں مدینہ پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا اور کوئی چیز ان کے پاس نہ تھی۔ ہاں آسمان سے حاصل ہونے والی رضائے الٰہی کی ردا ان پر سایہ فگن تھی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تمام آبائی جائیداد جو مکہ میں تھی اس پر عقیل (جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے) نے قبضہ کرلیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی جگہ چھوڑی ہے جہاں ہم ٹھہر سکیں اور ایسی عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا کہ فتح کے باوجود وہ مکانات اور جائیدادیں ان سے واپس نہ لی گئیں۔(بخاری کتاب المغازی باب این رکز النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم )

سچی توحید کے نشان

صحابہؓ نےتوحیداس طرح بھی قائم کی کہ جو توحید رسول کریمﷺ سے سیکھی اس کو اپنی زندگیوں میں جاری کر دیا وہ خدا کے عشق میں مست ہو گئے خداگواہی دیتا ہے کہ ان کو کوئی تجارت اور دنیا کا کوئی سودا ذکر الٰہی سے نماز سے اور اور زکوٰۃ سے روک نہیں سکتاتھا فرماتا ہے کہ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيْتَآءِ الزَّكَاةِ (النور: ۳۸)یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللّٰہَ اللّٰہَ فی أَصْحَابی ( جامع ترمذی کتاب المناقب۔ باب فی من سب اصحاب النبیﷺ حدیث نمبر ۳۸۶۲)یعنی میرے صحابہ میں خدا ہی خدا نظر آئے گا۔

ان میں وہ اصحاب صفہ بھی تھے جو رسول اللہﷺ سے کلام الٰہی سننے کے لیے مسجد نبوی میں چبوترے پر دھونی رما کر بیٹھ گئے تھے انہی میں ابو ہریرہ بھی تھے جو بھوک کی وجہ سے بیہوش ہو جاتے تھے ان میں سے بعض دن میں جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹتے اور روزی کما تے اور رات کو دیر تک دین کا علم اور قرآن سیکھتے۔ انہی کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے نُوْرُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ(الحدید :۱۲) یعنی ان کا نور ان کے آگے بھی دوڑے گا اور بائیں بھی یعنی ہر طرف نور ہوگا۔

صحابہؓ کی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ نے بیسیوں معجزانہ نظارے دکھائے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے رات گئے دو صحابہ نکلے تو سخت اندھیرا تھا اور کچھ سجھائی نہ دیتا تھا کہ اچانک ایک نورظاہر ہوا اور دونوں کے آگےان کے مطلوبہ راستے پر چلنے لگا اور جب دونوں صحابہ اپنے اپنے گھروں کے لیے جدا ہونے لگے تو وہ نور دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور گھروں تک پہنچا کر ختم ہوا۔(بخاری کتاب المناقب الأنصار باب منقبۃ ا سید بن حضیر ؓ حدیث نمبر ۳۸۰۵ )یہ سب ذکر الٰہی اور محبت الٰہی کی برکات تھیں۔ دنیا والے فانی اموال جمع کرتے ہیں مگر خدا والوں نے سب کچھ دے کر خدا کو پالیا۔

نماز،تلاوت قرآن اور روزہ

حضرت اسید بن حضیر ؓرسول اللہﷺ کے بہت مقرب صحابی تھے اسلام پر بہت فخر کرتے تھے ایک رات آپ نماز میں دیر تک تلاوت قرآن کریم کر تے رہے۔صبح رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ فرشتے تمہاری تلاوت اور قراءت سننے کے لیے آئے تھے اور اگر تم صبح تک قرآن پڑھتے رہتے تو ہو سکتا تھا کہ تم فرشتوں کو بھی دیکھ لیتے۔(بخاری کتاب فضائل القرآن،باب نزول السکینۃ والملائِکَۃِ عند قراءۃ القرآن)

حضرت تمیم داری ؓ کا شمار ان صحابہ میں ہوتا ہے جو زہد وتقویٰ اور عبادت و ریاضت میں ضرب المثل تھے آپ کی نماز تہجد میں شاید ہی کبھی ناغہ ہوتااور تہجد میں بسااوقات ایک آیت اتنی بار دہراتے کہ پوری رات ختم ہو جاتی ایک مرتبہ تہجد میں سورة الجاثیہ کی آیت ۲۲ساری رات تلاوت کرتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ (اسد الغابہ از ابن اثیر جزری جلد۱ صفحہ۲۱۵ مکتبہ اسلامیہ طہران)

حضرت شمعون ؓکے متعلق لکھا ہے کہ وہ بہت نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ ایک غزوہ سے واپس آئے کھانا کھایا اور وضو کرکے سجدہ شکر ادا کرنے کے لیے مسجد میں چلے گئے کوئی سورت پڑھنی شروع کی اور رات بھر وہی پڑھتے رہے فجر کے بعد جب گھر تشریف لائے تو بیوی نے کہا غزوہ سے واپسی پر کچھ آرام کرلیتے تو فرمایا مجھے یاد الٰہی میں کوئی دوسری یاد نہیں آتی میں قرآن کریم میں غورو فکر کرتا رہا یہاں تک کہ صبح کی اذان ہوگئی۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ از ابن حجر عسقلانی جلد۲ صفحہ۱۵۳)

حضرت عبداللہ بن عمرؓو کسی وقفہ کے بغیر مسلسل روزے رکھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تو فرمایا کہ ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو۔ چونکہ ہر نیکی کی جزا دس گنا ہے اس لیے تیس روزوں کا اجر ملے گا اور تم خدا کی نظر میں مسلسل روزہ دار قرار پاؤ گے۔ ان کے بار بار اصرار پرفرمایا حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح روزے رکھو یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ اور یہ سب سے زیادہ متوازن طریق ہے۔ حضرت عبداللہ نے پھر عرض کیا کہ میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زیادہ اجازت عطا نہ فرمائی۔ حضرت عبداللہ ؓ ایک لمبے عرصہ تک اسی حکم کے مطابق صوم داؤدی پر عمل پیرا رہے (بخاری کتاب الصوم باب صوم الدھر حدیث نمبر۱۸۴۰ و حق الجسم فی الصوم حدیث نمبر۱۸۳۹)

حضرت عبداللہ بن حارث ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر گئے ایک سال بعد دوبارہ حاضر خدمت ہوئے تو صورت اس قدر بدل چکی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پہچان نہ سکے۔ آپ نے فرمایا تمہاری صورت تو بہت اچھی تھی تمہیں کیا ہوا تو انہوں نے کہا جب سے آپ سے مل کر گیا ہوں مسلسل روزے رکھتا ہوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اپنے نفس کو کیوں اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے رمضان کے روزے رکھو اور ہر ماہ ایک روزہ رکھو۔ انہوں نے اصرارکیاتو تین روزوں کی اجازت دی۔ انہوں نے مزید اصرار کیا تو فرمایا تین دن روزہ رکھو اور پھرتین دن ناغہ کرو۔ (سنن ابو داؤد کتاب الصوم باب فی صوم اشھرالحرم حدیث نمبر۲۰۷۳)

حضرت ابو طلحہ انصاریؓ عہد رسالت میں غزوات میں شرکت کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے اس لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد انہوں نے اس کی تلافی کرنی شروع کی اور چالیس برس روزوں کا اہتمام کرتے رہے۔ (اسد الغابہ جلد نمبر۲صفحہ۲۳۳)

ایثار کے نمونے

سچی توحید ایثار کا تقاضاکرتی ہے حضرت سعید بن عامؓر ایک دفعہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہو گئے۔ حضرت عمرؓ کا دور خلافت تھا جب ان کو معلوم ہوا تو انہوں نے ایک ہزار دینار حضرت سعید ؓکو بھجوا دیے۔ وہ یہ دینار لے کر اپنی بیوی کے پاس آئے اور واقعہ بتایا۔ بیوی نے کہا آپ اس رقم سے کچھ کھانے پینے کا سامان اور غلہ خرید لیں۔ فرمانے لگے کیا میں تجھے اس سے بہتر بات نہ بتاؤں۔ ہم اپنا مال اس کو دیتے ہیں جو ہمارے لیے تجارت کرے اور ہم اس کی آمدنی سے کھاتے رہیں بیوی نے کہا بالکل ٹھیک ہے۔ حضرت سعید بن عامرؓ نے وہ تمام دینار اللہ کی راہ میں خرچ کر دیے اور تنگی اورترشی میں گزارہ کرتے رہے۔ (حلیة الاولیاء جلد ۱صفحہ ۲۴۴)

حضرت دکین بن سعیدؓ فرماتے ہیں کہ ہم آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہم ۴۴۰؍ آدمی تھے اور ہم نے حضورﷺ سے غلہ مانگا۔ آپ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا :اٹھو اور انہیں دو۔ چنانچہ حضرت عمرؓ ان سب لوگوں کو ساتھ لے کرگھر آئے۔ کمرہ کھولا تو وہاں کھجوروںکا چھوٹا سا ڈھیر تھا۔ ہم میں سے ہر آدمی نے اپنی ضرورت کے مطابق اس میں سے لے لیا۔ مگر خدا کی قدرت کہ اس ڈھیر میں ذرہ برابر کمی نہ آئی۔ (حلیة الاولیاء جلد ۱صفحہ ۳۶۵)

مسلم پڑوسی

خدا کی سچی توحیدپڑوسی سے حسن سلوک کی تعلیم دیتی ہے ایک شخص محمد بن جہم نے کسی مجبوری سے اپنے گھر کو بیچنے کا ارادہ کیا لیکن قیمت وہ لگائی جو مارکیٹ ریٹ سے بہت زیادہ تھی۔ لوگوں نے اعتراض کیا تو اس نے کہا میرے پڑوسی صحابی رسولﷺحضرت سعید بن العاصؓ ہیں اگر ان کے ساتھ برائی کرو گے تب بھی وہ بھلائی کریں گے۔ جو ان سے مانگو گے وہ دیں گے۔ تو یہ قیمت مکان کی نہیں پڑوسی کی ہے۔ حضرت سعید بن عاصؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے پڑوسی کو ضرورت کے مطابق رقم بھجوائی اور کہا مکان فروخت نہ کرو اور اطمینان سے رہو۔ (امن کا راستہ صفحہ۱۲)صحابی رسولؐ حضرت عائذ بن عمروؓ اپنے گھر کا پانی باہر نہیں نکلنے دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس سے مسلمانوں کو تکلیف ہوگی۔ اور میں یہ ہرگز پسند نہیں کرتا۔ (الاصابہ جلد۲ صفحہ۲۵۲)

حضرت امام حسینؓ کا ایک پڑوسی ان کے پاس آیا اور کہا اے فرزند رسولؐ مجھ پر ۴۰۰ درہم قرض ہے۔ حضرت حسینؓ اندر گئے ۴۰۰ درہم لا کر اسے دے دیے اور وہ چلا گیا تو زاروقطار رونے لگے کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا۔ میں اس لیے رو رہا ہوں کہ اپنے پڑوسی کے حال سے بے خبر رہا اور اس کو مجھ سے سوال کرنا پڑا۔ (بحوالہ الفضل ۲۶؍مئی ۲۰۰۱ء)

صحابی رسول حضرت ابوذر غفاری ؓ نے ایک غلام پر کچھ سختی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض ہوئے اور فرمایا:یہ لوگ تمہارے بھائی اور خدمت گار ہیں جنہیں خدا نے تمہاری نگرانی میں دیا ہے۔ پس جس شخص کے ماتحت اس کا بھائی ہو وہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے اور ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام نہ لو اور اگر کوئی مشکل کام ان کے سپرد کردو تو ان کی مدد کرو۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب المعاصی من امر الجاھلیة حدیث نمبر ۲۹)۔ یہی ابوذر غفاری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل اس طرح کرتے تھے کہ آقا اور غلام ایک ہی طرح کے کپڑے پہنتے تھے اور ایک ہی طرح کا کھانا کھاتے تھے۔

ایک جماعت،زمین پر توحید

صحابہؓ نے توحید کے اعلیٰ معیار اس طرح بھی قائم کیے کہ انہوں نے کالے اور گورے کا فرق مٹا دیا اور عزت اور تکریم کا معیار صرف اور صرف تقویٰ تھا سب خدا کے بندے اور عاجز انسان تھے۔ حضرت عمرؓ جیسا فاتح اور صاحب جلال بھی حضرت بلالؓ کو سیدنا بلال کہہ کر مخاطب کرتا تھا نماز کا امام اور لشکر کا سردار وہ ہوتا تھاجس کو قرآ ن زیادہ آتا تھا یا جس کی دینی خدمات زیادہ ہوتی تھیں قانون کی نظر میں سب برابر تھے زمیں پر ایسی توحید قائم ہوئی جو اس زمین کا روشن ترین دور تھا۔

صحابہؓ کی توحید کا ایک منظر یہ بھی ہے کہ وہ اپنی باہمی محبت،اور ایثار سے ایک خاندان کی طرح بن گئے تھے ان تین صحابہ کو یاد کریں جو جنگ یرموک کے میدان میں زخمی ہو کر آخری سانسیں لے رہے تھے جب ایک شخص پانی لے کر آ یا تو ہر ایک نے دوسرے کی طرف اشارہ کیا وہ سارے شہید ہو گئے مگر کسی نے اپنے ساتھی سے پہلے پانی پینا پسند نہ کیا۔(استیعاب جلد۳ صفحہ ۱۰۸۴۔تذکرہ عکرمہ )

مدینہ منورہ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک صحابی نے قربانی کا گوشت پڑوسی کی طرف بھجوایا تو اس نے ایک اور مستحق کی طرف بھیج دیا اس نے آگے روانہ کر دیا۔تاریخ کہتی ہے کہ گوشت ۷گھروں سے ہوتا ہوا پہلے گھر واپس آ گیا۔

ایک مستشرق مسٹر گارس لکھتا ہے

عرب بت پرست تھے محمد نے ان کو خدا پرست بنا دیا وہ لڑتےجھگڑتے اور جنگ و جدال کیا کرتے تھے آپ نے ان کو ایک اعلیٰ سیاسی نظام کے تحت متحد کر دیا ان کی وحشت و بربریت کا یہ عالم تھا کہ انسانیت شرماتی تھی مگر آپ نے ان کو اخلاق فاضلہ اور بہترین تہذیب و تمدن کے وہ درس دیے جس سے نہ صرف ان کو بلکہ تمام عالم کو انسان بنا دیا۔ (بحوالہ انصار اللہ جولائی ۱۹۹۱ء)

توحید کی تبلیغ

صحابہؓ نے توحید کے اعلیٰ معیار اس طرح بھی قائم کیے کہ جو توحید انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پائی تھی اسے کل عالم تک پہنچانے کے لیے کوشاں رہے اپنے قول سے اپنے عمل سے اور اپنی قربانیوں سے۔ حضرت ابوبکر ؓکی تبلیغ سے بیسیوں صحابہ آئے حضرت ابو ذر غفاری ؓ کی تبلیغ سے ان کا قبیلہ، حضرت قیس بن یزید ؓ سے ان کا قبیلہ، حضرت عمرو بن مرہؓ سے ان کا قبیلہ،طفیل بن عمرو ؓ دوسی سے ان کا قبیلہ مسلمان ہوا حضرت علیؓ،حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور معاذ بن جبل ؓ نے یمن میں توحید کا جھنڈا لہرایا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر ؓکو مبلغ توحید بنا کر مدینہ بھیجا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے انصار کے دونوں قبائل اوس اور خزرج کے دل جیت لیے۔

بدر کے قیدیوں سے اتنا اچھا سلوک کیا گیا کہ آزادی کے بعد سارے کے سارے جلد یا بدیر اسلام لے آئے۔مصر فتح کیا تو اہل مصر سے نہایت احسان کا سلوک کیا وہاں کے عیسائیوں نے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نصیحت کی تھی کہ میری دادی ہاجرہ مصر کی تھیں جب تم اس پر فتح پاؤ تو نرمی سے پیش آنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہدایت اور صحابہ کا نمونہ دیکھ کر مصر نے اپنا دل ہار دیا اور آج تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چمٹا ہوا ہے۔ (مسند احمد جلد ۵ صفحہ ۱۷۴۔اصحابِ احمد جلد ۵ حصّہ دوم صفحہ ۲۸)

مصر کا ایک بہت بڑا رئیس ’’شطا‘‘نامی مسلمانوں کے اخلاقی محاسن کا گر ویدہ ہو کر دو ہزار آدمیوں کے ساتھ حلقہ بگوشِ اسلام ہو گیا۔(تاریخ مقریزی بحوالہ سیر الصحابہ جلد ۵ حصّہ دوم صفحہ ۱۳۵)

۱۳ھ میں جنگ یرموک کے دوران عیسائی حاکم نے ایک شخص کو بھیجا کہ مسلمان لشکر کی خبر لائے اس نے واپس آ کر بتایا کہ یہ لوگ جو دن کو شہسوار ہوتے ہیں رات ہوتے ہی عبادت کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں ذکر الٰہی اور قرآن کی تلاوت بلند آواز سے کرتے ہیں اگر ان کے بادشاہ کا بیٹا بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیں زنا کرے تو اس کی سزا دیں وہ حق کے معاملہ میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے یہ سن کر حاکم نے کہا تم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور چند دن بعد اس نے شکست قبول کر لی (تاریخ طبری جلد۲صفحہ۶۱۰)

خدا زندہ ہے

صحابہؓ کی توحید کا اعلیٰ معیار اس وقت بھی نظر آتا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور صحابہ مارے غم کے دیوانے ہو گئے اور کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا یقین نہ آتا تھا اور حضرت عمرؓ بھی یہ کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ فوت نہیں ہوئے اور جو یہ کہے گا میں اس کی گردن اتار دوں گا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے توحید کے شاگرد حضرت ابو بکر ؓآگے بڑھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے جسم مبارک کو بوسہ دیا اور عرض کی کہ خدا آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا پھر باہر تشریف لائے اورصحابہ کے سامنے اعلان کیا :مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللّٰهَ فَإِنَّ اللّٰهَ حَيٌّ لاَ يَمُوتُ(صحیح البخاری کتاب المغازی باب مرض النبی ووفاتہ (حدیث نمبر ۴۴۵۴،۴۴۵۲)سن لو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور جو خدائے واحد کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ خدا زندہ ہے اور اس پر کبھی موت نہیں آئے گی پھریہ آیت تلاوت کی وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اور امت کو سبق دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام مخلوق میں سب سے بلند ہے مگر خدا کےمقابلہ پر سب فانی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی محض اس کے بندے اور رسول ہیں۔اور سابقہ سب رسولوں کی طرح فوت ہو چکے ہیں۔کاش امت مسلمہ اس سبق کو یاد رکھتی اور مسیح کو آسمان پر نہ بٹھاتی تو صلیب کا فتنہ برپا نہ ہوتا۔

حضرت ابوبکر ؓنے گرتے ہوؤں کو بھی تھام لیا اور صحابہؓ کو یہ سبق ایسا پسند آیا کہ مدینہ کی گلیوں میں یہ آیت ورد کرتے پھرتے تھے اور پھر نئے سرے سے توحید کی خاطر قربانیاں دینے کے لیے تیار ہو گئے۔

رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب کے بہت سے قبائل نے بغاوت کر دی اور قریب تھا کہ وہ توحید کی اس چھوٹی سی ریاست کو برباد کر دیتے تو حضرت ابوبکرؓ نے صحابہ کی مدد سے ان کو نیست و نابود کر دیا۔حضرت حبیب بن زیدؓ انصاری صحابی تھے۔ مسیلمہ کذاب نے اپنی بغاوت کے زمانے میں انہیں پکڑ لیا اور کہا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو آپ نے فرمایا: نہیں میں یہ بات سننا بھی نہیں چاہتا اس پر مسیلمہ نے ان کا ایک ایک عضو کاٹ کر انہیں شہید کردیا۔ (سیرة النبی ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۱۰ مطبع مصطفی البابی الحلبی۔ مصر ۱۹۶۳ء)

مراکز توحید اور درس توحید

توحید سکھانے کے لیےسب سے بڑی جگہ مسجد اور سب سے بڑی کتاب قرآن کریم ہے جس کے لیے صحابہ کے سردار خلفائے راشدین نے بھر پور محنت کی حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں قریباً چار ہزار مساجد تعمیر کرائیں (الفاروق صفحہ ۲۲۸)جب کوفہ آباد کیا تو اس میں بہت بڑی مسجد تعمیر کرائی جس میں چالیس ہزار افراد نماز پڑھ سکتے تھے عمارت کے باہر بہت بڑا سائبان بھی بنایا گیا۔(الفاروق صفحہ ۲۳۲)

آپؓ نے ہر جگہ قرآن مجید کا درس جاری کیا اور معلم اور قاری مقر رکر کے ان کی تنخواہیں مقرر کیں بعض بزرگ صحابہ کو حضرت عمرؓ نے دور دراز اسلامی ممالک میں بھیجا تاکہ لوگوں کو نمازاور قرآن سکھائیں۔ ایک صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں حمص کی مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ تیس بڑے صحابہ وہاں موجود تھے جو لوگوں کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔ اور جب انہیں کسی مسئلہ میں الجھن ہوتی تو معاذ بن جبلؓ کی طرف رجوع کرتے۔ (تذکرۃ الحفاظ ذہبی جلد ۱ صفحہ ۲۰)

وہ ابراہیم ؑکی طرح آگ میں ڈالے گئےیوسفؑ کی طرح قید کیے گئے اور مسیح ؑ کی طرح صلیب پر چڑھائے گئے مگرتوحید کے اعلیٰ معیار قائم کیے تو خدا نے زمین پر انہیں یکتا بنا دیا ان پر خدا کے فرشتے نازل ہوتے تھے وہ صاحب الہام اور رؤیا تھے اور سینکڑوں کو رسول اللہﷺ نے اسی دنیا میں جنت کی بشارت دی۔

رسول اللہﷺ کا معجزہ

حضرت مسیح موعودؑ صحابہ رسول کی توحید کے ان تمام اعلیٰ معیاروں کو رسول اللہﷺ کی بلند شان اور آپؐ کی سچائی کے ثبوت کے طور پر پیش فرماتے ہیں فرمایا: دیکھو کہ اُس مرد [محمد رسول اللہﷺ] کی کیسی بلند شان ہے جس نے تھوڑے سے عرصہ میں ہزاروں انسانوں کی اصلاح کی اور فساد سے صلاحیت کی طرف اُن کو منتقل کیا یہاں تک کہ اُن کا کفر پاش پاش ہو گیا اور صدق اور راستی کے تمام اجزا بہ ہیئت اجتماعی کے وجود میں جمع ہو گئے۔ اور اُن کے دلوں میں پرہیزگاری کے نور چمک اٹھے… اور اُن کی ہمتیں دینی خدمات کے لیے بلند ہو گئیں اور وہ دعوت اسلام کے لیے ممالکِ شرقیہ اور مغربیہ تک پہنچے اور ملتِ محمدیہ کی اشاعت کے لیے بلاد جنوبیہ اور شمالیہ کی طرف انہوں نے سفر کیا… انہوں نے اپنی کوششوں اور تگ و دو میں کوئی دقیقہ اسلام کے لیے اٹھا نہ رکھا یہاں تک کہ دین کو فارس اور چین اور روم اور شام تک پہنچادیا اور جہاں جہاں کفر نے اپنابازو پھیلا رکھا تھا اور شرک نے اپنی تلوار کھینچ رکھی تھی وہیں پہنچے۔…وہ… زمین کی انتہائی آبادی تک زمین پر قدم مارتے ہوئے پہنچے۔ اُن کی عقلیں آزمائی گئیں۔ اور ملک داری کی لیاقتیں جانچی گئیں۔ سو وہ ہر ایک امر میں فائق نکلے اور علم اور عمل میں سبقت کرنے والے ثابت ہوئے۔ اور یہ معجزہ ہمارے رسول خاتم النبیّین صلی الله علیہ وسلم کا ہے اور حقیقتِ اسلام پر ایک صریح دلیل ہے۔(نجم الھدیٰ۔روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۶۱ تا ۶۶)

رسو ل اللہﷺ کا یہ معجزہ آج بھی زندہ اور تابندہ ہے رسول کریمﷺ کو بشارت دی گئی تھی کہ تیری قوت قدسیہ سے مسیح موعود کے ذریعہ صحابہ کا ایک نیا دور شروع ہو گا ۔چنانچہ مسیح موعودؑ نے اعلان فرمایا:

مبارک وہ جو اب ایمان لایا

صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا

آج بھی وہی بلال کی قربانیاں ہیں اور احد احد کی صدائیں ہیں وہی اذان اور نماز پر پابندیاں ہیں وہی گرفتاریوں کا ماحول ہے اور شہادتوں کا لہو ہے وہی لوٹ مار کے مناظر ہیں اور ہجرتوں کا سلسلہ ہے۔آج بھی زمین پر وہی توحید ہے جب ساری قوم ایک ہاتھ پر اکٹھی ہے، ایک جماعت، ایک خلیفہ، ایک امام، ایک کلمہ ہے…لَآإلٰہَ إلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔آج بھی کوئی نہیں جو بلالی آواز احد کو مٹا سکے۔ کوئی پتھر، کوئی پہاڑ نہیں جو سینوں پر پڑ کر لاالٰہ کی آواز کو دباسکے۔ کوئی دکھ اور کوئی غم نہیں، کوئی صدمہ نہیں جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی شہادت سےاحمدیوں کو باز رکھ سکے۔جماعت احمدیہ اس توحید کے پیغام کو کل عالم میں پھیلانے کے لیے کوشاں ہے اور اس وقت تک دم نہیں لے گی جب تک زمین کا مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب توحید کے نور سے منور نہیں ہو جاتا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button