متفرق مضامین

کیا کائنات ایک حادثہ ہے یا اس کی فائن ٹیوننگ کی گئی ہے؟

(ابو نائل)

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:وَلَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ(سورہ لقمٰن:۲۶)ترجمہ:اگر تو ان سے پوچھے کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے تو کہہ دے سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے لیکن ان میں سے اکثر علم نہیں رکھتے۔

اس آیت کریمہ سے قبل آیات میں انکار کرنے والوں کا ذکر چل رہا ہے اور اس آیت میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ جب تم ان سے گفتگو کرو تو کائنات کی تخلیق کے بارے میں سوال کرو کہ اس کائنات کا آغاز کس طرح ہوا؟ جب بھی یہ جائزہ لیا جائے گا تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ اس کائنات کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ظاہر ہے کہ مقدس کتب میں سے خدا تعالیٰ کے لیے اللہ کا لفظ صرف قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ اس مطالعہ کے بعد انہیں خدا کے اس تصور کو تسلیم کرنا پڑے گا جو کہ قرآن مجید پیش کرتا ہے کہ اس وجود نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے۔جیسا کہ اس آیت کے آخری حصہ سے ظاہر ہے کہ اس تبادلہ خیالات کی بنیاد علم پر ہونی چاہیے۔ اگر متعلقہ علم سے استفادہ نہیں کیا جائے گا تو محض ٹامک ٹوئیوں سے انسان صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا۔اور موجودہ دور میں جب اس بارے میں علم کی بات ہو گی تو ہمیں سائنسی علوم سے استفادہ کرنا پڑے گا۔

تخلیق کائنات خدا تعالیٰ کے وجود پر دلیل کیوں؟

قرآن مجید صرف دعاوی پیش نہیں کرتا بلکہ ان کے دلائل بھی بیان کرتا ہے۔آخر اس بات کی کیا دلیل ہے کہ اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے ؟ یہ کسی اتفاقی حادثہ کا نتیجہ نہیں ہے۔ سورہ فرقان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا(الفرقان :۳)ترجمہ: اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اسے ایک بہت عمدہ اندازے میں ڈھالا۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام براہین احمدیہ میں تحریر فرماتے ہیں :’’اس کے خالق ہونے پر یہ دلیل واضح ہے کہ ہر یک چیز کو ایک اندازہ مقرری میں محصور اور محدود پیدا کیا ہے جس سے وجود اس ایک حاصر اور محدّد کاثابت ہوتا ہے۔‘‘(روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۵۲۱حاشیہ نمبر۳)

اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’تقدیر یعنی دنیا کے اندر تمام اشیاء کا چلنا اور ٹھہرنا اس بات پر دلالت کرتا ہےکہ اس کا کوئی مقدر یعنی اندازہ باندھنے والا کوئی ہے۔‘‘(الحکم ۲۴؍جولائی ۱۸۹۹ءصفحہ۶)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:’’اس نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا ہے اور پھر ہر چیز کے لیے اس نے ایک اندازہ بھی مقرر کیا ہے جو زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ خدا بڑی برکت والا ہے اور وہ ہر عیب اورنقص سے پاک ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد۶صفحہ۴۳۱)

اللہ تعالیٰ سورہ قمر میں فرماتا ہے:اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ(القمر: ۵۰)ترجمہ: یقینا ََ ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے کے مطابق پیدا کیا ہے۔

عربی لغت ’المنجد‘کے مطابق’القدر‘کا مطلب ہے’ہر چیز کی انتہا بغیر کمی یا زیادتی کے ‘۔ عربی انگریزی کی مشہور لغت لین میں ’قدر الشیئُ‘ کا مطلب یہ لکھا ہے:

signifies he computed, or determined, or computed by conjecture, the quantity, measure, size, bulk, proportion, extent, amount, sum, or number, of the thing.

تفسیر کبیر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ ’’قدَّرَالشی ءَ بالشی ءِ کا یہ مطلب بیان فرماتے ہیں :’’کسی چیز کا صحیح اندازہ کیا اور اس کو اُس مقدار پر بنایا جو درست اور صحیح تھی‘‘۔(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۴۱۹)

کائنات کی پیدائش

ہماری کائنات نے ایک نقطہ سے ترقی کی اور پھیلتے ہوئے اس مرحلہ تک پہنچی۔کائنات کی پیدائش کے وقت اس کائنات کا تمام مادہ ایک مختصر مقام پر قید تھا۔ اکثر ماہرین کے نزدیک تیرہ ارب اسّی کروڑ برس پہلے ایک عظیم الشان دھماکا کے نتیجہ میں کائنات وجود میں آئی۔ جس کے بعد کائنات نے پھیلنا شروع کیا اور اب تک پھیلتی جا رہی ہے۔(حال ہی میں اوٹاوا یونیورسٹی کے بعض ماہرین نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کائنات کا آغاز اس سے بھی بہت قبل چھبیس ارب ستّر کروڑ برس قبل ہوا تھا۔ )

اس آغاز کے بعد پہلے ایٹم سے بھی چھوٹے ذرات وجود میں آئے۔پھر ایٹم کی تخلیق ہوئی۔پہلے سادہ ترین ایٹم یعنی ہائیڈروجن وجود میں آیا اور اس کے بعد اس سے دوسرا بڑا ایٹم ہیلیم بنا۔ کچھ مقامات پر مادہ جمع ہونا شروع ہوا۔ پھر اس عمل کے نتیجہ میں اس کائنات میں دو کھرب کے قریب کہکشائیں بننی شروع ہوئیں اور ان میں ارب ہا ارب ستاروں کا وجود ظاہر ہوا اورجب ان میں سے بعض کا ایندھن ختم ہوا تو وہ بڑی قوت سے پھٹے اور ان ستاروں کے پھٹنے سے بڑے ایٹم بننا شروع ہوئے۔ ان ستاروں کے ارد گرد سیارے نمودار ہوئے۔ اور ارب ہا ارب سیاروں میں سے کم از کم ایک چھوٹے سے سیارے یعنی زمین پر تین ارب ستر کروڑ برس قبل زندگی کا آغاز ہوا اور زندگی اور انواع و اقسام کی جاندار اشیاء زمین پر پھیلنے لگیں۔ آخر کار زندگی ترقی کرتے ہوئے انسان کے مرحلہ تک پہنچی۔ ایک ایسی مخلوق جس میں کم از کم اتنا شعور پیدا ہوا کہ وہ اس کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔

ان آیات کو پڑھنے کے بعد ہمیں سائنسی علوم کا جائزہ لینا پڑے گا کہ کیا اس کائنات کے سائنسی مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کائنات ایک حادثہ ہے۔ یا اس عالم میں ہمیں ایک نپا تلا ایسا نظام نظر آتا ہے اور ایسے معین عوامل نظر آتے ہیں جو کہ محض ایک حادثہ کا نتیجہ نہیں ہو سکتے۔مثال کے طور پر اگر سات کلومیٹر لمبی دیوار پر مختلف مقامات پر نشانات لگے ہوئے ہیں تو ہم اسے اتفاق قرار دے سکتے ہیں لیکن اگر اسی دیوار پر معین طور پر ایک ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک ہی طرح کے نشان نظر آرہے ہیں تو ہم یہی خیال کریں گے کہ کسی نے کسی وجہ سے فاصلہ ناپ کر یہ نشان لگائے ہیں۔

چار بنیادی قوتیں

یہ تو ہم جانتے ہیں کہ اس کائنات میں بنیادی طور پر چار طرح کی قوتیں کارفرما ہیں۔

۱۔کشش ثقل (Gravity)

۲۔ برق مقناطیسی قوت

(Electromagnetic Force)

۳۔کمزور نیوکلیئر قوت

(Weak Nuclear Force)

۴۔توانا نیوکلیئر قوت

(Strong Nuclear Force)

ہم یہ جانتے ہیں کہ ہماری کائنات میں یہ قوتیں کس شدت سے عمل پیرا ہیں۔ بہت سے ماہرین نے یہ تحقیق کی ہے کہ اگر ان قوتوں کی شدت کم یا زیادہ ہوتی یا ان کا باہمی توازن مختلف ہوتا تو اس کائنات کی کیا صورت ہوتی۔ان سائنسدانوں میں ایک نمایاں نام سر مارٹن ریس (Sir Martin Rees)کا ہے۔سر مارٹن ریس ایک نامور ماہر فلکیات ہیں اور کیمبرج یونیورسٹی میں ماسٹر آف ٹرینیٹی کالج کے عہدہ پر فائز رہنے کے علاوہ رائل اسٹرانومیکل سوسائٹی کے صدر بھی رہے ہیں۔اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ انہوں نے اپنی مشہور کتاب Just Six Numbersمیں اس پہلو کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے۔

اگر کشش ثقل کم یا زیادہ ہوتی

ہم سب کشش ثقل (Gravity)سے واقف ہیں۔ یہ وہ قوت ہے جس سے ایک مادی چیز دوسری مادی چیز کی طرف کھنچتی ہے۔ اس کی وجہ سے زمین پر جو چیز گرے وہ نیچے یعنی زمین کی طرف گرتی ہے۔ اس کی وجہ سے زمین اور دوسرے سیارے سورج کے گرد اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں کیونکہ ان سیاروں اور سورج کے درمیان پائی جانے والی کشش ثقل نے انہیں اپنے اپنے مدار میں تھام کر رکھا ہوا ہے۔ ایک ایٹم جیسی چھوٹی سطح پر یہ قوت باقی قوتوں کی نسبت بہت کمزور ہوتی ہے لیکن جب ہم نظام شمسی یا دوسرے ستاروں اور سیاروں کے جیسے بڑے نظام پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی وجہ سے یہ نظام قائم نظر آتا ہے۔ لیکن اگر ہم ایک ایٹم کے نیوکلیس کا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ اس سطح پر الیکٹرومیگنیٹک قوت(Electromagnetic force) کشش ثقل کی قوت سے کتنی زیادہ طاقتور ہے تو اگر ۱س کی دائیں طرف چھتیس صفر لگا دیےجائیں تو الیکٹرومیگنیٹک قوت اتنی زیادہ طاقتور ہے اور اس تناسب کو سائنسی زبان میں Nسےظاہر کیا جاتا ہے۔

مارٹن ریس کشش ثقل کے بارے میں یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ فرض کریں اگر کشش ثقل کی قوت اتنی نہ ہوتی جتنی ہماری کائنات میں ہے بلکہ زیادہ ہوتی۔ اس صورت میں یہ کائنات تو موجود ہوتی لیکن کیا اس حالت میں ہوتی کہ اس کے کسی گوشہ میں زندگی کا آغاز ہو سکے۔اگر ایسا ہوتا تو ایسی کائنات میں ایٹم تو اسی طرح بنتے جیسا کہ ہماری کائنات میں موجود ہیں۔لیکن بہت تھوڑی مقدار میں مادہ جمع ہو کر ستاروں کا روپ دھار لیتا۔ ہم جس کائنات میں رہ رہے ہیں اس میں جب ایک مخصوص مقدار میں مادہ ایک مقام پر جمع ہو تو کشش ثقل سے اکٹھا ہو تا ہے اور جب ستاروں جتنا مواد جمع ہو توکشش ثقل کا دبائو اتنا بڑھتا ہے کہ ہائیڈروجن کے ایٹم مل کر اپنے سے بڑے ہیلیم کے ایٹم بنانے لگتے ہیں اور اس عمل کے نتیجہ میں توانائی کی عظیم مقدار خارج ہوتی ہے جیسا کہ اربوں سالوں سے ہمارے سورج سے خارج ہو رہی ہے۔

لیکن اگر کشش ثقل کی قوت موجودہ شدت زیادہ ہوتی تو ایسی فرضی کائنات میں ہماری کائنات کی نسبت بہت چھوٹے چھوٹے ستارے بنتے اور ان چھوٹے چھوٹے ستاروں میں اسی طرح کشش ثقل کام کرتی اور ہائیڈروجن کے ایٹم مل کر ہیلیم کے ایٹم میں تبدیل ہو جاتے اور توانائی بھی خارج ہوتی لیکن چھوٹے حجم کی وجہ سے ان ستاروں کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ اور وہ ہمارے سورج اور اس طرح کے اربوں ستاروں کی طرح اربوں برس تک روشنی اور توانائی مہیا نہ کرتے بلکہ بہت جلد ختم ہوجاتے۔یعنی دس ارب سال تک روشنی مہیا کرنے کی بجائے یہ ستارے دس ہزار سال میں جل کر ختم ہوجاتے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا کہ ان ستاروں کے ارد گرد کسی سیارے میں کبھی زندگی پنپ نہ سکتی کیونکہ زندگی کو ترقی کرنے کے لیے اربوں سال درکار ہوتے ہیں اور دس ہزار سال کے دورانیہ میں زندگی کا سفر شروع بھی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کشش ثقل کا باقی قوتوں کی نسبت کمزور ہونا، کائنات میں زندگی کے سفر کے لیے ضروری تھا۔

اگر کشش ثقل کی قوت زیادہ ہوتی تو ایسی فرضی کائنات میں کہکشائیں ایک دوسرے کے اور زیادہ قریب ہوتیں۔اور ستارے ایک دوسرے سے بہت زیادہ قریب ہوتے اور بار بار ایک دوسرے سے ٹکراتے اور اس وجہ سے ایسی کائنات میں سیاروں کا نظام مستحکم نہ رہتا اور کائنات میں موجود کسی سیارے میں زندگی کا سفر شروع نہ ہو سکتا۔ اسی طرح اگر کشش ثقل کمزور ہوتی تو سائنسی طور پر ستاروں اور سیاروں کا یہ نظام قائم ہی نہ ہو سکتا۔ اور ان ستاروں اور سیاروں کی پیدائش زندگی کی پیدائش کے لیے ضروری تھی۔ خلاصہ کلام یہ کہ اگر کائنات میں زندگی نے پیدا ہونا تھا تو کشش ثقل کو اتنا ہی ہونا چاہیے تھا جتنا ابھی ہے۔ اس میں کمی بیشی سے کائنات کا سفر اس طرح آگے بڑھتا کہ اس میں زندگی کا پیدا ہونا اور ترقی کرنا ناممکن ہو جاتا۔

(Rees, Martin. Just Six Numbers. Weidenfeld& Nicolson 2015. P 30 – 35)

اگر مضبوط نیوکلیر فورس کم یا زیادہ ہوتی

اس کے بعد مارٹن ریس دوسری مثال پیش کرتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے جب سورج اور اس جیسے دوسرے ستاروں میں دو ہائیڈروجن کے ایٹم ملتے ہیں تو ان کے ایک دوسرے میں جذب ہونے سے ہیلیم کا ایک ایٹم بنتا ہے۔اس عمل سے توانائی کی بھاری مقدار خارج ہوتی ہے۔اس عمل سے ۰.۷فیصد مادہ توانائی میں تبدیل ہوتا ہے۔اس شرح کو سائنس کی زبان میں € سے ظاہر کیا جاتا ہے۔

اوریہ شرح اتنی کیوں ہے؟ اس کی وجہ مضبوط نیوکلیر فورس کی مخصوص شدت ہے۔ فرض کریں کہ اگر یہ قوت تھوڑی سی کمزورہوتی اور یہ شرح ذرا سی کم ہوکر ۰.۶فیصد ہوتی تو کیا کوئی فرق پڑتا ؟ اگر ایسا ہوتا تو ہائیڈروجن کے ایٹم مل کر ہیلیم کے ایٹم ہی نہ بنا سکتے کیونکہ اس کا مرکز یعنی نیوکلیس ہی مستحکم اور پائیدارنہ رہ سکتا اور نہ دوسرے عناصر وجود میں آتے۔ یعنی اس کائنات میں صرف ہائیڈروجن ہی ہائیڈروجن موجود ہوتی۔ ظاہر ہے اس صورت میں نہ اس کائنات کا موجودہ نظام بن پاتا اور نہ زندگی کا سفر شروع ہوتا۔کیونکہ نہ کاربن موجود ہوتا اور نہ آکسیجن موجود ہوتی اور نہ دوسرے عناصر کا کوئی وجود ہوتا۔تو زندگی بھی شروع نہ ہو سکتی۔

اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اگر یہ قوت کچھ زیادہ ہوتی اور یہ شرح ۰.۸فیصد ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو کائنات کے بننے کے فوری بعد ہائیڈروجن کے تمام ایٹم مل کر ہیلیم کے ایٹم بنا لیتے اور کائنات کے بننے کے فوری بعد کائنات سے ہائیڈروجن ختم ہو جاتی اور اگر ایسا ہوتا تو ستاروں کے پاس ایندھن نہ ہوتا جس کو خرچ کر کے وہ توانائی پیدا کرتے ہیں اور اس صورت میں سورج اور دوسرے ستارے روشنی اور توانائی خارج نہ کرتے اور اس صورت میں زمین یا اس جیسے کسی اور سیارے میں زندگی پنپ نہ سکتی کیونکہ زندگی کا دارومدار سورج کی توانائی اور روشنی پر ہے۔

(Rees, Martin. Just Six Numbers. Weidenfeld& Nicolson 2015. P 52 – 57)

کائنات اس رفتار سے کیوں پھیلی

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اس کائنات کا آغاز اربوں برس قبل ایک عظیم الشان دھماکا سے ہوا۔ سائنسی اصطلاح میں اس دھماکے کو Big Bangکہا جاتا ہے۔اس کے بعد کائنات نے پھیلنا شروع کیا۔ مارٹن ریس کے تجزیہ کے مطابق جب اس کائنات کا آغاز ہوا تو کائنات ایک مخصوص رفتار سے پھیل رہی تھی۔اگر یہ رفتار اس مخصوص رفتار سے تھوڑی سی زیادہ ہوتی تو کائنات کے اندر موجود مادہ کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع نہ ملتا اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ کشش ثقل کے زیر اثر یہ مادہ مزید اکٹھا نہ ہوتا اور اس کائنات کی کہکشائیں وجود میں نہ آتیں۔ اگر کہکشائیں وجود میں نہ آتیں تو لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ستارے بھی وجود میں نہ آتے اور سیارے بھی نہ ہوتے۔ اور آخر کار زندگی کا آغاز بھی نہ ہوتا۔ لیکن اگر یہ حساب لگایا جائے کہ اگر اس ابتدائی حالت میں کائنات کے پھیلنے کی رفتار ذرا کم ہوتی تو کیا ہوتا؟ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ کائنات میں موجود مادہ کے درمیان موجود کشش ثقل کائنات کو زیادہ دیر پھیلنے کا موقع نہ دیتی اور جلد ہی یہ کائنات دوبارہ سکڑنے لگتی اوردوبارہ سکڑ کر ایک نقطہ پر مقید ہوجاتی۔ ایسی کم عمر کی کائنات میں زندگی کو پیدا ہو کر پنپنے کا موقع نہ ملتا اور جلد ہی کائنات کا اختتام ہوجاتا۔خلاصہ کلام یہ کہ اس عالم کی پیدائش کے وقت اس کے پھیلنے کی ایک نپی تلی رفتار تھی۔ اگراس مخصوص رفتار میں کمی بیشی ہوتی تو اس کائنات میں زندگی کے پیدا ہونے اور نشوو نما پانے کے امکانات معدوم ہوجاتے۔

(Rees, Martin. Just Six Numbers. Weidenfeld& Nicolson 2015. P97 – 101)

پہلے سائنسدانوں کا یہ خیال تھا کہ چونکہ کشش ثقل کی وجہ سے ہر مادی چیز دوسری مادی چیز کو کھینچتی ہے، اس لیے وقت کے ساتھ کائنات کے پھیلنے کی رفتار کم ہوتی جائے گی کیونکہ مختلف کہکشاؤں کی باہمی کشش ثقل اس رفتار کو وقت کے ساتھ کم کرتی جائے گی۔۱۹۹۸ءمیں سائنسدانوں نے یہ ماپنے کی کوشش کی کہ کائنات کے پھیلنے کا عمل کس رفتار سے کم ہو رہا ہے۔ لیکن اس تحقیق نے یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ وقت کے ساتھ کائنات کے پھیلنے کی رفتار کم نہیں ہو رہی بلکہ بڑھ رہی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ جس طرح کشش ثقل کی قوت مختلف کہکشاؤں کو ایک دوسرے کی طرف کھینچ رہی ہے، کائنات میں ایک اور قوت کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور بھی دھکیل رہی ہے اور اس کی وجہ سے کائنات کے پھیلنے کی رفتار بڑھ رہی ہے۔اپنی مذکورہ کتاب میں مارٹن ریس یہ نکتہ بیان کرتے ہیں کہ اگر اس قوت کی شدت موجودہ شدت سے زیادہ ہوتی تو کائنات تو وجود میں آتی لیکن پیشتر اس کے کہ مادہ ایک جگہ پر جمع ہو کر کہکشاؤں کو جنم دے اس قوت کی وجہ سے وہ جلد منتشر ہوجاتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ کہکشاؤں، ستاروں اور سیاروں کا کوئی وجود نہ ہوتا۔اور نہ ہی زندگی کا آغاز ہوتا۔

(Rees, Martin. Just Six Numbers. Weidenfeld& Nicolson 2015. P111)

Qکی مقدار اتنی کیوں ہے؟

جیسا کہ اس مضمون کے شروع میں ذکر کیا گیا تھا کہ اس کائنات کا آغاز ایک عظیم الشان دھماکا کے ساتھ ہوا تھا۔ اسے بگ بینگ (Big Bang)کہا جاتا ہے۔ خیال کیا جا سکتا ہے کہ اس دھماکا کے نتیجہ میںہر طرف مادہ کو یکساں انداز میں منتشر ہونا چاہیے تھا۔لیکن یہ ممکن نہیں ہےکیونکہ اس کائنات میں کچھ مقامات پر مادہ کی خاطر خواہ مقدار جمع ہوئی اور اس جمع ہونے والے مادہ کی باہمی کشش نےمزید مادہ کو جمع کیا اور جب یہ عمل آگے بڑھا تو ستارے اور کہکشائیں وجود میں آئیں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ابتدائی حالت میں اس کائنات کا نقشہ ایک بیج کی صورت میں اس کے اندرموجود تھا اور اربوں برس کے سفر کے بعد یہ نقشہ کائنات کی موجودہ حالت تک پہنچا۔

اب جبکہ یہ کہکشائیں اور ان کہکشاؤں کے بڑے بڑے گروہ جو کائنات میں clusters اور superclustersکی صورت میں نظر آتے ہیں تو حالت سکون میں ان کے اندر موجود کل توانائی کتنی ہو گی۔ آئن سٹائن کے نظریہ اضافت کے مطابق ان کے اندر یہ موجود کل توانائی اس فارمولے سے ماپی جائے گی:

E=mc2

اگر کوئی قوت ان کہکشاؤں اور ان کے عظیم گروہوں میں موجود مادہ کو منتشر کرنا چاہے تو اسے اس کل توانائی (Energy) کا کتنا حصہ خرچ کر کے اس مادہ کو منتشر کرنا پڑے گا۔ سائنسدانوں نے حساب لگایا ہے کہ اس کل توانائی کا لاکھواں حصہ خرچ کر کے مادہ کی اس مقدار کو منتشر کیا جا سکتا ہے۔ سائنس کی اصطلاح میں اس تناسب کو Qکی علامت سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ہماری کائنات میں یہ تناسب ۰.۰۰۰۰۱ہے۔

مارٹن ریس نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ فرض کریں اگر یہ تناسب اس کی بجائے کم ہوکر ۰.۰۰۰۰۰۱ہوتا تو کیا ہوتا۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا تو خواہ کائنات میں مادہ اور توانائی اسی مقدار میں موجود ہوتے جس میں اس وقت موجود ہیں تو بھی کائنات کے مختلف مقامات پر مادہ بڑی مقدار پر جمع ہو کر کہکشاؤں کو جنم نہ دیتا بلکہ ایک گیس کی صورت میں منتشر ہوتا جاتا ۔ ایسی صورت میں نہ ستارے بنتے اور نہ سیاروں کا کوئی وجود ہوتا اور نہ ہی اس کائنات کے کسی گوشہ میں زندگی کا آغاز ہو سکتا۔

دوسری انتہا پر فرض کریں کہ اگر Qکا یہ تناسب زیادہ ہو کر ۰.۰۰۰۱ہوتا تو اس عالم کی کیا صورت ہوتی۔ اس صورت میں بہت پہلے ہی کائنات میں مادہ کی بہت زیادہ مقدار جمع ہوجاتی اور یہ مقدار کہکشاؤں اور اس میں موجود ستاروں کا روپ اختیار نہ کرتی بلکہ یہ عظیم مقدار ایک بہت بڑے بلیک ہول کی صورت اختیار کر لیتی۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ایک بلیک ہول میں مادہ کی اتنی بڑی مقدار جمع ہوتی ہے کہ اس کی کشش ثقل ہی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ مادہ کو پیس کر ایک مختصر نکتہ میں مقید کر دیتی ہے۔ اور روشنی کی کوئی کرن بھی اس کی کشش ثقل سے رہا ہو کر باہر نہیں نکل سکتی۔ظاہر ہے کہ اس صورت میں کائنات میں صرف بڑے بڑے بلیک ہول موجود ہوتے اور زندگی کے پیدا ہونے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہونا تھا۔اس سے یہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ یہ تناسب بھی ایسی معین حدود کے اندر رکھا گیا ہے کہ یہ کائنات اپنے مقصد یعنی زندگی کی پیدائش اور اس کی نشوونما تک پہنچ سکے۔

(Rees, Martin. Just Six Numbers. Weidenfeld& Nicolson 2015. P125 – 129)

اگر کائنات میں تین اطراف نہ ہوتیں

ہم جانتے ہیں کہ اس کائنات میں تین اطراف (Dimensions) ہیں جس میں تمام اشیاء موجود ہوتی ہیں اور حرکت کرتی ہیں۔مارٹن ریس یہ بحث اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ اطراف (Dimensions)تین کی بجائے چار یا دو ہوتیں تواس عالم کی کیا صورت ہوتی؟ اگر اطراف کی تعداد دو ہوتی تو اس طرح کی کائنات نہیں ہو سکتی تھی جس میں زندگی نشو نما پا سکے بلکہ بالکل چپٹی حالت میں ہوتی اور اگر یہ تعداد بڑھ کر چار ہوتی تو کیا ہوتا؟ہماری کائنات میں جب فاصلہ بڑھے تو اس کے ساتھ کشش ثقل اور الیکٹرومیگنیٹ قوت کی شدت میں کمی ہوتی ہے اور اگر فاصلہ میں کمی ہو تو ان قوتوں کی شدت بڑھتی ہے۔ لیکن ریاضی کے اعتبار سے اگر یہ اطراف تین کی بجائے چار ہوتیں تو یہ تبدیلی اتنی زیادہ ہوتی کہ سیارے اپنے مدار میں مستحکم نہ رہ سکتے اور نہ ہی ایٹم اپنی مستحکم حالت برقرار رکھ سکتے۔

(Rees, Martin. Just Six Numbers. Weidenfeld& Nicolson 2015. P 149 – 154)

اس کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ فزکس کے حوالے سے اس کائنات میں چھ ایسے constantsہیں جو اگر اس معین مقدار سے کم یا زیادہ ہوتے تو اس کمی اور بیشی کے باوجود کائنات تو وجود میں آتی لیکن اس کی صورت ایسی نہ ہوتی کہ اس میں ہماری کائنات کی طرح کہکشاؤں اور ستاروں اور سیاروں کا مستحکم نظام قائم رہ سکے۔ اور ایسی فرضی کا ئنات کی صورت ایسی نہ ہوتی جس میں زندگی پیدا ہو کر پنپ سکے۔ گویا اس کائنات میں چھ ڈائل ہیں جنہیں اتنا ہی گھمایا گیا ہے کہ اس کے نتیجہ میں کائنات ترقی کر کے زندگی کو اپنی آغوش میں پال سکے۔ کیا ایسا معین نظام محض اتفاق سے پیدا ہو سکتا ہے، یہ فیصلہ پڑھنے والے خود کر سکتے ہیں۔مارٹن ریس ایسے نپے تلے نظام کے لیے انگریزی کی بہت مناسب اصطلاح فائن ٹیوننگ (Fine Tuning)استعمال کرتے ہیں۔ یعنی اس کائنات کے سائنسی مطالعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے ایک منصوبہ کے تحت اس کائنات کی فائن ٹیوننگ کی ہے۔اس اصطلاح کا شاید صحیح ترجمہ کرنا ممکن نہ ہو۔

دوسرے سائنسدانوں کے نظریات

اور اس عالم کے مطالعہ سے صرف مارٹن ریس نے ہی یہ نتیجہ نہیں اخذ کیا بلکہ اور بھی ایسے چوٹی کے سائنسدان ہیں جو اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں۔ جان پولکنگ ہارن (John Polkinghorne)نظریاتی فزکس کا ایک بڑا نام ہیں۔ وہ اپنی کتاب Quarks, Chaos and Christianityمیں کائنات کی فائن ٹیوننگ کے مسئلہ پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اور لکھتے ہیں کہ

We now understand unless you had set these knobs, very precisely, finely tuned them to specifications extremely close to those of our own universe, the world you had decided to create would have had a dull and sterile history. It would not have produced anything like such interesting consequences like you and me. We live in a very special universe-one in a trillion you may say.

(Polkinghorne, John. Quarks, Chaos and Christianity. Second British edition, The Crossroad Publishing Company New York, 2005. P 38)

ترجمہ : ہم اب اس بات کو جان چکے ہیں کہ اگر کوئی کائنات پیدا کی جا رہی ہے توسوائے اس کے کہ آپ ان ہینڈلوں کو معین طور پر اتنا ہی گھمائیں اور اسی معین مقدار کے قریب تک گھمائیں جتنا کہ ہماری کائنات میں گھمایا گیا ہے جو کائنات وجود میں آئے گی اس کی تاریخ بہت غیر دلچسپ اور زندگی سے خالی ہو گی۔ ایسی صورت میں یہ ایسی کائنات ہو گی جو میرے اور آپ کی طرح کا کوئی دلچسپ نتیجہ نہیں پیدا کرے گی۔ہم ایک بہت ہی خاص کائنات میں رہ رہے ہیں۔آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسی کائنات کے بننے کا امکان کھرب میں ایک کے برابر ہے۔

اسی کتاب میں جان پولکنگ ہارن یہ مثالیں پیش کرتے ہیں کہ اگر اپنی پیدائش کے بعد یہ کائنات زیادہ تیز رفتار سےپھیلتی تو اس میں ستاروں اور کہکشاؤں کا پیدا ہونا ممکن نہیں تھا۔ اور اگر وسعت پذیر ہونے کی رفتار کم ہوتی تو یہ کائنات جلد ہی دوبارہ سکڑنا شروع ہوتی دوبارہ ایک نقطہ پر مرکوز ہو جاتی۔اگر کائنات کم از کم اتنی یکساں نہ ہوتی جتنی اب ہے تو اس میں کچھ مقام پر مادہ کی زیادہ تعداد جمع ہوتی تواس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوتے اور اگر یہ کائنات موجودہ حالت سے زیادہ یکساں ہوتی تو سب مادہ یکساں طور پر بکھر جاتا اور کہکشاؤں اور ستاروں کا وجود میں آنا ممکن نہ ہوتا۔ اگر یہ کائنات اتنی وسیع نہ ہوتی جتنی اب ہے تو اس کی عمر اربوں سال تک نہ پہنچ سکتی اور کسی مقام پر زندگی کو ترقی کرنے کا وقت ہی نہ ملتا۔ہم جانتے ہیں کہ زندگی کے لیے کاربن کا ایک مخصوص مقدار میں موجود ہونا ضروری تھا۔جب ایک دہریہ سائنسدان فریڈ ہائل (Fred Hoyle)نے یہ تحقیق کی کہ کس طرح ہیلیم کے ایٹم مل کر پہلے بیریلیم اور پھر کاربن کے ایٹم کی پیدائش تک پہنچے تو اس معین اور نپے تلے نظام کو دیکھ کر انہوں نے کہا :

The universe is a Put-up job

یعنی یہ کائنات ایک منصوبہ کے تحت بنی ہے۔

(Polkinghorne, John. Quarks, Chaos and Christianity. Second British edition, The Crossroad Publishing Company New York, 2005. P 41)

اسی پہلو کے متعلق شہرہ آفاق سائنسدان سٹیفن ہاکنگ اپنی مشہور کتاب A brief history of time کے آٹھویں باب میں لکھتے ہیں:

It would be very difficult to explain why the universe should have begun in just this way, except as the act of a God who intended to create beings like us.

ترجمہ : یہ وضاحت پیش کرنی بہت مشکل ہوگی کہ کائنات اس معین صورت میں کیوں پیدا ہوئی۔سوائے اس کے کہ ہم یہ کہیں کہ یہ اس خدا کا فعل تھا جو ہماری جیسی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا تھا۔

(Stephen Hawking. A brief History of Time. Bantam Press New York, 1998. P 144)

دنیا میں صرف چھ ایسی معین مقدار یا فزکس کی زبان میں Constants نہیں جن کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ وہ محض اتفاقی طور پر اس مخصوص سطح پر قائم نہیں ہیں بلکہ انہیں ایک حکمت کے تحت اس سطح پر معین اور محدود کیا گیا ہے۔ دوسرے سائنسدانوں کے نزدیک ان کی تعداد اس سے کافی زیادہ ہے۔ مشہور ماہر جینیات فرانسس کولنز (Fran Collins) وہ مشہور سائنسدان ہیں جنہوں نے انسانی ڈی این اے کا نقشہ تیار کیا تھا۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایسے constantsکی تعداد پندرہ ہے۔ اگر ان کی مقدار اتنی متعین نہ ہوتی تو ایک ایسی پائیدار اور مستحکم کائنات وجود میں نہیں آ سکتی تھی جس میں زندگی پرورش پا سکے۔

(Francis S. Collins. The language of God. First Free Press trade paperback edition 2007. P 74)

اس قسم کے دلائل کے جواب میں اکثر دہریہ احباب یہ عذر پیش کر تے ہیں کہ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ اس کائنات کے قوانین قدرت اس طرح معین کیے گئے نظر آ رہے ہیں کہ اگر یہ کم یا زیادہ ہوتے تو یہ کائنات اتنی ترقی نہ کر سکتی کہ اس میں زندگی کا سفر اس منزل تک نہ پہنچتا، تو یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اصل میں اربوں کھربوں کائناتوں کی پیدائش ہوئی ہو اور ان میں سے محض اتفاق کے طور پر ایک کائنات کے قوانین اتنے نپے تلے نظر آ رہے ہوں۔ اول تو اس دعوے کا کوئی ثبوت اب تک مہیا نہیں ہو سکا کہ واقعی حقیقت میں اربوں کھربوں کائناتوں کی پیدائش ہوئی تھی اور یہ محض ایک مفروضہ ہے۔ دوسرے ہم نے ان فرضی کائناتوں کا کوئی جائزہ نہیں لیا کہ یہ علم ہو کہ یہ فرضی کائناتیں ہماری کائنات سے کم ترقی یافتہ حالت میں موجود ہیں یا کم ترقی یافتہ حالت میں فنا ہو چکی ہیں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ اگر ایسی کائناتیں موجود ہیں تو وہ ہماری کائنات سے بھی زیادہ ترقی یافتہ حالت میں ہوں۔اور ان کےقوانین قدرت ہماری کائنات سے زیادہ اس بات کی گواہی دے رہے ہوں کہ وہ کامل حکمت سے متعین کیے گئے ہیں اور ایسا محض اتفاق یا حادثہ سے ہونا ممکن نہیں ہے۔ دہریہ حضرات کا یہ عذر محض ایک مفروضہ ہے اور بغیر دلیل کے مفروضوں کو ٹھوس سائنسی حقائق کے رد کے لیے پیش نہیں کیا جا سکتا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button