متفرق مضامین

موہن جو دڑو

(’ایم۔ وائے۔ بھٹی‘)

سندھی:موئن جو دڑو اردو میں عموماً موئن جو دڑو۔ Moenjo-daro انگریزی میں وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا ایک مرکز تھا۔ یہ لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور اور سکھر سے اسّی کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ وادی، وادی سندھ کی تہذیب کے ایک اور اہم مرکز ہڑپہ صوبہ پنجاب سے ۶۸۶؍ میل دور ہے۔ یہ شہر ۲۶۰۰ قبل مسیح موجود تھا اور ۱۷۰۰ قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر ختم ہو گیا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملے آور زلزلہ اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اسے قدیم مصر اور بین النہرین کی تہذیبوں کا ہم عصر سمجھا جاتا ہے۔ ۱۹۸۰ء میں یونیسکو نے اسے یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔

مجسمے

( ۱ ) موہن جو وڑو سے ملنے والا صابن پتھر سے تراشہ ہوا داڑھی والا پجاری کا مجسمہ جس کا نچلا دھڑ ٹوٹا ہوا ہے۔ جو کچھ ملا ہے یہ سات انچ اونچا ہے۔ اس نے اجرک اوڑھ رکھی ہے۔ پگٹ نے اس کو کشیدہ کاری شدہ چادر کہا ہے۔ چادر پر تین پھولوں والے پھول بنائے گئے ہیں اور دائیں بازو پر جو تعویز باندھاگیا ان میں دھات کی غالباً سونے کی پٹریاں جڑی ہوں گی۔ کیونکہ ان کے کنارے ابھرے ہوئے ہیں اور اندر گہرائی ہے۔ اس طرح آنکھوں اور کانوں میں غالباً سونے کا جڑاؤ کام کیا ہوگا۔ اس طرح دونوں کانوں کے پیچھے سوراخ کیے گئے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً گلے میں سونے کا کالر پہنانے کے لیے کالر کے دونوں سروں کے کنڈے یہاں پھنسائے جاتے ہوں گے۔ اصل مجسمہ نیشنل میوزم آف پاکستان اسلام آباد میں خفیہ محفوظ ہے۔ نمائش کے لیے نقل رکھی گئی ہے۔

( ۲ ) چونے کے پتھر کا ۱/۲ ۵ انچ کا مجسمہ جو گھسا پٹا ہے۔

( ۳ ) چونے کے پتھر کا سات انچ اونچا سر اس کی مونچھیں منڈی ہوئی ہیں اور مختصر داڑھی بھی ہے بال گنگی کر کے جوڑا بنایا گیا ہے۔ آرائش گیسو میں کمال درجے کی نفاست ہے۔ اسے کھود کر نکالنے نے اسے پورٹیٹ قرار دیا تھا۔ یعنی کسی حقیقی فرد کا مجسمہ ہے۔ اس کی مونچھیں صاف بال ترتیب سے بنے ہوئے ہیں۔ داڑھی مختصر چہرے کے نقوش ملتے جلتے، مجسمہ کی تیکنک ایک جیسی۔ اب ظاہر ہے کہ مجسمہ کسی غریب یا عام آدمی کا بننے سے رہا۔ یہ طبقے امراء یا صاحبان اقتدار سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ ان کی وضع قطع ایسی تھی جو مذہبی رنگ و روپ رکھتی تھی۔

( ۴ ) چونے کے پتھر کا پونے آٹھ انچ اونچا سر۔ بالوں کا اسلوب جیسا ہے اوپر والے جیسا۔ سر کے پیچھے جوڑا۔ داڑھی نہیں ہے۔

(۵) سنگ جراحت کا مجسمہ۔ ایک بیٹھا ہوا شخص۔ اونچائی ۱/۲ ۱۱انچ۔ قمیض نہیں پہنی۔کمر میں دھوتی باندھی ہے۔ جو گھٹنوں سے قدرے نیچے تک پہنی ہے۔ باریک کپڑے کا صافہ بائیں کندھے پر ڈالا ہوا ہے۔ جو دائیں بازو کے نیچے سے ہو کر گزرتا ہے۔ جس کو اس نے بائیں ہاتھ سے پکڑ رکھا ہے۔ مجسمے کا سر ٹوٹا ہوا ہے۔ بناوٹ غیر معیاری ہے۔

( ۶ ) سنگِ جراحت کا مجسمہ۔ آلتی پالتی مار کر ایک شخص بیٹھا ہوا ایک شخص اونچائی ۱/۲ ۱۶ انچ ہے۔ دایاں گھٹنا اٹھا ہوا ہے۔ دونوں ہاتھ گھٹنوں میں دھرے ہیں۔ اس شخص نے ایک دھوتی سی باندھ رکھی ہے۔ چہرے پر داڑھی ہے۔ مگر دیگر تفصیلات گھس چکی ہیں۔ چہرہ سر سے بڑا ہے۔ یہ خرابی سارے مجسموں میں ہے یا پھر حقیقت ہی ایسی تھی۔ کہ لوگوں کے سر چھوٹے اور چہرے بڑے ہوتے تھے۔

( ۷ ) چونے کے پتھر کے ایک مجسمہ کا ٹکڑا جس میں صرف گھٹنے پر ہاتھ رکھا ہوا نظر آرہا ہے۔

(۸) چونے کے پتھر کا ۱/۲ ۸انچ اونچا مجسمہ۔ ایک آدمی پالتی مار کے بیٹھا ہوا ہے۔ جس نے ہاتھ گھٹنے پر ہاتھ رکھا ہے۔ٹخنوں سے ذرا اوپر پنڈلیوں کے ارد گرد سوراخ کیے گئے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کوئی پائل پہنائی گئی تھی بیٹھنے کا انداز ۶ نمبر جیسا ہے۔

(۹)کسی جانور کا ٹکڑا جو چونے کے پتھر سے بنایا گیا تھا۔ اس ٹکڑے کی اونچائی ۱/۲ ۴ انچ ہے۔ یہ غالباً دنبے کا مجسمہ ہے۔

(۱۰) چونے کے پتھر کا آلتی پالتی مارے ایک شخص۔ یہ مجسمہ ۱/۲ ۸انچ ہے۔ اس صفائی ستھرائی اور تکمیل نہیں کی گئی اور ابھی کھدرا ہے۔ اس شخص کے ہاتھ بھی گھٹنوں پر ہیں اور اس نے بھی دھوتی پہن رکھی ہے۔ سر کے ارد گر پٹی ہاندھی ہوئی ہے۔ بیٹھنے کا انداز ۶ نمبر جیسا ہے۔

(۱۱) چونے کے پتھر کا دس انچ اونچا کسی اساطیری جانور کا مجسمہ۔ اس کا سر کافی ٹوٹ چکا ہے۔ لیکن پھر بھی دنبے کے سینگ اور ہاتھی کی سونڈ پہچانی جاسکتی۔ باقی سارا بدن دنبے کا ہے۔

ان گیارہ مجسموں کا مجموعی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پانچ مجسموں میں ایک ایسا شخص دکھایا گیا ہے جو آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے۔ یقینا ًیہ کوئی گیانی دھیانی ہے جو مذہبی استغراق (گیان دھیان، مراقبے) میں ہے۔ ویلر کا خیال ہے یہ دیوتا ہے۔ لیکن یہ زیادہ درست ہے یہ کوئی مذہبی راہنما ہے۔ رشی منی، پیر فقیر۔ کیوں کہ بعد میں بدھ کے مجسمے اسی حالت میں ملتے ہیں۔ دنبے اور ہاتھی کی شکل والا مجسمہ بھی مذہبی ہے۔ کیوں کہ تین شاخوں والا پھول اس میں بار بار بنایا گیا ہے۔ گویا گیارہ میں سے سات مجسمے یقینا ًمذہبی اہمیت کے ہیں۔ باقی ٹکڑے بہت مختصر ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button