خلاصہ خطبہ جمعہ

توبہ و استغفار کی حقیقت: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍اگست۲۰۲۳ء

توبہ و استغفار کی حقیقت

٭… اللہ تعاليٰ اپنے بندے کي استغفار اور توبہ قبول کرنے والا ہے بشرطيکہ وہ سچي توبہ ہو صرف منہ سے الفاظ ہي نہ ادا ہورہے ہوں

٭… حقيقي توبہ کرنے والا جہاں گناہوں سے پاک ہوتا ہے وہاں اُسے اللہ تعاليٰ کي محبت بھي ملتي ہے اوربار باراللہ تعاليٰ کے رحم سے حصہ پاتا ہے

٭… اگر ہم اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا نہ کریں اور حقیقی توبہ و استغفار کی طرف توجہ نہ دیں تو ہمارا اپنی اصلاح کا عہد کرنا ہمیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا

٭… استغفار اور توبہ کا تبھي فائدہ ہے جب بنيادي احکامات کو بھي سامنے رکھ کر صحيح پيروي کي جائے
نمازوں کي ادائيگي میں بھي باقاعدگي ہو،حقوق اللہ اور حقوق العباد کي بھي صحيح ادائيگي ہو

٭… مکرمہ آنسہ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ ،مکرمہ بشریٰ اکرم صاحبہ آف سیالکوٹ، مکرمہ مسرت جہاں صاحبہ آف آسٹریلیا اور مکرم ناصر احمد قریشی صاحب آف امریکہ کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۵؍اگست۲۰۲۳ء بمطابق۲۵؍ظہور۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۵؍اگست ۲۰۲۳ء کومسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔

تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی استغفار اور توبہ قبول کرنے والا ہے بشرطیکہ وہ سچی توبہ ہو،صرف منہ سے الفاظ ہی نہ ادا ہورہے ہوں۔ قرآن کریم میں مختلف جگہ اس کا ذکر ہوا ہے کہ

اللہ تعالیٰ سچی توبہ کرنے والوں کو مال و اولاد سے نوازتا ہے اور یہ عذابِ الٰہی سے بچنے کاایک ذریعہ ہے۔

استغفار کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت جذب کرنے والا بنتا ہے۔ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے استغفار کرنے والوں کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا کہ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا۔وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا پائیں گے،لیکن شرط یہی ہے کہ حقیقی استغفار اور سچی توبہ ہو۔

ایک حدیث میں حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ

گناہ سے سچی توبہ کرنےوالا ایسا ہی ہے جیسے اُس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں

جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سےمحبت کرتا ہے تو گناہ اسےکوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے یعنی گناہ کے محرکات اسے بدی کی طرف مائل نہیں کرسکتے اور بدی کے نتائج سے اللہ تعالیٰ اُسےمحفوظ رکھتا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توبہ کی علامت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ندامت اور پشیمانی علامت توبہ ہے۔ پس حقیقی توبہ کرنے والا جہاں گناہوں سے پاک ہوتا ہے وہاں اُسے اللہ تعالیٰ کی محبت بھی ملتی ہے اوربار باراللہ تعالیٰ کے رحم سے حصہ پاتا ہے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سچی توبہ کی شرائط کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ

پہلی شرط یہ ہے کہ خیالات فاسدہ اور تصوارت بد کو چھوڑدے۔دوسری شرط یہ ہے کہ حقیقی ندامت اور پشیمانی ظاہر کرے۔تیسری شرط یہ ہے کہ پکا ارادہ کرے کہ ان برائیوں کے قریب نہیں جائے گا۔

پس ان پر عمل کرکے انسان میں برائیوں کے مقابلے پر اخلاق حسنہ اور پاکیزہ افعال جگہ لے لیں گے۔ پس یہ ہے حقیقی توبہ اورحقیقی پشیمانی۔جب یہ حالت حاصل ہوجائے تو پھر خدا تعالیٰ اپنے ایسے بندوں سے محبت کرتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام توبہ و استغفار کی طرف ہمیں بار بار توجہ دلاتے ہیں۔آپؑ کو اتنی فکر تھی کہ کوئی موقع ایسا نہیں آیا کہ جب آپؑ نے جماعت کو اس طرف توجہ نہ دلائی ہو۔پس ہمارے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اوراُس کے رسول کے احکام اور ارشادات کی روشنی میں بیان کردہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات کو ہمیشہ سامنےرکھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں تاکہ حق بیعت ادا کرنے والےبھی بنیں۔

اگر ہم اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا نہ کریں اور حقیقی توبہ و استغفار کی طرف توجہ نہ دیں تو ہمارا اپنی اصلاح کا عہد کرنا ہمیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ انسان اپنی فطرت میں نہایت کمزور ہے اور خدا تعالیٰ کےصدہا احکام کااس پر بوجھ ڈالا گیا ہے۔پس ا ُس کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے بعض احکام ادا کرنے سے قاصر رہے اور کبھی نفس امارہ کی بعض خواہشیں اُس پر غالب آجاتی ہیں۔پس وہ اپنی کمزوری اور فطرت کی رُو سےحق رکھتاہے کہ کسی لغزش کےوقت وہ توبہ و استغفار کرے تو خدا کی رحمت اُس کو ہلاک ہونے سے بچالے۔اس لیے یہ یقینی اَمر ہے کہ خدا توبہ قبول کرنے والا نہ ہوتا تو انسان پر صدہا احکام کا بوجھ ہرگز نہ ڈالا جاتا۔اس سے بلا شُبہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا تواب اور غفور ہے اور توبہ کے یہ معنی ہیں کہ

انسان ایک بدی کواس اقرار کے ساتھ چھوڑ دے کہ بعد اس کے اگر وہ آگ میں بھی ڈالا جائے تب بھی وہ بدی ہرگز نہیں کرے گا۔

پس یہ شرط ہےایسی توبہ ہونی چاہیے۔پس جب انسان اس صدق اور عزم محکم کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو خدااپنی ذات میں کریم و رحیم ہے وہ اس گناہ کی سزامعاف کردیتا ہے اوریہ خدا کی اعلیٰ صفات میں سے ہے کہ وہ توبہ قبول کرکے ہلاکت سے بچا لیتا ہے۔

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اتنی دفعہ استغفار کیا سو یا ہزار تسبیح پڑھی مگرجب استغفار کامطلب اور معنی پوچھو تو ہکا بکا رہ جائیں گے۔ انسان کو چاہیے کہ حقیقی طور پر دل ہی دل میں معافی مانگتا رہے کہ وہ معاصی اور جرائم جو مجھ سے سَر زد ہوچکے ہیں اُن کی سزا نہ بھگتنی پڑے وہ معاف ہوجائیں اور آئندہ دل ہی دل میں ہر وقت خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرتا رہےکہ آئندہ نیک کام کرنے کی توفیق دے اورمعصیت سے بچائے رکھے۔لفظوں سے کچھ کام نہیں بنے گا۔اپنی زبان میں بھی استغفار ہوسکتا ہے کہ

خدا تعالیٰ پچھلے گناہوں کومعاف کرے اور آئندہ گناہوں سےمحفوظ رکھے اور نیکی کی توفیق دے یہی حقیقی استغفار ہے۔

خدا تک وہی بات پہنچتی ہے جو دل سے نکلتی ہے زبان تو صرف دل کی شہادت دیتی ہے۔صرف زبانی دعائیںعبث ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کے شخص کو چاہیے کہ کوئی امتیازی بات بھی دکھائے۔اگر کوئی شخص بیعت کرکے پہلے جیسا ہی رہتا ہے اوراپنے عیال و اطفال کے ساتھ وہی بد خُلقی اور بدسلوکی رہی اور وہی حال رہا جو پہلے رہا تو پھر بیعت کرنے کا کیا فائدہ۔چاہیے کہ بیعت کے بعد غیروں،اپنے رشتہ داروں اور ہمسایوں کوبھی ایسا نمونہ بن کر دکھاوے کہ وہ بول اُٹھیں کہ اب یہ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔یہی حقیقی استغفار کا نتیجہ ہونا چاہیے۔

بعض نادان پادریوں نےاعتراض کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم استغفار کیا کرتے تھےاس لیے نعوذ باللہ اُن کا گناہ گارہونا ثابت ہوتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ

انبیاءفطرتی کمزوری اورضعف بشریت سے خوب واقف ہوتے ہیں لہٰذاوہ دعا کرتے ہیں کہ یاالٰہی !تُو ہماری ایسی حفاظت کر کہ وہ بشری کمزوریاں ظہور پذیر ہی نہ ہوں۔

کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا ہے کہ وہ اپنی طاقت سے گناہ سے بچ سکتا ہے۔ پس انبیاء بھی خدا کے محتاج ہیں اوراظہار عبودیت کےواسطےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اَور انبیاءکی طرح اپنی حفاظت خدا تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے۔

حضرت عیسیٰ بھی استغفار کیا کرتے تھے۔انجیل سےصریح اور صاف طور پر معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے جا بجااپنی کمزوریوں کا اعتراف کیا اور استغفار بھی کیا۔ایلی ایلی لما سبقتانی سے یہی معنی ہیں کہ رحم کراور فضل کر اور مجھے ایسی بے سروسامانی میں نہ چھوڑ یعنی میری حفاظت کر۔

حدیث میں آتا ہے کہ انسان خدا کی طرف ایک بالشت بھر جاتا ہے تو خدا اُس کی طرف ہاتھ بھر آتا ہے اگرانسان چل کرآتا ہے تو خدا تعالیٰ دوڑ کر آتا ہے۔یعنی اگر انسان خدا کی طرف توجہ کرے تو اللہ تعالیٰ بھی رحمت، فضل اور مغفرت میں انتہادرجہ کا اس پر فضل کرتا ہے لیکن اگر خدا سے منہ پھیر کر بیٹھ جاوے تو خدا تعالیٰ کو کیا پروا ہے۔قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کے دو نام پیش ہوئے ہیں۔ الحیّ اور القیّوم۔الحیّ کے معنی ہیں کہ خدا زندہ ہے اور دوسروں کو زندگی عطا کرنے والا ہےاور القیّوم خود قائم اور دوسروں کے قیام کااصلی باعث ہے۔ہر ایک چیز کا ظاہری، باطنی قیام اور زندگی انہی دو صفات کے طفیل سے ہے۔ پس

حیّ کا لفظ چاہتا ہے کہ اُس کی عبادت کی جائےجیسا کہ اس کا مظہرسورت فاتحہ میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ ہے اورقیوم چاہتا ہے کہ اُس سے سہارا طلب کیا جائےاس کو اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے۔

خدا کی ضرورت انسان کو ہر حال میں لاحق رہتی ہے۔ خدا سے مددطلب کرتےرہو تو یہی حقیقی استغفارہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےفرمایا کہ خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر تقدیر پر بھروسہ کرنا حماقت ہے۔

اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی پیدا کرلو کہ معلوم ہو کہ گویا نئی زندگی استغفار کی زندگی ہے۔

استغفار کی کثرت کرو۔ جن لوگوں کو کثرت اشغال دنیا کے باعث کم فرصتی ہے اُن کو سب سے زیادہ ڈرنا چاہیے۔ ملازمت پیشہ لوگوں سے اکثر فرائض خداوندی فوت ہوجاتے ہیں اس لیے مجبوری کی حالت میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاءکی نمازوں کو جمع کرکے پڑھ لینا جائز ہے لیکن اصل یہی ہے کہ اپنے وقت پر نمازیں پڑھ لینی چاہئیں۔حقوق اللہ اور حقوق العباد میں ظلم و زیادتی نہ کرو۔اپنے فرائض منصبی دیانتداری سے بجا لاؤ۔

پس استغفار اور توبہ کا تبھی فائدہ ہے جب بنیادی احکامات کو بھی سامنے رکھ کر صحیح پیروی کی جائے۔ نمازوں کی ادائیگی میں بھی باقاعدگی ہو،حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بھی صحیح ادائیگی ہو۔

حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ اے خدائے رحیم و کریم!ہم سب پر فضل کر کہ ہم تیرے بندے اور تیرے آستانہ پر گریں۔اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا وارث بنائے اور ہم توبہ و استغفارکے حقیقی مفہوم کو سمجھتے ہوئے استغفار اور توبہ کرنے والے ہوں۔

خطبہ جمعہ کے آخر پرحضور انور نے مکرمہ آنسہ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ، مکرمہ بشریٰ اکرم صاحبہ آف سیالکوٹ، مکرمہ مسرت جہاں صاحبہ آف آسٹریلیااور مکرم ناصر احمد قریشی صاحب جو سابق سیکرٹری اشاعت لجنہ اماء اللہ کراچی امۃ الباری ناصرصاحبہ کے شوہر تھے کی وفات پر ان کی جماعتی خدمات کا تذکرہ فرمایا اور بعد نماز جمعہ ان مرحومین کے نماز جنازہ غائب پڑھانے کا بھی اعلان فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button