متفرق مضامین

جھیل ووستوک

(’ایم اے منصور‘)

جھیل ووستک(Lake Vostok) براعظم انٹارکٹیکا میں تقریباً چار کلومیٹر آئس شیٹ کے نیچے دبی ہوئی جھیل ہے جو کہ مائع حالت میں موجود ہے۔جھیل ووستوک انٹارکٹیکا میں پائی جانے والی ۱۴۰؍ سے زائد نیم یخ تودی جھیلوں میں سب سے بڑی ہے۔ اس قسم کی جھیلوں میں جھیل وہلن اور جھیل ایلس ورتھ وغیرہ شامل ہیں۔ ووستک روسی زبان میں مشرق کو کہا جاتا ہے۔ جھیل کا نام اسی مقام پر واقع روسی تجرباتی مرکز ووستک سے موسوم ہے۔

جھیل کو ۱۹۹۶ء میں روس اور برطانیہ کے سائنسدانوں نے دریافت کیا۔ انہوں نے اس امر کی تصدیق کی کہ برف کی موٹی تہ کے نیچے جھیل میں پانی کی بڑی مقدار موجود ہے۔

اسےجھیل ووسٹوک، Subglacial Lake Vostok یا Lake East بھی کہا جاتا ہے۔انٹارکٹیکا کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ مشرقی انٹارکٹک آئس شیٹ پر روس کے ووسٹوک سٹیشن کے نیچے تقریباً ۲.۵ میل (۴ کلومیٹر) کے فاصلے پر واقع ہے، آبی ذخائر کے لحاظ سےسب سے بڑی برفانی جھیل ہے۔ تقریباً ۳۱ میل (۵۰ کلومیٹر) کی چوڑائی کے ساتھ ۱۵۰ میل (تقریباً ۲۴۰ کلومیٹر) سے زیادہ لمبی جھیل تقریباً بیضوی شکل کی ہے، اور اس میں تقریباً ۱,۳۰۰ کیوبک میل (۵,۴۰۰ مکعب کلومیٹر) پانی موجود ہے۔ ۱۷۰۰ فٹ(۵۱۰ میٹر) سے لےکر ۳۰۰۰ فٹ(۹۰۰میٹر)تک گہرائی بتائی جاتی ہے۔جھیل ووستک ۱۴ ہزار مربع کلومیٹر (۵۴۰۰ مربع میل) کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ میٹھے پانی کی جھیل ہے۔

جھیل کے پانی کا اوسط درجہ حرارت منفی تین درجہ سینٹی گریڈ ہے۔اوپر برف کے بے پناہ دباؤ کے باعث یہ اس درجہ حرارت پر بھی مائع ہی کی صورت میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زمین کے اندر کی حرارت اس کے نچلے حصے کو پانی میں تبدیل کرتی ہے۔ برف کی موٹی تہ بھی اسے سطح کے سرد اثرات سے محفوظ رکھتی ہے۔ سائنس دانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جھیل آتش فشاں کی گرمی کی پیداوار ہے جس نے برف کے اوپری حصے کو پگھلا دیا۔جھیل کا پانی تقریباً ۱۵ سے ۲۵ ملین سال قبل برف کے نیچے دب گیا تھا۔جھیل سے حاصل کردہ پانی کے نمونوں سے کچھ ایسے جرثومے سامنے آنے کا انکشاف ہوا ہے جو کہ اب تک کے دریافت کردہ جرثوموں سے الگ ہیں۔یہ بھی کہا گیا کہ بعض جرثومے چٹانوں کو خوراک کے طور پہ استعمال کرکے زندہ رہ سکتے ہیں۔ اور اس ماحول میں موجود ہر جاندار کو تقریباً ۵,۱۵۰ پاؤنڈ فی مربع انچ کے برف کے دباؤ کو برداشت کرکے زندہ رہنا ہوگا۔

جھیل کے پانی کو ڈرلنگ آلات پہ موجود مختلف جرثوموں سے محفوظ رکھنے کے لیے بہت محتاط انداز سے کھدائی کی گئی۔ڈرلنگ مٹی کے تیل اور اینٹی فریز مادوں کے ذریعے سے کی گئی۔ جیسے ہی ڈرلرز قدیم جھیل کے قریب پہنچے، ٹیم نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے محتاط اقدامات کرنا شروع کر دیے کہ ڈرلنگ کے آلات اور اینٹی فریز مادےجھیل کے پانی کو آلودہ نہ کریں۔ مثال کے طور پر ٹیم نے کسی بھی مواد کو جھیل کے ماحول میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے گرم پانی کی ڈرل کا استعمال کیا۔جھیل کے پانی سے ٹکرانے پر جھیل کا پانی بورہول میں اوپر آگیا اس لیے جھیل میں کسی بھی چیز کے گرنے کا امکان کم ہے۔ ووستوک جھیل میں داخلہ صرف ایک پہلا قدم ہےسائنسدانوں کو انٹارکٹیکا برف کے نیچے کیا ہو رہا ہے اس کی مکمل تصویر حاصل کرنے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔

اس پراجیکٹ کو۱۹۹۰ءمیں شروع کیا گیا تھا۔ جھیل کے وجود کے انکشاف کے بعد سائنسدانوں نے برف میں سوراخ کرنا جاری رکھا۔ بالآخر فروری ۲۰۱۲ءمیں اس جھیل کے پانی تک رسائی حاصل کی گئی۔انٹارکٹیکامیں سردی کی تیز لہر میں کام ناممکن ہوتا ہے اس لیے کام روک دیا۔ پھر جنوری ۲۰۱۳ء میں کام شروع کیا گیا اور اسی سال مارچ میں آئس کور سے لیے گئے نمونوں کے ابتدائی تجزیے مکمل ہونے کے بعد بیکٹیریا کے ڈی این اے کے شواہد ملے۔جس میں ایسے بیکٹیریا کی بھی قسم شامل ہے جو سائنس کے لیے مشہور بیکٹیریا سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔

کئی سائنس دانوں نے ریمارکس دیے ہیں کہ ووسٹوک جھیل تک پہنچنے کی کوشش مستقبل کے خلائی مشنز کے لیے ایک قیمتی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے جو برف سے ڈھکے ہوئے سمندروں پر مشتمل دنیاؤں پر زندگی کی تلاش کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جیسا کہ جیوپیٹر کے چاند یورپا پر برفانی سمندر۔

جھیل کی دریافت یقیناً انسان کو حیرت میں ڈالنے والی ہے۔یہ تحقیق برف کے نیچے چھپے کئی راز سامنے لانے والی ہے۔جس سے صدیوں پہلے کے کچھ نہ کچھ ماحول کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔

تمام موادمندرجہ ذیل آن لائن سائٹس کے ذریعے حاصل کیا گیا۔

https://en.m.wikipedia.org/wiki/Lake_Vostok

https://www.britannica.com/place/Lake-Vostok

https://www.bbc.com/news/science-environment-21709225.amcp

https://www.globalnature.org/vostok

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button