یادِ رفتگاں

محترمہ خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ محترم عبدا لمنان دین صاحب (حصہ اول)

(سیدہ ثریا صادق۔ لندن)

محترمہ خورشید بیگم صاحبہ ۱۹۲۲ء میںگجرانوالہ(متحدہ ہندوستان) میں پیدا ہوئیں۔ آپ محترم بابو قاسم دین صاحبؓ جو ہائی کورٹ میں کام کرتے تھے اور ۵۲؍ سال جماعت احمدیہ سیا لکوٹ کے امیر جماعت رہے کی بیٹی اور محترم عبد المنان دین صاحب کی اہلیہ اور حضرت بابو عزیزدین صاحبؓ کی بہو تھیں۔ حضرت بابو عزیز دین صاحبؓ اپنے ذاتی خرچ پر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی منشا کے مطابق ۱۹۲۰ء میں انگلستان پہنچے جہاں تجارت کے ساتھ ساتھ آپ تبلیغ اسلام بھی کرتے۔ آپ کے انگلستان جانے سے پہلے حضورؓ نے آپ کے بیوی بچوں اور والدہ کو قادیان بلوایا تھا تا کہ اُن کا ہر طرح خیال رکھا جائے۔

۱۹۲۸ء میں حضرت بابو عزیز دین صاحبؓ کےبڑے بیٹے محترم عبد العزیز دین صاحب انگلستان آئے۔ ۱۹۴۵ء میں آپ کے چھوٹے بیٹے عبد المنان صاحب اوراُن کی اہلیہ محترمہ خورشید بیگم صاحبہ اور آپ کی والدہ اللہ رکھی صاحبہ بھی لندن آ گئے۔

محترم عبدالمنان دین صاحب بھی لندن آکر اپنے بڑے بھائی محترم عبدالعزیز دین صاحب کے ساتھ خدمتِ دین میں مصروف رہے۔ آپ بوڑھی اور مریض والدہ کا بہت خیال رکھتے۔ اپنی اہلیہ محترمہ خورشید بیگم صاحبہ کے ساتھ جماعتی اور تبلیغی دعوتوں کے اہتمام میں بھرپور تعاون کرتے۔

ان دنوں حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ امام و مشنری انچارج مسجد فضل لندن کی خدمت پر مامور اور اشا عتِ اسلام کے لیے کارہائے نمایاں میں مصروف تھے۔ جنگ ِعظیم دوم ابھی اختتام پذیر ہوئی تھی۔ ہر جگہ ٹوٹی پھوٹی عمارات اور پتھروں اور اینٹوں کا ملبہ نظر آتا تھا۔ ہر طرف گند کے ڈھیر اور کچرا ہی کچرا پھیلا ہوتا تھا۔ ہر چیز راشن پر ملا کرتی تھی۔ فیملی کے ہر فرد کے لیے علیحدہ علیحدہ شناختی کارڈ اور راشن کی فائلز( Files) بنی ہوئی تھیں جن میں خوراک کی ہر چیز کے ٹوکن (Token) مع تاریخ درج ہوتے۔ جن کے تبادلے میںہفتہ وار راشن کی مختلف چیزیں مثلاً بریڈ، دودھ، چینی، نمک، چاول، انڈے، صابن، گوشت، مرغ کا گوشت، مکھن اور موم بتی وغیرہ مل جایاکرتے تھے۔ لیکن مقدار ہر چیز کی اتنی کم ہوتی کہ بمشکل گزارا ہوتا۔ حلال گوشت اور مرچ مصالحے کا کہیں نام تک نہ تھا۔ دوا فروش (Boots) کی دکان سے راشن کے ٹوکن سے چھوٹی چھوٹی پڑیاں مرچ اور ہلدی کی مل جاتیں جو صرف دو سالن پکانے کے لیے کافی ہوتیں۔ آپ ان تمام حالات سے پہلے تو بہت گھبرائیں۔ انگریزی زبان جانتی نہ تھیں۔ خوراک اور دیگر اشیاء بھی نہایت محدود تھیں۔ کوئی ہم زبان نہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ سفر کی سہولیات نہ تھیں۔ ہر طرف خوف و ہراس تھا جس کے باعث باہر جانا خطرات سے کم نہ تھا۔ موسم بھی موافق نہ تھا۔

آپ نہایت قناعت پسند ی سے راشن استعمال کرتیں۔ اپنی عمر رسیدہ ساس کے کھانے کا بہت خیال رکھنا پڑتا کیونکہ وہ ذیا بیطس کی مریضہ تھیں۔ ایک دن جب آپ کے شوہر سودا سلف لے کر گھر لوٹے اور کہا کہ آج بچوں کے لیے انڈوں کا سالن بنا لو۔ سودا سلف کے تھیلوں میں جب آپ کو انڈے کہیں نظر نہ آئے تو آپ نے شوہر سے دریافت کیا کہ انڈے کہاں ہیں؟ آپ کے شوہر نے آپ کو انڈوں کے پاؤڈر کا ایک پیکٹ سودے کے تھیلے میں سے نکال کر دیا اور کہا کہ آج کل یہی انڈے ملتے ہیں۔

انگلستان میں سردی کا موسم، برف اور دھند محترمہ اللہ رکھی صاحبہ کے لیے نہایت ہی مضر ثابت ہوا جس کی وجہ سے آپ کو دمہ کی شدید تکلیف ہو گئی جو بڑھتی گئی۔ چنانچہ لندن آنے کے چھ ماہ بعد ہی ۱۹۴۶ء میں آپ اس جہان فانی سے رخصت ہو گئیں۔ آپ کا جنازہ مسجد فضل میں پڑھا گیا اور بروک ووڈ قبرستان کے ’’ قطعہ مسلمانان‘‘ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ آپ کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا اور کوئی پرسان حال نہ تھا۔کچھ عرصہ بعد حضرت مصلح موعودؓنے حضرت مولانا شمس صاحب ؓکو قادیان واپس بلا لیا اور آپؓ کی جگہ محترم چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ کو امام مسجد لندن مقرر فر ما کر لندن بھجوایا۔ آپ کی اہلیہ محتر مہ کلثوم باجوہ صاحبہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ قادیان سے لندن تشریف لائیں۔

محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ کے لندن تشریف لانے سے محترمہ خورشید بیگم صاحبہ کی کچھ ڈھارس بندھی۔ اب کبھی کبھار آپ کے شوہر عبد ا لمنان صاحب اپنی اہلیہ اور بچوں کو آفس جانے سے پہلے بذریعہ ریل گاڑی مسجد فضل چھوڑ جاتے اور آفس سے واپسی پر آپ کو مسجد فضل سے گھر لے آتے۔ اس طرح آپ کا دن کچھ اچھا گزر تا ورنہ سارے شہر میں کوئی دیسی بدیسی نظر نہ آتا۔ جنگ کی وجہ سے ہر طرف خوف و ہراس پھیلا تھا جس کی وجہ سے اکثریت کا گھر سے باہر نکلنا ویسے ہی محال تھا۔

انگلستان میں ان دنوں نوزائیدہ بچے کی والدہ کو حکومت کی طرف سے دس پاوٴنڈ کی میٹرنٹی گرانٹ (Maternity Grant) دی جاتی تھی اور اگر بچہ گھر میں پیدا ہوتا تو اضافی چار پاوٴنڈ بھی دیے جاتے۔ محترم عبد المنان دین صاحب کے گھر جب اُن کی چھوٹی بیٹی مبارکہ پیدا ہوئی تو انہوں نے اپنی اہلیہ کی جانب سے اس واجب الا دا فنڈ کے لیے درخواست دے دی جو اس وجہ سے نا منظور کر دی گئی کہ چونکہ مسلمان مردوں کو اسلامی شریعت کے مطابق ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت ہوتی ہے جسے یہاں کا قانون Polygamyکہتا ہے اس لیے انہیں اس فنڈ سے محروم کیا جاتا ہے۔ آپ کی غیرت یہ گوارا نہ کر سکی کہ اسلامی شریعت پر کوئی نکتہ چینی کرے جس کے لیے آپ نے مختلف وکلاء سے اس معاملہ میں مشورہ کیا لیکن کوئی وکیل بھی آپ کا کیس لڑنے کے لیے تیار نہ ہوا۔ چنانچہ عبدالمنان دین صاحب نے ہائی کورٹ میں بذاتِ خود اس معاملہ کو پیش کیا اور ۱۹۵۴ء میں اس کیس کو انتہائی کامیابی سے جیتا۔ اور اس طرح تب سے مسلمان خواتین کے لیے Maternity Grant حاصل کرنے کا قانون حکومت کی طرف سے جاری کیا گیا…( کرانیکل رپورٹر نیوز۱۹۵۴ء)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button