حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللہ تعالیٰ ہی حقیقی ناصر ہے

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲؍ جون ۲۰۰۶ء)

ہم پھر ہمدردی کے جذبے سے اور مُسلم اُمہ سے محبت کی وجہ سے کہتے ہیں اور کہتے رہیں گے کہ سوچیں اور غور کریں، مسلمان ملکوں میں احمدیت اور امام الزمان کی مخالفت کی بجائے اس کے مدد گار بنیں، اس پر ایمان لائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو پورا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ بھی ہر لمحہ اور ہر آن مسلمانوں کا مددگار ہو۔ آج ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہ وعدے مومنین کی جماعت جنہوں نے حقیقی طور پر زمانے کے امام کو مانا ہے اور جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر عمل کر رہے ہیں، ان کے ساتھ تو پورے ہو رہے ہیں۔ اس جماعت کے ساتھ تو پورے ہو رہے ہیں اور من حیث الجماعت ہم ہر روز ایک نئی شان سے پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ پس ہر احمدی کو بھی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کو مزید حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو پہلے سے بڑھ کر دنیا کوپہنچانے کی کوشش کرے۔ دنیا کو بتائیں کہ اگر زمانے کے امام کو نہیں مانو گے تو اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی مدد سے محروم رہوگے اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق، اس انذار کے مطابق ان کے خلاف نبی بھی گواہ کھڑے ہوں گے، فرشتے بھی گواہ کھڑے ہوں گے بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا کہ جسم کے تمام اعضاء بھی گواہی دیں گے کہ باوجود پیغام پہنچنے کے، باوجود مسیح موعود کا دعویٰ سننے کے تم لوگوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ مخالفت کی اور مخالفت میں بھی اتنے بڑھے کہ احمدیوں پر ظلم کی وہ داستانیں رقم کرنے لگے جو بعض پہلے انبیاء کی قومیں اپنے انبیاء اور ان کے ماننے والوں سے کرتی ہیں۔ بلکہ مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ میں بھی ظلم ہوتے رہے۔ لیکن اس سلوک سے جماعت کو کبھی بھی نقصان نہیں پہنچا بلکہ ہر موقع پر ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور مدد کے نظارے اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بڑھ کر ہمیں دکھائے اور مخالفت کی ہرآندھی جماعت کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نصرت سے اور اونچا اڑا کر لے گئی۔ ہم کسی حکومت پر، کسی تنظیم پر نہ تو بھروسہ کرتے ہیں، نہ ہی مدد مانگتے ہیں۔ ہماری مدد تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مانگتے ہوئے اسی سے وابستہ رہی ہے۔ ہاں بعض گروہوں کی بعض حرکتوں کا، ان کی تصویر دکھانے کے لئے، ان کا چہرہ دکھانے کے لئے، دنیا کو بتاتے ضرور ہیں کہ احمدیوں کے ساتھ بعض جگہوں پر بعض ملکوں میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ لیکن یہ تو قع کبھی نہیں رکھی کہ یہ لوگ ہمارے معین و مددگار ہیں یا ان لوگوں پر ہمارا بھروسہ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ اِنَّا لَنَنْصُرُرُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا(المومن:۵۲)ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے۔ مَیں کہتا ہوں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیونکر مدد کر سکتا ہے؟ اصل بات یہی ہے کہ حقیقی معاون و ناصر وہی پاک ذات ہے جس کی شان نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُوَ نِعْمَ الْوَکِیْل ہے۔ دنیا اور دنیا کی مددیں ان لوگوں کے سامنے کَالْمَیِّتْ ہوتی ہیں ‘‘۔ یعنی ایک مردے کی طرح ہوتی ہیں ’’اور وہ مردہ کیڑے کے برابر بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۰۷-۱۰۸)

…اب مَیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو اپنے انبیاء سے مدد کے سلوک کے اور ان کے مشکل وقت میں دشمن کے خلاف مدد کے نظارے دکھائے ہیں ان کی کچھ مثالیں دیتا ہوں۔ حضرت نوح ؑ کی پکار پر اللہ تعالیٰ نے کس طرح دعا کو قبول کیا اور ظالموں سے نجات دلائی۔ اس کا ذکر قرآن کریم میں یوں آتا ہے وَنُوۡحًا اِذۡ نَادٰی مِنۡ قَبۡلُ فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ فَنَجَّیۡنٰہُ وَاَہۡلَہٗ مِنَ الۡکَرۡبِ الۡعَظِیۡمِ۔ وَنَصَرۡنٰہُ مِنَ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمَ سَوۡءٍ فَاَغۡرَقۡنٰہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ (الانبیاء:۷۷-۷۸)اور نوح کا بھی ذکر کر جب قبل ازیں اس نے پکارا تو ہم نے اسے اس کی پکار کا جواب دیا اور اسے اور اس کے اہل کو ایک بڑی بے چینی سے نجات بخشی۔ اور ہم نے اس کی اُن لوگوں کے مقابل مدد کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلادیا تھا۔ یقیناً وہ ایک بڑی بدی میں مبتلا لوگ تھے پس ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔

جس طرح حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے کشتی کے ذریعہ سے بچایا تھا اور دعا قبول کرتے ہوئے قوم کو غرق کیا تھا اس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے طاعون کا نشان دے کر فرمایا کہ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بنا۔ جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں یہ خدا کا ہاتھ ہے ان کے ہاتھ پر۔

یہ الہام ہوا جو قرآنی آیات ہیں۔ اس پرآپؑ نے کشتی نوح تحریر فرمائی اور اس میں اپنی تعلیم بیان فرمائی کہ جو اس پر ایمان لائیں اور عمل کریں وہ محفوظ رہیں گے۔ اسی طرح آپؑ نے فرمایا جو آپ کا گھر ہے جو بظاہر اینٹوں اور گارے کا گھر ہے، جو اس دار میں پناہ لے گا وہ محفوظ رہے گا۔ تو یہ آپؑ سے اللہ تعالیٰ کا مدد کا وعدہ تھا۔ اور جب وبا پھوٹی تو ایک دنیا نے دیکھا کہ احمدی محفوظ رہے اور بڑی شان سے یہ وعدہ اور یہ الہام پورا ہوا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اور بھی بے شمار الہامات ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اسی تائید و نصرت کے سلسلے میں بعض واقعات بھی ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا مَیں اس وقت یہاں صرف مختلف واقعات کے بارے میں قرآن کریم کی آیات پیش کر رہا ہوں۔ انشاء اللہ باقی باتیں آئندہ بھی ہوں گی۔

پھر حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا واقعہ ہے۔ جب مخالفین نے آپؑ کو آگ میں جلانے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی کس طرح مدد فرمائی اور مخالفین کی تمام تدبیریں ناکام و نامراد ہو گئیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْٓا اٰ لِھَتَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْن۔ قُلْنَا یٰـنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ۔ وَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰھُمُ الْاَخْسَرِیْنَ (الانبیاء:۶۹-۷۱) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ انہوں نے کہا اس کو جلا ڈالو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تم کچھ کرنے والے ہو۔ ہم نے کہا اے آگ! تو ٹھنڈی پڑ جا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر۔ اور انہوں نے اس سے ایک چال چلنے کا ارادہ کیا تو ہم نے ان کو کلیۃًنامراد کر دیا۔

پھر حضرت موسیٰ ؑ کے بارے میں آتا ہے کہ وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰی مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ۔ وَنَجَّیْنٰـھُمَا وَقَوْمَھُمَا مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِ۔ وَنَصَرْنٰـھُمْ فَکَانُوْا ھُمُ الْغٰلِبِیْنَ(الصّٰفّٰت:۱۱۵-۱۱۷) اس کا ترجمہ یہ ہے۔ اور یقینا ہم نے موسیٰ اور ہارون پر بھی احسان کیا تھا اور اُن دونوں کو اور اُن کی قوم کو ہم نے بہت بڑے کرب سے نجات بخشی تھی اور ہم نے ان کی مدد کی۔ پس وہی غالب آنے والے بنے۔

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button