متفرق مضامین

حُسنِ ظنّ

(عطیۃالعلیم۔ ہالینڈ)

ظن کا مطلب یقین اور شک کے درمیان کی حالت، گمان،اندازہ،اٹکل بازی ہےاور حسن ظن کا مطلب نیک گمان،کسی کے متعلق اچھا خیال،رائے ہے۔جبکہ بد گمانی کا مطلب بدگمان یا شک کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ۵۷؍جگہ ظن کا ذکر فرمایا ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعلق میں لوگوں کے حضرت عیسیٰؑ کے متعلق غلط خیالات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّۚ (النساء: ۱۵۸)انہیں اس کے متعلق کوئی بھی (یقینی) علم نہیں ہے۔ ہاں (صرف ایک) وہم کی پیروی (کر رہے ہیں)(ترجمہ ازتفسیر صغیر)پھر ایک اور جگہ ظن کے مضمون کو کچھ یو ں بیان فرمایا:وَاِنۡ تُطِعۡ اَکۡثَرَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ یُضِلُّوۡکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ (الانعام:۱۱۷)

اور اگر تو زمین میں بسنے والوں سے اکثر کی بات کی پیروی کرےتو وہ تجھے اللہ کی راہ سے گمراہ کر دیں گےوہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اور صرف اٹکل سے باتیں کرتے ہیں۔(ازتفسیر صغیر)

یہاں پر لوگوں کے ان خیالات کا ذکر ہے جن کو وہ حرف آخر کی طرح مان کر پھر مضبوطی سے قائم ہو جاتے ہیں۔

پھر لوگوں کی ایک اور عادت کا ذکر فرمایا کہوَمَا یَتَّبِعُ اَکۡثَرُہُمۡ اِلَّا ظَنًّا ؕ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ الۡحَقِّ شَیۡئًا (یونس:۳۷) اور ان میں سے اکثر (اپنے) وہم کے سوا (اور کسی چیز کی) پیروی نہیں کرتے (حالانکہ) وہم حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دیتا۔(از تفسیر صغیر)

سورة الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر سوئےظن کا ذکر فرمایا اور اس سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ ارشاد ربانی ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (الحجرات:۱۳)اے ایمان والو!بہت سے گمانوں سے بچتے رہا کرو کیونکہ بعض گمان گناہ بن جاتے ہیں۔

سوئےظن بہت سی برائیوں کی جڑھ ہے۔اس سے تجسس اور پھر غیبت کی عادت پیدا ہوتی ہے۔اس بات کا پتا ہمیں اسی آیت مبارکہ کے اگلے حصہ سے ہوتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَلَا تَجَسَّسُوۡا وَلَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًااور تجسس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔(ازتفسیر صغیر)

گویا ابتدائی طور پر انسان کسی بارہ میں سوئے ظن کرتا ہے پھر اس شخص کی برائیوں کی ٹوہ میں لگ جاتا ہے۔اس کی برائیاں تلاش کر کے پھر ان برائیوں کا تذکرہ اس شخص کی غیر موجودگی میں کر کے غیبت جیسی بدی کماتا ہے۔

مختلف احادیث میں بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت خوبصورتی سے ظن کے صحیح استعمال یعنی حسن ظن کی طرف توجہ دلائی ہے۔ایک حدیث پیش خدمت ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حُسْنُ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَةِ(بخاری کتاب الادب باب حسن الظن ۴۹۹۳)حسن ظنی عبادت کی خوبصورتی میں سے ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں نہ رہو۔ اپنے بھائی کے خلاف تجسس نہ کرو۔ اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو۔ حسد نہ کرو، دشمنی نہ رکھو، بے رخی نہ برتو جس طرح اس نے حکم دیا ہے اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔(مسلم کتاب البر وا لصلۃ باب تحریم الظن حدیث نمبر ۶۴۳۱)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اکثر لوگوں میں بدظنی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بھائی سے نیک ظنی نہیں رکھتے اور ادنیٰ ادنیٰ سی بات پر اپنے دوسرے بھائی کی نسبت بُرے بُرے خیالات کرنے لگتے ہیں۔ اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب اس کی طرف منسوب ہوں تو اس کو سخت ناگوار معلوم ہو۔ اس لیے اوّل ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بدظنی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے۔ اور انس پیدا ہوتا ہے۔ اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلاً کینہ بغض حسد وغیرہ سے بچا رہتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۴صفحہ ۲۱۴۔۲۱۵،ایڈیشن۱۹۸۸ء)

بد تر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں

شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں

آپؑ مزید فرماتے ہیں:’’دوسرے کے باطن میں ہم تصرف نہیں کر سکتے اور اس طرح کا تصرف کرنا گناہ ہے۔ انسان ایک آدمی کو بدخیال کرتا ہے اور آپ اس سے بدتر ہو جاتا ہے۔کتابوں میں مَیں نے ایک قصہ پڑھا ہے کہ ایک بزرگ اہل اللہ تھے انہوں نے ایک دفعہ عہد کیا کہ مَیں اپنے آپ کو کسی سے اچھا نہ سمجھوں گا۔ ایک دفعہ ایک دریا کے کنارے پہنچے(دیکھا)کہ ایک شخص ایک جوان عورت کے ساتھ کنارے پر بیٹھا روٹیاں کھا رہا ہے اور ایک بوتل پاس ہے اس میں سے گلاس بھر بھر کر پی رہا ہے ان کو دُور سے دیکھ کر اس نے کہا کہ مَیں نے عہد تو کیا ہے کہ اپنے کو کسی سے اچھا نہ خیال کروں مگر ان دونوں سے تو مَیں اچھا ہی ہوں۔ اتنے میں زور سے ہوا چلی اور دریا میں طوفان آیا ایک کشتی آ رہی تھی وہ غرق ہو گئی وہ مرد جو کہ عورت کے ساتھ روٹی کھا رہا تھا اٹھا اور غوطہ لگا کر چھ آدمیوں کو نکال لایا اور ان کی جان بچ گئی۔ پھر اس نے اس بزرگ کو مخاطب کرکے کہا کہ تم اپنے آپ کو مجھ سے اچھا خیال کرتے ہومَیں نے تو چھ کی جان بچائی ہے۔ اب ایک باقی ہے اسے تم نکالو۔ یہ سن کر وہ بہت حیران ہوا اور اس سے پوچھا کہ تم نے یہ میرا ضمیر کیسے پڑھ لیا اور یہ معاملہ کیا ہے؟ تب اس جوان نے بتلایا کہ اس بوتل میں اسی دریا کا پانی ہے۔ شراب نہیں ہے اور یہ عورت میری ماں ہے اور مَیں ایک ہی اس کی اولاد ہوں۔ قویٰ اس کے بڑے مضبوط ہیں اس لیے جوان نظرآتی ہے۔ خدا نے مجھے مامور کیا تھا کہ میں اسی طرح کروں تا کہ تجھے سبق حاصل ہو۔

خضر کا قصہ بھی اسی بنا پر معلوم ہوتا ہے۔ سوئے ظن جلدی سے کرنا اچھا نہیں ہوتا۔تصرف فی العباد ایک نازک امر ہے۔ اس نے بہت سی قوموں کو تباہ کر دیا کہ انہوں نے انبیاء اور ان کے اہل بیت پر بدظنیاں کیں۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۵۶۸تا۵۶۹،ایڈیشن۱۹۸۸ء)

یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے متعلق بھی سوئے ظن سے منع کیا گیا ہے۔کیونکہ یہی سوئے ظن انبیاء کے انکار میں جلدی اور پھر عاقبت بگڑانے کا باعث بن جاتا ہے۔جو شخص کسی کے متعلق بد ظنی کرتا ہے وہ نہیں مرتا جب تک کہ اپنے متعلق بھی وہی بات سن نہ لے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیان فرماتے ہیں۔ ’’ایک برائی بدگمانی ہے، بدظنی ہے، خود ہی کسی کے بارے میں فرض کر لیا جاتا ہے کہ فلاں دو آدمی فلاں جگہ بیٹھے تھے اس لیے وہ ضرور کسی سازش کی پلاننگ کر رہے ہوں گے یا کسی برائی میں مبتلا ہوں گے۔ اور پھر اس پر ایک ایسی کہانی گھڑ لی جاتی ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ اور پھر اس سے رشتوں میں بھی دراڑیں پڑتی ہیں۔ دوستوں کے تعلقات میں بھی دراڑیں پڑتی ہیں۔ معاشرے میں بھی فساد پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس برائی سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے‘‘۔(خطبات مسرور جلد چہارم صفحہ ۲۶۲)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بد ظنی کے مضمون کو کھول کر اپنے منظوم کلام میں بھی بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

جو لوگ بدگمانی کو شیوہ بناتے ہیں

تقویٰ کی راہ سے وہ بہت دُور جاتے ہیں

بے احتیاط اُن کی زباں وار کرتی ہے

اِک دم میں اُس علیم کو بیزار کرتی ہے

اِک بات کہہ کے اپنے عمل سارے کھوتے ہیں

پھر شوخیوں کا بیج ہر اک وقت بوتے ہیں

اسی نظم کے اگلے حصہ میں آپ علیہ السلام اس مرض سے بچاؤ کے طریق کچھ یوں بتاتے ہیں:۔

تم دیکھ کر بھی بد کو بچو بدگمان سے

ڈرتے رہو عقابِ خدائے جہان سے

شاید تمہاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا

شاید وہ بد نہ ہو جو تمہیں ہے وہ بدنما

شاید تمہاری فہم کا ہی کچھ قصور ہو!

شاید وہ آزمائشِ ربّ غفور ہو

اللہ تعالیٰ ہمیں بدظنی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button