تقریر جلسہ سالانہ

ہستی باری تعالیٰ کے سائنسی دلائل (تقریر بر موقع جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۲۳ء)

(ڈاکٹر فہیم یونس قریشی صاحب۔نائب امیرجماعت امریکہ)

یہ ہماری اپنی کہانی ہے لیکن ہمیں یاد نہیں۔ جب ہم اس دُنیا میں آئے تھے، بچےتھے، کمزور تھے۔ بھوک لگتی تھی تو چل کر ماں کے پاس نہیں جا سکتے تھے۔ اس لیے روتے تھےاور پھر ماں لپک کر ہم تک پہنچ جاتی تھی۔ اس تجربہ کے پیچھے ایک حسّاس سائنس ہے۔ ایم آر ای سکین کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ بچہ کے رونے کی آواز ماں کے کانوں کے پردوں سے ہوتی ہوئی اس کے دماغ تک پہنچتی ہے اور پھرماں کے سر میں چنے کے سائز کا ایک گلینڈ جسے Posterior pituitary کہتے ہیں، وہاں سے ایک ہارمون Oxytocin نکلتا ہے جس کے اثر سے ماں کی چھاتیوں میں دودھ اُتر آتا ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ عمل سیکنڈز میں مکمل ہوجاتا ہے اور یہ ماں کے اختیار میں بھی نہیں ہوتا۔

(Why your brain short circuits when a kid cries? By Jessica Grose in the New York Times. August 12, 2020)

ماں اور بچے کا یہ تعلق ایک تمثیل ہے۔ اللہ تعالیٰ تو، لَمۡ یَلِدۡ وَلَمۡ یُوۡلَدۡ، ہے۔ لیکن اس تمثیل میں شاید ہمیں ہستی باری تعالیٰ کا زندہ ثبوت مل جائے۔

عموماً جب ہستی باری تعالیٰ کے دلائل کی بات ہوتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی دہریہ کو بحث میں ہرانا ہمارا مقصد ہے۔ لیکن اگر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی گذشتہ دو سال کی ورچوئل (virtual) ملاقاتوں کو سنیں تو حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بار بار فرما رہے ہیں کہ ہمیں پہلے اپنے بچوں کوسنبھالنا ہے تا کہ وہ ان دہریوں کے چنگل میں نہ آجائیں۔(الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍ جنوری ۲۰۲۳ء صفحہ ۲)

اس ارشاد کے تحت، آج کی گفتگو اپنے بچوں اور اپنے بڑوں سے ہے۔ اور یہ گفتگو ہمیں قرآنِ شریف کی روشنی میں کرنی ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہمارے دہریہ دوست قرآن کی بات کو کیوں مانیں گے؟ ٹھیک ہے۔

لیکن ہم قرآن کو اس لیے پیش کرتے ہیں کہ یہ سائنسی تقاضوں پر پورا اُترتا ہے۔ یہ خدا کی طرح چُھپی ہوئی چیز نہیں۔ اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے دلائل کو تجربے سے گزارا جاسکتا ہے۔ ساتویں صدی کا قرآن آج بھی استنبول کے Topkapi محل میں جا کر ہاتھ میں تھاما جا سکتا ہے(https://www.islamic-awareness.org/quran/text/mss/topkapi) اور کوئی دہریہ بھی یہ نہیں کہے گا کہ ہم نے پچھلے پانچ چھ سو سال کی سائنسی دریافتوں کو قرآنِ کریم میں بعد میں داخل کر دیا ہے۔

Topkapi محل ترکی میں موجود قرآن کریم کے قدیمی نسخہ سے سورة الضحیٰ کا ایک ورق

اسلام احمدیت کو سائنس یا سوالوں سے ڈر نہیں لگتا۔ ہم نے تو سائنس میں بہت ترقی کرنی ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تو نوبیل انعام کو کم از کم ہدف کے طور پر مقرر فرمایا ہے۔ لیکن ہمیں پوری سائنس چاہیے۔ یہ آدھی سی متکبرانہ سائنس نہیں۔ اس لیے جیسے جیسے ہمارے بچے سکولوں میں اپنی کلاسوں میں آگے جائیں، ہمارا فرض ہے، والدین کا فرض ہے کہ ہم انہیں یہ بتائیں کہ بہت سے سائنسی حقائق قرآنِ شریف ۱۴۰۰ سال پہلے بیان کرچکا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں ہم اپنے بچوں کو یہ بتائیں کہ ’’قرآن خدا کا قول ہے اور سائنس خدا کا فعل ہے‘‘۔( مذہب اور سائنس، انوارالعلوم جلد ۹ صفحہ ۵۰۰)

ہو سکتا ہے ہمارے بچے پرائمری سکولوں میں پڑھ رہے ہوں کہ۵۰۰سال پہلے Copernicus, Galileo اور Kepler جیسے سائنسدانوں نے یہ دریافت کیا تھا کہ سورج اور زمین ساکت نہیں بلکہ اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ لیکن کیا ہمارے بچوں کو یہ بھی پتا ہے کہ یہ حقیقت قرآن شریف نے ۱۴۰۰سال پہلے بیان فرما دی۔ اللہ تعالیٰ سورۃالانبیاء آیت۳۴میں فرماتا ہے ’’وہی ہے جس نے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو پیداکیا۔ سب (اپنےاپنے) مدارمیں رَواں دَواں ہیں‘‘۔

سیکنڈری سکول کے بچے جب بائیولوجی اور فزکس کی کلاس میں پڑھ رہے ہوں گے کہ قدرت نے ہر چیز کا جوڑا (یعنی Pair) بنایا ہے۔ جیسے پھولوں کے نَر حصہ کو سٹیمنز اور مادہ کو پسٹل کہتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے اپنے بچوں کو یہ بتایا ہے کہ سینکڑوں سال پہلے اللہ تعالیٰ نے سورہ یٰسین آیت ۳۷ میں فرمایا: ’’پاک ہے وہ ذات جس نے ہر قسم کے جوڑے پیدا کیے ہیں اس میں سے بھی جس کو زمین اُگاتی ہے اور خود ان کی جانوں میں سے بھی اور ان چیزوں میں سے بھی جن کو وہ نہیں جانتے‘‘۔

یہ آخری حصہ قابلِ غور ہے۔ ’’اُن چیزوں میں سے بھی جن کو وہ نہیں جانتے‘‘ جب یہ آیت نازل ہوئی تھی تو دنیا نہیں جانتی تھی کہ matter یعنی مادہ کا جوڑا antimatter ہے۔ اسے Paul Dirac نے ۱۹۳۳ء میں دریافت کرکے نوبیل انعام حاصل کیا۔ دنیا نہیں جانتی تھی کہ ایک ایٹم کے اندر پروٹونز اور نیوٹرونز کے جوڑے ہیں۔ Ernest Rutherford اور James Chadwick نے ۱۹۱۹ء اور ۱۹۳۲ء میں انہیں دریافت کیا۔ دنیا نہیں جانتی تھی کہ ان پروٹونز اور نیوٹرونز کے اندر اس سے بھی چھوٹے subatomic پارٹیکلز ہیں جنہیں Quarksکہتے ہیں۔ Murray Gell-Mann اور George Zweig نے ۱۹۶۴ء میں کوارکس کو دریافت کیا۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایک ریت کے ذرہ میں ۴۵کروڑ کوارکس کے جوڑے ہیں۔ دنیا یہ سب نہیں جانتی تھی مگران آیاتِ کریمہ سے پتا چلتا ہے کہ ہمارا خدا جانتا تھا۔

ایک طرف Copernicus, Kepler, Galileo, Dirac, Rutherford, Chadwick, Gellman اور ان جیسے لاکھوں پاؤنڈز کی تجربہ گاہوں میں کام کرنے والے، نوبیل پرائز جیتنے والے سائنسدان اور دوسری طرف عرب کے صحراؤں میں ایک اُمیّ رسولﷺ جولکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے۔ اگر اس کائنات کا کوئی خالق نہیں، کوئی خدا نہیں، توکس نے یہ سائنسی راز رسول اللہﷺ پر کھول دیے؟ اگریہ محض اتفاق ہے تو دوسری مذہبی کتابوں میں کثرت سے ایسے اتفاقات کیوں نہیں ملتے؟

کالج جانے والے وہ بچے جو سمندروں کی سائنس یعنیOceanography پڑھ رہے ہیں کہ سمندر کو پانی کی تین تہوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ پہلے ۲۰۰ میٹرز کو یوفوٹک زون (Euphotic zone) کہتے ہیں، جہاں تک روشنی سرایت کرتی ہے۔ پھر ۲۰۰ سے ۱۰۰۰ میٹر کی تہ کو ڈیسفوٹک زون (Dysphotic zone) کہتے ہیں، جہاں ہلکی سی روشنی رہتی ہے۔ لیکن ایک کلومیٹر کے بعد تیسری تہ ایفوٹک زون (Aphotic zone) میں مکمل اندھیرا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ نور آیت ۴۱ میں فرماتا ہے:

ترجمہ: ’’یا (ان کے اعمال) اندھیروں کی طرح ہیں جو گہرے سمندر میں ہوں جس کو موج کے اوپر ایک اَور موج نے ڈھانپ رکھا ہو‘‘۔

جب ۲۰۱۲ء میں جیمز کیمرون (James Cameron) بحرالکاہل کی تہ تک گیا تو اس کا خیال تھا کہ وہ عجیب و غریب مچھلیاں دیکھے گا۔ اس نے کیا دیکھا؟ گھپ اندھیرا۔( The New York Times by William Broad. March 26, 2012) ماہر تیراک بھی یہ بتاتے ہیں کہ سمندر کی گہرائیوں میں اتنا اندھیرا ہے کہ انسان کو اپنا ہاتھ تک نظر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ سورۂ نور آیت ۴۱ ہی میں فرماتا ہے ’’جب وہ اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو اسے بھی نہیں دیکھ سکتا‘‘۔

آنحضرتﷺ نے سائنسدانوں کی طرح کبھی سمندروں کا سفر نہیں کیا۔ اگر قرآنِ کریم خدا کا کلام نہیں تو اُس اُمّی رسولؐ کو سمندر کی تہوں میں چھپے اندھیرے کس نے دکھائے؟

اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں سائنس کہتی ہے کہ ہم انہیں دیکھ نہیں سکتے لیکن قرآنِ کریم کہتا ہے کہ تم انہیں دیکھو گے۔ سورہ انبیاء آیت ۳۱ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَوَلَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا۔ ترجمہ: ’’کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے پس ہم نے ان کو کھول دیا‘‘۔

یہ آیت بگ بینگ (Big Bang) اور بلیک ہولز (Black holes) کی پیش گوئی کرتی ہے لیکن مزید غور کریں تو ایک لطیف نکتہ سمجھ میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے۔ اَوَلَمْ یَرَا۔ ’’کیا انہوں نےنہیں دیکھا؟‘‘۔ صرف دس سال پہلے تک سائنسدانوں کا خیال تھا کہ بلیک ہولز کو نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ اس میں سے روشنی بھی باہر نہیں نکل سکتی۔ لیکن چار سال پہلے Event Horizon Telescope کے ذریعہ سائنسدانوں نے بلیک ہولز کو بھی دیکھ لیا۔

(https://eventhorizontelescope.org/blog/astronomers-reveal-first-image-black-hole-heart-our-galaxy)

اور ان کی تصاویر نیشنل جیوگرافک اور دیگر رسالوں میں ہم سب نے بھی دیکھ لیں۔ اَوَلَمْ یَرَا۔ کیا یہ سب دیکھ کر بھی ہم ہستی باری تعالیٰ کو ماننے سے انکار کردیں؟ جس نے ۱۴۰۰ سال پہلے ان رازوں کی نشاندہی فرما دی تھی؟

دیکھیں بچے جوان ہو جائیں، ان کی شادیاں ہوجائیں، اللہ تعالیٰ انہیں اولاد سے نواز دے۔ تب بھی ہستی باری تعالیٰ کے قرآنی دلائل ان کی راہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ اولاد نرینہ کی خواہش تو ایک فطری امر ہے اس میں تو کوئی قباحت نہیں۔ لیکن ایسی ماؤں کو طعنے دینا، تکلیفیں دینا، جنہیں اللہ تعالیٰ نے صرف بیٹیوں سے نوازا ہو، یہ تو ظلم ہے۔ لیکن بیسویں صدی کے شروع میں بہت سے سائنسی تجربات سے یہ ثابت ہو گیا کہ پیدا ہونے والے بچے کی جنس کا تعلق تو صرف مرد کے جرثومے یا کروموسوم سے ہوتا ہے۔ عورت کا تو اس میں کوئی دَخل ہی نہیں۔ مغربی دنیا کے لیے یہ ایک حیران کن سائنسی انکشاف تھا۔ لیکن قرآن تو ۱۴۰۰ سال سے ان مظلوم ماؤں کے حق میں کھڑا تھا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ نجم آیت ۴۶ میں فرماتا ہے ’’اسی نے نطفہ سے نَر اور مادہ کو پیدا کیا‘‘۔ بیٹیوں، بہوؤں، ماؤں پر ظلم کرنے والے یہ سوچ لیں کہ ایک دن اس خدا کو حساب بھی دینا ہے۔

بہت سی مثالیں ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے کوئی بات قرآن شریف میں بیان کی اور سائنس نے سینکڑوں سال بعد اسے دریافت کیا۔

پہاڑ ساکت نہیں بلکہ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں، سورۃ نمل:۸۹۔ ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی،سورۃ الانبیاء: ۳۱۔ جِلد سب سے زیادہ درد کو محسوس کرتی ہے،النساء:۵۷۔ جنینیت یا ایمبریولوجی کی تفصیل المؤمنون: ۱۴، جنیٹک انجینئرنگ۔ النساء:۱۲۰، کشش ثقل وگریویٹی۔ سورۃالرعد:۳، ایسڈرین سورۃالواقعہ:۷۱۔ واٹر سائیکل،الذّاریات: ۳ اور کئی آیات ہیں جو نظریہ ارتقا یا ایوولوشن کی جزوی تائید کرتی ہیں۔ قرآن شریف نے تو ہستی باری تعالیٰ کے سائنسی دلائل کا انبار لگا دیا ہے۔ ہستی باری تعالیٰ کے دلائل تو قرآن نےپھیلا دیے ہیں۔ آسمانوں میں بھی اور سمندروں کی تہوں میں بھی، سورج اور چاند میں بھی اور ریت کے ذرّوں میں بھی۔

ہستی باری تعالیٰ کی دلیل تو آپ میں سے ہر وہ احمدی ہے جس نے قبولیتِ دعا کا ذاتی تجربہ کیا ہے۔ ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت تو یہ جماعت ہے۔ ہر نبی کی جماعت ہے جو ایک بچے کی طرح کمزور ہوتے ہوئے بھی دنیا کی سب طاقتوں کو ہرا دیتی ہے۔

صرف دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔ خدا کے ثبوت تو ہر طرف ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الحدید آیت۵میں فرماتا ہے: وَہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ۔’’وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے جہاں بھی تم ہو‘‘۔لیکن تقریباً ۲۵؍سال کی دنیاوی تعلیم کے بعد افسوس ہے کہ ہم بڑے ہو جاتے ہیں یا شاید ہماری اَنا بڑی ہو جاتی ہے۔ جس کی طرف حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہمیں افتتاحی خطاب میں توجہ دلائی۔ بچوں کی طرح رونے کی بجائے ہم کچھ بڑوں کی طرح بحث کرنے لگتے ہیں۔ اور کچھ نوجوان آدھی سی سائنس پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ اب انہیں اپنے حقیقی خالق کی ضرورت نہیں رہی۔ اس کے بارے میں Quantum physics کا ایک بانی Werner Heisenberg کہتا ہے۔

“The first gulp from the glass of natural sciences will turn you into an atheist, but at the bottom of the glass God is waiting for you.”

’’سائنس کے گلاس سے پہلا گھونٹ پیتے ہی آپ دہریہ ہو جائیں گے۔ لیکن اسی گلاس کے پیندے میں خدا آپ کا انتظار کر رہا ہے‘‘۔

Werner Heisenberg

سائنس کے گلاس سے پہلا گھونٹ پی کر کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر یہ کائنات خدا نے بنائی ہے تو پھروہ خدا کہاں ہے؟ سائنسی تجربات کی طرح ہمیں نظر کیوں نہیں آتا؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ماں کے پیٹ میں ایک بچہ یہ سوال کرے کہ میری ماں کہاں ہے؟ نظر کیوں نہیں آتی؟ حالانکہ ماں تو ہر طرف ہے۔ جیسے الیکٹرومیگنیٹک سپیکٹرم کی شعاعیں ہمارے ہر طرف پھیلی ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ انسان کی آنکھ ان ایک ہزار شعاعوں میں سے نو سو چھیانوے کو نہیں دیکھ سکتی۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’جس کو خدائی کا جلوہ دیکھنا ہو اُسے چاہئے کہ دعا کرے۔ ان آنکھوں سے وہ نظر نہیں آتا بلکہ دعا کی آنکھوں سے نظر آتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۶۱۸، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

یہ ہے خدا کو دیکھنے کی سائنس۔

کچھ سائنس کا ایک گھونٹ پی کر یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر دنیا اللہ تعالیٰ نے بنائی ہیں تو اللہ تعالیٰ کو کس نے بنایا ہے؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ اس کمرے کو احمد نے پینٹ کیا ہے تو احمد کو کس نے پینٹ کیا ہے؟ مضحکہ خیز بات ہے۔ اسے ’’کیٹگری مسٹیک‘‘ کہتے ہیں یعنی کسی چیز کو غلط زُمرہ میں پَرکھنا۔ خدا ہماری طرح مادہ سے نہیں بنا۔ لطیف وخبیر ہے۔ (الانعام: ۱۰۴) اِس عظیم روحانی اَسرار کو ہم ایک تنگ سے سائنسی دائرے میں تو نہیں سمجھ سکتے۔

بات یہ ہے کہ کچھ نوجوان دہریت کی طرف اس لیے بھی جاتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اس میں آزادی ہے۔ نہ نماز کی ضرورت نہ قرآن کی حاجت۔ نہ پردے کی فکر نہ شراب کی۔ جو چاہو کرو۔ وہ سوچتے ہیں کہ مَیں کسی نادیدہ ہستی کی غلامی کیوں کروں؟ مَیں تو آزاد ہوں۔ اچھا؟ آپ آزاد ہیں؟ ہستی باری تعالیٰ کے منکرین اگر سوچیں تو بدترین اور سب سے بڑے غلام ہیں۔ فیس بک Likes کےغلام، YouTube ویوز کے غلام، retweets کے غلام، مال کی ہَوس کے غلام، افسر (Boss) کی خوشامد کے غلام، اپنے ہی نفس کے غلام، فلمی اداکاروں کے، گلوکاروں، فن پاروں کے غلام۔ جیسے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ستائیس سال پہلے جلسہ سالانہ برطانیہ میں ہی فرمایا تھا:’’وہ انسان جس نے ضرور پوجنا ہے، کسی کو ضرور پوجنا ہے جب خدا کو نہیں پوجتا تو اس کے معبود ذلیل سے ذلیل تَر ہوتے چلے جاتے ہیں۔‘‘(افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۶ء۔خطابات طاہر جلددوم صفحہ ۴۰۸) خدا پر حق الیقین رکھنے والے ان مصنوعی خداؤں سے تو آزاد رہتے ہیں۔

دنیاوی سائنسی دلائل سے ہم خدا کو سمجھ تو سکتے ہیں لیکن گلاس کے پیندے تک پہنچنے کے لیے، خدا کا مشاہدہ اور تجربہ کرنے کے لیے، ’’خدا ہے‘‘ کے مقام تک پہنچنے کے لیے ہمیں دعا کی سائنس کی ضرورت پڑتی ہے۔ جی! آپ نے ٹھیک پڑھا۔ دعا کی سائنس۔ کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ نے جیسے دعاؤں کے لاتعداد معجزے دکھائے ہیں وہ کسی سائنس سے کم نہیں۔ دیکھیں سائنس نام ہے مشاہدے کا، تجربہ کا اور نتیجے کا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ نے حضرت مسیح موعودؑ کی قبولیتِ دعا کے بےشمار مشاہدے اور تجربے کیے۔ ایک مرتبہ حیدرآباد دکن سے ایک لڑکا عبدالکریم قادیان پڑھنے کی غرض سے آیا جب اسے پاگل کتے نے کاٹ لیا تو عبدالکریم کو Rabies کی بیماری ہوگئی۔ قادیان سے تین سوکلومیٹر دور کسولی میں Rabies کے علاج کے لیے ایک مشہور ہسپتال Pasteur Center تھا جہاں ہر سال تقریباً بیس ہزارRabies کے مریضوں کا علاج ہوتا تھا۔ وہاں تشخیص اور علاج کروانے کے باوجود جب عبدالکریم میں بیماری کی علامات ظاہر ہو گئیں تو دوبارہ Pasteur center تار بھیجا گیا تو جواب آیا:

’’Sorry, nothing can be done for Abdul Karim‘‘

’’ہمیں افسوس ہے کہ عبدالکریم کے لیے اب کچھ نہیں کیا جا سکتا‘‘۔

دنیاوی سائنس نے جواب دے دیا۔ لیکن حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’تب میرا دل اس کے لئے سخت درد اور بیقراری میں مبتلا ہوا‘‘۔ (تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۴۸۰)

آپؑ کی درد مندانہ دعاؤں سے عبدالکریم کو نہ صرف اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں شفا بخشی بلکہ موت کے منہ پر کھڑا عبدالکریم مزید ۲۸؍سال تک زندہ رہا۔ خاکسار کو اللہ تعالیٰ نے ۲۵۰۰۰؍سے زیادہ پیچیدہ Infectious diseases کے مریضوں کا علاج کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ مَیں یہ مکمل اعتماد سےآپ کو کہہ سکتا ہوں کہ آج سوا سو سال کے بعد بھی اگر کسی Unvaccinated انسان کو Rabies کے مرض کی علامات ظاہر ہو جائیں تو آج بھی موت سو فیصد یقینی ہے۔ جن صحابہ نے عبدالکریم کی معجزانہ شفا کا مشاہدہ کیا ہوگا، آپ سمجھتے ہیں کہ ان کو ہستی باری تعالیٰ کے بارے میں کسی اور دلیل کی ضرورت رَہ گئی ہوگی؟ یہ ایک واقعہ ہوتا تو کہہ سکتے تھے کہ اتفاق ہے لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے تو ۲۰۰ سے زیادہ نشان صرف حقیقۃالوحی میں بیان فرما دیے ہیں۔ آپؑ اس کے بارہ میں ایک پُرشوکت چیلنج دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اگر کوئی چالاکی اور گستاخی سے اس معجزہ میں میرا مقابلہ کرے اور یہ مقابلہ ایسی صورت سے کیا جائے کہ مثلاً قرعہ اندازی سے بیس بیمار میرے حوالہ کئے جائیں اور بیس اس کے حوالے کئے جائیں تو خداتعالیٰ ان بیماروں کو جو میرے حصہ میں آئیں شفایابی میں صریح طور پر فریقِ ثانی کے بیماروں سے زیادہ رکھے گا اور یہ نمایاں معجزہ ہوگا‘‘۔(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۹۱)

اگر سوچیں تو حضرت مسیح موعودؑ یہاں قبولیتِ دعا کو بالکل انہی مراحل سے گزار رہے ہیں جن سے ہم طِبّ کے ماہرین کسی نئے علاج کو گزارتے ہیں۔ جس کے تین مراحل ہیں۔

1.Randomization,2.Outcome measures, 3.Statistical analysis

یہی حضرت مسیح موعودؑ بیان فرما رہے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ دنیا کی سائنس پر عمل کرنے سے صرف شفا ملتی ہے جبکہ اس سائنس پر عمل کرنے سے زندہ خدا بھی ملتا ہے۔ یہ دعا کی سائنس ایسی قابلِ اعتماد ہے کہ آپؑ کے غلاموں کو بھی زندہ خدا کا تجربہ ہوا۔

حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں ایک احمدی بزرگ تھے جو اپنی روزانہ کی آمدن سے ایک اَٹھنّی اپنی اس دن کی ضرورت کے لیے رکھ کر باقی تمام رقم چندے میں بھجوا دیتے تھے۔ ایک دن انہیں ۳۰۰؍روپے موصول ہوئے۔ انہوں نے سوچا رقم کچھ زیادہ ہے۔ کیوں نہ چھ مہینوں کی ضرورتوں کے لیے ۹۰ روپے آج ہی رکھ لوں تاکہ آسانی رہے۔ اس دن لوگ کہتے ہیں کہ جب وہ مسجد سے ظہر کی نماز پڑھ کے فارغ ہوئے تو فوراً گھر چل دیے جو ان کا معمول نہیں تھا۔ کسی نے پوچھا ایسی کیا جلدی ہے؟ وہ کہتے ہیں مجھے ابھی نماز میں آواز آئی ’’ہن مَیں چھ مہینے لئی تیرا رَبّ نہیں رَہیا؟ اور کہتے ہیں مَیں اسی وقت گھر جا کے اپنی ایک اَٹھنّی رکھوں گا اور باقی کے سارے پیسے چندے میں بھیج دوں گا۔ (مشعل راہ جلد دوم صفحہ ۱۶۶، فرمودہ ۷ ستمبر ۱۹۶۹ء بمقام احمدیہ ہال کراچی)

دور کیوں جائیں۔ ان شاءاللہ کل آپ اور مَیں یہاں عالمی بیعت میں حضرت خلیفۃالمسیح کے ہاتھ پہ خدا کی ایک زندہ دلیل نہیں دیکھ لیں گے؟

ہمیں اپنے بچوں کو بتانا ہے کہ دہریت کا راستہ سائنس کا راستہ نہیں، تکبّر کا راستہ ہے۔

(What is the strongest proof for the existence of God that one could present to those who do not believe in God? Al-Hakam 3rd December 2021)

اسی تکبّر کی طرف تو اشارہ کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا تھا کہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے Richard Dawkinsکو قرآنِ شریف کی volume commentary ا5 اور اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی ترجمہ بھجوایا تھا لیکن اُس نے کہا کہ آپ میری کتاب پڑھیں۔ مجھے آپ کی کتابوں کی ضرورت نہیں۔(الفضل انٹرنیشنل۳؍ جنوری۲۰۲۳صفحہ۱۴)

Richard Dawkins, Sam Harris, Christopher Hitchen جیسے نام نہاد فلاسفرز، سائنس کے گلاس سے چند گھونٹ پی کر اپنے تکبّر اور شیخیوں کو عقل کا نام دیتے ہیں۔ ان کے لیے تو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا:

آواز آ رہی ہے یہ فونو گراف سے

ڈھونڈو خدا کو دِل سے نہ لاف و گزاف سے

سائنس کے گلاس کے پیندے تک کا سفر ایک لمبا سفر ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ایک بڑی سائنسی پیش رَفت کے لیے آج کل ایک اچھے سائنسدان کو ۲۰-۲۵سال صَرف کرنے پڑتے ہیں۔

(The case for basic biological research by Isobel Ronai. Science and Society. Vol 25, Issue 2, page 65-.69. Feb 2019)

اسی طرح ہم اور ہمارے بچے بھی ۲۰ سے ۲۵ سال تک سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جان مارتے ہیں۔ آج دعا کی سائنس کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی خلافت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ۲۰ سے ۲۵ سال، اتنی ہی محنت اور سچائی سے اس یونیورسٹی سے استفادہ کیا ہے؟ کیا ہماری یہ توقع جائز ہے کہ ایک ڈگری پانے کے لیے تو ہم اور ہمارے بچے ۲۵ سال محنت کریں۔ لیکن زندہ خدا کو پانے کے لیے ہم ۲۵ دن بھی رو رو کر دعائیں نہ کریں؟ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا دودھ بھی ایک گِریہ کو چاہتا ہے۔ ‘‘رونے اور آہ و زاری کو چاہتا ہے۔ ’’اس لئے اس کے حضور رونے والی آنکھ پیش کرنی چاہئے‘‘۔(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۳۵۲، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

وہ عظیم نبیﷺ جو پیدا ہوا تو ایک یتیم بچہ تھا، جس کی ماں چھ سال میں اُسے چھوڑ گئی، اُس نے غارِحِرا کی تاریکی میں کس کرب سے دعائیں کی ہوں گی، کس دل سے خدا کو ڈھونڈا ہوگا، کہ خدا خود اس تک پہنچ گیا۔ بہت سال بعد بھی جب حضرت عبداللہ بن شخیرؓ فرماتے ہیں ’’مَیں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ اُن کی چھاتی سے رونے کی وجہ سے ایسے آواز آرہی تھی جیسے کیتلی میں پانی اُبل رہا ہو‘‘۔(ریاض الصالحین جلد اوّل مترجم از مولانا خیل الرحمٰن نعمانی صفحہ ۲۸۳، حدیث نمبر ۴۵۳)

آپؐ کے غلامِ صادق نے بھی دل ہی سے خدا کو ڈھونڈا۔ ایک صحابی حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ بیان کرتے ہیں کہ طاعون کے دنوں میں ایک رات مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ کو سجدہ ریز اس طرح گڑگڑاتے ہوئے دیکھا جیسے ہنڈیا اُبل رہی ہو۔ قریب ہوکر مَیں نے سُنا تو آپ دعا کررہے تھے کہ اےاللہ، اس عذاب سے دنیا کو بچا لے۔

(حضورانور ایدہ اللہ کا جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۴ء سے اختتامی خطاب۔ الفضل انٹرنیشنل ۶؍ مارچ ۲۰۱۵ء صفحہ ۱۴، ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صاحب صفحہ ۴۱۱-۴۱۲)

اب کرنا کیا ہے؟ دیکھیں باتوں سے تو کچھ نہیں فائدہ ہوگا۔ تقریریں تو بے معنی ہیں اگر ہم ان رستوں پر نہ چلیں جو حضرت خلیفۃالمسیح نے ہمارے لیے متعین فرمائے ہیں۔ اب ہمیں دو کام کرنے ہیں۔ پہلا کام تو یہ ہے کہ ہماری عمر کتنی ہی بڑی ہوجائے خدا کے حضور ہمیں اسی کمزور، عاجز بچے کی طرح حاضر ہونا ہے۔ اپنی کہانی یاد کرنی ہے۔ بھولنی نہیں۔ جب بچپن میں بھوک لگتی تھی تو ہم ماں پر شک تو نہیں کرتے تھے۔ بحث تو نہیں کرتے تھے۔ اس کی موجودگی کا انکار نہیں کرتے تھے اور زیادہ روتے تھے۔ اور اونچا روتے تھے۔ ہمارے پاس ماں تک پہنچنے کی طاقت نہیں تھی لیکن ماں ہماری چیخیں سن کر ہم تک پہنچ جاتی تھی۔ اور چنے کے سائز کے برابر تھا ماں کی رحمت کا منبع،Posterior pituitary۔گلینڈ اللہ تعالیٰ کی رحمت لامتناہی ہے اور وہ فرماتا ہے:لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ وَہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ۔ (الانعام:۱۰۴)’’نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتیں لیکن وہ نظروں تک پہنچتا ہے‘‘۔

نمازوں میں رو رو کر دعائیں مانگنی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر خود استخارہ بھی کرنا ہے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’قبولیت دعا ہستی باری تعالیٰ کی زبردست دلیل ہے‘‘۔(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۶، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)کالجوں کی سائنس پر جتنا وقت ہم دیتے ہیں دعا کی سائنس پر بھی دیں تو ہستی باری تعالیٰ کے سوال حل ہو جائیں۔

دوسرا کام ہے اپنے نمونے سے دنیاوی علم کے ساتھ، اپنے بچوں کو نماز اور قرآن کی طرف بلانا۔ بچو! چلو اس کرکٹ میچ سے پہلے نماز پڑھ لیتے ہیں۔اچھا اس نیٹ فلکس شو کو شروع کرنے سے پہلے قرآن کی تلاوت کرلو۔ یادرکھیں کہ عیسائیت سے دَہریہ ہونے والوں میں اور اسلام سے دَہریہ ہونے والوں میں ایک بڑا واضح فرق ہے۔

عیسائی جب بائبل کو غور سے پڑھتے ہیں تو دہریت کی طرف چلے جاتے ہیں۔

مسلمان جب قرآن کو غور سے نہیں پڑھتے تو دہریت کی طرف چلے جاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں سائنس ہزار ترقی کرلے، قرآن پر غالب نہیں آسکتی۔(ماخوذ از ملفوظات جلد دہم، صفحہ ۳۷۸، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)

اگر ایک محنتی سائنسدان کی طرح کئی سال تک ہمیں ان بنیادی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا ہوجائے، یہ باتیں جن کی طرف حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیں کب سے بُلا رہے ہیں۔ تو اللہ کے فضل سے شاید وہ مقام عطا ہو جائے جس کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ ’’ہم خدا کے ہوجائیں اور خدا ہمارا ہو جائے… ہم خدا کو دیکھیں اور دنیا ہم میں خدا کو دیکھے‘‘۔ (سیر روحانی صفحہ ۴۰۴۔ ایڈیشن ۲۰۱۷ء)تب ان شاء اللہ ہمیں دہریوں سے بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ کیونکہ احمدیت کا مقصد دماغوں کو ہرانا نہیں، دِلوں کو جیتنا ہے۔

یہ راستہ لمبا ہے۔ یہ راہ تنگ ہے پر یہی ایک راہ ہے۔ ہم نے مایوس نہیں ہونا۔ اس لیے اب حضرت مسیح موعودؑ کے پُرامید الفاظ پر اِس گفتگو کو مکمل کرتےہیں۔حضورؑ فرماتے ہیں:’’ایک بچہ جب بھوک سے بیتاب ہو کر دودھ کے لئے چِلاّتا اور چیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آجاتا ہے۔ بچہ تو دعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن اُس کی چیخیں دودھ کو کیونکر کھینچ لاتی ہیں؟ …کیا ہماری چیخیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں تو وہ کچھ بھی نہیں کھینچ کر لاسکتیں؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے۔ مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضِل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۲۹۔ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف وگزاف سے

وآخر دعوانا ان الحمدللّٰہ رب العالمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button