حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

یتیموں کے حقوق

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۶؍ فروری ۲۰۱۰ء)

یتیموں کے بارہ میں یہ بعض احکامات ہیں کہ ان سے کس طرح کا سلوک کرنا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے شروع ہی اس طرح فرمایا ہے کہ وَابْتَلُوْا الْیَتٰمٰی کہ یتیموں کو آزماتے رہو۔ آزمانا کیا ہے؟ کس طرح آزمانا ہے؟

یہی کہ تمہارے سپرد جو یتیم کئے گئے ہیں ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھو۔ انہیں لاوارث سمجھ کر ان کی تربیت سے غافل نہ ہو جاوٴ، ان کی تعلیم سے غافل نہ ہو جاوٴبلکہ انہیں اچھی تعلیم و تربیت مہیا کرو۔ اور جس طرح اپنے بچوں کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہتے ہو، اُن کے بھی جائزے لوکہ تعلیمی اور دینی میدان میں وہ خاطر خواہ ترقی کر رہے ہیں یا نہیں؟ پھر جس تعلیم میں وہ دلچسپی رکھتے ہیں اس کے حصول کے لئے ان کی بھر پور مدد کرو۔ یہ نہیں کہ اپنا بچہ اگر پڑھائی میں کم دلچسپی لینے والا ہے تب اس کے لئے تو ٹیوشن کے انتظام ہو جائیں، بہتر پڑھائی کا انتظام ہو جائے اور اس کی پڑھائی کے لئے خاص فکر ہو اور یتیم بچہ جس کی کفالت تمہارے سپرد ہے وہ اگر آگے بڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے تب بھی اس کی تعلیم پر، اس کی تربیت پر کوئی نظر نہ رکھی جائے۔ نہیں ! بلکہ اس کی تمام تر صلاحیتوں کو بھر پور طور پر اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ اصل حکم ہے۔ اور جتنی بھی اس کی استعدادیں اور صلاحیتیں ہیں اس کے مطابق اس کو موقع میسر کیا جائے کہ وہ آگے بڑھے اور مستقبل میں اپنے پاوٴں پر کھڑا ہو۔ کبھی اسے یہ خیال نہ ہو کہ مَیں یتیم ہونے کی وجہ سے اپنی استعدادوں کے صحیح استعمال سے محروم رہ گیا ہوں۔ اگر میرے ماں باپ زندہ ہوتے تو مَیں اس وقت سبقت لے جانے والوں کی صف میں کھڑا ہوتا۔

پس چاہے کوئی انفرادی طور پر کسی یتیم کا نگران ہے یا جماعت کسی یتیم کی نگرانی کر رہی ہے اس کی تعلیم و تربیت کا مکمل جائزہ اور دوسرے معاملات میں اس کی تمام تر نگرانی کی ذمہ داری ان کے نگرانوں پر ہے۔ اور پھر یہ جائزہ اس وقت تک رہے جب تک کہ وہ نکاح کی عمر تک نہ پہنچ جائیں۔ یعنی ایک بالغ ہونے کی عمر تک نہ پہنچ جائیں۔ ایک بالغ اپنے اچھے اور بُرے ہونے کی تمیز کر سکتا ہے۔ اگر بچپن کی اچھی تربیت ہو گی تو اس عمر میں وہ معاشرے کا ایک بہترین حصہ بن سکتا ہے۔ لیکن یہاں بھی دیکھیں کہ کتنی گہرائی سے ایک اور سوال کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ صرف بالغ ہونا کسی کو اس قابل نہیں بنا دیتا کہ اگر اس کے ماں باپ نے کوئی جائیداد چھوڑی ہے تو اس کو صحیح طور پر سنبھال بھی سکے۔ یہاں عاقل ہونا بھی شرط ہے یعنی ذمہ داری کا احساس اور اس دولت کے صحیح استعمال کا فہم ہونا بھی ضروری ہے۔ اس لئے فرمایا کہ ان کی عقل کا جائزہ بھی لو۔ اگر تو ایک بچہ جوانی کی عمر کو پہنچنے تک اپنی پڑھائی میں بھی اور دوسری تربیت میں بھی، اپنے اٹھنے بیٹھنے میں بھی، چال ڈھال میں بھی عمومی طور پر بہتر نظر آ رہا ہے اس کی عقل بھی صحیح ہے تو ظاہر ہے اس کے سپرد اس کا مال کیا جائے۔ اس لئے کہ وہ حق دار بنتا ہے کہ اس کو اس کا ورثہ لوٹایا جائے۔ وہ خود اس کو سنبھالے یا اس کو آگے بڑھائے یا جو بھی کرنا چاہتا ہے کرے۔ لیکن اگر کوئی باوجود بالغ ہونے کے دماغی طور پر اتنی صلاحیت نہیں رکھتا کہ اپنے مال کی حفاظت کر سکے تو پھر اس کے مال کی حفاظت کرو۔ اس کے نگران کی ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ پھر تم اس مال کی نگرانی کرو۔ اور ضرورت کے مطابق اس کے خرچ ادا کرو۔ لیکن اس عرصہ میں بھی جوں جوں اس کی عمر بڑھ رہی ہے، بعضوں کو ذرا دیر سے سمجھ آتی ہے، اسے مالی امور کے جو نشیب و فراز ہیں وہ سمجھاتے رہو تا کہ وہ کسی نہ کسی وقت پھر اپنا مال سنبھال سکے۔ بعض معاملات میں بعض بظاہر کمزور سمجھ رکھنے والے ہوتے ہیں ہر چیز کوپوری طرح نہیں سنبھال سکتے۔ لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ اس کے باوجود ان کو پیسے کا استعمال اور پیسے کا رکھنا بڑا اچھا آتاہے۔ سوائے اس کے کہ بالکل کوئی فاتر العقل ہو۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بیوقوف ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں جَھلّا ہے۔ لیکن وہ جَھلّا بھی ایسے ایسے کاروبار کرتا ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے نہیں کر رہے ہوتے۔

پھر فرمایا کہ جو نگران بنائے گئے ہیں وہ اس یتیم کے ماں باپ کی جائیداد کے استعمال میں اسراف سے کام نہ لیں۔ یعنی ان یتیموں پر ان کے ماں باپ کی جائیداد یا رقم میں سے اس طرح خرچ نہ کرو جس کا کوئی حساب کتاب ہی نہ ہو۔ اور بہانے بنا کر اس رقم سے ان یتیموں کے اخراجات کے نام پر خود فائدہ اٹھاتے رہو۔ اور یہ کوشش ہو کہ ان یتیموں کی رقم سے جتنا زیادہ سے زیادہ اور جتنی جلدی مَیں فائدہ اٹھا لوں، بہتر ہے۔ کیونکہ اگر وہ بڑے ہو گئے تو پھر ان کی جائیداد ان کے سپردکرنی پڑے گی، یا اگر کوئی ظالم ہے تووہ خود لڑ کر بھی لے لیں گے۔ کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ بڑے ہونے تک لوگ ان کی جائیدادیں سنبھالے رکھتے ہیں اور آخر پھر عدالتوں میں یا قضا میں جا کر جائیداد ان کو واپس ملتی ہے۔ بہرحال فرمایا کہ اگر تمہاری نیتیں خراب ہوئیں تو تمہیں حساب دینا پڑے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کسی بدنیت یا ظالم کے ظلم کو روکنے کے لئے مزید پابندی لگا دی کہ جو امیر ہے اور یتیم کو پالنے کا خرچ برداشت کر سکتا ہے اس کی خوراک، لباس، تعلیم و تربیت کے لئے اچھا انتظام کر سکتا ہے اس کے لئے یہی لازمی ہے کہ وہ یتیم کی جائیداد میں سے کچھ خرچ نہ لے بلکہ اپنے پاس سے اپنی جیب سے خرچ کرے۔ یَسْتَعْفِفْ کا مطلب ہی یہ ہے کہ کبھی دل میں یہ خیال بھی آئے کہ کچھ خرچ کر لوں تو تب بھی اس خیال کو جھٹکے اور کوشش کر کے اپنے آپ کو ایسی حرکت اور ظلم سے بچائے، اور شیطانی خیالات کو نکال کر باہر پھینکے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف جو بھی حکم دل میں آئے گا وہ شیطانی خیال ہو گا۔ پس صاحب ثروت کے لئے تو یہ حکم ہے کہ وہ یتیم کی پرورش اپنی جیب سے کرے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button