متفرق مضامین

نکاح۔ ایک پاک معاہدہ

(سید ذیشان اقبال)

قرآن کریم اوراسلامی تعلیمات کی روشنی میںرشتہ ناطہ کے حوالے سے چند امور

نکاح ایک ایسا بندھن ہے جس میں مرد اور عورت اپنی رضامندی اور خوشی سے بندھتے ہیں

خاوند اور بیوی کا رشتہ ایک خوبصورت اور منفرد تعلق ہے۔ یہ نسل انسانی کو بڑھانے اور اس کی بقا کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فطری تعلق کو نکاح کا مقدس نام دیا۔نکاح ایک ایسا بندھن ہے جس میں مرد اور عورت اپنی رضامندی اور خوشی سے بندھتے ہیں۔ اس تعلق میں کسی قسم کی کوئی زبردستی اور دباؤ مناسب نہیں۔

نکاح کے بعد مرد اور عورت دونوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی ضروریات، جذبات اور احساسات کا خیال رکھیں۔ ایک دوسرے کو سمجھیں اور باہمی مشاورت اور تعاون سے اس رشتہ کو نبھائیںکیونکہ یہ زندگی بھر کا تعلق ہوتا ہے۔ نکاح کے بعد ایک مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی بیوی اور عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہوتا ہے۔

نکاح کے نتیجے میں مرد پر یہ فرائض عائد ہوتے ہیں کہ وہ عورت کے حقوق ادا کرے جن میں حق مہر، نان ونفقہ اور حسن معاشرت سرفہرست ہیں۔ جبکہ عورت پر عائد ہونے والے فرائض میں خاوند کے ازدواجی حقوق کی ادائیگی، عفت اور پاکدامنی اور خاوند کی فرمانبرداری سرفہرست ہیں۔

نکاح کے بعد عورت کا گھر اس کے شوہر کا گھر ہوتا ہے اور شادی کے بعد عورت کو اپنے شوہر کے گھر میں ہی قیام کرنا چاہیے۔ والدین سے ملنا عورت کا حق ہے لیکن اجازت، وقت اور مدت کا تعین خاوند کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’والدین سے ملنا عورت کا حق ہے مگر وقت کی تعیین اور اجازت مرد کا حق ہے مثلاً خاوند یہ کہہ سکتا ہے کہ شام کو نہیں صبح کو مل لینا۔‘‘(فرمودات مصلح موعودؓ در بارہ فقہی مسائل صفحہ ۲۵۱)

رشتہ ناطہ اور شادی کا معاملہ انتہائی حساس ونازک معاملہ ہے۔ یہ دو اجنبی خاندانوں کے ملنے اور مرد و عورت کے ایک پاکیزہ رشتہ میں منسلک ہونے کا نام ہے۔ وہ مرد و عورت جو اس سے قبل ایک دوسرے کو جانتے تک نہ تھے، جن کی عادات و خصائل اور زندگی بسر کرنے کے انداز مختلف تھے، انہیں اب ایک چھت کے نیچے ایک دوسرے کی زندگی کا ساتھی، ہمدرد و غمگسار اور یک جان دو قالب ہوکر زندگی بسر کرنی ہے۔ اس معاملے میں کسی بھی قسم کی دروغ گوئی اور دھوکا بازی نہیں ہونی چاہیے۔ جیسا کہ اس سلسلہ میں قرآن کریم کی واضح تعلیمات موجود ہیں۔نکاح کے موقع پر بھی اس آیت کریمہ کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:(ترجمہ)’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صاف اور سیدھی بات کیا کرو‘‘۔(الاحزاب:۷۱)

اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے درمیان نکاح کا یہ بندھن وضع کر کے اس تعلق کی چند شرائط اور اصول متعین فرمائے ہیں۔ یہ شرائط اور اصول نہایت آسان ہیں لیکن آج کل کے نفسا نفسی کے دور میں نکاح کو ایک مشکل اور پیچیدہ تقریب بنا دیا گیا ہے۔

نکاح کے بعد فریقین ایک دوسرے کو فتح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کوشش میں دروغ گوئی، دھوکا بازی اور مکرو فریب سے بھی اجتناب نہیں کیا جاتا۔ اس کوشش میں کون فتح یاب ہوتا ہے؟ اس کا تو علم نہیں لیکن اس کشمکش میں ’’رشتہ‘‘ ضرور ہار جاتا ہے۔

نکاح ایک پاک معاہدہ ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے مہر اور تعہد نان و نفقہ اور اسلام اور حسن معاشرت شرط ہے اور عورت کی طرف سے عفت اور پاکدامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری شرائط ضروریہ میں سے ہیں اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے سے قابل فسخ ہوجاتے ہیں ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فسخ ہوجاتا ہے…لیکن مرد جیسا کہ اپنے اختیار سے معاہدہ نکاح باندھ سکتا ہے ایسا ہی عورت کی طرف سے شرائط ٹوٹنے کے وقت طلاق دینے میں بھی خود مختار ہے سو یہ قانون فطری قانون سے ایسی مناسبت اور مطابقت رکھتا ہے گویا کہ اس کی عکسی تصویر ہے۔ کیونکہ فطری قانون نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ ہر یک معاہدہ شرائط قرار دادہ کے فوت ہونے سے قابل فسخ ہوجاتا ہے اور اگر فریق ثانی فسخ سے مانع ہو تو وہ اس فریق پر ظلم کررہا ہے جو فقدان شرائط کی وجہ سے فسخ عہد کا حق رکھتا ہے۔ جب ہم سوچیں کہ نکاح کیا چیز ہے تو بجز اس کے اور کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوتی کہ ایک پاک معاہدہ کی شرائط کے نیچے دو انسانوں کا زندگی بسر کرنا ہے اور جو شخص شرائط شکنی کا مرتکب ہو وہ عدالت کی رُو سے معاہدہ کے حقوق سے محروم رہنے کے لائق ہوجاتا ہے اور اسی محرومی کا نام دوسرے لفظوں میں طلاق ہے‘‘۔(آریہ دھرم،روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ،۳۸،۳۷)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فتویٰ سے یہ امر ظاہر و باہر ہے کہ معاہدہ نکاح کی شرائط پوری کرنا مرد و عورت دونوں پر یکساں طور پر ضروری ہے وگرنہ یہ معاہدہ قابل فسخ ہو جائے گا۔ اگر شرائط شکنی مرد کی طرف سے ہوتو عورت قاضی کے روبرو معاملہ پیش کرکے فسخ نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ اس صورت میں وہ معاہدہ کے حقوق کی بھی حقدار قرار پائے گی لیکن شرط یہ ہے کہ وہ قلیل ترین عرصہ میں قاضی سے رجوع کرے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں:’’اگر خاوند ظلم کرتا ہو اور حقوق میں روک ڈالتا ہو اور قضاء میں جانے نہ دے تو پھر عورت بلا اجازت ِشوہر باہر نکل سکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ قلیل ترین عرصہ میں وہ اس کے خلاف آواز اٹھائے مثلاً ۲۴ گھنٹے کے اندر… ہمارے ملک میں یہ بالکل غلط طریق رائج ہے کہ عورت خاوند سے لڑ کر اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاتی ہے اور وہاں بیٹھی رہتی ہے۔ والدین اس کی ناحق طرفداری کرتے ہیں اور فساد بڑھتا ہے۔ دونوں کا معاملہ شریعت کے مطابق ہونا چاہیے۔‘‘(فرمودات مصلح موعودؓ دربارہ فقہی مسائل صفحہ ۲۵۱)

اسی طرح اگر شرائط شکنی عورت کی طرف سے ہوتو مرد اس صورت میں طلاق دینے میں خود مختار قرار دیا گیا ہے۔

طلاق کو معاہدہ نکاح کے حقوق سے محرومی کا دوسرا نام قرار دیا گیا ہے۔فریقین میں سے جو بھی معاہدہ نکاح کی شرائط شکنی کا مرتکب ہوگا وہ عدالت کی رو سے بھی معاہد ہ کے حقوق سے محروم رہنے کے لائق قرار پاجائے گا۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی فریق کی طرف سے معاہدہ کی شرائط بھی پوری نہیں کی جاتیں اور وہ معاملہ معلّق کرکے بیٹھ جاتا ہے۔ مثلاً مرد عورت کو نان و نفقہ دینے سے انکار کرے، اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نہ آئے یا اسے والدین سے ملنے سے کلیۃً روک دے۔ ایسی صورت حا ل میں عورت کا حق ہے کہ وہ مرد کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے اور کسی سطح پر اس معاملے کو اٹھائے۔

اسی طرح اگر عورت خاوند کے حقوق سے انکار کرے اور اس سے ہر قسم کا تعلق اور رابطہ ختم کرکے میکے بیٹھ کر معاملہ معلق کردے تو خاوند عورت کو معاہدہ نکاح کے حقوق سے محروم کرنے میں خود مختار ہے اور اسی محرومی کا نام دوسرے لفظوں میں طلاق ہے۔

ضروری نہیں کہ کسی فریق کی طرف سے تعلق توڑنے اور صلح پر عدم آمادگی کااعلان تحریری یا معیّن الفاظ میں ہو۔جیسے کہ رسول کریمﷺ نے ایک عورت کے محض اعوذ باللّٰہ منککہنے کو ہی خلع قرار دے کر اسے طلاق دے دی تھی۔

ثابت ہوا کہ عورت کی طرف سے پہل ہو یہ خلع قرار دی جائے گی نہ کہ خاوند کی طرف سے آزادانہ طلاق۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس ضمن میں فرمایا کہ ’’دیکھویہ چیز ہے جو اسلام سکھاتا ہے کہ اس کی درخواست کو اور اس کے اس فقرہ کو ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلع سمجھا اور اسے خلع قرار دے دیا۔‘‘(فرمودات مصلح موعودؓ در بارہ فقہی مسائل صفحہ ۲۵۰)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو رشتہ ناطہ کے معاملات میں قرآن کریم اوراسلامی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کماحقہ توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button