متفرق مضامین

الفضل اور استحکام خلافت

(’ایچ ایم طارق‘)

جماعت احمدیہ کا اخبارالفضل اپنےآغاز۱۹۱۳ء سے ہی خلافت کے استحکام کی خاطرسلطان نصیر ہونے کا حق ادا کرتا چلا آیا ہے۔اس کےبانی ایڈیٹرحضرت مرزا محموداحمدصاحبؓ نے جماعت میں پیدا ہونے والے اندرونی و بیرونی ہر فتنہ کا پوری قوت اورکمال حکمت عملی سے مقابلہ کیا۔الفضل کے اجرا کے معاً بعدخلافت اولیٰ کے زمانہ میں جماعت کے اندر پیدا ہونے والا پہلا فتنہ انکار خلافت کا تھا جس کے رد ّکے لیے الفضل نے عظیم خدمت سر انجام دی اور خلافت کی حقیقی عظمت اور اصلی شان جماعت کے دلوں میں قائم کی۔ الفضل کے پہلے صفحہ پر مدینۃ المسیح اور ایوان خلافت کے عنوان کے تحت حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی مصروفیات کے بارےمیں رپورٹ شائع ہوتی تھی جو احباب جماعت کا خلیفہ وقت سے مضبوط رابطہ استوارکرنے کا ذریعہ ہوتی۔

انتخاب خلافت ثانیہ

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات پربھی الفضل جماعت سے رابطہ کا ایک کردار ادا کرتا رہا۔۱۸؍مارچ ۱۹۱۴ءکے الفضل میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی آخری وصیت،تجہیز و تکفین اور خلافت ثانیہ کے انتخاب کے حالات بھی ریکارڈ ہیں۔

حضرت مرزا محموداحمدصاحب کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد ادارت الفضل کی ذمہ داری حضرت مرزا بشیراحمد صاحب نے سنبھالی۔

الفضل کو یہ اعزاز بھی نصیب ہے کہ اس نے خلافت ثانیہ سے لے کر خلافت خامسہ تک نہ صرف ہر خلافت کے انتخاب کی کارروائی ریکارڈ کی بلکہ ہر نو منتخب خلیفہ کا جماعت سے پہلا خطاب بھی شائع کر کے ہمیشہ کے لیے تاریخ میں محفوظ کر دیا۔چنانچہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۱۴ء کے الفضل میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی پہلی یاد گار تقریر ان الفاظ میں موجود ہے:’’تم نے یہ بوجھ مجھ پر رکھا ہےتو سنو اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیےمیری مدد کرو اور وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے فضل اور توفیق چاہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور فرمانبرداری میں میری اطاعت کرو۔

میں انسان ہوں اور کمزور انسان۔مجھ سے کمزوریاں ہوں گی تو تم چشم پوشی کرنا۔تم سے غلطیاں ہوں گی۔ میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر سمجھ کر عہد کرتا ہوں کہ میں چشم پوشی اور در گزر کروں گا اور میرا اور تمہارا امتحد کام اس سلسلہ کی ترقی اور اس سلسلہ کی غرض و غایت کو عملی رنگ میں پورا کرنا ہے…اب جو تم نے بیعت کی ہے اور میرے ساتھ ایک تعلق حضرت مسیح موعود کے بعد قائم کیا ہےاس تعلق میں وفا داری کا نمونہ دکھاؤاور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھو میں ضرور تمہیں یاد رکھوں گا۔ہاں یاد رکھتا بھی رہاہوں…مجھے کبھی پہلے بھی دعا کے لیے کوئی ایسا جوش نہیں آیا جس میں احمدی قوم کے لیے دعا نہ کی ہو۔‘‘(الفضل ۲۱؍مارچ ۱۹۱۴ء)

تجدید بیعت خلافت اور اس کی ضرورت

الفضل کی رپورٹ کے مطابق خلافت ثانیہ کے انتخاب کے موقع پر ہی چودہ سو کے قریب افراد بیعت کر چکے تھے۔پھر ہر نماز کے بعد بیعت کا سلسلہ جاری رہا اور بیرونی جماعتوں سے بذریعہ تارو خط بیعت کی درخواستیں موصول ہوتی رہیں۔بعد میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلیفہ وقت کی دعاؤں کے طفیل الفضل کی رپورٹ کے مطابق ایک دن میں باہر سے آمدہ بیعتوں کی تعداد ۱۴۰۰؍ تک پہنچ گئی۔خلافت کا یہ استحکام بلا شبہ مومنوں کے ازدیاد ایمان کا موجب ہوا۔جس میں الفضل نے نمایاں کردار ادا کیا۔

چنانچہ الفضل نے احباب جماعت کو خلیفہ وقت کی بیعت کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے راہنمائی کی کہ یہ بیعت واجب ہے تا کہ اہل لاہور کی پھیلائی ہوئی اس غلط فہمی کو دور کیا جائے جو ایک مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کو کافی قرار دے کر کسی اور بیعت کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔الفضل نے اس موقع پر بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا یہ ارشاد تمام احمدیوں کی راہنمائی کے لیے شائع کیا کہ’’کوئی یہ نہ سمجھے کہ جب ہم حضرت مرزا غلام احمد کو مسیح موعود اور مہدی مسعود مانتے ہیں تو اب علامہ نور الدین کی بیعت کی کیا ضرورت ہے یاد رکھو کہ کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس میں وحدت نہ ہو اور وحدت بغیر اس کے نا مکمل ہے جب تک کہ ایک بزرگ کے تحت میں ہو کر کام نہ کیا جاوے…کسی انجمن کے عہدیدار،کسی جگہ کے امام کا بیعت کر لینا کافی نہیں ہو سکتا۔ہر ایک کو بیعت کے لیے خط لکھنا چاہئے‘‘۔(الفضل ۲۱؍مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ۳)

مقام خلافت کی پاسداری

خلافت ثانیہ کے آغاز پر ہی الفضل نے حضرت خلیفۃ المسیح کی حیثیت اور پوزیشن کا مسئلہ بھی کھول کر واضح کر دیا جبکہ اخبار بدر ۳۰؍ دسمبر ۱۹۰۹ء میں حضرت خلیفۃ المسیح کو محض انجمن کا پریذیڈنٹ ظاہر کرنے کی مذموم حرکت کی گئی۔حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات پر بھی جو ٹریکٹ اہل پیغام نے شائع کیا اس میں خلافت کی عدم ضرورت کا سوال اٹھایا گیا تھا۔چنانچہ ۶؍جنوری ۱۹۱۰ء کے بدر میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی راہنمائی میں شائع ہونے والے اس مضمون کا وہ حصہ بھی الفضل نے اس موقع پر پھر شائع کیا کہ’’آپ تمام قوم کے مسلمہ امیر ہیں اور صدر انجمن یا کوئی اور انجمن یا گروہ احمدیہ ان کی کثرت رائے کے فیصلہ پر آپ ایسے ہی حاکم و مختار ہیں اور ہمارے مطاع جیسے کہ مسیح موعود تھے…ان کا فیصلہ آخری فیصلہ سمجھا جائے۔نظام وحدت کے لیے یہ امر ضرروی ہے کہ ہماری رائیں اور تجاویز اور فیصلے ایک امیر اور امام کے ماتحت ہوں‘‘۔

فتنہ انکار خلافت اور اس کا ردّ

جماعت مبائعین کے لیے خلافت ثانیہ کے قیام پر انکار خلافت کا فتنہ بہت نازک اور ہلا کر رکھ دینے والا تھا۔جماعت مبائعین نے اسے جس شدت سے محسوس کیا اس کا اندازہ ان دنوں الفضل میں شائع ہونے والے ان مراسلات سے بھی ہو سکتا ہے۔بطور نمونہ مکرم عبد الحمید صاحب ریلوے آڈیٹر کا ایک خط ملاحظہ ہو۔انہوں نے لکھا:’’احمدیہ قوم پر جو ابتلا اس وقت آیا ہے وہ اپنے رنگ میں بالکل نیا ہے اور اس وجہ سے زیادہ رنجیدہ معلوم ہو رہے تھے۔ہم غیر احمدیوں سے تو ہر طرح کی باتیں سننے کے عادی تھے لیکن اس وقت ایک ایسا گروہ اٹھ کھڑا ہوا ہے جو اسی جماعت کے چند ممبروں کا جتھا ہے اس کے ممبر مختلف شہروں میں دورہ کر کے لوگوں میں غلط فہمی پھیلا رہے ہیں…بعض احباب تو اپنے شہر کے کسی بڑے آدمی کا انتظار کر رہے ہیں کہ اگر وہ بیعت کر لیں تو ہم بھی کر لیں گے۔یہ بڑی غلط اور خطرناک راہ ہے۔ہر شخص اپنے ایمان کا خود ذمہ دار ہوتا ہے اس میں کسی دوسرے کی تقلید ہر گز نہیں کرنی چاہئے۔‘‘ (الفضل ۲۵؍مارچ۱۹۱۴ء)غیر مبائعین کی طرف سے اپنے ہفت روزہ پیغام صلح میں جو اعتراضات کیے جاتے تھے ان کے جوابات کا بھی الفضل نے بھر پور اہتمام کیا خاص طور پر منکرین خلافت کا یہ اعتراض کہ رسالہ الوصیت کے مطابق خلیفہ کی ضرورت نہیں اور اگر ہو تو اس کی بیعت کی حاجت نہیں اور ایک وقت میں متعدد خلفاء ہو سکتے ہیں اور صدر انجمن کے لیے اس کی اطاعت ضروری نہیں وغیرہ۔ان اعتراضات کے جواب میں الفضل نے خود ان لوگوں کے مسلمات شائع کر کے انہیں لاجواب و ساکت کیا۔

۳۰؍مارچ ۱۹۱۴ء کے الفضل میں بھی چند غور طلب باتیں کے زیر عنوان اس زمانہ میں اٹھنے والے تمام اعتراضات کے جواب دیے گئے ہیں۔مولوی محمد علی صاحب اپنے ذاتی مسلک کے مطابق کہ خلافت سے انکار کر کے وحدت کو قائم کرنے کے لیے محض امیر ہونا کافی ہے پر متفق تھے۔حالانکہ رسالہ الوصیت میں خلافت کا ذکر تھا پھر خود حضرت خلیفہ اولؓ کی بیعت بھی بطور خلیفہ کے کی گئی اور آپ کی وصیت تھی کہ میرا جانشین ہو۔پیغام صلح لاہور کے مختلف شماروں میں جو اعتراضات خلافت اور خلیفہ وقت کی ذات پر کیے جاتے تھے ان کے خلاف الفضل نے علم بلند کیے رکھا۔الفضل ۳۰؍مارچ ۱۹۱۴ء میں پیغام صلح کے کئی نمبروں پر ریویو کیا گیا ہے اور اس ہولناک فتنہ میں واقعی استحکام خلافت کی خاطر جماعت کا سلطان نصیر بن کے دکھایا اور ایک تابناک تاریخ رقم کی۔

خطبات امام

الفضل ہردورخلافت میں امام جماعت احمدیہ کی ترجمانی کرتے ہوئے خلفاء کے علمی و تربیتی خطبات افراد جماعت تک پہنچانے کا ذریعہ بنتا رہا۔ خلافت ثانیہ کے آغاز میں سب سے زیادہ ضرورت احباب جماعت سے مضبوط رابطے کی تھی جس کا حق الفضل نے ادا کیا۔اور نہ صرف جماعت مبائعین کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کر کے دکھایا بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے خطبات جمعہ کو شائع کر کے احباب جماعت کی استقامت اور ازدیاد ایمان کے سامان کیے جو احمدیوں کے لیے بڑی ڈھارس بنتے تھے۔خلافت خامسہ تک الفضل یہ خدمت مسلسل ادا کرتا چلا آیا ہے۔

خلافت ثانیہ میں حضرت مرزا بشیراحمدصاحبؒ کی زبردست علمی سر پرستی اور حضرت مولانا ظہور الدین اکمل صاحب کے تعاون سے یہ اخبار حضرت مصلح موعودؓ کے زیر نگرانی پروان چڑھا۔الفضل کے ۲۸؍مارچ ۱۹۱۴ء کے پرچے میں حضرت خلیفہ اولؓ کی وہ تقریر شائع کی گئی جو آپ نے احمدیہ بلڈنگز لاہور میں خلافت کے موضوع پر فرمائی تھی اور آپ کی زندگی میں بدر کے ۴ تا ۱۱؍جولائی ۱۹۱۲ء کے پرچہ میںشائع ہو چکی تھی جس میں آپ نے قرآن و سنت کے مطابق فرمایا خلیفہ خدا بناتا ہے اور انکار کرنے والے رافضی ہیں۔خلافت کے استحقاق کے سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے کیا خوب فرمایا:’’خلافت حق کس کا ہے۔ایک میرا نہایت ہی پیارا محمود ہے جو میرے آقا اور محسن کا بیٹا ہے۔پھر دامادی کے لحاظ سے نواب محمد علی خان کو کہہ دیں پھر خسر کی حیثیت سے ناصر نواب صاحب کا حق ہے یا (ام المومنین) کا حق ہے جو حضرت صاحب کی بیوی ہیں یہی لوگ ہیں جو خلافت کے حقدار ہو سکتے ہیں…مجھے بدر کے ایک فقرہ سے بہت رنج ہوا کہ کوئی مرزا صاحب کا رشتہ دار نور الدین کا مرید نہیں یہ سخت غلطی ہے جو کی گئی ہے۔مرزا صاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے۔میں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود،بشیر شریف،نواب ناصر، نواب محمد علی خان کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا…ان کو خدا کی رضا کے لیے محبت ہے۔بیوی صاحبہ کے منہ سے بیسیوں مرتبہ میں نے سنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں۔ایڈیٹر البدر کا فرض تھا کہ وہ ایسی تحریر کی فوراً تردید کرتا اور لکھ دیتا کہ یہ جھوٹ ہے۔‘‘(الفضل ۲۸؍مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ۵)۱۹۱۲ء کی اس تحریر سے بھی الفضل کے اجرا کی ضرورت کا خوب احساس ہوتا ہے جب اخبار بدر پر اس کے ایڈیٹر سے زیادہ مالکان کا اختیار غالب دکھائی دیتا تھا۔الغرض الفضل ان تمام وساوس کا ازالہ کر رہا تھا جو فتنہ منکرین خلافت کے نتیجہ میں پیدا ہو رہا تھا۔

خلافت کے مقابل ایک اور فتنہ اور اخبارمباہلہ کارد

۱۹۳۰ء میںبعض جماعت مخالف قوتوں نے گہری سازش کے ساتھ احباب جماعت کو خلیفہ وقت سے بدظن کرنے کا ارادہ کیا اور جماعت میں ایک دوسرے فتنے نے سر اٹھایا جسے مستریوں کا فتنہ کہتے ہیں۔اس کے ذریعہ دشمن نے خلافت کے ادارہ کی بجائے خلیفہ وقت کی ذات کو حملہ کا نشانہ بنایا تھا۔جس کی پشت پناہی بعض فتنہ پر داز مرتدین کر رہے تھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت کی برکت اور دعاؤں کے طفیل یہ فتنہ اور سازش نا کام ہوئی تا ہم اس میں الفضل نے بھی جو اس وقت ہفتہ وار کی بجائے ہفتہ میں چار دن شائع ہونے لگا تھا،نہایت اہم کردار ادا کیا اور احباب جماعت کو دشمن کے منصوبوں سے باخبر رکھتے ہوئے جہاں دعاؤں کی تحریک کی وہاں جماعت کی نمائندگی میں پر زور قلمی احتجاج کرتے ہوئے اس فتنہ کا پوری قوت سے مقابلہ کیا جس کے نتیجہ میں مختلف جماعتوں کی طرف سے خلافت کے ساتھ محبت و وفا اور فتنہ پردازو ں کے خلاف احتجاجی متفقہ قراردادیں اور مراسلے پاس ہو کر الفضل میں شائع ہونے لگے۔

دراصل مستری عبدالکریم اور اس کے بعض ساتھیوں نے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی مقدس ذات،آپ کے اہل خانہ پر نہایت اوچھے اور شرمناک حملے کرنے کی جسارت کی اور اس پر مستزاد یہ کہ مخالف اخبار ات کے ذریعہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ انہیں قتل کرنے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد انہیں قادیان بدر کر دیا گیا ہے۔ان لوگوں نے حضرت خلیفۃ المسیح کی ذات اور آپ کے مقدس خاندان کے خلاف ہر قسم کی بیہودہ ہرزہ سرائی اور ہزلیات سے کام لیتے ہوئے شرارت کی حد کر دی اور اپنے بے سرو پا،کمینے الزامات میں مباہلہ کے نام سے ایک اخبار بھی جاری کیا جس میں نہایت ہٹ دھرمی اور بے حیائی سے غیر اخلاقی اور غیرشرعی مطالبات کیے گئے اور کہا کہ اگر ان کے الزامات غلط ہیں تو خلیفہ وقت ان سے مباہلہ کر لے۔اپنی انہی شرارتوں کی وجہ سے ایک طرف وہ قادیان میں رہنے والے احمدیوں کو انگیخت کر کے فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگے اور یہاں تک دیدہ دلیری کی کہ ان کے بعض اوباش ساتھی فساد کے ارادہ سے بیت اقصیٰ میں امام جماعت احمدیہ کے خطبہ جمعہ کے دوران سوچی سمجھی سازش کے تحت شرارتیں کرنے لگے۔(تاریخ احمدیت جلد ۵ صفحہ۱۸۵)

دوسری طرف دیگر جماعت مخالف احراری نواز اخبارات زمیندار وغیرہ کو اپنا ہم نوا بنا کر یہ جھوٹے الزام شائع کروائے کہ خلیفہ قادیان اپنی جماعت کو مشتعل کر کے ہمیں قتل کروانا چاہتے ہیں اور ہمیں قادیان میں اپنے ملکیتی گھروں میں رہنے کی اجازت نہیں۔

مستری فتنہ کا سد باب

الفضل نے۱۸؍اپریل ۱۹۳۰ء کے پرچہ میں اس ظالمانہ سازش کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے اپنے اداریہ کا عنوان دیا کہ کمینی اور شرمناک شرارتیں برداشت نہیں کی جا سکتیں۔گورنمنٹ اور فتنہ انگیز کان کھول کر سن لیں۔انہی دنوں اس فتنہ انگیز مہم کے خلاف احتجاجی جلسوں کا ایک سلسلہ بھی شروع ہوا۔الفضل نے قادیان کے کھلے میدان میں ہونے والے ایک احتجاجی جلسہ کی روئیداد ایڈیٹر جناب غلام نبی صاحب کی طرف سے شائع ہوئی۔جس میں بطور خاص شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب کی صدارتی تقریر جو اس موقع پر ریکارڈ کروانے کے لیے تحریر کی گئی تھی شائع کی۔جس میں فاضل مقرر نے واشگاف لفظوں میں سازش اور اس کی سرپرستی کرنے والوں کو کھول کر سنا دیا کہ امتحان کے اس وقت میں ہر مخلص احمدی غیرت دینی کا مظاہرہ کرے گا اور پولیس کے غیر منصفانہ رویے یعنی فتنہ پردازوں کو پکڑنے کی بجائے احمدیوں پر گرفت کرنے پر احتجاج کرتے ہوئے احمدیوں کوتحریک کی گئی کہ ہر قربانی کے لیےتیار ہو جائیں۔

الفضل کی بر وقت کاوشوں کے نتیجے میں بعض امن پسند اور حق گو اخبارات نے اخبار مباہلہ اور اس کے حامی اخبارات کے رویہ پر کڑی تنقید کی۔الفضل نے ان اخبارات کے تراشے بھی شائع کرنا شروع کیے۔چنانچہ ۲۰؍ اپریل ۱۹۳۰ء کے الفضل میں اخبار تازیانہ ۱۷؍ اپریل پر تبصرہ شائع ہوا جس میں انہوں نے اخبار مباہلہ کو اپنی تحریروں میں اعتدال اور شرافت پیدا کرنے اور اناپ شناپ لکھنے کی مذموم روش کا قلع قمع کرنے کی طرف توجہ دلائی اور تمام اخبار نویسوں کو تحریک کی کہ اس قسم کے فسادی لوگوں کی اصلا ح کی طرف توجہ دیں۔اس طرح الفضل نے غیر از جماعت شرفا کے وہ احتجاجی مراسلے بھی شائع کیے جن میں مستریوں کے گندے پروپیگنڈے سے نفرت کا اظہار کیا گیا تھا۔

امر واقعہ ہے کہ الفضل نے اس دور میں خلیفہ وقت کی ذات پر ہونے والے پے در پے حملے کے آگے سینہ سپر ہو کر چومکھی لڑائی لڑی۔کہیں وہ اخبار مباہلہ کا رد کر رہا تھا اور کہیں اخبار زمیندار کی کارروائیوں کے رد میں مصروف ہو کر اس کے ایڈیٹر ظفر علی خان کی گیدڑ بھبکیوں کا جواب دے رہا تھا اور کہیں جماعت کے مخالف دیا نندی اخباروں کی احمدیوں سے بائیکاٹ کی تحریک اور فتنہ کا سد باب کر رہا تھا۔

غیرت خلافت اور مستریوں کو دعوت مباہلہ

جہا ں تک مستریوں کے مباہلہ کی سازش کا تعلق ہے وہ یہ جانتے ہوئے کہ اخلاقی الزامات کے ردّ کا شرعی طریق مباہلہ نہیں۔یہ دعوت دے کر واہ واہ کروا کر بلا مقابلہ فاتح بننا چاہتے تھے۔الفضل نے ان کی اس سکیم کو بھی ملیا میٹ کر دیا اور خود انہیں ایک دعوت مباہلہ دے کر ان کو ناکام و نامراد کر دیا۔چنانچہ الفضل نے اپنی ۲۷؍اپریل کی اشاعت میں یہ عنوان سجایا کہ ’’آؤ مباہلہ کر لو‘‘او ر ان مباہلہ کرنے والوں کو جو امام جماعت احمدیہ کے سچے خلیفہ ہونے پر مباہلہ کر لیں اور اگر حضور کی ذات کے بارے میں ہی مباہلہ کرنا چاہتے ہیں تو اس سے بھی انکار نہیں وہ سامنے آئیں ہم میں سے ان کے پایہ کے اتنے ہی افراد اس امر پر مباہلہ کرنے پر بھی تیار ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کی ذات ان تمام الزامات سے پاک ہے جو یہ مستری لگا رہے ہیں۔

الفضل نے اپنی اسی اشاعت میں قادیان کی لوکل جماعت کی طرف سے ایک عام دعوت مباہلہ کا بھی ذکر کیا ہے جسے باقاعدہ شائع کر دیا گیا تھا مگر مباہلہ کی رٹ لگا نے والوں میں سے کسی کو بھی مد مقابل آنے کی جرأت نہ ہوئی۔

فتنہ احرار میں الفضل کا کردار

تحریک احرار در اصل سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی بطور صدر کشمیر کمیٹی غیر معمولی خدمات کا مخالفانہ رد عمل تھا جس کے نتیجہ میں کشمیریوں میں خصوصاً اورمسلمانوں میں عموماً آپ کی ہر دل عزیزی اور جماعت کی مقبولیت پیدا ہوئی تھی۔اس کے ردعمل کے طور پرمجلس احرار نے ۱۹۳۰ء میں جماعت مخالف کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔جس کا اظہار چودھری افضل حق مفکر احرار نے سرسکندر حیات کی کوٹھی پر حضرت مصلح موعودؓ کی موجودگی میں کر دیا تھا کہ ہم احمدیت کو جڑ سے اکھاڑ دیں گے۔اس کے علاوہ تحریک احرار کے اور بھی کئی سیاسی مقاصد تھے۔اس سازش پر عمل درآمد کے لیے حکومتی افسران کی سرپرستی میں ایک منصوبہ تیار کیا گیا۔اس سلسلہ میں قادیان میں ڈیڑھ مرلہ کی جگہ حاصل کر کے فتنہ کا اڈا بنانے کے لیے احرار مسجد سے کام کا آغاز کیا گیا۔پھر ۱۹۳۳ء کے جماعت کے جلسہ سالانہ کے بعد احرار نے قادیان میں اپنی مخالفانہ کانفرنس کی جس کا مقصد قادیان کے پر امن احمدیوں کو اشتعال دلا کر فساد پیدا کرنا تھا۔مگر اس میں کامیابی نہ ہوئی۔دوبارہ اکتوبر ۱۹۳۴ء کے آخر میں احرار نے کانفرنس کا پروگرام بنایا جس کے بارے میں مستند اطلاعات تھیں کہ اس دفعہ ان کا ارادہ بہر حال فتنہ پیدا کرنا ہے۔اس موقع پر بعض حکمتوں کے تحت اخبار الفضل وغیرہ میں احراریوں کی کارروائیوں کے متعلق عمداً کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور احرار کے اس فتنہ انگیز جلسہ کے بارےمیں جماعت کے امام سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی بھی یہی ہدایت تھی کہ ہمیں کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ شور کریں۔تاہم الفضل میں سیدنا مصلح موعودؓ کے خطبات جمعہ شائع ہوتے رہے جن میں احراری سازشوں سے پردہ اٹھایا جاتا تھا۔الفضل مرکز سلسلہ قادیان کا مرکزی نمائندہ تھا۔جب جماعتی پالیسی کے مطابق الفضل نے کچھ عرصہ تک احراری سازش کے بارےمیں کچھ نہ لکھا تو باہر کی جماعتوں سے لوگوں کے خطوط آنے لگے کہ ہم حیران ہیں کہ الفضل میں احراری فتنہ کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہوتی۔ان جماعتی احباب کو صبر کی تلقین کی جاتی کہ وہ مرکزی پالیسی پر اعتماد کریں۔ (ملخص از خطبہ جمعہ ۲۸؍اکتوبر۱۹۳۴ء)

چنانچہ ماہ اکتوبر ۱۹۳۴ء سے الفضل میں احراری شورش کے خلاف مختلف طبقہ ہائے زندگی کی طرف سے بیزاری اور نفرت کے حقیقی اظہار پر مشتمل بیانات شائع ہونے لگے۔۴؍اکتوبر کے الفضل میں مسلمان زمینداروں کی طرف سے بدو ملہی سیالکوٹ میں ہونے والے جلسہ اور اس میں احراریوں کے ریزو لیوشن سے بیزاری کا کھلم کھلا اظہار کیا گیا۔الغرض الفضل نے اس محاذ پر احرار کا مقابلہ کرتے ہوئے اخبار زمیندار میں شائع ہونے والے اعتراضات کے جوابات کا سلسلہ شروع کیا اور ۷؍اکتوبر کے الفضل میں اخبار زمیندار کے ایسے اعتراضات کے با لتفصیل جواب دیے گئے۔

۱۹۳۴ء میں تحریک احرار کی مخالفانہ لہر کے بعد الفضل کی اہمیت اور ضرورت کو زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہوئے ۸؍مارچ ۱۹۳۵ء سے الفضل کو سہ روزہ کی بجائے روزنامہ کر دیا گیا اور جماعت اس کی برکات سے زیادہ مستفیض ہونے لگی۔

تقسیم ملک اور پاکستان سے الفضل کااجرا

تقسیم ملک کا سال ۱۹۴۷ء ملک و قوم کے دیگر افراد کی طرح احمدیوں پر بھی ایک سخت ابتلا اور کٹھن امتحان کا سال تھا۔جماعت احمدیہ کے امام حضرت سیدنا محمودؓ کی دوربین کی نگاہ نے اس نازک وقت کے خطرات بھانپ کر دعا اور تدبیر کے ذریعہ احمدی قوم کو اس نقصان سے بچا لیا جس کا سامنا ہجرت کے وقت ہندوستان کے دیگر مسلمانوں کو کرنا پڑا۔قادیان سے الفضل کا آخری پرچہ ۱۵؍ ستمبر ۱۹۴۷ء کو جاری ہوا۔ہجرت کے بعد دیگر اہم ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت الفضل کا پاکستان میں احیا ءتھا۔سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس بنیادی کام کو اتنا اہم اور مقدم سمجھا کہ قادیان سے الفضل کے بند ہوتے ہی اسی روز ۱۵؍ ستمبر ۱۹۴۷ء سے لاہور سے روزنامہ الفضل جاری ہو گیااور جناب روشن دین تنویر صاحب ہی اس کے ایڈیٹر رہے۔اگرچہ الفضل نے مسلمانوں کے علاوہ سکھوں اور ہندوؤں کی بھی راہنمائی کی مگر صرف احمدی ہی اس سے فیض یاب ہو کر کامیاب اور کامران ہوئے۔

امام جماعت کے احمدیوں سے رابطہ کا ذریعہ

تقسیم ملک کے پر آ شوب وقت میں الفضل کی بڑی خدمت اپنے امام کی آواز اور نصائح کو احمدیوں تک پہنچانے کے اہم فریضہ کی خوش اسلوبی سے ادائیگی تھی۔۱۶؍ جون کے الفضل میں سیدنا حضرت مصلح موعوؓدکا خطبہ جمعہ،دعاؤں پر زور دینے کے حوالے سے شائع ہوا جس میں تمام احمدی بالغ مرد اور عورتوں کو نماز تہجد کے لیے اٹھنے کی تحریک کی گئی کہ اللہ تعالیٰ نا قابل برداشت فتنوں سے بچائے جن کے دروازے تقسیم کے نتیجہ میں تمام قوموں پر کھلنے والے تھے۔اس موقع پر سیاسی راہنماؤں کو سمجھ بوجھ سے کام لے کر اپنے لوگوں کو نقصان سے بچانے کی تلقین کی گئی۔

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے الفضل میں شائع شدہ خطبات ملک و قوم کے لیے راہنما ثابت ہوئے تھے،۱۵؍اگست کا خطبہ جمعہ ۱۶؍ اگست کے الفضل میں شائع ہوا جس میں پاکستان اور انڈیا کو عدل و انصاف قائم رکھنے کی طرف متوجہ کیا گیا۔

فسادات ۱۹۵۳ء اور الفضل کا کردار

۱۹۵۲ء میں احرار کی باسی کڑی میں پھر ابال آیا۔سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے الفضل کو اس دور کے فتنوں اور قومی مسائل پر زیادہ لکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایڈیٹر الفضل کو یہ ہدایت فرمائی کہ مختصر ایڈیٹوریل کے بعد مولوی دوست محمد شاہد صاحب کے لکھے ہوئے شذرات شائع کریں۔یہ دراصل احرار کی سازش کے لیے دفاعی کارروائی تھی۔پھر اسی دوران الفضل میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے افاضات اور خطبات جمعہ شائع ہوتے رہے جن سے جماعت کو آنے والے ابتلا کے لیے روحانی و جسمانی ہر دو لحاظ سے تیار کرنا مقصود تھا اور جن کا آغاز ۱۹۵۲ء سے ہی ہو گیا تھا۔جن میں جماعت کو سالانہ پروگرام بنا کر کام کرنے،محاسبہ نفس،اخلاق فاضلہ کے قیام کے لیےجدو جہد،خدا سے زندہ تعلق کے لیے دعاؤں کی پر زور تحریکات اور مسئلہ اقلیت سے متعلق ایک خطبہ قابل ذکر ہے۔۱۹۵۳ء کے آغاز میں جہاں دشمن کی تحریک مخالفت میں شدت آئی۔الفضل نے اس کا پوری قوت کے ساتھ دفاع کرنے میں بھر پور کردار ادا کیا۔چنانچہ اس سال کے آغاز میں ہی پیش آمدہ ابتلا اور مخالفت کی مناسبت سے سیدنا مصلح موعودؓ نے (۱)نفلی روزے رکھنے(۲)اشاعت دین(۳)اور دعاؤں کے علاوہ(۴)دشمن کے جھوٹے پراپیگنڈا کے مقابل پر سچ بولنے کی تحریک فرمائی۔

۱۳؍ فروری ۱۹۵۳ء کو حضرت مصلح موعود ؓنے اپنے پرجلال خطبہ میں اپنی مظلوم جماعت کو قیام امن کی احتیاطی اور حفاظتی تدابیر بتائیں اور حضور کے منشا کے مطابق ۱۵؍ فروری کو یہ خطبہ الفضل میں شائع ہو گیا جس میں مقامی جماعتوں کا اجلاس بلا کر ممکنہ خطرات کے علاج تجویز کرنے کے لیے ہدایت تھی۔

الفضل کی ایک سالہ بندش

جہاں الفضل کی یہ مساعی احمدیوں کے لیے انتہائی قابل ستائش تھی وہاں فسادات کی سر پرست صوبائی حکومت کو جماعت احمدیہ کے امام کا اپنی جماعت سے رابطے کا یہ اہم واسطہ الفضل ایک خار کی طرح کھٹک رہا تھا۔چنانچہ صوبہ پنجاب کی مسلم لیگی حکومت نے ۲۷؍ فروری ۱۹۵۳ءکو جماعت احمدیہ پاکستان کے واحد روزنامہ الفضل کی اشاعت پر ایک سال کے لیے پابندی لگا دی۔اس ظالمانہ اقدام کا مقصد احمدی جماعتوں کا رابطہ اپنے مرکز اور امام سے کاٹنے کے علاوہ یہ بھی تھا کہ مظلوم احمدیوں کی چیخ و پکار بھی سنائی نہ دے اور ان کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا جائے خیر دشمن کی یہ سازش تو پوری نہ ہوئی۔حضرت مصلح موعودؓ نے الفضل کی بنددش پر جو تاریخی پیغام دیا اس سے بھی الفضل کی اہمیت کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔آپ نے اپنی پیاری جماعت کے نا م تحریر فرمایا:’’الفضل کو ایک سال کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔احمدیت کے باغ کو جو ایک ہی نہر لگتی تھی اس کا پانی روک دیا گیا ہے۔پس دعائیں کرو اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔اس میں سب طاقت ہے۔ہم مختلف اخباروں میں یوخطوں کے ذریعہ سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور انشاءاللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے۔آپ بھی دعا کرتے رہیں میں بھی دعا کرتا ہوں۔انشا اللہ فتح ہماری ہے۔کیا آپ نے گزشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا نے کبھی مجھے چھوڑ دیا ہو ؟تو کیا وہ اب مجھے چھوڑ دے گا؟ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشا اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا۔سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لیے دوڑا آ رہا ہے۔وہ میرے پاس ہے۔وہ مجھ میں ہے۔خطرات ہیں اور بہت ہیں۔مگر اس کی مدد سے سب دور ہو جائیں گے۔تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کرو سلسلہ کا کام خدا سنبھالے گا۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد ۱۵ صفحہ ۴۹۳،۴۹۲)

الفضل کے بغیر جماعت کی زندگی مفلوج ہو کر رہ جانے کا خطرہ تھا اور جماعت ایک سال تک کے لیے انتظار نہیں کر سکتی تھی اس لیے فوری متبادل کے طور پر بانی الفضل حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت پر یہ راہ نکالی گئی کہ کراچی سے جاری ہفت روزہ المصلح کا روزنامہ کے لیے ڈیکلیریشن لے کر ۳۰؍ مارچ ۱۹۵۳ءسے اس اخبار کو باقاعدہ روزانہ اشاعت کے لیے الفضل کے عملہ نے سنبھال لیا۔۱۹۵۳ء کے پر آشوب فسادات کے دور میں الفضل نے المصلح کے روپ میں کردار ادا کر کے احباب جماعت کا اس مشکل وقت میں ساتھ دیا۔

۱۹۷۴ء کا ابتلا اور الفضل کا کر دار

۱۹۷۰ء کے انتخابات میں محب وطن احمدیوں نے متشدد دینی جماعتوں کے متبادل پیپلز پارٹی کے حق میں حق رائے دہی استعمال کر نے کو ترجیح دی۔اس کے سربراہ بھٹو نے بر سر اقتدار آ کر اپنے محسنوں کو زیر کرنے کے مختلف ہتھکنڈے آزمائے۔سب سے پہلے تو پاکستان کے آئین میں صدر اور وزیر اعظم کے حلف نامہ میں پہلی دفعہ ختم نبوت پر ایمان لانے کی شق کو شامل کر کے احمدیوں کو ایسے عہدوں سے محروم رکھنے کی سازش کی گئی۔اگلا اقدام احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا تھا جس کی راہ ہموار کرنے کے لیے پہلے ربوہ ریلوے سٹیشن کا واقعہ کروایا گیا۔جس کے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ملک بھر کے اخبارات میں احمدیوں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا شروع ہو گیا جس کے نتیجہ میں احمدیوں کے جان و مال،ان کے گھر،دکانیں،املاک اور جائیدادیں غیر محفوظ ہو کر رہ گئیں۔حکومت اور پولیس کی سر پرستی میں ملکی سطح پر لوٹ کھسوٹ کا ایسا بازار گرم ہوا کہ احمدیوں کو بے تحاشا جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

الفضل نے ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ءکو ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ کی طرف سے کی جانے والی ہنگامہ کی خبر اپنے ۳۱؍ مئی کے شمارہ میں شائع کی اور روزنامہ مساوات لاہور۳۱؍ مئی کے حوالہ سے تحریر کیا کہ ۲۲؍ مئی کو ملتان سے چناب ایکسپریس کے ذریعہ تفریحی دورہ پر جاتے وقت ربوہ ریلوے سٹیشن پر ان طلبہ نے اخلاق سوز حرکات کیں اور خواتین پر فحش آوازے کسے۔۲۹؍ مئی کو واپسی پر انہوں نے ربوہ کی حدود میں داخل ہو تے ہی فساد شروع کر دیا اور باہمی لڑائی کے نتیجہ میں ۱۰ افراد معمولی زخمی ہوئے۔

یکم جون کے الفضل میں ۲۹؍ مئی کے واقعہ کے بعد پنجاب کے متعدد شہروں فیصل آباد،سرگودھا،چنیوٹ،گوجرہ، ملتان، بہاولپور، چک جھمرہ،راولپنڈی وغیرہ میں احمدیوں کے خلاف پر تشددپ مظاہروں اور جلسوں کی رپورٹ شائع ہوئی۔پھر ۲؍ جون کے الفضل کے اداریہ میں ربوہ واقعہ کی حقیقت بیان کی گئی اوربعض دیگر شہروں سیالکوٹ،منٹگمری،عارف والا وغیرہ میں احمدیوں کے مکانوں کی لوٹ مار کی رپورٹ بھی شائع ہوئی۔ ۸؍جون۱۹۷۴ءکےالفضل میںحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا اہم دعائیہ پیغام شائع ہوا جس میں صبر دعاؤں اور نمازوں کے ساتھ اپنے رب سے مدد مانگنے کی طرف توجہ دلائی۔حالات کی نزاکت کے باعث حضور کا دوسرا پیغام ۹؍ جون ۱۹۷۴ء کے الفضل میں شائع ہوا۔

اسی دوران الفضل میں وقت کی ضرورت کے مطابق صبر و استقامت اور دعا کے موضوع پر مضامین بھی شائع کیے جاتے رہے۔۱۳؍جون ۱۹۷۴ء کے الفضل میں احمدیوں کے خلاف رونما ہونے والے مخالفانہ حالات اور بعض جماعتی عہدیداروں کی گرفتاری کے بعد الفضل میں احتجاج کے طور پر ملکی مفاد سے کھیلنے کی انتہائی مذموم روش کی رپورٹ بھی شائع ہوئی۔اس دوران حضور کے تازہ خطبات کا خلاصہ بھی الفضل احباب جماعت تک پہنچاتا رہا۔ جیسا کہ ۱۴؍جون ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ ۱۵؍جون ۱۹۷۴ء کے الفضل میں شائع ہوا۔۱۵؍ جون کو ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا پیغام دوبارہ شائع ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ اس زمانہ میں جو اعتراضات اٹھ رہے تھے مثلاًوزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا اپنی ریڈیو تقریر میں اعلان کہ ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والا مسلمان نہیں ہے شائع کرنے کے بعد الفضل کے پہلے صفحہ پر حضرت بانی جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ شائع کیا گیا کہ یہ ہم پر افترائے عظیم ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے۔اس عرصہ میں الفضل مسلسل دیگر اخبارات میں مذکور فتنہ انگیز خبروں پر احتجاج بھی کرتا رہا اور اپنے عقائد کی وضاحت بھی کرتا رہا اور جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کی تردید بھی کرتا رہا۔ہفت روزہ لاہور کے حوالہ سے نومبر ۱۹۷۰ءکی بھٹو کی تقریر کا حوالہ ۱۹؍ جون کو شائع کیا جس میں مذہب کے نام پر مسلمانوں کوباہم لڑانے کا ذکر تھا۔ الفضل ۲۳؍ جون میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا ۱۱؍جون کا تفصیلی خطبہ شائع ہوا جس میںحضورؒ نے مذہبی آزادی کے حق کے ساتھ احمدیوں کو اپنے عقیدہ کا اظہار کرتے ہوئے پر امن رہنے کی تلقین کی۔۲۶؍جون کے الفضل کے پہلے صفحہ پر نمائندہ خصوصی کے قلم سے فسادات ۱۹۷۴ءکے بارے میں سرکاری ترجمان کے حوالہ سے بے لاگ تبصرہ شامل اشاعت کیا گیا۔مختلف اخبارات یعنی مشرق،مساوات وغیرہ میں شائع ہونے والے مضامین کے جوابات یکم جولائی کے پرچہ میں اور دیگر حالات حاضرہ کے حوالہ سے ضروری تبصرے اور جواب شائع کیے گئے۔

فسادات ۱۹۷۴ءکی دوسری لہر

۷؍ستمبر۱۹۷۴ءکو احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد احمدیوں کے خلاف تشدد اور فسادات کی ایک نئی لہر اٹھی۔الفضل ایسے موقع پر ایک مرتبہ پھر میدان میں آ گیا اور اپنے اداریوں کے ذریعہ ابتلاؤں میں مومنوں کے ردعمل کے حوالہ سے جماعت کو صبر واستقامت اور دعاؤں کی طرف توجہ دلائی جیسا کہ ۳؍اکتوبر کے الفضل کے اداریہ سے ظاہر ہے۔اس زمانہ میں پریس کی طرف سے جماعت مخالف مہم کا مقابلہ کرنے میں بھی الفضل نے موثر کردار ادا کیا اور معاند معاصرین نوائے وقت وغیرہ میں جماعت کے خلاف شائع ہونے والی خبروں کی پر زور تردید کرتے ہوئے صحیح صورتحال سے احباب جماعت اور دنیا کو آگاہ کیا۔چنانچہ ۶؍اکتوبر ۱۹۷۴ء کے الفضل میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے خطبہ جمعہ ۲۰؍ستمبر کا غلط خلاصہ روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہونے پر اس کی پر زور تردید کی۔

الفضل نے احمدیوں پر ہونے والے مظالم، مکانوں اور دکانوں پر حملے،لوٹ مار اور آتش زنی کی تفاصیل شائع کر کے احباب جماعت اور دنیا کو اس سے آگاہ کیا۔چنانچہ ۶؍ اکتوبر کے الفضل میں سرگودھا میں احمدیوں کے مکانوں اور دکانوں پر حملوں اور کنری ضلع تھر پار کر میں احمدیوں کے خلاف لوٹ مار کے افسوس ناک ا حوال شائع کیے گئے۔جس کا ایک مثبت نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب محمد حنیف رامے نے ۶؍اکتوبر کو سرگودھا آ کر پریس کانفرنس کی اور ایک روز قبل ہونے والے فسادات کی بنا پر کمشنر اور ڈی آئی جی پولیس کو بر طرف اور۱۷ پولیس افسروں کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔ اس کانفرنس کی مکمل رپورٹ ۸؍اکتوبر کے الفضل میں شائع ہوئی۔ آئندہ اشاعت میں ۵؍اکتوبر کے سانحہ سرگودھا کی مزید تفصیلات سے بھی آگاہی دی گئی۔

پاکستان سے ہجرت خلافت پر الفضل کا کردار

۱۹۸۴ء کا ابتلا بھی جماعت کےلیے ایک ہولناک امتحان تھا جس میں حملہ کا نشانہ بیک وقت خلافت اور جماعت کو بنایا گیا۔ اسلم قریشی کے جھوٹے مقدمہ اغوا و قتل کے نام پر ایک طرف حضرت خلیفة المسیح پر ہاتھ ڈال کر خلافت احمدیہ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کی طرف سے ۲۶؍اپریل ۱۹۸۴ء کو آرڈیننس نمبر ۲۰ جاری کرکے احمدیوں کے تمام مذہبی حقوق سلب کرلیے گئے۔

الفضل نے اس دور ابتلا میں بھی احباب جماعت کے حوصلے قائم رکھنے اور بڑھانے میں شاندار کردار ادا کیا۔۲۸؍اپریل ۱۹۸۴ء کے الفضل کا اداریہ ’’مامورین الٰہی کا عظیم الشان معجزہ‘‘کے عنوان پر شائع ہوا جس میں الٰہی جماعتوں کی قبولیت دعا کا ذکر کرکے جماعت کو دعا کی تحریک کی گئی۔۲۹؍اپریل ۱۹۸۴ء کے الفضل میں حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا جو ابتلاؤں میں استقامت سے تعلق رکھتا تھا جو صفحہ اول پر شائع ہونے لگا۔

اس نازک دور میں جماعت اور خلیفة المسیح کے درمیان رابطہ کی خدمت الفضل ہی نے احسن رنگ میں انجام دی۔خصوصاً ان حالات میں جب جماعت کو اپنے امام سے جدا کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔احمدی اپنے پیارے امام کے لیے بہت متفکر تھے اور خلیفة المسیح کا پاکستان میں رہ کر دینی خدمات بجالانا ناممکن ہوگیا تھا۔چنانچہ مجبوراً حضور کو بیرون ملک ہجرت کرنا پڑی اور یہ کام نہایت رازداری اور خوش اسلوبی سے ہونے کے بعد ۲؍ مئی ۱۹۸۴ء کے الفضل میں حضرت خلیفة المسیح کے بیرون ملک دورہ کے سلسلہ میں لندن میں قیام پذیر ہونے کی اطلاع دی گئی۔

۴؍مئی کے الفضل میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کا بیرون ملک روانگی سے ایک دن قبل ۲۸؍ اپریل ۱۹۸۴ء کو بعد نماز عشاء ہونے والا مختصر الوداعی خطاب صفحہ اول پر شائع ہوا جس میں صبر اور کثرت سے دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اگر آپ ایسا کریں تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکیں گی۔۴؍مئی ۱۹۸۴ء کو حضور کے بیرون ملک روانگی کے بعد جو پہلا خطبہ حضور نے ارشاد فرمایا اس کا خلاصہ ۶؍مئی ۱۹۸۴ء کے الفضل میں شائع ہوا۔

۸؍ مئی کے الفضل میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کا تازہ پیغام احباب کے نام الفضل کے صفحہ اول پر شائع ہوا جس میں آپ نے جماعت کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے یہ نصیحت فرمائی تھی کہ اپنی قربانیوں سے ثابت کردکھائیں کہ آپ صف اول کے محب وطن ہیں۔

اس دور میں جماعت کے بارے میں شائع ہونے والی من گھڑت خبروں کی تردید کاسلسلہ بھی الفضل میں جاری رہا۔مثلاً لندن یا ربوہ میں خصوصی اجلاسات کے انعقاد بہشتی مقبرہ میں آمدورفت پر پابندی اور احمدیوں کے ارتداد جیسی افواہوں کا ردّ۔مئی ۱۹۸۴ء کے دوران یوم القدس کے موقع پر عربوں پر بہیمانہ مظالم سے متعلق لندن سے موصولہ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کا پیغام ۱۹؍مئی کے الفضل میں شائع ہوا۔

۷؍جون ۱۹۸۴ء کے الفضل میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کا ایک مکتوب مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اعلیٰ کے نام الفضل نے صفحہ اول پر شائع کیا۔جس میں احباب جماعت کو دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا سلام پہنچانے کے علاوہ یہ پیغام بھی تھا کہ ’’میری آپ سب کے حق میں دردناک دعائیں قبول ہورہی ہیں۔اللہ کے کچھ فضلوںکو تو آپ نازل ہوتا دیکھ رہے ہیں لیکن جو ابھی پردہ اخفاء میں ہیں ان کا آپ کبھی تصور بھی نہیں کرسکتے۔‘‘

۲۷؍ جون کے الفضل نے روزنامہ امن کراچی کے ۲۰؍جون کےشمارہ کا جمعہ خان کے قلم سے لکھا ہوا یہ مضمون بلا تبصرہ شائع کیا کہ فرقہ وارانہ اختلاف قومی اتحاد کا سب سے برا دشمن ہے۔بذریعہ ٹیلی گرام ۵؍جولائی کے الفضل میں عیدالفطر کے موقع پر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کا پیغام عید ناظر صاحب ا علیٰ ربوہ کے نام شائع ہوا جس میں حضور نے جماعت کو یہ نوید دی کہ ’’اللہ آپ کو اس سے بھی بڑی عید سے نوازے گا۔اس دور ابتلاء میں دنیا بھر کے احمدیوں نے جو استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اللہ آپ کو کبھی نہیں چھوڑے گا۔آخر کار حقیقی عید آپ کو ہی عطا ہوگی۔‘‘

لندن میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی مصروفیات کی رپورٹس

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی لندن میں دینی و تربیتی مصروفیات بھی گاہےبگاہے الفضل کی زینت بنتی رہیں جیسے ۵؍اگست ۱۹۸۴ء کے الفضل میں یہ رپورٹ پیش کی گئی کہ انگلستان میں حضور کی موجودگی سے یورپین ممالک میں جو انقلاب انگیز تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی ہے چند ماہ میں ہی اس کا اندازہ ہوگیا۔ چنانچہ حضور کی ہجرت کے صرف تین ماہ بعد لندن میں مجالس ہائے خدام الاحمدیہ یورپ کا پہلا سالانہ اجتماع منعقد ہو اجس میں۱۱ ممالک سے ۸۰۰کے قریب خدام شامل ہوئے،جس میں حضور نے بنفس نفیس شامل ہوکر ولولہ انگیز تاریخی خطاب ارشاد فرمائے۔

لندن میں حضور کے قیام کی دوسری اہم برکت انگلستان اور خصوصاً لندن کی نواحی جماعتوں کی تعلیم وتربیت تھی۔حضور نے مجالس عرفان کا معلوماتی سلسلہ الگ شروع فرمایا۔۲۸؍اگست ۱۹۸۴ء کے الفضل میں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی طرف سے چھپنے والی رپورٹس سے بھی اس بات کا اندازہ ہوتاہے۔۹؍ستمبر۱۹۸۴ءکے الفضل میں عید الاضحیہ کے موقع پر حضور کا محبت بھرا پیغام اور عید کا تحفہ شائع ہوا۔جس میں یہ حوصلہ افزاالفاظ شامل تھے:’’وہ حقیقی عید جو بالآخر قربانیوں کے نتیجہ میں ملتی ہے وہ تمہارے لیے ہی مقدر ہے، اس ایمان اور یقین پر قائم رہو اور ثبات قدم اور استقامت کا ثبوت دیتے چلو۔‘‘

پاکستان میں الفضل پر پابندی اور الفضل انٹرنیشنل کا اجرا

اس کے بعد ۱۲؍دسمبر ۱۹۸۴ءکو الفضل پر پھرپابندی لگا دی گئی۔جو ۲۸؍نومبر۱۹۸۸ء کو ختم ہوئی۔یوں الفضل تقریباً چار سال پابندی کا شکار رہا۔ اس دوران الفضل کے پیداہونے والے خلا کو پورا کرنے کے لیے چاروں تنظیموں کے ماہنامہ کے ہفتہ وار ضمیمے شائع ہوتے رہے جن میں حضرت خلیفۃ المسیح کے خطبات اور دیگر ارشادات شائع ہوتے رہے۔اور تربیتی امور کے حوالہ سے امام اور جماعت کا رابطہ منقطع ہونے نہیں دیا گیا۔تاہم اس دوران شدت سے محسوس ہواکہ الفضل کا کوئی بہتر متبادل عالمی سطح پر ہونا چاہیے۔چنانچہ ۳۰؍جولائی ۱۹۹۳ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر الفضل انٹر نیشنل کا پہلا پرچہ شائع ہوا۔ پھر ۷؍جنوری ۱۹۹۴ءکو لندن سے ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل کی باقاعدہ اشاعت شروع ہوئی جو خلافت رابعہ کا ایک عظیم کارنامہ شمار ہوتا رہےگا۔

خلافت خامسہ میں خدمات

الفضل کے ذریعہ احباب جماعت میں وحدت اور امام وقت کےساتھ رابطہ کی یہ مساعی حضرت خلیفہ رابعؒ کے انتقال پر ملال اور خلافت خامسہ کے انتخاب پر بھی بڑی شان سے ظاہر ہوئی۔

خلافت خامسہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے الفضل خدمات سلسلہ کا یہ سفر کررہا ہے۔جس کی ایک عظیم برکت خدا کے فضل سے الفضل کا بیرون ملک سے پھر روزنامہ بن کر سامنے آنا ہے۔حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات،خطابات،مجالس عرفان،دوروں کی رپورٹس،پیغامات اور ہدایات کا ایک وسیع سلسلہ ہے جس سے الفضل کا دامن لبریز ہے ایک طرف جماعتی تربیت کا کام ہورہا ہے۔دعوت الی اللہ ہورہی ہے اور ہر قسم کے فتنوں کا پیشگی قلع قمع ہورہا ہے۔

انتخاب خلافت خامسہ

اپریل۲۰۰۳ء میں ہمارے پیارے امام و راہنما حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مسند خلافت پر متمکن ہوئے اور غلبۂ اسلام کا ایک نیا بابرکت دور شروع ہوا۔خلافت خامسہ کے انتخاب کے موقع پر الفضل نے اپنا نمایاں کردار ادا کیا اور حضورانور کے پہلے خطاب کو اپنے شمارہ میں فوری شائع کرکے احباب جماعت تک پہنچایا جس میں حضور انور نے فرمایا کہ’’احباب جماعت سےصرف ایک درخواست ہے کہ آجکل دعاؤں پہ زوردیں،دعاؤں پہ زور دیں،دعاؤں پہ زور دیں۔بہت دعائیں کریں،بہت دعائیں کریں،بہت دعائیں کریں۔اللہ تعالیٰ اپنی تائید و نصرت فرمائے اور احمدیت کا یہ قافلہ اپنی ترقیات کی طرف رواں دواں رہے۔آمین‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۲۵؍اپریل ۲۰۰۳ء تایکم مئی ۲۰۰۳ء)

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی بصیرت افروز قیادت

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہی جماعت احمدیہ کی ترقی اور احباب جماعت کی تربیت کے معاملات میں خصوصی راہنمائی فرمائی۔ آپ نے دعاؤں کی تحریکات کےبعدتربیتی،روحانی،مالی، خدمت انسانیہ کی تحریکات فرمائیںجن کو الفضل نے اپنی زینت بنایا۔

خصوصاًجب ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسوہ ٔرسولؐ کے مطابق مذہبی راہنماؤں اور سربراہان مملکت کو خطوط لکھے جن میں انہیں اشاعت توحیدواسلام اور امن عالم کے قیام کی دعوت دی اورالفضل میں ان کو شائع کیا۔

بین المذاہب کانفرنسز، امن کانفرنسز اور امن سمپوزیمز کا انعقاد

خلافت خامسہ میں بین المذاہب کانفرنسز،امن کانفرنسز اور امن سمپوزیمز وغیرہ کا انعقاد ہوا۔بالخصوص خلافت خامسہ کے عہد میں ۲۰۰۴ء سے امن کانفرنس (Peace Symposium) کا آغاز ہوا جس میں دنیا بھر سے مختلف نمائندے شامل ہوتے ہیں اورحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطاب میں حالات حاضرہ کے پیش نظر دنیا کو امن کاپیغام دیتے ہیں جو اسلام اور جماعت احمدیہ کے تعارف کے علاوہ عالمی امن کے قیام کے لیے نہایت مفید ثابت ہو رہا ہے چنانچہ حضور کے بابرکت عہد میں سولہ امن کانفرنسز کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔امن کانفرنسز میں ہر سال دنیا بھر میں قیام امن کے لیے نمایاں کام کرنے والوں کو احمدیہ امن پرائز سے بھی نوازا جاتا ہے۔احمدیہ امن انعام کا آغاز ۲۰۰۹ء سے ہوا اوراب تک دس منتخب افراد کو جماعت احمدیہ کی طرف سے عالمی سطح پر یہ انعام دیا جا چکا ہے۔ ان کانفرنسز کے ذریعہ ساری دنیا میں حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا تعارف ’’سفیرِامن‘‘کے طور پرہوا، اب دنیا کی بڑی بڑی پارلیمنٹس آپ کو اپنے خطاب کی دعوت دینے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ان تمام پروگراموں کی تفصیلی رپورٹس الفضل میں شائع ہوتی رہیں۔جن کا مختصرذکردرج ذیل ہے۔

عالمی ایوانوں میں پیغام امن و اسلام

اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کو جو ایک اور نیا،اہم، مفید اور مؤثر تاریخی کام کرنے کی توفیق بخشی وہ آپ کے خطابات ہیں جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے بڑے اور طاقتور ملکوں کے ایوانوں میں امن کے موضوع پر ارشاد فرمائے جن کے ذریعہ جماعت کا مثبت تعارف اور پیغام بھی پہلی دفعہ دنیا کے بااثر طبقہ میں پہنچا۔حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے۲۲؍ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز میں،۳۰؍ مئی ۲۰۱۲ء کو ملٹری ہیڈکوارٹرز کوبلنزجرمنی میں،۲۷؍جون ۲۰۱۲ء کوکیپیٹل ہل واشنگٹن ڈی سی امریکہ میں امن عالم کے حوالے سے خطاب فرمایا۔۴؍دسمبر ۲۰۱۲ء کویورپین پارلیمنٹ سے خطاب فرمایا جس کا موضوع ’’امن کی کنجی۔ بین الاقوامی اتحاد‘‘تھا۔۱۱؍جون ۲۰۱۳ء کوبرطانوی پارلیمنٹ سے دوسرا خطاب بعنوان’’اسلام۔ امن اور محبت کا مذہب‘‘فرمایا۔نیوزی لینڈ کی نیشنل پارلیمنٹ سے۴؍نومبر ۲۰۱۳ء کو ’’امن عالم۔ وقت کی ضرورت‘‘کے عنوان پر خطاب فرمایا۔

۶؍اکتوبر ۲۰۱۵ء کوڈچ نیشنل پارلیمنٹ سےحضورانور کےخطاب کاموضوع ’’حالات حاضرہ اور اسلام کی پُر امن تعلیم‘‘تھا۔۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۶ءکو پارلیمنٹ آف کینیڈا میں حضورانور نےخطاب فرمایا جس کا موضوع ’’دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے اسلامی تعلیم‘‘تھا۔۸؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کوعالمی تنظیم یونیسکومیں خطاب فرمایا۔

جلسہ مذاہب عالم ۱۸۹۶ءکے بعد خلافت ثانیہ میں ۱۹۲۴ءمیں ویمبلے کانفرنس اور خلافت ثالثہ میں ۱۹۷۷ءمیں کسرصلیب کانفرنس یورپ کے بعدالٰہی تقدیر کے موافق عہد خلافت خامسہ میں ۱۱؍فروری ۲۰۱۴ءکومنعقد ہونے والی گلڈہال کانفرنس کوعالمی سطح پرغیرمعمولی وسعت،ہمہ گیری،پذیرائی اور اثر انگیزی کے نتیجےمیں حضرت مسیح موعودؑ کی دیرینہ خواہش پوری ہونے کے سامان ہوگئے۔

چنانچہ برطانیہ میں جماعت احمدیہ کے قیام کے سو سال پوراہونے پراظہار تشکر کے لیے منعقد ہونے والی یہ عظیم الشان تقریب حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی خواہش کے مطابق لندن میں ایک عالمی نوعیت کے ’’جلسہ مذاہب‘‘کی صورت میں منعقدہوئی جس میں ۱۱؍فروری ۲۰۱۴ءکو گلڈ ہال میں ۲۶ ممالک سے مختلف نو مذاہب (مسلمان،یہودی، عیسائی، بدھ مت، دروزی، ہندومت، زرتشتی،سکھ دوسواسّی نمائندگان کے علاوہ سیاسی لیڈرز، حکومتی و سفارتی اہلکاروں،علمی و ادبی حلقوں کے افراد،میڈیا نیز مذہبی آزادی کے لیے کام کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والے چارسوپچاسی افراد نے شرکت کی۔کانفرنس کا عنوان’’اکیسویں صدی میں خدا کا تصور‘‘تھا۔اس کانفرنس میں حضور انور نے اپنے عظیم الشان پُرمعارف خطاب سے نوازا۔

ان تمام خطابات کو ساتھ ساتھ الفضل نے افادۂ عام کےلیے شائع کیا اور لاکھوں لوگوں تک اس کی رسائی ہوئی۔

حضورانور کی مصروفیات،ملاقاتیں اور خطبات و دورہ جات

حضورانور کی مصروفیات کی جھلکیاں بھی الفضل میں شائع ہوتی ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انت الشیخ المسیح الذی لا یضاع وقتہ کے حقیقی جانشین کا سارا وقت خدمت اسلام میں مصروف گزرتا ہے۔حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت دور میں آن لائن ورچوئل ملاقاتوں کا ایک مفید سلسلہ شروع ہوا۔الفضل میں ان کی رپورٹس شائع ہوتی ہیں جن میں حضور انور کی مفید ہدایات اور پرمعارف نکات سے احباب جماعت مستفیض ہوتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ کے خطبات جمعہ،خطبات عید، خطبات نکاح اور جلسہ ہائے سالانہ پر فرمودہ خطابات الفضل کی زینت بنتے ہیں جو احباب براہ راست ان سے مستفید نہ ہوسکے ہوں وہ بذریعہ الفضل اس سے استفادہ کرتے ہیں اور یہ ایک ریکارڈ جمع ہوتا جاتا ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ اشاعت اسلام کی غرض سے جو دورہ جات فرماتے ہیں ان کی رپورٹس کا ذکر بھی الفضل میں شائع ہوتا ہے جن سے جماعت احمدیہ عالمگیر کی ترقیات کا اندازہ ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ الفضل کو ترقی دے کہ مستقبل میں بھی خلافت کا دست و بازو بنا رہے اوراس کا شمار اس کے ادنیٰ غلاموں میں ہو۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button