متفرق مضامین

الفضل میں اندرون و بیرون ہندوستان تبلیغ اسلام کی کوریج

(’ایم-ایم-طاہر‘)

خلافت اولیٰ میں اخبار الفضل کا آغاز ۱۸؍جون ۱۹۱۳ء کو ہفت روزہ کے طور پر قادیان سے ہوا جس کے مالک مدیر اور پرنٹرحضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ تھے۔ہفت روزہ سے ہفتہ میں تین بار، ہفتہ میں دو بار،نیز ضرورت کے تحت زیادہ بار بھی شائع ہوتا رہا اور پھر ۸؍مارچ ۱۹۳۵ء کو روزنامہ بن گیا۔ تقسیم برصغیر کے بعد ۱۵؍ستمبر ۱۹۴۷ء کو لاہور سے جاری ہوا۔ ۳۱؍دسمبر ۱۹۵۴ء کو ضیاء الاسلام پریس ربوہ سے شائع ہونا شروع ہوا۔ اور الحمد للہ ۱۸؍جون ۲۰۱۳ءکو اس نے اپنے سو سال کا سفر طے کیا۔ ۷؍ جنوری۱۹۹۴ء کو الفضل انٹرنیشنل ہفت روزہ کے طور پر لندن سے جاری ہوا جو خدا کے فضل سے ۲۳ مارچ ۲۰۲۳ء سے روزنامہ ہو چکا ہے۔

اخبار کی ضرورت اور غرض و غایت

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے جب الفضل کا اجرا حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی اجازت سے فرمایا تو شروع میں اس کا نام فضل رکھا پھر الفضل رکھا گیا۔ چنانچہ اس کا پراسپیکٹس بانی الفضل نے شائع کیا تو اس کا عنوان تھا ’’فضل کا پراسپیکٹس‘‘یہ علیحدہ سے وزیر ہند پریس امرتسر سے آپ نے شائع کروایا جس کو اخبار بدر قادیان نے اپنی ۵؍جون ۱۹۱۳ءکی اشاعت میں بطور ضمیمہ شائع کیا۔ اخبار بدر میں اس کا عنوان’’ اعلان فضل ‘‘تھا۔الفضل کے پراسپیکٹس میں حضرت مصلح موعود نے نئی اخبار کی ضرورت اور غرض و غایت بیان فرمائی۔

نئے اخبار کی آپ نے آٹھ ضرورتیں بیان فرمائیں۔ آٹھویں ضرورت میرے اس مضمون سے متعلق ہے۔ آٹھویں ضرورت بیان کرتے ہوئے بانی الفضل تحریر فرماتے ہیں: ’’تبلیغ کے لئے کوشش کرنا اور جن ممالک میں تبلیغ نہیں ہوئی ان کی طرف توجہ کرنا اور دشمنان دین کی تبلیغی کوششوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحہ ۴۴۵، ضمیمہ اخبار بدر ۵؍ جون ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۸)

اس اخبار کے اغراض کیا ہوں گے۔آپ نے دس اغراض بھی بیان فرمائیں۔ غرض نمبر ۶ میں آپ تحریر فرماتے ہیں: ’’ تبلیغ اسلام کی ترغیب دینا، اس کے ذرائع کی تلاش کرنا اور مخالفین کی تبلیغی کوششوں سے آگاہ کرنا۔‘‘ (ضمیمہ اخبار بدر ۵؍جون ۱۹۱۳ء صفحہ۱۹)

جماعتی تاریخ اور ترقی کا ماخذ

اخبار الفضل نے اپنی غرض و غایت کو خوب نبھایا اور تبلیغ احمدیت کے میدان میں ہونے والی مساعی کو کوریج دے کر تاریخ احمدیت کے لیے اور جماعتی ترقی کے لیے بطور ماخذ کے اپنا فریضہ انجام دیا۔ اخبار الفضل کے اس فریضہ اور کلیدی کردار کے بارہ میں اظہار کرتے ہوئے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز روزنامہ الفضل ربوہ کے صد سالہ جوبلی نمبر ۲۰۱۳ء کے لیے اپنے پیغام میں فرماتے ہیں:’’اس میں دنیا کے مختلف ممالک سے جماعتی مراکز کے رپورٹیں چھپتی ہیں جن سے مبلغین اور سلسلہ کے مخلصین کی نیک مساعی کا علم ہوتا ہے اور جماعت کی ترقی اور وسعت کا پتہ چلتا ہے۔‘‘

’’ الفضل تاریخ احمدیت کا بنیادی ماخذ ہے۔ اب تو بہت سے ممالک سے جماعت کے رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں لیکن ماضی میں الفضل ہی تھا جس نے جماعتی ریکارڈ اور تاریخ جمع کرنے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ صدسالہ جوبلی نمبر ۲۰۱۳ء)

سال ۱۹۱۵ء میں تبلیغی مساعی کی کوریج کا جائزہ

اب ہم اخبار الفضل میں اندرون و بیرون ہندوستان میں تبلیغی مساعی کی کوریج کا جائزہ لیتے ہیں۔ اخبار میں تبلیغ اسلام احمدیت کی مساعی کی خبریں باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتی رہیں جو آج جماعتی ترقی کے ماخذ کے طور پر ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ نمونہ کے طور پر اخبار کی اشاعت کے تقریباً ۱.۵ سال بعد کے سال یعنی ۱۹۱۵ء جو کہ خلافت ثانیہ کا دوسرا سال بھی تھا اس میں شائع ہونے والی خبروں کا جائزہ لیتے ہیں۔

قارئین کرام! سال ۱۹۱۵ء میں اخبار الفضل کے کل ۱۴۶؍ شمارے شائع ہوئے ہیں۔ دعوت الی الخیر کے عنوان سے اخبار میں تبلیغی مساعی کے خبریں شائع ہوتی تھیں۔ اس عرصے میں بیرون ہندوستان مندرجہ ذیل ممالک میں تبلیغ اسلام کی مساعی کی خبروں کی اشاعت ہوئیانگلستان، سیلون(سری لنکا)، ماریشس، فرانس، رنگون(برما)، برٹش مشرقی افریقہ۔

اندرون ہندوستان میں جن مقامات کے بارے میں تبلیغی مساعی کی خبروں کی اشاعت ہوئی ان میں حیدرآباد دکن، گوجرانوالہ، بنگال،بہار،بمبئی، یوپی، پنجاب، مونگھیر،جنوبی ہند، سری نگر، مدراس، سندھ اور پاکپتن شامل ہیں۔

بیرون ممالک مبلغین میں حضرت صوفی غلام محمد صاحب اور حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال کی مساعی کی رپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں۔

سال ۱۹۱۵ء کے ۱۴۶؍ شمارہ جات میں ۵۷؍ شماروں میں تبلیغ اسلام احمدیت کی خبروں کی اشاعت ہوئی۔ یہ خبریں دو کالم، تین کالم، چار کالم سے لےکر ۹؍ کالم تک بھی اپنے حجم کے مطابق شائع ہوئی ہیں۔ اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اخبار الفضل نے اپنی ضرورت اور غرض و غایت کو کس قدر احسن انداز میں پورا کیا ہے اور جماعتی تبلیغ اندرون و بیرون ہندوستان کی رپورٹس کو شائع کر کے ترقی احمدیت اور تاریخ احمدیت کے ریکارڈ کو محفوظ کیا ہے۔ یہ خبریں جہاں احباب جماعت کی دلچسپی اور معلومات بڑھانے کا باعث بنتی تھیں وہاں آج یہ ان علاقوں کی تاریخ احمدیت کا ماخذ بھی بنی ہیں۔

متفرق ممالک اور علاقوں میں تبلیغی مساعی کی کوریج

ایک سال (۱۹۱۵ء) کی تبلیغی مساعی کی خبروں کے جائزہ کے بعد اب قارئین کرام کی دلچسپی کے لیے مختلف ممالک اور علاقوں میں تبلیغ احمدیت کی مساعی کی الفضل میں کوریج کے نمونے پیش کیےجائیں گے تا ان ممالک میں قیام احمدیت اور تبلیغ احمدیت کی معلومات بھی میسر آجائیں اور پھر اس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکے گا کہ اخبار الفضل نے تبلیغ احمدیت کی ترغیب و تحریص اور اس کی مساعی کو کوریج دے کر کس قدر عظیم خدمت سر انجام دی ہے جس کی وجہ سے اخبار الفضل ترقی و تاریخ احمدیت کا بنیادی ماخذ قرار پاتا ہے۔ الفضل میں اسلام احمدیت کے خلاف ہونے والے منفی پراپیگنڈے کا جواب بھی دیا جاتا تھا۔ اس پراپیگنڈےکے جواب کے لیے مبلغین کرام کو بھی ہندوستان کے طول و عرض میں بھجوایا جاتا رہا۔ تحریک شدھی کے خلاف عظیم الشان جہاد اس کی شاندار مثال ہے۔ ان واقعات کی تفصیلی رپورٹنگ الفضل کی زینت بنتی رہی ہیں۔

ساری دنیا میں تبلیغی اور اشاعتی منصوبوں، جلسہ ہائے سیرة النبیﷺ کے ملک گیر انعقاد کی خبریں، تبلیغ کے دوران پیش آنے والے ایمان افروز واقعات اور پیش آمدہ رکاوٹوں اور مخالفتوں کا تذکرہ، میدان عمل میں اٹھنے والے اعتراضات، فتنوں اور ان کے تدارک کی خبریں، نئے مشن ہاؤسز اور مساجد کے قیام کی رپورٹنگ اور مبلغین کی قربانیوں اور مساعی کا تذکرہ الفضل نے محفوظ کیا ہے جو آج ہماری تاریخ کا سنہری باب ہیں۔ اس کوریج کی چند جھلکیاں ہدیہ قارئین کی جا رہی ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ متفرق علاقوں اور ابتدائی مبلغین کی مساعی کی جھلکیاں آپ کو دکھائی جائیں تا احمدیت کے ابتدائی معماروں کی قربانیاں اور کاوشیں آپ سامنے فلم کی طرح چلنے لگیں اور پھر ان کے لیے دل سے دعائیں بھی نکلیں۔

بنگال اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں تبلیغی مساعی کی کوریج

صوبہ بنگال میں تبلیغ کے حوالے سے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی ایک رپورٹ ۳؍نومبر ۱۹۱۴ء کے الفضل میں ایک کالم پر شائع ہوئی۔ جس میں بتایا گیا کہ انہوں نے اور مولوی ابوبکر یوسف صاحب نے ڈھاکہ کا سفر اختیار کیا پھر مولوی مبارک علی صاحب نے باریسال کے علاقہ میں دورے کیے جس سے احمدیت کا پیغام صوبہ بنگال میں پھیل رہا ہے۔ اسی طرح مولوی عبدالواحد صاحب برہمن بڑیہ میں جماعت کا پیغام پھیلا رہے ہیں۔

۱۰؍نومبر۱۹۱۴ء کے الفضل میں صفحہ۸ پر دعوت الی الخیر کے عنوان سے پورا صفحہ ہندوستان بالخصوص جنوبی ہند میں تبلیغ کی مساعی کی رپورٹ پر مشتمل ہے۔ اسی طرح بنگال میں احمدیت کے اثر کے حوالے س بھی رپورٹ شامل ہے۔

سیلون( سری لنکا) اور ماریشس میں تبلیغ کی کوریج

ماریشس میں پہلے مبلغ احمدیت حضرت صوفی غلام محمد صاحب کی مساعی کی رپورٹس الفضل کی زینت بنتی رہی ہیں۔ ماریشس روانگی سے پہلے آپ کولمبو تشریف لے گئے۔ ۲۸؍مارچ ۱۹۱۵ء کو آپ کا ایک لیکچر کولمبو میں ہوا اس کی رپورٹ دعوت الی الخیر کے عنوان سے الفضل ۱۵؍اپریل ۱۹۱۵ء کے صفحہ سات پر تین کالم میں شائع ہوتی ہے۔اس رپورٹ میں آپ نے لکھا کہ ماریشس سے پیغام آیا ہے کہ آپ وہاں چلے آئیں یہاں اس کی بہت ضرورت ہے۔ چنانچہ آپ حضرت مصلح موعودؓ کے حکم سے ماریشس روانہ ہوگئے۔ آپ ۱۹۲۷ء کو واپس قادیان آکے تو اس کی تفصیلی خبر اور رپورٹ الفضل ۲۲؍مارچ۱۹۲۷ء میں شائع ہوئی۔ صوفی غلام محمد صاحب کی تصویر (پنسل سکیچ) بھی نمایاں طور پر صفحہ۳ پر شائع کی گئی۔ آپ مسلسل ۱۲سال تبلیغ احمدیت کے بعد۱۹۲۷ء میں قادیان واپس آئے۔

آسٹریلیا سے بیعت کا خط

ایک عریضہ بیعت کے عنوان سے الفضل ۳؍ستمبر ۱۹۱۵ء جو ماؤنٹ گراواٹ برزبین (کوئینز لینڈ) آسٹریلیا سے محمد حسن صوفی احمدی ولد حاجی موسیٰ خان افغان قوم ترین کی بیعت کا خط شائع ہوا ہے۔ یہ خط ۱۱؍جولائی ۱۹۱۵ء کا تحریر کردہ ہے۔ ان کے خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قبل ازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اورپھر حضرت خلیفة المسیح الاول ؓکی بیعت کرچکے تھے اور اب تیسری بار حضرت خلیفہ ثانیؓ کی بیعت کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔

سیرالیون میں سلسلہ کی بنیاد کی خبر

۲۵؍نومبر۱۹۱۶ء کے الفضل میں ایک خبر شائع ہوئی کہ انجمن ترقی اسلام کی تبلیغی کوششوں سے ملک سیرالیون میں سلسلہ احمدیہ کی بنیاد رکھ دی گئی اور سات افراد بیعت کرکے احمدیت میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ صدرالدین اے فہیم صاحب داعی الی اللہ کا خط ہے جو الفضل میں شائع ہوا۔ نو مبائعین کے نام بھی دیے گئے ہیں۔ اسی خط میں وہ لکھتے ہیں کہ لیگوس (نائجیریا) کے احمدی بھائی بھی لیگوس میں مرکز قائم کرنا چاہتے ہیں گویا اس وقت تک وہاں بھی جماعت کا پیغام پہنچ چکا تھا۔

بمبئی کے مبلغین کا وفد اور بنگال میں تبلیغ کی کوریج

۴؍اگست ۱۹۱۷ء کے اخبار الفضل کے صفحہ اول کالم نمبر۱ مدینة المسیح کے عنوان سے جاری کالم میں خبر دی گئی کہ ۳؍اگست کو مبلغین کا ایک وفد جو صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ، میر محمد اسحاق صاحبؓ، شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ اور مولوی محمد اسماعیل صاحب پر مشتمل ہے بمبئی کے لیے روانہ ہوا۔ حضرت خلیفة المسیح برستی بارش میں قصبہ سے باہر تک ساتھ تشریف لے گئے۔ اسی روز کے اخبار کے صفحہ اول کالم نمبر۲ پر اخبار احمدیہ کے عنوان سے چٹاگنگ بنگال میں تبلیغ کی رپورٹ شائع شدہ ہے جو تیسرے کالم اور پھر دوسرے صفحہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ رپورٹ مولانا عبداللطیف صاحب پروفیسر چٹاگنگ کالج کی طرف سے تبلیغی مساعی پر مبنی ہے۔

برطانیہ میں تبلیغی مساعی کی کوریج

اخبار الفضل ۲۴؍نومبر۱۹۱۷ء کے صفحہ اول اور دوم پر برطانیہ میں تبلیغی مساعی کی تفصیلی رپورٹس شائع ہوتی ہیں۔ یہ رپورٹس محترم قاضی محمد عبداللہ صاحب بی اے بی ٹی مبلغ انگلستان کی طرف سے بھجوائی گئی ہیں۔ اس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے مختلف شہروں میں لیکچرز، دوروں اور کامیابیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ چار بیعتوں کی خوشخبری بھی دی گئی ہے۔ اسی رپورٹ میں ذکر ہے کہ فرانس سے ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب نے تبلیغ اسلام کے لیے چندہ بھجوایا ہے۔

لائبیریا سے لٹریچر کی ڈیمانڈ

اخبار الفضل ۲۴؍نومبر۱۹۱۷ء کی مذکورہ بالا رپورٹ میں یہ بھی تذکرہ ہے کہ لائبیریا مغربی افریقہ کے ایک کالج کے پروفیسر نے لٹریچر منگوایا ہے۔ امید ہے اس کے ذریعہ تبلیغ کا راستہ کھلے گا۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا سفر امریکہ

اخبار الفضل۸؍مارچ۱۹۲۰ء کے صفحہ اول کالم نمبر۲پر نامہ لنڈن کے عنوان سے حضرت ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیرؓ کی رپورٹ محررہ ۲۱؍جنوری۱۹۲۰ء شائع ہوئی ہے جو صفحہ نمبر۲ کے دوسرے کالم تک جاری ہے۔ اس رپورٹ میں انہوں نے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے سفر امریکہ کے لیے روانگی کا تذکرہ کیا ہے کہ ۲۰؍جنوری کو مفتی صاحب کے اعزاز میں الوداعی پارٹی دی گئی اور ان کی لندن میں خدمات کا اعتراف کیا گیا۔

۲۶؍جنوری کو مفتی صاحبؓ لیورپول کے لیے روانہ ہوئے۔ مولانا نیر صاحبؓ بھی لیورپول تک ساتھ گئے دونوں مبلغین نے سبزپگڑیاں پہنی ہوئی تھیں اور تبلیغ احمدیت کرتے جاتے تھے۔ ۲۸؍جنوری کو مفتی صاحب کا جہاز ہنرفرڈ امریکہ کے لیے روانہ ہوا۔ مفتی صاحب نے جہاز سے ایک خط بھی روانہ کیا ہے۔ اس رپورٹ میں مفتی صاحب کا امریکہ کا پتہ بھی درج ہے جو نیویارک کا ہے۔

امریکہ میں تبلیغ احمدیت

مورخہ۷؍مارچ۱۹۲۱ء کے اخبار الفضل کے صفحہ اول کالم دو تین اور پھر صفحہ نمبر ۲ مکمل پر احمدیہ مشن امریکہ کے عنوان سے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی تفصیلی تبلیغی مساعی کی رپورٹ شائع شدہ ہے۔ یہ رپورٹ آپ نے شکاگو سے تحریر کی ہے۔ احمدیہ مشن شکاگو کا پتہ بھی رپورٹ کے آخر پر تحریر شدہ ہے۔ آپ نے مختلف مقامات پر لیکچرز دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے اس کا تذکرہ بھی رپورٹ میں موجود ہے۔

مولانا نیر صاحبؓ کی مغربی افریقہ روانگی اور تبلیغی مساعی کی کوریج

۷؍مارچ ۱۹۲۱ء کے اخبار الفضل کے صفحہ نمبر ۲ پر نامہ نیر کے عنوان سے مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ کا محررہ خط ۹؍فروری ۱۹۲۱ء دو کالم میں شائع شدہ ہے۔ اس خط میں نیر صاحب نے لکھا کہ وہ آج صبح دس بجے لندن سے لیورپول اور وہاں سے نائیجیریا کے لیے روانہ ہوئے ہیں۔ ریل گاڑی سے لیورپول پہنچے اور معاً بحری جہاز میں سوار ہوئے۔ لیورپول تک مولوی مبارک علی صاحب، بابو عزیز دین صاحب اور چوہدری مولا بخش صاحب اور دو نو مسلم خواتین بھی چھوڑنے آئیں۔ مولانا نیر صاحب نے احمدیہ مشن سالٹ پانڈ گولڈ کوسٹ (غانا) کا ایڈریس بھی اس خط میں شائع کیا ہے۔

۱۸؍اپریل ۱۹۲۱ء کے الفضل کے صفحہ ۶اور ۷ پر نامہ نیر نمبر ۲ شائع ہوا جس میں آپ نے لیورپول سے سیرالیون تک پہنچنے کے حالات لکھے ہیں اور پھر سیرالیون میں تبلیغی مساعی کا ذکر کیا ہے۔ آپ نے سیرالیون میں چار لیکچرز دیے۔ آپ کا وہاں خوب استقبال کیا گیا۔ ۱۹ اور۲۰ فروری کو آپ نے لیکچرز دیے اور ۲۱؍فروری کو سرکاری افسران سے ملاقاتیں کیں۔ سیرالیون کے مسلمانوں کی خواہش تھی کہ آپ وہیں رک جائیں لیکن ۲۱؍فروری کو جہاز نے روانہ ہونا تھا۔ سیرالیون روانگی سے پہلے خیرالدین صاحب جو ایک تعلیم یافتہ مسلمان تھے وہ بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے یوں سیرالیون میں احمدیت کا پودا لگ گیا۔ جہاز کے ایک افسر نے بھی اسلام قبول کیا۔ ان کا اسلامی نام احمد رکھا۔

۱۹؍مئی ۱۹۲۱ء کے الفضل کے صفحہ ۳تا ۷ پر گولڈ کوسٹ (غانا) میں تبلیغ احمدیت اور ہزاروں کی تعداد میں قبول احمدیت کی داستان مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ کی طرف سے تفصیلی رپورٹ کی صورت میں شائع کی گئی ہے۔ جماعتی سنٹر سالٹ پانڈ میں قائم ہوا جو کہ صوبہ وسطی کا صدر اور فینٹی قوم کا مرکزی مقام ہے۔ اس کی آبادی چار ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں خطبہ عربی میں دیا جاتا تھا۔ مولانا نیر صاحب لکھتے ہیں کہ یہ میرے لیے پہلا اور حیران کن موقع تھا کہ مجھے عربی میں خطبہ دینا پڑا۔ آپ نے تبلیغ کی مشکلات کا تذکرہ بھی اس رپورٹ میں کیا ہے جو احمدیت کی داغ بیل ڈالنے کے لیے ایک بالکل اجنبی علاقے میں پیش آتی ہیں۔ آپ کی تبلیغ سے الحمدللہ امیر مہدی صاحب کی معیت میں ان کے تمام چار ہزار ساتھیوں نے احمدیت قبول کی اور بیعت کا خط حضرت مصلح موعود کو روانہ کیا۔ الحمدللہ

حضرت مصلح موعودؓ کے سفر یورپ۱۹۲۴ء کی کوریج

تاریخ احمدیت میں سال ۱۹۲۴ءکو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس سال حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓنے پہلا سفر یورپ اختیار فرمایا۔ پہلی بار خلیفة المسیح کسی غیر ملک کا دورہ فرمارہے تھے۔ یورپ آتےجاتے ہوئے آپ نے بلاد عربیہ کو بھی شرف ورود بخشا۔ یوں اشاعت دین کی مساعی کے لیے نئی مہمات کا آغاز ہوا۔ یورپ کے دل لندن میں پہلی احمدیہ مسجد فضل کا سنگ بنیاد رکھا گیا جس سے مغرب کی روحانی فتح کی بیناد رکھ دی گئی۔ ویمبلےکانفرنس سفر یورپ کا محرک بنی تھی جس میں اسلامی نقطۂ نگاہ پیش کرنے کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کو دعوت خطاب دی گئی۔ ۱۲؍جولائی ۱۹۲۴ء کو سفر یورپ کے لیے قادیان سے روانگی ہوئی۔ قادیان سے بٹالہ سے دہلی اور وہاں بمبئی کا سفر بذریعہ ریل طے ہوا۔ بمبئی سے عدن تک بحری جہاز اور پھر پورٹ سعید مصرقاھرہ سے بیت المقدس اور دمشق اور بیروت اور پھر پورٹ سعید سے اٹلی اور اٹلی سے انگلستان روانہ ہوئے۔۲۳؍ستمبر کو ویمبلےکانفرنس میں لیکچر تھا۔۱۹؍اکتوبر کو مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا اور پھر ۲۵؍ اکتوبر کو واپسی کا سفر شروع ہوا۔ ۱۸؍نومبر کو بمبئی پہنچے اور ۲۴؍نومبر۱۹۲۴ء کو واپس بانیل مرام قادیان دارالامان پہنچ گئے۔ تقریباً ساڑھے چار ماہ کے اس سفر کی رپورٹ الفضل کی باقاعدگی کے ساتھ زینت بنتی رہی۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ہمسفر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانیؓ کی ڈیوٹی رپورٹنگ پر تھی۔آپ ہفتہ وار مصروفیات کی رپورٹ مرتب کرکے الفضل کو ارسال کرتے اور اخبار الفضل میں یہ رپورٹس شائع ہوتی تھیں۔ بعد میں یہ رپورٹس سفر یورپ کے نام سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔

۱۲؍جولائی ۱۹۲۴ء کو جب حضرت مصلح موعودؓ قادیان سے روانہ ہوئے۔ اس کے ایک دن پہلے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر تشریف لے گئے پھر جمعہ پڑھایا۔ پھر ہمسفروں کے ساتھ گروپ فوٹو ہوا۔ ۱۲؍جولائی کی صبح مسجد مبارک میں نماز پڑھائی۔ ۸بجے یہاں دعا ہوئی۔ دعا کے بعد مجمع کےساتھ گروپ فوٹو ہوا۔ پھر حضرت ام المومنینؓ سے ملنے گئے۔ پھر سب احباب سے روانگی سے پہلے مصافحہ ہوا اور پھر بٹالہ روانگی ہوئی۔ اس سارے منظر کی رپورٹ الفضل ۱۵؍جولائی کے صفحہ اول اور صفحہ دوم کی زینت بنی ہے۔ صفحہ دوم پر حضرت مصلح موعودؓ کی روانگی کے موقع پر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی دعائیہ نظم بھی شامل اشاعت ہے۔

مسجد فضل لندن کے سنگ بنیاد کی کوریج

۱۹؍اکتوبر۱۹۲۴ء وہ یادگار دن تھا جب حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے برطانوی راج کے دارالحکومت لندن میں پہلی احمدیہ مسجدفضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا۔ مسجد فضل لندن کے افتتاح کی تفصیلی رپورٹ ۲۰؍نومبر۱۹۲۴ء کو الفضل کے تین صفحات پر شائع ہوئی۔ اس کوریج میں تمام تفصیلات شامل کردی گئیں تھیں۔ جس میں موسمی حالت، ابتدائی تیاریاں اور مشکلات، مہمانوں کی آمد، پرائم منسٹر کا مکتوب، اخبار نویسوں کی شرکت، سنگِ بنیاد کی کاروائی، ریفریشمنٹ، مہمانوں سے گفتگو، حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کا خطاب اور مسجد کے کتبہ کا مضمون سبھی شامل تھے۔ اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ کی ایک خواب جس میں آپ کو ’’ولیم دی کانکرر‘‘ کے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے اس کا بیان بھی ان تین صفحات کی کوریج میں دیا گیا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ اپنے سفر یورپ سے بانیل مرام ۲۴؍نومبر قادیان پہنچے تھے۔ بمبئی سے قادیان کے سفر کے حالات الفضل ۶؍دسمبر۱۹۲۴ء کی اشاعت میں صفحہ اول اور صفحہ۲ پر تفصیل کے ساتھ شائع ہوئے ہیں۔

یورپ اور بلاد عربیہ میں قیام کی تفصیلی رپورٹس اور تبلیغی مہمات اور کامیابیوں کی خبریں الفضل اخبار نے باقاعدگی کے ساتھ شامل کیں جو احباب جماعت کی تسکین اور خوشی کا باعث بنتی تھیں اور آج وہ تاریخ احمدیت کے ایک روشن باب کے طور پر ہمارے پاس تاریخی ریکارڈکی صوت میں موجود ہے۔

نظارت دعوة و تبلیغ کی سالانہ رپورٹ

نظارت دعوت و تبلیغ کی سالانہ رپورٹ ۱۲؍جنوری ۱۹۲۶ء کے الفضل میں صفحہ ۵ تا ۷ پر تفصیل کے ساتھ شائع ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق لنڈن مشن میں مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہے۔ مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ اور ملک غلام فرید صاحبؓ وہاں کام کر رہے ہیں۔ ان کی تبلیغی مساعی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ رسالہ ریویو آف ریلیجنز انگریزی جو قادیان سے شائع ہوتا ہےوہ لندن منتقل کر دیا گیا ہے اور اب وہاں سے نکل رہا ہے۔

امریکن مشن کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مفتی محمد صادق صاحبؓ کے بعد مولوی محمد دین صاحب بھیجے گئے تھے جو اپنا وقت ختم کر کے واپس آگئے ہیں ان کی جگہ محمد یوسف خان صاحب کو وہاں چارج دیا گیا ہے۔

آسٹریلیا مشن کے انچارج مولوی حسن موسیٰ خان صاحب ہیں وہ پیرانہ سالی کے باوجود کامیابی کے ساتھ کام کر رہےہیں۔

دمشق مشن حال ہی میں قائم کیا گیا ہے اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اور مولوی جلال الدین شمس صاحبؓ وہاں کام کر رہے ہیں اور خدا کے فضل سے ایک جماعت قائم ہو گئی ہے۔

سماٹرا مشن میں مولوی رحمت علی صاحب کو اس سال بھیجا گیا ہے۔ خدا کے فضل سے کامیابی سے کام کر رہے ہیں۔

افریقہ مشن کے ذریعہ احمدیت تیزی سے پھیل رہی ہے اور یہ تبلیغی مساعی گولڈکوسٹ، شمالی نائیجیریا اور جنوبی نائیجیریا میں کامیابی سے جاری ہے۔

ماریشس میں صوفی غلام محمد صاحب بی اے کام کر رہے ہیں۔ یہاں مولوی عبیداللہ صاحب جوانی میں وفات پا گئے اور وہیں دفن ہوئے۔

اندرون ہندوستان تبلیغ کی رپورٹ میں تبلیغی دورے کرنے والوں میں مولانا غلام رسول صاحب راجیکی، مولوی غلام احمد صاحب، حافظ جمال احمد صاحب شامل ہیں۔ انہوں نے ۳۱۹؍ دیہات کے دورے کیے۔چھٹیوں میں اساتذہ کے دوروں کی تعداد ۱۲۳؍ رہی۔ نئے مبلغین نے ۸۹؍ دیہات کے دورے کیے۔ یوں کل ۵۴۱ دورے بنتے ہیں۔ مختلف مقامات پر مباحثات ہوئے۔ تقاریر کئی مقامات پر کی گئیں۔ ۷۶؍ تبلیغی اجلاس ہوئے۔ ۱۵۹؍ جلسے ہوئے جن میں ۵۱۳؍ تقاریر ہوئیں۔ زیر عرصہ رپورٹ میں بیعت کنندگان کی تعداد ۱۴۹۷؍ ہے۔ سیالکوٹ بیعتوں میں اول اور گورداسپور دوم رہا۔گجرات اور بنگال تیسرے نمبر پر رہے۔

مبلغ جرمنی کا برلن سے خط

اخبار الفضل ۲۵؍مارچ ۱۹۲۴ء کے صفحہ ۱۴،۱۵ پر جرمنی پہنچنے والے نئے مبلغ محترم ملک غلام فرید صاحب ایم اے کا خط شائع ہوا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ وہ ۱۸؍دسمبر ۱۹۲۳ء کو انگلستان سےبرلن جرمنی پہنچے تھے اور محترم مولوی مبارک علی صاحب سٹیشن پر انہیں لینے کے لیے آئے۔ انہوں نے اپنے سفر کی تفصیلی روداد تحریر کی ہے اور سفر کے دوران تبلیغ کے جو واقعات پیش آئے ان کا ذکر بھی کیا ہے۔اسی طرح راستے میں اٹلی قیام کے دوران وہ پگڑی اچکن میں ملبوس تھے تو اس وجہ سے بھی لوگوں کی توجہ کا مرکزبنے رہے۔ اپنے خط کے آخر میں ملک غلام فرید صاحب لکھتے ہیں کہ پگڑی باعث عزت لباس ہے بعض لوگ یورپ آکر پگڑی چھوڑ دیتے ہیں اور Caps اور Hats کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ میں آج تک پگڑی پہنتا آرہا ہوں اور یہ لوگوں کی توجہ کا باعث بنتی ہے۔

ایران میں احمدی مبلغ کی شہادت کی خبر

مورخہ ۲۷؍مارچ ۱۹۲۸ء کے اخبار الفضل نے صفحہ اول پر جلی سرخی کے ساتھ ایران میں ایک احمدی مبلغ کی شہادت کی خبر دی کہ جناب شہزادہ عبدالمجید خان صاحب لدھیانوی جو نہایت نیک نفس انسان تھے اور ۱۹۲۴ء سے ایران میں تبلیغ اسلام کے فرائض سر انجام دے رہے تھے چند یوم بیمار رہ کر وفات پاگئے ہیں۔ حضورؓ نے ۲۳؍مارچ کے خطبہ میں ان کی وفات کی بابت تذکرہ فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ راہ مولیٰ میں جہاد کے دوران وفات سے شہادت کا درجہ قابل رشک ہے۔

دارالتبلیغ شام و فلسطین کی خبریں

بلاد عربیہ شام کے لیے دو مبلغین محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین شمس صاحب ۲۷ جون ۱۹۲۵ء کو قادیان سے روانہ ہوئے۔ قبل ازیں ان کی الوداعی دعوتیں بھی ہوئیں۔ روانگی کے وقت طلباء و اساتذہ مدارس و دیگر احباب مقام الوداع پر پہنچ گئے جہاں حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ نے دعاؤں کے ساتھ انہیں رخصت کیا۔ان کی روانگی کی خبر الفضل ۳۰؍جون ۱۹۲۵ء میں صفحہ اول پر تینوں کالم مدینة المسیح کے عنوان کے تحت دی گئی۔ ۱۱؍جولائی ۱۹۲۵ء کے الفضل میں ان مبلغین کے اعزاز میں منعقد تقریب میں حضرت مصلح موعود کی تقریر بھی شائع شدہ ہے۔

۱۸؍اگست ۱۹۲۵ءکے الفضل میں صفحہ اول پر دوسرے اور تیسرے کالم اور صفحہ ۲ کے پہلے کالم میں مولانا جلال الدین شمس صاحب کی رپورٹ جو آپ نے دمشق سے لکھی تھی وہ شائع ہوئی ہے۔ اس خط میں آپ نے دمشق میں اپنا پتہ بھی ساتھ لکھا ہے۔ اس خط میں دمشق میں ہونے والی تبلیغی مساعی کا ذکر ہے۔

۱۸؍جون ۱۹۲۶ء کے الفضل میں صفحہ ۳تا ۷ دمشق میں تبلیغ احمدیت کی اہمیت کی سرخی کے ساتھ پہلے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی مختصر تقریر شائع ہوئی ہے جو انہوں نے دمشق سے واپسی پر طلبہ مدرسہ کے ایڈریس کے جواب میں کی اور پھر حضرت مصلح موعودؓ کی مکمل تقریر جو حضرت صاحب نے اس موقع پر فرمائی تھی اس کو شائع کیا گیا ہے۔ اس تقریر میں حضرت مصلح موعودؓ نے جہاں مبلغین شام کی مساعی کو سراہا ہے وہاں شام میں تبلیغ احمدیت کی اہمیت بھی بیان فرمائی ہے۔ یہ تقریر الفضل کے چار صفحات پر مشتمل ہے۔

دارالتبلیغ جاوا /سماٹرا کی خبریں

انڈونیشیا میں حضرت مولوی رحمت علی صاحب پہلے مبلغ کے طور پر دسمبر ۱۹۲۵ء میں بھجوائےگئے تھے۔ اس سے پہلے انڈونیشیا سے کچھ طلباء قادیان تشریف لائے تھے اور انہوں نے قادیان میں تعلیم حاصل کی تھی۔

حضرت مصلح موعودؓ اپنے سفر یورپ سے نومبر۱۹۲۴ء میں واپس قادیان آئے تو آپ کے لیے جو مختلف استقبالیہ تقاریب ہوئیں ان میں ۲۹؍نومبر ۱۹۲۴ء کو ۴ بجے سماٹرا کے طلبہ نے ٹی پارٹی دی۔ تلاوت اور عربی نظم کے بعد عربی میں نہایت مخلصانہ ایڈریس پڑھا اور حضور نے عربی میں جواب دیا۔ (الفضل ۴؍دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲)

۲۲؍اکتوبر ۱۹۲۹ء کی الفضل میں صفحہ اول مدینة المسیح کے عنوان کے تابع یہ خبر شائع ہوئی کہ ۱۹؍اکتوبر دوپہر کی گاڑی سے مولوی رحمت علی صاحب مبلغ سماٹرا مع چند اہل کار تشریف لائے۔ سٹیشن پر ایک بڑے مجمع نے ان کا استقبال کیا۔ مولوی صاحب ۱۹۲۵ء میں سماٹرا بھیجے گئے تھے جہاں انہیں اللہ کے فضل سے بڑی کامیابی ملی ہے اور ایک اچھی جماعت قائم ہو گئی ہے۔ مولوی صاحب کے ساتھ انڈونیشیا سے مقامی احمدیوں کا ایک وفد بھی آیا ہے۔

مبلغین کی آمد و روانگی کی خبریں

مرکز سلسلہ قادیان سے مبلغین کی روانگی اور پھر بیرون ممالک سے ان کی واپسی پر خصوصی اہتمام ہوتا۔ حضرت مصلح موعودؓ دعا کے ساتھ رخصت کرتے اور والہانہ انداز میں ان کا اہل قادیان استقبال کرتےتھے۔ الفضل اخبار ان ہر دو مواقع کی کوریج اخبار میں نمایاں طور پر کرتا رہاہے۔ جو آج تاریخ احمدیت کا ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ نمونہ کے طور پر چند ابتدائی مبلغین کی آمد و رفت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ کچھ مبلغین کی روانگی کا ذکر گذشتہ خبروں میں بھی آچکا ہے۔

٭…۲۶؍فروری ۱۹۲۹ء کے اخبار الفضل میں صفحہ اول پر مدینة المسیح کے عنوان کے تابع مولوی نذیر احمد علی ابن بابو فقیر علی صاحب سٹیشن ماسٹر قادیان شام کی گاڑی سے حکیم فضل الرحمٰن صاحب مبلغ سالٹ پانڈ کی جگہ روانہ ہوئے۔ حکیم صاحب چند ماہ ان کے ساتھ رہیں گے اور پھر ہندوستان کے لیے روانہ ہوں گے۔

٭…۲۲؍اکتوبر ۱۹۲۹ء کی اخبار میں خبر ہے کہ مولوی رحمت علی صاحب مبلغ سماٹرا ۱۹؍اکتوبر دوپہر کی گاڑی پر قادیان واپس پہنچے بڑے مجمع نے ان کا استقبال کیا۔

٭…۲۸؍جوالائی ۱۹۳۱ء کی اخبار الفضل صفحہ اول پر خبر دی گئی کہ ۲۵؍جولائی کو مولوی محمد یار عارف صاحب لندن میں تبلیغ اسلام کے لیے روانہ ہوئے۔ الوداع کے لیے بہت بڑا ہجوم سٹیشن پر موجود تھا۔

٭…مورخہ ۱۸؍ اگست ۱۹۳۱ء کی الفضل صفحہ اول خبر تھی کہ مولوی محمد یار عارف صاحب ۱۴؍ اگست کو لنڈن پہنچ گئے اور صوفی عبدالقدیر صاحب جو اگست ۱۹۲۸ء کو بطور مبلغ لنڈن تشریف لے گئے تھے تین سال بعد ۱۶؍ اگست کو بخیریت قادیان پہنچ گئے ہیں۔

٭…یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء کے الفضل میں یہ خبر صفحہ اول پر دی گئی کہ ۲۸؍ستمبر کو مولوی ابو بکر ایوب صاحب سماٹری تقریباً دس سال قادیان میں تعلیم حاصل کرنے اور مولوی فاضل کی ڈگری کے بعد اپنے ملک سماٹرا روانہ ہو گئے۔ مولانا شیر علی صاحب اور دوسرے اصحاب نے سٹیشن پر الوداع کہا۔

٭…الفضل ۲۲؍دسمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ پر خبر دی گئی کہ مولانا جلال الدین شمس صاحب مبلغ شام ۲۰؍دسمبر کو بخیر یت قادیان واپس پہنچ گئے۔ آپ جولائی ۱۹۲۵ء میں تبلیغ احمدیت کے لیے شام گئے تھے اور ساڑھے چھ سال بعد واپس آئے۔ حضرت مصلح موعودؓ بنفس نفیس آپ کے استقبال کے لیے سٹیشن تشریف لے گئے اور شاندار استقبال کیا گیا۔

٭…۵؍فروری ۱۹۳۲ء کی اخبار الفضل میں مدینة المسیح کے کالم کے تابع خبر دی گئی کی ۲؍فروری کو بذریعہ ٹرین مولانا عبدالرحیم درد صاحب اور حکیم فضل الرحمٰن صاحب عازم انگلستان ہوئے۔ حضرت مصلح موعودؓ اپنے خدام کی عزت افزائی کے لیے خود سٹیشن پر تشریف لے گئے۔

کیا خوش قسمتی تھی ان ابتدائی مبلغین کی کہ جن کو روانہ کرنے کے لیے ان کا آقا خود سٹیشن پر موجود ہوتا اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتا۔ ایں سعادت بزور بازو نیست۔

مشن ہاؤسز کی سالانہ رپورٹس

جماعتی ترقی جوں جوں اپنی منازل طے کرتی رہی اور مشن ہاؤسز مستحکم ہوتے گئے تو ان کی سالانہ رپورٹس بھی الفضل اخبار کی زینت بنتی رہی ہیں۔ مثال کے طور پر احمدیہ مشن لندن کی سالانہ رپورٹ جو کہ مارچ ۱۹۳۳ء سے فروری ۱۹۳۴ء کی کارکردگی پر مشتمل ہےالفضل کے دو شماروں میں شائع ہوئی۔ قسط اول ۲۴؍ مئی ۱۹۳۴ء کے الفضل میں صفحہ ۶ تا ۹ یعنی ۴ صفحات اور قسط دوم ۲۷؍مئی ۱۹۳۴ء کے الفضل میں صفحہ ۵ تا ۸ یعنی ۴ صفحات، گویا کل ۸ صفحات پر تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی۔ اس سے قارئین کام کی وسعت اور تبلیغی کاوشوں کی اہمیت اخبار الفضل کے نزدیک کیا تھی اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

خلاصہ کلام

ہم بر ملا کہہ سکتے ہیں کہ اخبار الفضل نے آغاز پر اپنی اشاعت کی ضرورت اور غرض و غایت یہ بھی بیان کی تھی کہ تبلیغ کی طرف رغبت، اس کے مواقع کی تلاش اور تبلیغی مساعی کی حوصلہ افزائی کی جائیگی،اس کو احسن انداز میں پورا کیا اور تبلیغی مساعی کے لیے اپنے صفحات کو دل کھول کر پیش کیا ہے۔ اسی طرح مبلغین کرام کی آمد و روانگی کی خبروں کو خصوصی کوریج دے کر نہ صرف مبلغین کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی بلکہ مبلغین کے خاندانوں کے لیے بھی یہ بات حوصلہ افزائی اور تسلی کا باعث بنتی رہی کیونکہ ابتدائی مبلغین کی بڑی تعداد اپنے بیوی بچوں کے بغیر ہی اعلائے کلمة الاسلام کی خاطر سالہا سال میدان عمل میں جہاد کرتے رہے اور انہوں نے میدان عمل کی مشکلات کے علاوہ اپنے بیوی بچوں کی جدائی کا غم برداشت کر کے بھی عظیم قربانی کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو آج دنیا بھر میں پھل لگا رہا ہے۔تبلیغ احمدیت کے لیے اخبار الفضل کی کوریج تاریخ احمدیت کے روشن باب اور قیمتی اثاثے کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button