تقریر جلسہ سالانہ

خلاصہ تقریر: سکول میں بچوں کو پیش آنے والی مشکلات کا حل (انگریزی)

جلسہ سالانہ یوکے کے تیسرے دن کے صبح کے اجلاس کی دوسری تقریر مکرم اظہر حنیف صاحب نائب امیر و مبلغ انچارج جماعت احمدیہ امریکہ کی تھی۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا’’سکول میں بچوں کو پیش آنے والی مشکلات کا حل‘‘۔ یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل کہ میں اپنے موضوع کے متعلق بات کروں میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جو اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ ہمارے پیارے آقا اور امام حضور انور ایدہ اللہ نے کیونکر اس موضوع کو جلسہ سالانہ کے لیے چنا۔حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ اس عمر میں شیطان کی جانب سے گمراہ کرنےاور اپنی طرف متوجہ کرنے کے مواقع پیدا ہوجاتے ہیں۔ دعا اور مناسب کوشش ہی اللہ کے فضل سے ہمیں اور ہمارے بچوں کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔ یہ ایک مستقل جہاد ہے ۔چنانچہ دعا ، کوشش اور اللہ کی تائید سے ایک مومن خود کو اور اپنی اولاد کو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھ سکتاہے۔نہ یہ کہ وہ ناامید ہوجائے اور مایوسی سے کوشش کرنا چھوڑ دےاور منفی سوچ اس پر حاوی ہو جائے۔منفی سوچ کی ایک مثال میرے سامنےاس وقت آئی جب مجھے کسی نے خط لکھا اور کہا کہ دنیا پیسے کے پیچھے بھاگ رہی ہے ،نئی برائیاں ابھر رہی ہیں اور معاشرہ پہلے سے زیادہ برائی اور گمراہی کی طرف کھنچا چلا جارہاہے۔لکھنے والے نے لکھا کہ وہ شادی تو کرے گا لیکن وہ نہیں چاہتا کہ اس کے ہاں بچے ہوں اور بے اولاد رہنا پسند کرے گا۔

مولانا صاحب نے کہا کہ کیا مسائل کا یہی حل ہےکہ ہر شادی شدہ شخص کو یہ کہا جائے کہ وہ اولاد پیدا نہ کرے۔ تو کیا اولاد پیدا نہ کرنا اولاد کی تعلیم و تربیت کے مسائل کا حل ہے۔ہرگز نہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ انتہائی قنوطیت پسندی اور شیطان کے ہاتھوں شکست تسلیم کرنےکےمترادف ہے۔ اور یہ کہ اللہ کے پاس کوئی طاقت نہیں کہ باوجود ہماری کوششوں اور دعاؤں کے وہ ہمارے بچوں کو شیطان کے حملوں سے بچا سکے۔ یہ تو شیطان کے پیروکاروں کو کھلی چھوٹ دینےکے مترادف ہےکہ وہ مومنوں کی اولادوں کو جیسے مرضی تباہ و برباد کر دیں۔چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ کے کسی بھی پیروکار کو ایسی قنوطی سوچ نہیں رکھنی چاہیے۔

اللہ کے فضل سے ہم اس مسیح موعودؑ کے ماننے والے ہیں جس کو اللہ نے شیطان کو شکست دینے اور زمین پر اس کی بادشاہت قائم کرنے کےلیے بھیجا ہے۔دجال کا مطلب بھی مجسم شیطان ہے اور پرانے صحیفوں میں لکھاہےکہ کیسے آخری زمانے میں شیطان کے ساتھ جنگیں ہوں گی اور وہ آخر کار شکست کھائے گا۔ اور مسیح موعود اس کو مکمل طور پر زیر کر لے گا۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے حضرت مسیح موعود ؑ نے شیطانی طاقتوں کو شکست دی اور ہمیں مسائل کا مقابلہ کرنے کےلیے راہنمائی کی۔تعلیم الاسلام سکول قادیان کی تاریخ اور ضرورت بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ قادیان کا مڈل سکول آریوں کا تھا اور وہ سکول میں بتاتے کہ گوشت کھاناانسانی جبلت کے منافی ہے اور براہ راست اسلام پر اعتراضات کرتے۔آپ نے اپنا بھی واقعہ بیان کیاکہ جب آپ پرائمری سکول میں داخل ہوئے تو ایک بار گھر سے آپ کے لیے کلیجی کا گوشت بھیجا گیا تو میاں عمر الدین صاحب نے دیکھ کر کہا کہ کیا آپ بھی گوشت کھاتے ہیں۔ اور گوشت لفظ کی جگہ انہوں نے ماس کا لفظ استعمال کیا۔تو آپ نے کہا کہ یہ ماس نہیں کلیجی ہے کیونکہ آپ نے پہلی بار لفظ ماس سنا تھا۔اس پر انہوں نےکہا کہ جانور کے گوشت کو ماس کہتے ہیں ۔ وہ گو کہ مسلمان تھے لیکن آریہ استادوں کی وجہ سے گوشت کھانےکو غلط بلکہ جرم سمجھتے تھے۔چنانچہ جب یہ تنقید حد سے بڑھ گئی تو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ہر حال میں جماعت کو اپنا پرائمری سکول کھولنا چاہیے۔(ماخوذازخطبہ جمعہ ۲۷ مارچ۲۰۱۵ء)
حضرت عیسیٰؑ نےکہا ہے کہ اپنے موتی سؤروں کے سامنے نہ پھینکو
وہ انہیں پیروں تلے روند دیں گے۔

چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے نہ چاہا کہ آپ کا لخت جگر اور دوسرے مسلمان بچے جو بیش قیمت ہیروں کی طرح تھے، ایسے استادوں کےہاتھ میں رہیں جو انکی مسلم شناخت ہی ختم کردیں۔مسلمان اقلیت تھے اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے مسلمانوں کو ہندوؤں کی سوچ اور روایات کے مطابق چلنا پڑتا تھا۔

مسلمان بچوں کو ایسے زہر آلود ماحول سے بچانے اور انہیں اسلام کے حق میں دلائل سکھانے اور اسلام کا سچا خادم بنانے کےلیے حضرت مسیح موعودؑ نے ۳؍ جنوری ۱۸۹۸ء کو تعلیم الاسلام سکول کا آغاز کیا۔لڑکوں اورلڑکیوں کا سکول میں داخلہ کیا گیا ۔آنحضور ﷺ کی یہ حدیث کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اس بات پر شاہد ہےکہ اسلام عورتوں کی تعلیم کو بھی برابر اہمیت دیتاہے۔

تب اور اب بھی یہی ایک بہترین حل ہے جو ہر جگہ برطانیہ اور یورپ کے ممالک میں کرسچن سکولوں اور یونیورسٹیوں میں جاری ہے۔

ہمارے بچے یہاں اقلیت میں ہیں اور ان پر بالواسطہ یا بلاواسطہ معاشرتی روایات اور سکول کی پالیسیوں کا اثر ہوتا ہےجو براہ راست اسلام سے متصادم ہو رہی ہوتی ہیں۔فرانس کے سکولوں میں حجاب پر پابندی اس کی ایک مثال ہے۔

ایک لڑکی نے بتایا کہ باوجود انتہائی قابل ہونےکے اس کو ڈسپلنری بورڈ کےسامنے پیش کیا گیا جہاں اس کو ہراساں کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ ایران نہیں ہے ۔(یعنی تم حجاب اتار سکتی ہو)۔ پھر اس کو الجیریا کی ایک شدت پسند تنظیم کے ساتھ جوڑا گیا۔اس کو کھیل کے میدان میں جانے سے روکا گیا اور کلاس میں بیٹھنے سے منع کیاگیا۔لوکل مسجد اور مسلمان گروہوں نے کہا کہ حجاب اتار دو لیکن میں نہیں مانی کیونکہ مجھے یہ لگا جیسے مجھے بے لباس ہونے کے لیے کہا جا رہا ہو۔

یہ باتیں اسلام لڑکیوں کی حفاظت کےلیے سکھاتا ہے یہ کوئی پرانے دقیانوسی خیالات نہیں ہیں۔یہ ایک نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے میں لڑکیوں کی حفاظت کے لیے اور اپنے ساتھی طلبہ سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے۔ برطانیہ میں جنسی ہراسانی کو افشاء کرنے کےلیے ایک لڑکی نے Everyone’s Invited نامی ویب سائٹ بنائی جہاں پر ایک رات میں دس ہزار سے زائد جنسی ہراسانی کے واقعات کی گواہی دی گئی۔

لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ سکول اس قسم کی ہراسانی سے بچانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔الائنس آف گرلز سکولز آسٹریلیا کی چیف لورن بریج کہتی ہیں کہ لڑکیاں ایسے زیادہ سیکھتی ہیں ان کی توجہ میک اپ پر نہیں ہوتی۔ان کا سکول کا سارا وقت صرف سیکھنے اور خود اعتمادی پیدا کرنےمیں صرف ہوتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں(خلاصہ) بچوں کو ایسی باتیں سکھائی جارہی ہیں اور ان کو جنسیت کے متعلق ایسی تعلیم دی جارہی جس کو وہ اس عمر میں سمجھ ہی نہیں سکتے اور اس طرح سے یہ بچوں کی معصومیت کےلیے تباہ کن ہیں اور مستقبل میں برے نتائج کا باعث بنتی ہے۔

کینیڈا میں ایک استانی نے مسلمان بچوں کوجان بوجھ کر پرائیڈ منتھ ایونٹ پر حاضر نہ ہونے پر کہا کہ مسلمان بچوں کو اس میں شامل ہونا چاہیے تھا تا کہ ان کے خلاف مذہب ،رنگ یا نسل کے جذبات نہ ابھریں۔

آنحضورﷺ نے دجال کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی بتائی تھی کہ مرد عورتوں جیسے اور عورتیں مردوں جیسی نظر آئیں گی۔یہ ہونا ہی تھا۔ سکولوں میں بچوں کو کہا جاتا ہے اُسے قبول کریں ورنہ ہمارے بچوں کو اس بات کا خوف ہوتا ہےکہ ان کو متعصب یا Anti Gay نہ کہہ دیا جائے۔پہلے کہا جاتا تھا کہ گوشت نہ کھاؤ اب کہا جاتا ہے حجاب اتارو۔ننگے ہو کر نہاؤ۔غیر اخلاقی کام کرو۔اسی وجہ سےحضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھاکہ جماعت کے اپنے سکول،کالج،یونیورسٹی ہونے چاہئیں۔

۱۹۷۶ء میں کینیڈ ا میں دو جماعتی سکولوں کا قیام عمل میں آیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اپنے امریکہ کے دورہ کے دوران تجویز دی تھی کہ سکول چلانےکے لیے عمارت،طلبہ ، اساتذہ ،اور فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ میں ابھی اتنی جماعت نہیں ہے اور جو ہے وہ بہت بکھری ہوئی ہے۔ لیکن ہم اپنے بچوں کو بھول نہیں سکتے اور نہ ہی یہ برداشت کر سکتےہیں کہ وہ شیطان کے سائے میں زندگی گزاریں۔ایک منصوبہ یہ ہے کہ چھٹیوں میں بچے شہروں کے باہر مختص جگہوں میں رہیں جہاں وہ تربیت یافتہ اور اہل علم افراد کے ساتھ رہیں جو ان کو اسلام کی بنیادی تعلیم دیں ۔

چنانچہ ووکیشن سکول ایک ایسا انتخاب ہےجہاں بچے کم ہوں۔حضورانور ایدہ اللہ نے حال ہی میں فرمایا تھا کہ ایسے والدین جو بچوں کو گھروں میں پڑھا سکتے ہیں وہ بچوں کی گھروں میں اخلاقی بنیاد اوراسلامی شناخت مضبوط کریں اور پھر ان کو سرکاری سکولوں میں بھیج دیں ۔لیکن یہ ان والدین کے لیے ہے جن میں برداشت اور حوصلہ ہو۔اس کے علاوہ آج کل ورچوئل سٹڈی کا بھی انتخاب کیا جا سکتا ہے۔جہاں پر تربیت یافتہ اساتذہ موجود ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس فرماتے ہیں کہ جب بچے سکول سے آئیں تو ان کوایک پر سکون ماحول ملنا چاہیے ۔اپنے بچوں کو ایسی باتیں بتائیں جو ان کو اللہ اور رسول ﷺکے قریب کرنے والی ہوں ۔ احمدی ماں باپ کا اپنے بچوں سے دوستانہ تعلق ہونا چاہیے۔احمدی مائیں خاص طور پر اپنے بچوں میں مذہبی روایات پیدا کریں۔ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے سوالوں کے جواب دے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ماؤں کو حضرت اماں جانؓ کو بطور رول ماڈل اختیارکرنے کو کہا۔حضرت اماں جانؓ کی مثال ایک محبت کرنے والی ماں کی مثال ہے۔حضرت مرزا ظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت اماں جان ؓ کو دیکھا کہ کیسے وہ محبت کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کی تعلیم و تربیت کرتی تھیں۔

حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سابق امیر امریکہ فرماتے ہیں کہ بہترین یونیورسٹی ہر احمدی گھر میں موجود ہے۔ مائیں بہترین استاد ہوتی ہیں۔وہ یاد کرتے تھے کہ کیسے حضرت اماں جان حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو باہر جاتے ہوئے دعا دیا کرتی تھیں کہ خداتعالیٰ تمہار ا حامی و ناصر ہو۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اولاد کو خداتعالیٰ،دین اورخلافت کی محبت میں بڑھانے والا بنائے۔اور شیطانی حملوں سے محفوظ رکھے۔

اس کے بعد مکرم عبدالحئ سرمد صاحب نےحضرت مسیح موعودؑ کے درج ذیل منظوم کلام میں سے منتخب اشعار خوش الحانی سے پیش کیے

میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر

میں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button