تقریر جلسہ سالانہ

خلاصہ تقریر: آنحضرتﷺ کا اسوۂ حسنہ امن عالم کا ضامن ہے (اردو)

جلسہ سالانہ یوکے کے تیسرے دن کے صبح کے اجلاس کی پہلی تقریر ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز صاحب چیئرمین انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیٹی یوکے کی تھی۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا ’’آنحضرتﷺ کا اسوۂ حسنہ امن عالم کا ضامن ہے‘‘۔

آپ نے وَمَا أَرْسَلْنٰكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِينَ (سورۃ الانبیاء:۱۰۷) کی تلاوت کی اور ترجمہ پیش کیا کہ اور تجھےنہیں بھیجا مگرتمام جہانوں کے لیے رحمت کے طور پر۔

ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ آیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم ساری دنیا کو واقف کروائیں کہ حضرت محمد ﷺ صرف ہم مسلمانوں کےلیےہی نہیں بلکہ سارے انسانوں کی ہدایت کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اس تعلق کی بنا پر ہم پر ایک اہم اور بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اقوام عالم کے سامنے آپؐ کا اس طرح تعارف پیش کریں جس طرح اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم میں کیا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی زندگی کو بالخصوص امت مسلمہ کے لیےاور بالعموم ساری انسانیت کے لیے نمونہ بنا کر پیش کیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی خصوصیت وامتیاز دوسرے انبیاء و رسل کی زندگی کے مقابلے میں یہ ہے کہ آپؐ کی تئیس سالہ مختصر نبوی زندگی اتنی ہمہ گیر ہے کہ ایسا لگتا ہے آپؐ کی حیات طیبہ گویا سارے انبیاء و رسل کی سیرتوں کا خلاصہ ہے۔ گویا سارے انبیاء کی سرگزشت کو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی زندگی میں سمو دیا ہے۔آپ پر ایک کامل شریعت قرآن کریم نازل کی گئی جس میں امن عامہ کی بہترین تعلیم دی گئی جسے آپؐ نے دنیا میں قائم کرنے کا بہترین نمونہ بھی عطا فرمایا۔ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اپنی خدا داد قوّت قدسی کے طفیل اس وحشی اور خونخوار جنگجو قوم کے دلوں کو محبت اور دلائل کے ذریعہ ایسا گھائل اور قائل کیا کہ وہ لوگ ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے۔ آپؐ نے بچیوں کو رحمت کا خطاب دے کر عورت کے حقوق قائم کیے ۔آج دنیا میں امن اور ترقی کے لیے عورت کا قابل تحسین کردار محسن عظیم محمدﷺ کا مرہونِ منت ہے۔جنگ بدر میں آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ قریش کوپانی پی لینے دیا جاوے۔ چنانچہ اُنہوں نےامن کےساتھ پانی لیا اور اپنےلشکر کو واپس لوٹ گئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نےبرطانوی پارلیمنٹ میں خطاب میں فرمایا کہ آج بھی امن صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے۔ جب دشمن کے لیے بھی عدل کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔ اس طرح جو امن حاصل ہو گا۔ درحقیقت وہی پائیدار امن ہو سکتا ہے۔

آپؐ نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے انسان امن میں رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی جانیں اور مال محفوظ رہیں۔

آنحضورﷺ نےگھر کی بنیادی اکائی سے امن کا آغاز فرمایا۔ اور انسانی معاشرت کی اس بنیادی اکائی کے امن کو برقرار رکھنے کے لیےراہ نما اصول متعین فرمادیے ہیں ۔آپؐ نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے بچوں سے رحم کا سلوک نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کے حق کا پاس نہیں کرتا۔

پھر گھروں میں امن وسلامتی کا دوسرا اہم تعلق انسانی زندگی میں زوجین کا ہے جو بہت اہمیت کا حامل ہے۔آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے۔

رسول کریمﷺ نے رحمی رشتوں کو جوڑنے کی طرف خاص توجہ دلائی پھر آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو دنیا کے ہر انسان سے پیار، محبت اور خیرخواہی کی تعلیم دی ہے اور اس میں کسی قسم کے امتیاز کو رَوا نہیں رکھا۔ فرمایا: جو لوگوں پر رحم نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر رحم نہیں کرے گا۔

نبی کریمﷺ نے اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دے کر ہر ضرورت کے وقت اُس کی مدد کی تعلیم دی ہے ۔یہ ایک ایسی اعلیٰ تعلیم ہے کہ امنِ عالم کی گارنٹی دیتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حقِ ہمسائیگی کا ہمیشہ خیال رکھتے۔ فرماتے تھے کہ جبریل نے مجھے ہمسایہ سے حسن سلوک کی اس قدر تلقین کی یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ ہمسایہ کو شاید حق وراثت میں بھی شامل کرنے کی ہدایت کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا’’چالیس گھروں تک ہمسایہ کا حق ہوتا ہے۔‘‘

پھر آپ ﷺ نے دنیا میں امن کے قیام کے لیے عظیم الشان نمونے اور اصول قائم فرمائے۔ اُن میں سے ایک عظیم اصول یہ ہے کہ امن کے لیےہجرت کر لی جائے۔ اور اپنا وطن عزیز بھی اگر چھوڑنا پڑے تو پھرامن کی خاطر چھوڑ دیاجائے۔

چنانچہ آپ ﷺنےکفار مکہ کے مظالم بڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہجرت کا فیصلہ فرمایااور امن کی خاطر مکہ کوچھوڑ کر مدینے میں جابسے۔ رسول کریمﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود، مشرکین اور دیگر قبائل مدینہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے معروف ہے۔ یہ معاہدہ مذہبی آزادی اور حریّت ضمیر کی بہترین ضمانت ہے۔ اور دنیا میں قیام امن کے لیے ایک بنیادی چارٹرہے۔

پھر رسول کریمﷺ نے ہجرت مدینہ کے بعد سربراہِ مملکت اور حاکم وقت کے طور پر دس سال تک عملاً امورِ مملکت چلائے۔ یہاں تک کہ مدینہ کی محدود شہری مملکت ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پورے عرب کی وسعتوں پر چھاگئی۔ محسن انسانیتﷺ کی زیر نگرانی چلنے والی مملکت میں ہر خاص و عام اور مسلم و غیر مسلم کے معاشی تحفظ اور اُن کی معاشرت کاخاص خیال رکھا گیا۔ یہاں تک کہ مملکت کی حدود میں بسنے والے تمام باشندے بلا امتیاز ہر قسم کی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی سہولتوں سے متمتع ہوتے رہے۔ آپؐ نے آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے اسلامی شریعت کے جامع اُصول و ضوابط بیان فرمائے اور انہیں باور کرایا کہ حقوق انسانی کی ادائیگی اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔

دنیا آج جنگ کی آگ میں جھلس رہی ہے۔ جنگ کے شعلے یورپ کے دہانے سے ہوتے ہوئےروس یوکرین کی جنگ کی شکل میں ہمارے سامنےہیں۔

آنحضورﷺ اور آپ کےا صحاب رضی اللہ عنہم مسلسل تیرہ سال تک کفار مکہ کے ہاتھوں، اذیتیں، دکھ اور تکالیف اُٹھاتے رہے لیکن آپؐ نے مسلمانوں کو بھی یہی تلقین فرمائی ہے کہ وہ جنگ کی خواہش نہ کیا کریں فرمایا کہ دشمن سے مقابلہ کی تمنا نہ کرو اور جب ان سے مڈھ بھیڑ ہوجائے تو ثابت قدم رہو۔

سامعین کرام!دنیا کے امن کو تباہ کرنے میں ناانصافی کا بہت عمل دخل ہے جس کی وجہ سے رقابتوں میں اضافہ ہوتا ہے، عداوتیں بڑھتی ہیں اور نفرتیں پھولتی پھلتی ہیں۔ اسلام نے بلاتفریق مذہب وملت انصاف سے بڑھ کر احسان کا حکم دیا ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا حکم دیتا ہے۔

آپؐ نے معاشرے کے ہر فرد کے لیے عدل وانصاف کے یکساں اصول متعین فرمائے اور انہی کے مطابق عمل بھی کروایا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ جب ان کا کوئی بڑا اور بااثر آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑدیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے۔ خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔

مقرر نے کہا کہ دنیا میں بڑے بڑے فسادات کی ایک بڑی وجہ قومی تفاخرہے۔ آپ ﷺ نے انسانی مساوات کے اصول سے امن کے قیام کی سنہری تعلیمات پیش فرمائی ہیں۔ موجودہ دَور میں بظاہر Racismکو برا خیال کیا جاتا ہے اوراسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن دنیا کے اکثروبیشتر معاشروں میں Racismکی وجہ سے انسانوں کے درمیان دُوریاں بڑھ رہی ہی۔

نبی کریمﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کے مطابق نسل پرستی کی ہر شکل نہایت مکروہ اور امن عالم کے لیے زہر قاتل ہے۔ اسلامی تعلیم ہے کہ اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا(اور) ہمیشہ باخبر ہے۔

اس طرح تاریخ عالم میں پہلی مرتبہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ہم پلہ قرار دے کر اسلام نے انسانی مساوات اور امن عالم کا ایسا منشور پیش کیا جس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں پائی جاتی۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اگر کسی کو کوئی شرف حاصل ہے تو وہ تقویٰ کی بنا پر ہے۔

پس آپ ﷺ کی زندگی کا سب سےبڑا معجزہ یہ ہےکہ آپ نےقیام امن کےلیے دنیا کے سامنے جو بھی تعلیمات دیں اُن سب کو اپنی مبارک زندگی کےعملی نمونہ سے مزین کر کے دکھایا۔ آپ ﷺ نے لوگوں کی تربیت کرنے سے قبل خود کو ایک بہترین مثال اورراہنما بن کر عملی نمونہ دکھا یا۔

آپؐ کی زندگی میں بے شمار رول ماڈل اللہ تعالیٰ نے رکھ کر آپ کو سراجِ منیر یعنی روشن چراغ بنایا۔ اپنے تو اپنے غیر بھی اس کا اقرار کرنےپر مجبور ہیں۔

چنانچہ ایک فرانسیسی مورخ ارنسٹ رینان (Ernest Renan) لکھتا ہے: محمد(ﷺ) ہمارے سامنے ایک محبت کرنے والے، معقول، باوفا اور نفرت کے جذبات سے پاک انسان کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ آپ کی محبت پر خلوص تھی اور آپ کی طبیعت میں رحم کی طرف زیادہ جھکاؤ تھا۔

اسی طرح سوامی لکھشمن پرشاد ایک ہندو مصنف اپنی کتاب ’’عرب کا چاند‘‘میں حضور ﷺ کے بارے میں لکھتےہیں : پیغمبر امن کے دل کی عمیق ترین گہرائیوں میں صلح وآشتی کے جذبات کا ایک بحر بیکراں کی طرح موجزن تھا۔

پس آج ہمارا کام ہے کہ ہم آپ ﷺ کے اسوہ پر عمل کریں اور دنیا والوں کو آپ کے اُسوہ حسنہ کا عملی نمونہ دکھائیں۔ تاکہ دنیا باور کرے کہ اس زمانہ میں بھی امن کی ضامن حضور ﷺ کی تعلیمات اور آپ کا اُسوہ حسنہ ہے۔آنحضور ﷺ کی ذات اقدس تمام مخلوقات کے لیےسراپا امن و عافیت ہے۔ اس کے انوار و جمال جا بجا منکشف ہو کر ایک عالم کو منور کر رہےہیں۔

اس وقت ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ساری دنیا میں قیام امن کے لیے آنحضرت ﷺ کے مبارک اسوہ حسنہ کو عظیم مساعی کے ساتھ پیش فرما رہے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے تمام ممالک کے سربراہوںکو خطو ط لکھنا ہو یا مختلف ایوانوں میں امن کی تعلیمات کو پیش کرنا۔ ہر میدان میں پیارے آقا کا نمونہ ہمارے سامنےموجود ہے۔ دنیا آج کھلے الفاظ میں آپ کو امن کا چیمپئین تسلیم کر رہی ہے۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا کے امن کا ضامن اگر کوئی ہےتو ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنےپیارے آقا کی بابرکت قیادت میں دنیا میں امن کے قیام کے لیے آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کا بہترین عملی نمونہ پیش کرنی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button