تقریر جلسہ سالانہ

خلاصہ تقریر: خلافت ہی نظام کی ضامن ہے(انگریزی)

جلسہ سالانہ یوکے کے دوسرے دن کے صبح کے اجلاس کی آخری تقریر مکرم ڈاکٹر زاہد احمد خان صاحب(صدر قضا بورڈ برطانیہ) نے کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا ’’خلافت ہی نظام کی ضامن ہے‘‘۔ یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی۔

میں ایک ایسے موضوع پر بات کرنا باعث اعزاز خیال کرتا ہوں جو میرے اور ہر احمدی کے دل کو عزیز ہے۔ خلافت کے کسی بھی پہلو پر بات کرنا موجودہ دور میں نہ صرف امت مسلمہ بلکہ انسانیت کی نجات کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تقریر کے عنوان میں نظام کو نظام زندگی یا معاشرے میں قائم نظام کے طور سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر کسی کو اس بات کے زندہ ثبوت کی ضرورت ہے کہ خلافت نظام کی ضامن ہے تو صرف حدیقة المہدی میں ہماری موجودگی اور ایم ٹی اے کے ذریعے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی شرکت اس کا ایک ثبوت ہے۔ بہرحال اس نظام کے پیچھے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا دستِ راہنمائی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ خلفاء زمین پر اس کے نمائندے ہیں اور اس طرح انسانی تاریخ کے ہر دور میں معاشرے کے ہر طبقے کے لیے نظم و ضبط قائم کرنے میں موجود رہے۔ یہ اثر نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ انفرادی سطح پر بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ جو نظام ہم اپنی زندگیوں میں دیکھتے ہیں، خلافت اس کی ضامن بھی ہے۔ جب ہم نظم و ضبط کی بات کرتے ہیں تو یہ ہمارے وجود کے بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر نظامِ تخلیق اور اس کا کمال آغاز میں پڑھی جانے والی آیات میں خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔

مقرر نے سورۂ ملک کی ابتدائی پانچ آیات کا ترجمہ پیش کیا اور کہا کہ ان میں اللہ تعالیٰ نے نظام کائنات میں کمال کا بیان فرمایا ہے۔ یہ آیات مادی کائنات کے نظام کے کمال کی بات کرتی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے قرآن مجید کے پوشیدہ خزانوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے بڑی خوبصورتی سے وضاحت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عالَم نہیں بلکہ دو عالم پیدا کی ہیں۔ ایک مادی عالم اور دوسری روحانی عالم۔ دونوں میں کمال پایا جاتا ہے۔

روحانی عالم کا کمال انسانِ کامل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میں اپنے عروج پر پہنچا۔ ان کی آمد ایک ایسے وقت میں ہوئی جب قرآن کریم کے مطابق بحر و بر میں فساد ظاہر ہو چکا تھا۔اور اس وقت ایک امام کی ضرورت تھی۔

سور نور میں بیان ہے کہ اللہ خود نور ہے اور وہ آسمانی نور کواپنے انبیاء پر نازل فرماتا ہے،پھر خلفاء ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں اور لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نبی کے بعد اس نور کو بجھانے کی اجازت نہیں دیتا اور خلافت کا نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ آسمانی نور کو دور دور تک پھیلایا جائے اور دنیا کو روشن تر کرتا رہے۔یہ وہ خلافت علی منہاج النبوة ہے جس کا وعدہ سور ہ نور آیت ۵۶ میں دیا گیا ہے۔ اس آیت میں خلافت کے وعدہ کے ساتھ اس کی بعض خصوصیات اور مقاصد کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے، جنہیں ہم نے اپنی زندگی میں خلافت احمدیہ کے ذریعے پورا ہوتے بھی دیکھا ہے، جو ایک طرح خلافت راشدہ کا تسلسل ہے۔

معاشرے میں یا افراد کے اندر نظام صرف امن کی صورت میں قائم ہو سکتا ہے۔ خلافت کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ یہ خوف کو امن میں بدل دیتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا تھا۔ یہ خوف کی کیفیت تھی، جس کا تجربہ صحابہ کرام نے پہلے نہیں کیا تھا۔ یہ اللہ کا لازمی وعدہ ہے اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ کس طرح خلافت اس کے پیدا کردہ نظام کی ضامن تھی۔

رسول اللہ ﷺ کے تمام اصحاب نہ صرف دنیوی بلکہ روحانی لحاظ سے بھی بڑے بڑے پہاڑ تھے۔ وہ ایک ایسا نظام قائم کرنے میں کامیاب رہے جو حکومتی، شہری، معاشی اور عدالتی نظام سے لے کر عوامی کاموں کے شعبوں تک اور پھر ایک منظم فوجی نظام تک پھیلا ہوا تھا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس وقت خلفائے راشدین کس طرح اس نظام کے ضامن تھے جو انہوں نے قائم کیا تھا۔

دنیا میں ایک بار پھر اندھیرا چھا جانے کےبعداللہ تعالیٰ نے اس زمانے کا امام بھیجا اور خلافت علی منہاج النبوة ایک بار پھر قائم ہو ئی۔خلافت احمدیہ کی ۱۱۵ سالہ تاریخ ایک بار پھر اس بیان کی عکاسی کرتی ہے کہ صرف خلافت ہی حقیقی نظام کی ضامن رہی ہے۔کس طرح ہر خلیفہ کی بصیرت افروز راہنمائی کے نتیجے میں جماعت احمدیہ نے دنیا بھر میں ترقی کی ہے۔ چاہے وہ انفرادی، قومی یا بین الاقوامی سطح پر۔ خلیفہ کی ذاتی دلچسپی کامیابی کی کلید رہی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے وسائل کی کمی کے باوجود جماعت کو منظم اور متحد کیا اور ذاتی طور پر احباب جماعت کی روحانی تربیت کی۔ خوف کی حالت کو امن میں منتقل کیا۔ اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جو شاندار نظام قائم کیا جس میں معاشرے کے ہر پہلو کا خیال رکھا گیا۔ بہترین انتظامی ڈھانچہ، ذیلی تنظیمیں، معاشی نظام، قضائی نظام وغیرہ۔ جس سے آج ہم خلیفہ وقت کی راہنمائی میں انفرادی اور جماعتی طور پر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ سب صرف اس لیے ممکن ہوا ہے کیونکہ صرف خلافت ہی اس کامیابی کی ضامن ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی دور اندیشی نے نسبتاً کم عرصے میں ایک ایسا نظام قائم کیا جس کے قیام میں دنیاوی اداروں کو صدیاں لگ جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں رائج سوشلزم، مارکسزم، نازی ازم اور فاشزم جیسے مختلف نظاموں کے بارے میں بصیرت عطا کی تھی اور وہ ان کی خامیوں سے آگاہ تھے۔ وہ نظام وقت کی آزمائش پر پورا اترا ہے، آج دنیا بھر میں جماعت احمدیہ اسی نظام کے ساتھ چل رہی ہے اور ہمارے منصوبے اور پیش رفت اسی نظام کے ساتھ چل رہے ہے۔

خوف کا امن میں تبدیل ہوجانا ہر خلیفہ کی وفات پر دیکھا گیا ہے۔ مخالفین یہ سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ اب اس جماعت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ البتہ اللہ تعالیٰ جس نے انسانیت کی نجات کے لیے جماعت قائم کی ہے وہ اگلے خلیفہ کے ہاتھ تلے جماعت کو متحد کرکے اپنی عظمت کا اظہار کرتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی میں ان بیس سالوں میں ہم نے ترقی اور کامیابی کی رفتار کو بڑھتے دیکھا ہے ہے۔ اس زمانہ میں دنیا بھر میں مساجد کی تعمیر اور انہیں نمازیوں سے بھرنے کی پیش رفت۔ جامعات کا قیام، مربیان و مبلغین کی تربیت پھر مسیح الزمان کے پیغام کو زمین کے کونے کونے تک پہنچانے کا ہر ذریعہ استعمال کرتے ہوئے۔ ایک ایم ٹی اے چینل سے آٹھ تک جانا، اور کثیر لسانی صلاحیت پر جانا۔ خلیفہ وقت کی توجہ سے ہی ان کا حصول ممکن ہوا ہے تاکہ ہم اللہ کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کرسکیں۔

یاد رکھیں کہ ہمارے امام نے ہمیں اپنے خیالات میں ایک فرد کے طور پر دیکھا ہے۔وہ سونے سے قبل چشمِ تصور سے ہر احمدی کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔یہ زمین پر خدا کا نمائندہ ہے، اور وہ ہماری انفرادی زندگیوں میں بھی نظم و ضبط کی ضمانت دیتا ہے۔ اور ہمارا کام اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ گذشتہ بیس سالوں میں دنیا نے افراتفری کا سامنا کیا ہے، حضور انور وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں امن قائم کرنے کا پیغام دیا ہے۔

دنیا میں امن نہیں تھا، اقوام متحدہ، نیٹو، یورپی یونین، عرب لیگ اور دیگر انسانوں کے قائم کردہ ادارے عالمی امن کے قیام میں ناکام ہو چکے تھے۔ ہمارے پیارے امام نے مقتدر حلقوں میں اپنے بے شمار مکالموں کے ذریعے انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور ساتھ ہی انہیں امن کے ضامن طور پر اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم کرنے کی تلقین کی۔ جہاں وہ خود ذاتی طور پر نہیں جا سکتے تھے، وہاں سیاسی اور مذہبی عالمی راہنماؤں کے نام امن کے حوالہ سے خطوط بھجوائے۔ انہی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد، دنیا بھر کے اراکین پارلیمنٹ اور پالیسی ساز حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ سے ذاتی طور پر راہنمائی حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں کہ کس طرح ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جو دنیا میں امن کی ضامن ہوں۔یہ حقیقی خلافت ہے جس کا تعلق سیاسی طاقت سے نہیں بلکہ پوری انسانیت سے ہے۔

اسلام کے خلاف مظالم کے پیش نظر بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ چاہے وہ قرآن جلانے کے واقعات ہوں، رسول اللہﷺ کے کارٹون ہوں، یا چارلی ہیبڈو کے واقعات کی طرح مسلمانوں کے گھٹنے ٹیکنے کا گھناؤنا رد عمل ہو۔ حضرت امیر المومنین نے اپنے خطباتِ جمعہ اور تقاریر کے ذریعے، حقیقی اسلامی ردعمل دینے اور امن و رواداری کی تلقین فرمائی۔

ہماری جماعت کی تاریخ احمدیوں کے خلاف مظالم سے بھری پڑی ہے۔ یہ ہمیشہ خلافت ہی رہی ہے جس نے اس دل دہلا دینے والے وقت میں ہماری راہنمائی کی ہے۔یوم خلافت کے ایک دن بعد ۲۸؍ مئی ۲۰۱۰ء ہر احمدی کے لیے دردناک دن تھا۔ اس دن ۸۶ احمدیوں کو شہید کیا گیا۔ احمدی غمگین اور صدمے میں تھے۔ہمارے جذبات کو امن میں بدلنے کاکام ایک شخص پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اسی دن جب حضور انور نے جمعہ کا خطبہ دیا تو بڑے سکون اور آرام دہ آواز کے ساتھ ہمارے زخموں پر مرہم لگنا شروع ہو گیا۔اس کا اثر فوری طور پر ہوا، ہم پر امن کا نزول ہوا۔ حضور کے الفاظ کی شفا بخش طاقت خوف کے بعد امن لانے کے اللہ کے وعدے کا منہ بولتا ثبوت تھی۔

کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ حضور پر کیا گزر رہی تھی لیکن انہیں دوسرے لاکھوں لوگوں کو تسلی دینا اور امن میں رکھنا تھا اور بالکل یہی انہوں نے اپنے الفاظ کے ذریعے کیا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ خلیفہ ہیں جنہیں اللہ کی نصرت حاصل ہے، ورنہ یہ انسانی طور پر ممکن نہیں تھا۔ حضور انور نے ذاتی طور پر مرحومین کے ہر خاندان سے بات کی اور انہیں تسلی دی۔ پھر حال ہی میں برکینا فاسو میں ہمارے بھائیوں کو بھی اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ احمدیت کے نو چمکتے ستارے ایک انتہائی گھناؤنے واقعہ میں شہید ہوئے۔ ایک بار پھر یہ خلیفہ کے الفاظ تھے جو ہمارے لیے دلوں پر امن لائے۔

خلافت احمدیہ نے ہر موڑ پر مصائب کا سامنا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے تحت مختلف اسکیمیں یا نظام قائم کیے ہیں جو کامیابی کی ضمانت ثابت ہوئے ہیں۔ ۱۹۳۴ء کے مشکل وقتوں میں خلیفہ وقت نے تحریک جدید منصوبے کا اعلان کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج ہم اس منصوبے کے ثمرات حاصل کر رہے ہیں، اس لیے خلافت اس نظام کی ضمانت تھی، اور جو لوگ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ فاتح ہوں گے، ان کے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہا، جبکہ دوسری طرف یہ تحریک جدید کا منصوبہ تھا جس نے اسلام احمدیت کے پیغام کو زمین کے کونے کونے تک پہنچایا۔ پھر وقف جدید کی تحریک بھی دیہی علاقوں میں اثر انداز ہوئی۔

دنیا کے مختلف حصوں میں معاشرے کے مختلف طبقوں کے حالات سے تمام خلفاء پریشان رہے اور انہوں نے ان کے مصائب کو دور کرنے کے لیے بہت سے منصوبے بنائے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کا آغاز قادیان سے حضرت مسیح موعودؑ نے دارالضیافت کے قیام سے کیا اور آج دنیا بھر میں انسانی ہمدردی کے لیے ہیومینٹی فرسٹ، IAAAE یا مختلف طبی تنظیموں کا جال بچھایا گیا ہے۔ یہ معاشی، سماجی، طبی امداد سے لے کر مدد فراہم کرنے میں ایک طویل سفر طے کر چکے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے ان سب کو عالمی سطح پر پہنچایا ہے۔ رضاکاروں کو حضور کے ذاتی وژن اور ہر قدم پر ان کی راہنمائی حاصل رہی جو ان کی کامیابی کی کلید رہی ہے۔

IAAAEکئی دہائیوں سے اپنے انسانی ہمدردی کے منصوبوں میں سب سے آگے رہا ہے۔ حضور کی افریقہ میں زندگی کے اپنے تجربے کے ساتھ، انہوں نے منصوبوں کی قیادت کی ہے، جن میں گاؤں کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس کے چیئرمین تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ حضور ہر منصوبے کے ہر پہلو کو آگے بڑھاتے ہیں اور آپ کی ہدایت پر عمل درآمد بار بار کامیابی کی ضمانت رہا ہے۔

ہمارے پیارے امام نے اکیلے ہی دنیا بھر میں روحانی اور دنیاوی منصوبوں کا ایک ایسا نظام قائم کیا ہے جس میں ایک طرف امن پیدا ہوتا ہے، اور اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط ہوتا ہے اور دوسرے انسان کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔

امت مسلمہ کو اس بات کا احساس ہے کہ ان کے درمیان جس چیز کی کمی ہے وہ ایک امام اور خلیفہ ہے جو تمام مسلمانوں کو متحد کرے گا اور انہیں کامیابی کی راہ پر گامزن کرے گا۔ اپنی کوششوں کے باوجود وہ متحد ہونے میں ناکام رہے ہیں اور ناکام رہیں گے۔ یہ صرف خلافت علی منہاج النبوةہے جس کا وعدہ قرآن مجید نے کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کی ہے۔ اور ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں جن کے درمیان یہ خلافت ہے جس نے ہمیں متحد کیا ہے اور جس نے ہمارے نظام اور کامیابی کی ضمانت دی ہے۔

محترم مقرر صاحب نے غیر مبائعین کی مثال دے کر کہا کہ آج تاریخ گواہ ہے کہ خلافت کے بنائے ہوئے نظام کے تحت جماعت احمدیہ کو اللہ کی حمایت حاصل ہے اور اسلام کا پیغام زمین کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے اور لاکھوں لوگ اس جھنڈے تلے جمع ہو کر انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں اور اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہیں۔جبکہ خلافت سے محروم رہنے والوں نے ترقی کی کوششیں کیں لیکن اللہ کی مدد سے نوازے نہیں گیا۔

گیلنگھم میں ایک آئرش مصنف ڈیکلن (Declan) نے اسلام کے فرقوں پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ حال ہی میں وہ پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد ابھی واپس آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ لاہوری احمدیوں سے ملاقات کے لیے لاہور گئے تھے اور انہوں نے ان کے سالانہ جلسہ میں شرکت کی تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کتنے لوگوں نے شرکت کی، تو ان کے جواب نے مجھے حیران کر دیا۔ انہوں نے کہا قریباً دو سو۔ مجھے لگا کہ میں نے ان کی بات غلط سنی، اس لیے میں نے دوبارہ پوچھا، تو کہاکہ تقریباً دوسو۔ یاد رہے کہ ربوہ میں ہمارے آخری جلسہ ۱۹۸۳ء میں حاضری چوتھائی ملین تھی۔اعداد و شمار کو ایک طرف رکھتے ہوئے، پیش رفت کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ یہ صرف خلافت ہی ہے جو نظام کی اور کامیابی کی ضامن ہے، جس کا ہم دیکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ نے مشاہدہ کیا ہے۔ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک اہم ذمہ داری ہمارے کندھوں پر آتی ہے۔ خلافت ایک نعمت ہے جو اللہ نے ہمیں عطا کی ہے۔

مقرر نے کہا کہ دنیا بہت مشکل وقت سے گزر رہی ہے اور ہمیں کچھ انتہائی مشکل اور سنجیدہ حالات کا سامنا ہے۔ امت مسلمہ بیابان میں گم ہو چکی ہے، وہ الگ تھلگ ہیں، ایک ایسا جسم جس میں روح نہیں ہے، دل نہیں ہے۔ دنیا بالعموم خالق کائنات پر ایمان سے منہ موڑ رہی ہے۔ دنیا کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ آب و ہوا اور گلوبل وارمنگ، انصاف کا فقدان، عالمی بحران جیسے مسائل اور چیلنجز وسیع ہیں۔ لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ اس کا حل موجود ہے اور یہ کامیابی کے ضامن کے ساتھ آتا ہے۔

میں نے اپنی گفتگو سے بتایا ہے کہ کس طرح خلافت احمدیہ نظام کی ضامن ہے اور ان تمام مسائل کا حل ہے۔گذشتہ ۲۰ سال سےاس بات کا جیتا جاگتا ثبوت پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا وجود ہے کہ کس طرح انہوں نے چیلنجوں سے نمٹا ہے اور کس طرح اپنی عالمی کوششوں کے ذریعے ان مشکلات کا حل پیش فرمایا۔

یہ کوششیں انفرادی طور پر اور پھر ایک جماعت کے طور پر ہماری اپنی زندگیوں میں نظام قائم کرنے کے لیے ہیں۔

اس موقع پر ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا جائے جو ہمارے درمیان خلافت کی شکل میں ہے۔ اللہ مجھے اور آپ سب کو اپنے پیارے امام کے حکمت کے ان الفاظ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button