تقریر جلسہ سالانہ

خلاصہ تقریر: حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کی روشنی میں ضرورت امام (انگریزی)

جلسہ سالانہ یوکے کے دوسرے دن کے صبح کے اجلاس کی پہلی تقریر مکرم محمد ابراہیم اخلف صاحب (سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ یوکے)نےکی۔ آپ کی تقریر کا عنوان ’’حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کی روشنی میں ضرورت امام‘‘تھا۔ یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی۔

انہوں نے آغاز میں سورة الکہف آیت ۲۹کی تلاوت کی اور کہا کہ یہ ایک بہت بڑا موضوع ہے جسے دستیاب محدود وقت میں مکمل طور پر پیش کرنا مشکل ہے؛ ایک ایسا موضوع جو ہمیں مسلسل اللہ تعالیٰ کے خوف میں رہنے پر مجبور کرتا ہے؛ ایک ایسا موضوع جس پر جب عمل کیا جاتا ہے تو انسان کو پاکیزگی اور راستبازی کو اپنانے میں مدد ملتی ہے۔

مقرر نے احادیث پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری توجہ اس طرف مبذول کراتی ہیں کہ ہر مومن کو چاہیے کہ وہ امام صالح کی تلاش میں اپنی جد و جہد جاری رکھے۔آپ نے یہ حدیث پیش کی کہ جو شخص اس حالت میں فوت ہو جائے کہ اس نے اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانا ہو وہ جہالت کی موت ہے۔

ہم سب کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے ایمان اور یقین میں اضافہ کرنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے مقصد کو سمجھنے کے لیے امام کی ضرورت کو بھی مکمل طور پر سمجھیں۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود ؑ بلا شبہ اب واحد پناہ گاہ ہیں۔ وہ زمانے کی امید ہیں۔ یہ وہی نور ہے جو سینا پر چمک رہا تھا، جس نے گلیل کے ماہی گیروں کی زندگیوں کو روشن کیا، جس نے فاران کی بلندیوں سے دنیا کو روشن کیا، جو قادیان سے دریائے بیاس کے اونچے کنارے پر طلوع ہوا، جو اب روشن ہو رہا ہے اور آہستہ آہستہ پوری دنیا کے اندھیرے کو دور کرے گا۔

حضرت مسیح موعود ؑکی آمد معاشی، سیاسی، اخلاقی، سماجی طور پر افراتفری کے دور میں ہوئی، مختلف متحارب قوتوں کی کشمکش سے قرآنی پیشگوئیاں پوری ہوئیں۔

درحقیقت انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں ایسے مفکرین پیدا ہو رہے تھے جو الہامی اور مذہبی عقیدے کے لیے استعارے لکھ رہے تھے۔ مارکس اور میکس ویبر نے سیکولرائزیشن تھیسس کے نظریے پیش کیے، یہ نظریہ کہ جدید ٹیکنالوجی، سائنس اور ثقافت کے سامنے مذہب زوال پذیر ہو جائے گا۔پھر Nietzsche نے خدا کو مردہ قرار دیا تھا اور بعد میں فرائیڈ نے مذہبی عقیدے کو ایک وہم کے طور پر دیکھا۔

انیسویں صدی میں جہاں ایک طرف خدا پر ایمان کو فروغ دیا جا رہا تھا، وہیں دوسری طرف یہ وہ دور تھا جب عیسائی مشنری شمال و جنوب اور مشرق و مغرب سے ہندوستان آ رہے تھے۔ مسلمان مزاحمت کرنے کی اپنی طاقت مکمل طور پر کھو چکے تھے۔ کوئی ایسا نہیں تھا جو عیسائیت کو چیلنج کر سکے اور ان عیسائی مشنریوں کے فریب کو بے نقاب کر سکے۔ یہ وہ دور تھا جب کچھ سید (ہمارے پیارے آقا محمد ﷺ کی اولاد)، ممتاز علماء، مزارات کے متولی اور روحانی پیشوا بھی عیسائیت کے دائرے میں داخل ہو رہے تھے اور یہاں تک کہ اسلام کے خلاف انتہائی فحش کتابیں طبع ہونی شروع ہوئیں۔حضرت مسیح موعودؑ نے ان حالات کو حقیقۃ الوحی کے عربی ضمیمہ ’’الاستفاء‘‘ میں بیان کیا ہے۔

پھر مقرر نے قرآنی پیشگوئیوں میں ذوالقرنین کی پیشگوئی کے ظہور کو پیش کیا۔ پھر انہوں نے مسلمانوں کی اندرونی حالت اور وقت کی نازک ضرورت کے بارہ میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کی طرف دیکھا اور دیکھا کہ فساد پھیلا ہوا ہے، دین میں کمی ہے، دل سخت ہو گئے ہیں اور سینے تنگ ہو رہے ہیں۔

یہ درحقیقت ان آیات کا مطلب ہے جو میں نے شروع میں تلاوت کی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میںمسلمان بدقسمتی اور مصیبت سے دو چارہوںگے۔ وہ مادی آسائشوں اور عیش و عشرت کی زندگی کے حصول میں مکمل طور پر گم ہو جائیں گے۔ لیکن ان کی نجات ان کے عقائد اور ان کی زندگی میں انقلابی تبدیلی میں مضمر ہوگی۔

بہت سے مسلمان علماء دھوکے دینے والے بادلوں کی طرح ہوں گے جن میں بارش نہیں ہوتی۔ ان کے پاس لمبی داڑھی، غصیلے چہرے، بری زبانیں اور گمراہ دلوں کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔یہ وہ زمانہ تھا جب قادیان سے حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ نے مسیح موعود اور امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا او رکہا کہ میں مسیح موعود اور مہدی ہوں جسے رب العالمین نے بھیجا ہے۔

آپ نے ایک عربی شعر میں اس بات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے:

الوقتُ يدعو مصلحًا ومجدّدًا

فارْنوا بنَظرٍ طاهرٍ وجَنانِ

أتظنُّ أنّ اللّٰهَ يُخلفُ وَعدَهُ

أفأنتَ تُنكِرُ موعدَ الفُرقَانِ

وقت مصلح اور مجدد کا مطالبہ کر رہا ہے، لہٰذا خالص آنکھ اور دل سے دیکھو۔

کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ نے اپنا وعدہ توڑا ہے؟ کیا تم قرآن کے وعدے سے انکار کرتے ہو؟

پھر مقرر نے اس دور میں سلامتی کا قلعہ حضرت مسیح موعودؑ کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام زمانہ ذوالقرنین کی تعمیر کردہ دیوار کی مانند ہے۔ لوہے سے بنی وہی دیوار جس پر تانبا ڈالا گیا تھا، اب وہ دیوار اور زیادہ مضبوط ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دوبارہ تعمیر کیاہے۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو، حضرت مسیح موعودؑ کے خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد کو مضبوطی سے تھامے رہو، جو دوسری قدرت میں مجسم ہیں۔ یہ سیلاب کے اس وقت میں وہ رسی ہیں، جسے مضبوطی سے پکڑنا ہمیں ڈوبنے سے نجات دلائے گا۔ یہ وہ دیوار ہیں جو ہمیں شیطانی حملوں سے محفوظ رکھے گی۔ البتہ اس بات سے آگاہ رہیں کہ ایک احمدی مسلمان تبھی محفوظ رہ سکتا ہے جب اس کا دل خدا کی محبت میں تانبے کی طرح پگھل جائے۔

جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک نظم میں لکھا ہے:

صدق سے میری طرف آؤ اِسی میں خیر ہے

ہیں درندے ہر طرف مَیں عافیت کا ہوں حصار

پُشتیِ دیوارِ دیں اور مامنِ اسلام ہُوں

نارسا ہے دستِ دشمن تا بفرقِ ایں جدار

(براہین احمدیہ جلد ۵ صفحہ ۲۰۳)

پھر مقرر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو بتایا کہ مسیح ابن مریم فوت ہوچکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے اقتباسات پیش کیے جہاں آپ نے اس کے بارہ میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ اور کہا کہ حضرت مسیح موعود ؑ بھی امام زمانہ ہیں۔ لفظ امامت کا جب ترجمہ کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے رہنمائی کی طاقت۔ یہ کوئی عارضی عہدہ نہیں ہے، جو اسے بعد میں دیا جاتا ہے، در حقیقت بصیرت اور فہم و فراست کی دیگر تمام صلاحیتوں کی طرح امامت بھی آگے بڑھنے اور الہی معاملات میں سب سے آگے بڑھنے کی طاقت ہے۔ اور امامت کی اصطلاح کا یہی مطلب ہے۔

پھر مقرر نے عہد حاضر کے امام کی خصوصیات کا ذکر کیا اور بتایا کہ امام الزمان اول اعلیٰ درجے کی اخلاقی طاقت رکھتا ہے۔ دوم امام الزمان نیک اعمال میں، معرفت الٰہی حاصل کرنے میں اور خدا سے محبت اور علم حاصل کرنے میں باقی دنیا سے آگے نکل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اسے علوم الٰہی کے بارے میں ہمہ جہت علم عطا کرتا ہے اور ان کے ہم عصروں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو قرآنی حقائق کے علم، روحانی برکات اور ناقابل تردید استدلال میں ان کے برابر ہو۔

سوم یہ کہ امام الزمان کا عزم بہت بلند ہوتا ہے۔ اسے زمانے کے ائمہ کرام کی طرف سے آزمائشوں اور آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

چہارم یہ کہ امام زمانہ خدا پرتوکل میں بڑھ کر ہے۔ پنجم یہ کہ امام زمانہ کو ایک کے بعد ایک کشف اور وحی ملتی رہتی ہے۔

پھر مقرر نے امام الزمان کے فارسی النسل ہونے پر روشنی ڈالی اورسور ة الجمعہ کی آیت اور اس کے تعلق میں ایمان کے ثریا ستارے پر پہنچنے اور فارس الاصل کے واپس لانے کا ذکر کیا۔

پھر بتایا کہ زمانے کا امام ہستی باری تعالیٰ کو ظاہر کرتاہے۔ اس بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے اقتباسات پیش کیے۔

محترم مقرر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے قیام کا ذکر کیا اور کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ اس نے مجھے اس لیے بھیجا ہے تاکہ میں ثابت کر سکوں کہ نبی ﷺ زندہ نبی ہیں۔

نشانات کے ذکر میں مقرر نے کہا کہ امام الزمان حضرت مرزا غلام احمدعلیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینے میں سورج گرہن اور چاند گرہن لگائے اور زمین پر بے شمار نشانیاں ظاہر کیں، اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے عمل کے مطابق ان کی سچائی ثابت ہوئی۔ حضرت مسیح موعود ؑنے ایک فارسی شعر میں اس کا بڑی خوبصورتی سے اظہار کیا ہے:

آسماں بارد نشان اَلْوَقت می گوید زمیں

ایں دو شاہد از پئے من نعرہ زن چوں بیقرار

آسمان نشانات کی بارش کرتا ہےاور زمین کہتی ہے اب وقت آ گیا ہےکہ یہ دونوں گواہ میرے لیے گواہی دینے کے لئے تیار ہیں۔

پھر طاعون کا ذکر کیا کہ طاعون کے ہندوستان میں داخل ہونے کے دو سال بعد فروری ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئی پیشگوئیاں کیں جنہیں اجتماعی طور پر طاعون کی پیشگوئی کے نام سے جانا جانے لگا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ طاعون خدا کی طرف سے خاص طور پر ان لوگوں کو سزا دینے کے لیے بھیجا گیا تھا جنہوں نے آپ کے دعووں کا انکار کر دیا تھا اور جنہوں نے گرہن کے نشان کا انکارکیا تھا ، جو خدا کی طرف سے اس قدر حیرت انگیز گواہی تھی کہ ان نشانیوں کو دیکھنے کے بعد آپ کے اور آپ کی جماعت کے مخالفوں سے عذاب کے ذریعہ نمٹا جائے گا۔ آپ کی کتاب نور الحق کے صفحہ ۳۵ تا ۳۸ میں لکھا ہے کہ میں نے اپنی پیشگوئی درج کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ رمضان کے مہینے میں ہونے والے چاند اور سورج گرہن آنے والے عذاب کے پیش خیمہ تھے۔ اس کے مطابق اس ملک میں اتنا بڑا طاعون پھیل گیا کہ اب تک تقریباً تین لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

آخر کار پیشگوئی کے مطابق، ہندوستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک تھا، جہاں دنیا بھر میں کل ۱۵ ملین میں سے تقریباً ۱۰ ملین اموات ہوئی تھیں۔

مقرر نے آخر میں کہا کہ یہ اللہ کا خالص فضل ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کر لیا ہے۔ آپ نے اپنی کتاب الوصیت میں دوسری قدرت کی پیشگوئی فرمائی۔ یاد رکھیں کہ بیعت کا واحد مقصد توبہ نہیں ہے۔ بیعت کا اصل مقصد اپنے آپ کو امام الزمان کے تابع کرنا اور غلام بنانا اور اس کے بدلے میں علم، روحانی بصیرت اور برکات حاصل کرنا ہے جو ایمان کو مضبوط بنانے اور روحانی بصیرت کو تیز کرنے اور خدا کے ساتھ خالص تعلق قائم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ یہ دنیا اور اس کے نتیجے میں آخرت کے جہنم سے نجات فراہم کرتا ہے۔ اور دنیا کے اندھے پن کو دور کرنے کے بعد یہ انسان کو آخرت کے اندھے پن سے محفوظ رکھتا ہے۔

حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ اس دور میں دوسری قدرت کے مظہر ہیں اور حقیقی امامت کے نائب، زمین پر اللہ تعالیٰ کے سب سے عاجز بندے ہیں۔ ہمیں اپنی دعاؤں، خاص طور پر تہجد میں پوری طرح مشغول رہنا چاہیے! ہمیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔

آخر میں مقرر نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کنندگان سے توقعات پیش کیں۔ اور کہا کہ یہ درود شریف میں مشغول ہونے اور اسلام اور آنحضرت ﷺ کی عزت و عظمت کو قائم کرنے کا وقت ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ قائم کرنے اور دنیا کو قرآن کریم کی سچائیوں کو ظاہر کرنے کے لیے بھیجا ہے۔

مقرر نے آخر میں کہا کہ جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۲۳ء کے موضوع کے مطابق جو تبلیغ ہے، میں اس تقریر کے آخری الفاظ پڑھتا ہوں:

یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۔ قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرۡ۔ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ۔ وَالرُّجۡزَ فَاہۡجُرۡ۔ وَلَا تَمۡنُنۡ تَسۡتَکۡثِرُ۔ وَلِرَبِّکَ فَاصۡبِرۡ۔

السلام علیکم کہہ کر تقریر ختم کی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button