خلاصہ خطبہ جمعہ

جلسہ سالانہ کے کارکنان اور مہمانوں کو ذرّیں نصائح: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍جولائی۲۰۲۳ء

٭… اس بات کو بھي پيشِ نظر رکھيں کہ ڈيوٹيوں کے ساتھ ساتھ ہم نے اللہ تعاليٰ کي عبادت کا بھي حق ادا کرنا ہے
٭…تمام شاملينِ جلسہ حضرت اقدس مسيح موعودؑ کي اس بات کو ہميشہ ياد رکھيں کہ يہ جلسہ کوئي دنياوي ميلہ نہيں ہے
٭…اس جلسے ميں شامل ہونے کا ہمارا ايک مقصد ہے اوروہ مقصديہ ہے کہ ہم اپني علمي، روحاني اور اخلاقي حالتوں ميں بہتري پيدا کريں۔ اللہ اوراس کے رسولﷺ سے محبت پيدا کريں۔ جب ان باتوں کي طرف توجہ ہوگي تو جلسےکے انتظامات ميں بعض معمولي کميوں کي طرف ہماري توجہ نہيں جائے گي
٭…جلسہ کے دنوںميں محرم کی مناسبت سے ذکر الٰہي اور درود شريف پڑھنے کي خصوصی تلقین

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۸؍جولائی۲۰۲۳ء بمطابق۲۸؍وفا ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام حدیقۃ المہدی، آلٹن، ہمپشئر، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۸؍جولائی۲۰۲۳ء کوحدیقۃ المہدی آلٹن، ہمپشئر،يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت الحاج راشد خطاب صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایاکہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ یوکے کا جلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے۔خلافت کی موجودگی میں یہاں جلسہ سالانہ منعقد ہوتے ہوئے اب تو تقریباً چار دہائیاں گزر گئی ہیں۔ شروع میں وسیع انتظامات کی وجہ سے یہاں کی جماعت کو بہت کچھ سکھانے کی ضرورت تھی، جس کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ذاتی دلچسپی سے بھی راہنمائی فرمائی اور ربوہ سے بھی لوگوں کو یہاں بُلا کر کام سکھایا جن میں محترم چودھری حمید اللہ صاحب افسر جلسہ سالانہ بھی تھے، انہوں نے بڑی مدد کی۔ ۱۹۸۵ء میں یہاں جب خلافت کی موجودگی میں پہلا جلسہ ہوا، گوکہ اس سے پہلے ۱۹۸۴ء میں بھی جلسہ ہوا تھا لیکن وہ بہت ہی مختصر تھا، ۱۹۸۵ء میں شاید پانچ ہزار لوگ شامل ہوئے تھے۔ اس کی بھی انتظامیہ کو فکر تھی کہ کس طرح اس سب انتظام کو سنبھالیں گے۔ اب تو ذیلی تنظیموں کے اجتماعات میں اس سے کئی گنا زیادہ حاضری ہوتی ہے اور ذیلی تنظیمیں بڑے احسن طریق پر سب انتظام خود سنبھال لیتی ہیں۔ اس اعتبار سے اب یوکے کی جماعت بڑی تجربہ کار ہوچکی ہے تاہم اب کیونکہ تین چار سال بعد پورے بڑے پیمانے پر جلسہ دوبارہ منعقد ہورہا ہے تو اس لیے انتظامیہ کچھ فکرمند ہے کہ چالیس ہزار سے زائد متوقع حاضری کو ہم احسن رنگ میں سنبھال بھی سکیں گے یا نہیں۔ لیکن

اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں امید رکھتا ہوں کہ یہاں کے کارکنان بڑے عمدہ طریق سے سب انتظام سنبھال لیں گے۔ اب تو یہاں پیدا ہونے والے، اور پلنے بڑھنے والے بھی شعور کی ایسی عمر کو پہنچ چکے ہیں کہ وہ خود ذمہ داری کے ساتھ سب کام سنبھال سکتے ہیں۔

گذشتہ اتوار کو مَیں نے اُس وقت تک کے کام کا جائزہ بھی لیا تھا، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر شعبے میں مَیں نے کارکنان کو بڑا مستعد اور کام کو جاننے والا پایا۔ جو فکریں اُس وقت تھیں خداتعالیٰ نے ان فکروں کو دُور بھی فرمادیا۔ اللہ تعالیٰ ہماری ان فکروں کوہمیشہ دُور فرمائے گا بشرطیکہ ہم اُس کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں۔

ہمارے کام ہماری کسی ہوشیاری یا تجربے سے انجام نہیں پاتے بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے انجام پاتے ہیں۔

گذشتہ خطبے میں بھی مَیں نے کارکنان کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ محنت، اعلیٰ اخلاق اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے ہرکارکن اور ہر نگران کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ دوبارہ مَیں کارکنان کو کہتا ہوں کہ آپ سب نے جس جذبے سے خود کو ان ڈیوٹیوں کے لیے پیش کیا ہے ، اس جذبے کو قائم رکھتے ہوئے، جتنے دن بھی ڈیوٹیاں ہیں اس خدمت کو انجام دیں۔ اسی طرح اس بات کو بھی پیشِ نظر رکھیں کہ ڈیوٹیوں کے ساتھ ساتھ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا بھی حق ادا کرنا ہے۔ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہے، اپنی ذات کو اپنے نفس کو پاک بنانے کی کوشش کرنی ہے۔

اسی طرح

آج مَیں چند باتیں جلسے پر آئے ہوئے مہمانوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں۔

سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ تمام شاملینِ جلسہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ جلسہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے۔اس جلسے میں شامل ہونے کا ہمارا ایک مقصد ہے اوروہ مقصدیہ ہے کہ ہم اپنی علمی، روحانی اور اخلاقی حالتوں میں بہتری پیدا کریں۔ اللہ اوراس کے رسولﷺ سے محبت پیدا کریں۔ جب ان باتوں کی طرف توجہ ہوگی تو جلسےکے انتظامات میں بعض معمولی کمیوں کی طرف ہماری توجہ نہیں جائے گی۔

ہر شاملِ جلسہ اس بات کو یقینی بنائے کہ جلسے کے اوقات میں ادھر اُدھر پھرنے کی بجائے جلسے کی کارروائی میں شامل ہوں اور پوری توجہ سے جلسے کی کارروائی کو سنیں۔ کارروائی میں وقفے کے دوران بھی جو وقت ملے اسے بہتر طور پراستعمال کریں،

بازار میں شاپنگ کے لیے نہ پھریں، بلکہ جو کتابوں کے سٹال ہیں ان میں جائیں۔ مرکزی شعبہ جات وغیرہ کی جو نمائشیں ہیں انہیں دیکھیں اور اپنا دینی اور تاریخی علم بڑھائیں۔ اتنے بڑے اور عارضی انتظام میں کمیاں بہرحال رہ جاتی ہیں، اس لیے اُن سے صرفِ نظر کرنا چاہیے۔مثلاًکھانے کا ہی انتظام ہے ۔اگر اس میں کوئی کمی ہوجائے تو انتظامیہ کی معذرت قبول کرلینی چاہیے۔ اگر وقت پر کھانے کے لیے نہیں پہنچ سکے تو نخرے نہیں ہونے چاہئیں، جو میسر آئے اسے کھالینا چاہیے۔ روٹی اگر کچھ کچی رہ جائے یا جلی ہوئی ہو تو اسے انتہائی صورت میں تو چھوڑا جاسکتا ہے وگرنہ اسے کھالینا چاہیے۔ ٹریفک کے انتظامات میں بعض شکایات آجاتی ہیں، اس میں بھی انتظامیہ سے تعاون کرنا چاہیے۔

اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا، خوش اخلاقی دکھانا، ایک دوسرے سے مسکرا کر ملنا، دوسرے کے لیے قربانی کا جذبہ دکھانا صرف کارکنان کا کام نہیں، بلکہ مہمانوں کو بھی خاص طور پر اس کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اگر اخلاق اچھے نہیں تو کچھ نہیں۔

مَیں نے پچھلی دفعہ ایک حدیث کا حوالہ دیا تھا کہ مسکرانا بھی ایمان کا حصّہ ہے، صدقہ ہے۔ جلسے کے حوالے سے مہمانوں کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے جو عمومی تلقین فرمائی ہے وہ پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو، جب تک وہ اپنے تئیں ہر یک سے ذلیل تر نہ سمجھے، اور ساری مشیختیں دُور نہ ہوں۔ خادم القوم ہونا مخدوم ہونے کی نشانی ہے۔ غریبوں سے نرم ہوکر اور جھک کر بات کرنامقبولِ الٰہی ہونے کی علامت ہے۔ بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں،اور غصّے کوکھالینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجے کی جواں مردی ہے۔

اگر ان تین دنوں میں ہم ان باتوں پر عمل کریں گے تو کچھ نہ کچھ عادت ہمیں پڑ جائے گی اور بقیہ دنوں میں بھی اپنی زندگی میں ہم ان باتوں پر عمل کرسکیں گے۔ خود اپنے آپ پر اپنے بھائی کو ترجیح دینا کوئی عام بات نہیں ، یہ بہت مجاہدے کا کام ہے۔ اس لیے آپؑ نے فرمایا کہ اس کا تعلق ایمان سے ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے پاک معاشرے کے قیام کے لیے بڑی خوب صورت نصائح فرمائی ہیں۔ فرمایا کہ اگر کوئی مجھ سے سختی سے بولے اور مَیں بھی اسے اُسی طرح جواب دوں تو میری حالت پر افسوس ہے۔ چاہیے تو یہ کہ مَیں اس کے لیے دعا کروں۔

پس یہ ہیں وہ تعلیمات اور وہ پاکیزہ معاشرہ جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔

آپؑ نے کیسی کیسی خوبصور ت نصائح بیان فرمائیں۔فرمایا کہ یہ وہ معاشرہ ہے کہ جو حضرت مسیح موعودؑ اپنے مریدوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ باتیں دوسروں کی نہیں بلکہ اپنی اصلاح کے لیے ہیں کہ دوسرے کی بیماری کا علاج اس وقت ہوسکتاہے جب خود اس بیماری سے پاک ہوں۔ ہر قسم کا تکبر نکالنا ہوگا۔اس پر میزبانوں اور مہمانوں کو غور کرنا چاہیے۔

اگر ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے اور سلامتی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں گے جس کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔

بعض اوقات ہاتھا پائی تک نوبت آ جاتی ہے۔ تواگر کنٹرول نہیں کر سکتے تو جلسے پہ نہ آئیں۔ ٹریفک کے حوالہ سے شکایتیں آتی ہیں۔ پارکنگ کے حوالہ سےتعاون کریں۔ دوسری جگہ بھیجیں تو چلے جائیں۔ بعض لوگ ایسی غصیلی طبیعت کے ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہاں جانے سےہمارا جلسہ ضائع ہوگا۔ انتظامیہ سے تعاون کریں۔ ورنہ وقت سے پہلے آئیں۔ ڈیوٹی والے بھی پیار کو ان سے سمجھائیں۔ اللہ کرے ایک مثال بھی سامنے نہ آئے۔

اللہ تعالیٰ مہمانوں کو توفیق دے کہ وہ کسی بھی شعبہ کے کارکن کو کسی بھی ابتلا میں نہ ڈالیں اور کارکنان کے حوصلہ کوبھی بڑھائے۔

اللہ تعالیٰ کرے یہ تین دن ہمارے صرف ترانے اور نظمیں پڑھنے اور پیار و محبت کے گن گانے کے دن نہ ہوں بلکہ تین دنوں سے ایسی جاگ لگے جو معاشرہ میں پیار و محبت کی ایسی فضا قائم کرنے والی ہو جو حقیقی معاشرہ کا طرہ امتیاز ہو۔

حضرت مسیح موعود ؑنے بار بار مختلف مواقع پر نیکی اور پاکیزہ سوچ رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اس کو ہر مہمان کو سامنے رکھنا چاہیے۔

بعض مہمانوں کےرہائش کے مطالبات پورے کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ عموماً لوگ سمجھ جاتے ہیں۔ دو دن قبل ایک خاندان ملا جنہو ں نے وقت سے کافی پہلے انتظامیہ کو اطلاع دی تھی لیکن کسی غلط فہمی کی وجہ سے انتظام نہ ہوسکا۔ چنانچہ وہ اپنے ایک عزیز کی طرف تنگی میں رہ رہے ہیں اور انہوں نے یہ بات میرے پوچھنے پر بتائی ورنہ وہ اسی میں خوش تھے۔ بعض لوگ میرے خیال میں جماعتی انتظام میں نہیں رہ سکتے لیکن اس کے برعکس وہ رہ رہے ہوتے ہیں۔اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ دن گزار لیںاور خوشی سے برداشت کریںتو اللہ تعالیٰ کسی اور ذریعہ سے نواز دیتا ہے۔

فرمایا کہ معاشرے میں امن اور سلامتی کی فضا پیدا کرنے اورپھیلانے کے لیے آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ اور ہراس شخص کو جس کو جانتےہو یانہیں جانتے سلامتی پہنچاؤ۔یہ وہ خوبصورت اصول ہے جس کو اگر اپنا لیا جائے تو ایک امن اور سلامتی پہنچانے والا معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ دنیا میں بہت سے فساد اس لیے ہیں کہ غریب غریب تر ہو رہا ہے۔کروڑوں لوگ ایسے ہیں کہ اگر روٹی ہے تو رہائش نہیں۔ امیر ممالک میں بھی یہی حال ہے۔ ہزاروں لوگ اور بچے سڑکوں پر پڑے ہیں۔ اسلام کا حکم ہے بھوکے کو کھانا کھلائیں۔ کاش مسلمان ممالک اس حقیقت کو سمجھیں اور اس بے چینی کو دور کرنے کی کوشش کریں۔

پھر سلام کی تلقین فرمائی۔ سلام صرف منہ سے کہہ دینا نہیں۔ انسان جب دل سے سلام کہتاہے تو پھر سلامتی پہنچانے کی کوشش کرتاہے۔ نیک جذبات بھی رکھتاہے۔ اس کی تکلیفوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ان دنوں میں ہر احمدی کو سلامتی کا پیغام پہنچانے، سلام کو رواج دینے اور ایک دوسرے کے لیے نیک جذبات رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

لوگ ان سے پُرتپاک طریق پر مل لیتے ہیں جن سے فائدہ پہنچ رہا ہو۔ یا ان سے بھی جن سے کوئی تعلق ہو۔ حقیقی امن اور سلامتی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دلوں کی رنجشیں دور ہوں۔اور دل سے ایک دوسرے کے لیے سلامتی کی دعا نکلے۔ عمومی رنگ میں سلامتی کا پیغام پہنچاتے رہنا چاہیے۔ جلسے کا ماحول سلامتی کا ماحول بن جائے، حقوق العباد کی ادائیگی ہماری زندگی کا حصہ بن جائے۔

حضور انور نے عمومی ہدایات ارشاد فرمائیں کہ جلسہ کی کارروائی خاموشی اور توجہ سے سنیں۔ جلسہ میں آکر بیٹھیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ بعض کی تقریریںشعلہ بیانی کی وجہ سے سن لی جاتی ہیں بعض نہیں سنی جاتیں۔

جلسہ کے دنوںمیں ذکر الٰہی اور درود شریف پڑھنے کی طرف توجہ دیں۔

آجکل تو ویسے بھی محرم کے دن ہیں۔ ان دنوں میں ۱۰؍محرم بھی ہے۔اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ہی آپ ﷺ کی روحانی اور جسمانی آل پر ظلم کیا گیاتھا۔ اب یہی ظلم آپ ﷺ کی روحانی آل اور مسیح موعود ؑاور آپؑ کی جماعت پر کر رہے ہیں۔ آجکل پاکستان میں بہت سخت حالات ہیں اور کہتے ہیں کہ حُبّ رسول کے نام پر کر رہے ہیں جبکہ ہمارے ایمان کی بنیاد ہی آپؐ پر اور آپ کے خاتم النبیین ہونے پر اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ہے۔ اور آپ ﷺ کے حکموں پر لبیک کہتےہوئے ہم نےمسیح موعود کو مانا ہے۔ پس حضرت مسیح موعودؑ نے بے شمار جگہ یہ لکھا ہے کہ میں نے جو کچھ پایا وہ آپ ﷺ کی محبت میں پایا ہے۔

جلسے کے حوالے سے حضور انور نے خطبہ کے آخرپر فرمایا کہ جلسہ گاہ میں خواتین سمجھ بوجھ رکھنے والے بچوں کو سمجھ بوجھ دلائیں کہ وہ کارروائی سنیں۔ اسی طرح سیکیورٹی کے حوالہ سے ماحول پر نظر رکھیں۔جو ہدایات پروگرام میں لکھی ہیں ان پر عمل کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر شر سے بچائے اور اپنے فضل اور رحم کی بارشیں برساتا رہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button