جلسہ سالانہمتفرق مضامین

جلسہ سالانہ کینیڈا ۲۰۲۳ءکی جھلکیاں

(عرفان احمد خان۔ جرمنی)

احمدیت کی وہ نسل جس نے اسّی کی دھائی سے قبل ربوہ میں آنکھ کھلی اس کے لیے جلسہ سالانہ کی اہمیت زندگی کے لازمی جزو کی طرح ہے۔ کسی تحریر میں جلسہ سالانہ کا ذکر موجود ہو تو واقعات و مشاہدات کی ایک فلم ذہن کے پردوں پر چلنی شروع ہو جاتی اور،جذبات و احساسات کا ایک سمندر دل میں موجزن ہو جاتا ہے۔ ۱۵؍جولائی کے روزنامہ الفضل انٹرنیشنل میں برادرم عبدالباری ملک نے ۱۹۸۵ء کے جلسہ سالانہ انگلستان کا ذکر چھیٹر کر گویا یادوں کے انمول خزانوں کے منہ کھول دیے۔ بے شمار ایسے خادمین کے چہرے آنکھوں کے سامنے آ گئے جن کے نام وقت کے ساتھ اب ذہنوں سے محو ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جو بات بیان ہونے سے رہ گئی وہ اپریل ۱۹۸۵ءمیں اسلام آباد ٹلفورڈ کی حالت زار تھی جو کسی مہاجر کیمپ سے مختلف نہ تھی۔ جس زور دار بارش کا ذکر عبدالباری ملک نے کیا،ماہ اپریل میں دن چھوٹے ہوتے ہیں، جلد اندھیرا چھا جاتا ہے اور اسلام آباد کے میدان کار ساز میں روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔سردی، بارش،کیچڑ میں کاریں پہچاننا مشکل ہو رہا تھا۔ جو خوش قسمت کار تک پہنچ جاتا وہ اپنی کار کی بتیاں روشن کر دیتا رکھتا تا دوسرے لوگوں کو اپنی کار پہچاننے میں مدد ملے۔

اس شام کا منظر کبھی دل سے محو نہ ہو گا۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ہر کوئی کیچڑ آلودہ کپڑوں کے ساتھ گھر میں داخل ہوا ہو گا۔ وہ پہلا اور آخری جلسہ تھا جو مختصر دنوں اور شدید سردی میں ہوا۔ طویل دنوں کی ایک شام کی یاد کچھ اس طرح ہے کہ ابتدائی سالوں میں مہمانوں کو اسلام آباد بیرکس میں ٹھہرایا جاتا تھا۔ جس کے لیے نماز مغرب کے معاً بعد مسجد فضل سے ویگنیں چلا کرتیں۔ مہمانوں کی خواہش ہوتی کہ وہ مجلس عرفان میں شریک ہوں۔ہر شام یہ معاملہ انتظامیہ اور مہمانوں کے درمیان ہلکی تکرار کا باعث بنتا۔ خدمت کرنے والوں میں سے ایک ہدایت اللہ بنگوی تھے جو سادہ منش، درویش انسان، ہمہ وقت خدمت پر مستعد رہتے۔ ہر چھوٹے بڑے سے بے تکلف ہو کر گفتگو کرتے اس لیے اپنے سرکل میں پسندیدہ شخصیت تھے۔ اسی خوبی کی بدولت لوگ مکرم مبارک احمد صاحب ساقی کو بھی پسند کرتے تھے۔ اللہ ان دونوں بزرگان اور ان کے ساتھ کام کرنے والے مرحوم ساتھیوں کے درجات بلند کرے۔ جلسہ سالانہ چاہے وہ کسی بھی ملک میں ہو رہا ہو ان جیسے خادمان اور یادوں کے انمول واقعات سے مزین رہا ہے۔

۲۰۱۸ء کے بعد امسال مجھے ایک بار پھر جماعت احمدیہ کینیڈا کے پینتالیسویں جلسہ سالانہ میں شرکت کا موقعہ ملا۔ جلسہ کی کارروائی اور انتظامی امور کی رپورٹ تو انتظامیہ کی طرف سے شائع ہو گی البتہ بطور راہ گیر اپنے مشاہدات کی جھلکیاں قارئین الفضل کی دلچسپی کے لیے پیش ہیں۔

ٹورنٹو ایئرپورٹ کے دامن میں چالیس ایکڑ میں پھیلے واقع انٹرنیشنل سنٹر کو جلسہ گاہ میں تبدیل کیا گیا تھا۔اس میں پانچ بڑے ہالز،پچپن چھوٹی بڑی مارکیاں جلسہ گاہ کا حصہ تھیں۔

انٹرنیشنل سنٹر کے چاروں اطراف میں پارکنگ زون بناے گئے تھے۔ ہر پارکنگ زون کا اپنا pick up and drop کا خیمہ تھا جہاں عمر رسیدہ افراد اور خواتین کو جلسہ گاہ پہنچانے کے لیے سہولیات موجود تھیں۔ چھ ہزار سے زائد گاڑیاں پارک کروائی گیں۔

ایر پورٹ روڈ پر داخل ہوتے ہی سائڈ پر جگہ جگہ لگے الیکٹرانک بورڈ جلسہ گاہ کی طرف جانے والوں کو پارکنگ کے لیے راہنمائی مہیا کر رہے تھے۔ اس سے یہ سہولت حاصل ہو رہی تھی کہ کونسے پارکنگ زون میں کتنی جگہ خالی ہے۔

مردانہ جلسہ گاہ، ہالز پانچ، میں داخلہ کے لیے دو دروازے بناے گئے تھے۔ دونوں داخلی راستوں پر دو بڑی بڑی نمائشوں کا اہتمام تھا جو ہر داخل ہونے والے کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں۔

تبلیغی نمائش کا سائز ۱۶۰x ۸۰؍مربع فٹ تھا۔ جس میں داخل ہونے والے کی پہلی نگاہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دیدہ زیب پر کشش تصویر پر پڑتی تھی جس کا سائز ۱۲۰x۵۰۰ انچ تھا۔ جسے سپیشل کاغذ پر تیار کرایا گیا تھا۔ اس تصویر کے اطراف میں حضور ؑکی تصانیف کے تعارف پر مشتمل ۲۶؍بینرز لگے ہوے تھے۔ ہر بینر کا سائز آٹھ فٹ تھا۔

ڈاکٹر ڈوئی کی پیشگوئی اور نشانات کے پورے ہونے سے متعلق بھی ایک سیکشن تھا۔ جس میں ۲۰؍فٹ کے بینر پر تمام معلومات مہیا کی گئی تھیں۔ اس زمانے کے اخبارات کے تراشوں پر مشتمل ایک ویڈیو فلم ٹی وی سکرین پر دکھائی جا رہی تھی۔

اسلامی اصول کی فلاسفی اور اس سے متعلق تاریخی حقائق بھی ایک بیس فٹ کے بینرز پر نمایاں کیے گئے تھے۔

ہال کے سنٹر میں ۵۸؍زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کو انتہائی خوبصورتی سےرکھا گیا تھا۔ زیر تبلیغ افراد سے گفتگو کے لیے ایک مخصوص کارنر بنایا گیا تھا۔ جہاں طالب کو نمائش کی مزید تفصیلات و دیگر سوالوں کے جوابات مہیا کیے جاتے۔ راہ گیر کو بتایا گیا کہ ان تین دنوں میں ۳۷۴؍زیر تبلیغ افراد سے اس مخصوص کارنر میں بیٹھ کر گفتگو کا موقعہ ملا۔

دوسرے داخلی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی دائیں طرف جو مخصوص ایریا تھا اس کا سائز ۹۵ ۱۱۰xمیٹر تھا جس میں دائیں طرف سے آپ چلنا شروع کریں تو ہر چند قدم پر احمدیت کے ایک نئے باب سے روشناس ہوتے چلے جائیں گے۔ سب سے پہلا بینر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر اور آپؑ کے دعویٰ کے الفاظ پر مشتمل ہے۔ دوسرا جماعت احمدیہ عالمگیر کا تعارف اور تیسرا جماعت احمدیہ کینیڈا سے ملاقات کا بینر تھا۔ جس سے معلوم ہوا کہ مکرم کرم الدین ۱۹۲۳ءمیں پہلے احمدی تھے جنہوں نے کینیڈا کی سرزمین پر قدم رکھااور مکرم منصور احمد بشیر کینیڈا کے ابتدائی مبلغ تھے۔کینیڈا میں جماعت ۱۹۶۶ء میں رجسٹر ہوئی۔

اسی طرح جلسہ سالانہ کی تاریخ کے عنوان کے تحت قادیان کے ایک جلسہ کی تصویر جس سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ خطاب فرما رہے ہیں۔ ایک چارٹ پر ۱۸۹۵ءسے ۱۹۸۳ءربوہ کے آخری جلسہ کی حاضری کا ذکر ملتا ہے۔ جلسہ سالانہ کے مقاصد اور غرض کے عنوان کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باتصویر ارشادات بھی موجود ہیں۔ جلسہ سالانہ کینیڈا کی سال با سال تفصیل کا ذکر بھی ملتا ہے۔ جلسہ سالانہ انٹرنیشنل کے عنوان کے تحت ایک چارٹ پر ان ممالک کے پرچم دکھاے گئے ہیں جن میں جلسہ سالانہ منعقد ہو رہا ہے۔ راہ گیر کو اس نمائش کا سب سے دلچسپ پہلو جلسہ سالانہ میموریل لگا۔ جس میں ۲۰۰۴ء، ۲۰۰۵ء، ۲۰۰۸ء، ۲۰۱۲ءاور۲۰۱۳ء کے جلسہ ہاے سالانہ کی تصاویر لگائی گئی تھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا دورہ کینیڈا اور ۱۹۷۸ءکے جلسہ سالانہ کے شرکاء کا گروپ فوٹو جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ اور حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی موجود ہیں۔

اسی ہال میں بھی ۲۰؍زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم بھی رکھے گئے تھے۔

ایک پورا کارنر ہومیونٹی فرسٹ کے دائرہ اختیار میں تھا۔ ایک حصہ میں کینیڈا کی مساعی اور دوسرے حصہ میں 50 project in service of Humanity کے عنوان کے تحت انٹرنیشنل مساعی کی تفاصیل بیان کی گئی تھیں۔

اسی ہال میں پریس کارنر اور آ نے والے مہمانوں کے لیے چائے خانہ بھی موجود تھا۔ جہاں مرزا نسیم بیگ اپنی ٹیم کے ساتھ تین دن پریس اور سیاسی شخصیات کو خوش آمدید کہتے رہے۔ جلسہ کے تینوں روز پریس اور سیاسی عمائدین کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ جلسہ کے پہلے روز ہونے والی پریس کانفرنس سے امیر جماعت کینیڈا ملک لال خان، عبدالرشید انور مشنری انچارج اور آصف خان سیکرٹری امور خارجہ نے خطاب بھی کیا اور پریس کے سوالوں کے جوابات بھی دیے۔

جلسہ میں ۲۱۲۹۷؍افراد شامل ہوئے۔ جن میں ۱۰۴۷۳؍ مرد حضرات اور ۱۰۸۲۴؍خواتین تھیں۔ ۴۶؍ ممالک سے ۸۶۱؍مہمان بھی اس تعداد میں شامل ہیں۔

جلسہ کے تینوں روز مسجد بیت السلام میں قائم لنگر خانہ میں کھانا تیار کر کے جلسہ گاہ لایا جاتا رہا۔تین دن میں ۱۶۰۰؍ دیگیں کھانے کی تیار کی گئیں۔ جلسہ کے دوران چار ہزار پانچ سو گیارہ معاونین نے پورے جوش و خروش سے کام کیا۔ جلسہ گاہ کے چالیس ایکٹر میں پھیلے ہونے کی وجہ سے بیرون میں بہت زیادہ کارکنان کو ڈیوٹی ادا کرنی پڑی دوسرے روز کے دوسرے اجلاس میں علم انعامی و دیگر تعلیمی انعامات بھی دیے گئے۔ انصار اللہ کا علم انعامی مجلس پیس ویلیج سنٹر، خدام الاحمدیہ کا مجلس ہمٹن اور اطفال الاحمدیہ کا مجلس بریڈ فورڈ نے حاصل کیا۔

کینیڈا میں ۲۰۱۱ء سے مدرسۃ الحفظ قائم ہے اور اب تک ۶۲؍حفاظ قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ امسال قرآن کریم حفظ کرنے والے خوش نصیبوں کو جلسہ کے دوسرے روز اسناد اور انعامات سے نوازا گیا۔

تین سال کے وقفہ کے بعد تین شخصیات کو سر ظفراللہ خان پبلک سروس ایوارڈ دیے گئے۔اس دوران ٹیلی ویژن سکرین پر ان تمام شخصیات کا تعارف نظر آرہا تھا جو اب تک یہ ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔

جلسہ کے پہلے روز حضرت مسیح موعودؑ کے ارشاد کی تعمیل میں وفات شدگان کی فہرست ہفتہ کے روز پڑھ کر سنائے جانے کا اعلان ہوا۔ لیکن بعد ازاں سیاسی شخصیات کی کثرت کی وجہ سے یہ اعلان کر دینا کافی سمجھا گیا کہ اس فہرست کو کینیڈا جماعت کی ویب سایٹ پر جاری کر دیا جائے گا۔

امسال کینیڈا نے تاریخ احمدیت کینیڈا شائع کی ہے جو تقریبا ۱۲۰۰؍صفحات پر مشتمل ہے۔ چودھری ہادی علی اور تاریخ کمیٹی کے دوسرے ممبران کی یہ محنت قابل ستائش ہے۔

جلسہ پر لگائے جانے والے بک سٹال پر ۶۰۰؍ موضوعات پر کتب موجود تھیں۔ اتنا بڑا بک سٹال مجھے کسی اور جلسہ سالانہ پر دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔

دوران جلسہ راہ گیر کو ایڈیٹر احمدیہ گزٹ سید ہدایت اللہ ہادی کا بھرپور تعاون حاصل رہا

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button