متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

(حضورِانور کے دورہ Scandinavia مئی ۲۰۱۶ء سے چند واقعات حصہ دہم)

ایک دلچسپ واقعہ

مہتمم صاحب مال نے حضورِانورایدہ اللہ کو بتایا کہ جدید دور کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اکثر خدام یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے پاس نقد رقم نہیں رکھتے اور ان کے پاس صرف cards ہوتےہیں۔ اس پر حضورِانور نے کچھ عرصہ قبل واٹس ایپ پر دیکھی ہوئی ایک ویڈیو کے حوالے سے فرمایاکہ ایک مرتبہ مجھے کسی نے ایک ویڈیو بھجوائی جس میں ایشیا کا کوئی فقیر ایک فیملی کی گاڑی کے پاس آتا ہے اور کچھ پیسے مانگتا ہے۔ وہ اپنے بٹوے دیکھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان کے پاس کھلے پیسے نہیں ہیں اور ان کے پاس صرف کارڈز ہیں۔ مایوس ہونے کی بجائے وہ فقیر مسکراتا ہے اور ایک پورٹیبل کریڈٹ کارڈ مشین نکالتا ہے اور انہیں پیش کرتا ہے تاکہ وہ کارڈ سے رقم ادا کر دیں۔

مجھے فوراً وہ ویڈیو یاد آ گئی جس کی بابت حضورِانور بیان فرما رہے تھے اور اس فیملی کے حیران کن تاثرات بھی جو ان کے چہروں سے نمایاں تھے کہ ایک فقیر کریڈٹ کارڈ مشین لیے گھوم رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ حضورِانور نے مجھے بھی اس ویڈیو کے بارے میں بتایا تھا اور آپ اس ویڈیو سے خوب محظوظ ہوئے تھے۔

تاہم اس ہلکے پھلکے واقعہ کا ذکر فرمانے کے بعد حضورِانور نے فرمایاکہ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہم فقیر نہیں ہیں اور جماعت کو کسی کی امداد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اس لیے یہ آپ کا فرض ہے کہ دوسروں کو بتائیں کہ مالی قربانی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو بے شمارفضلوں اور فوائد پر منتج ہوتا ہے۔

حضورِانور کے دورے کی برکات

اس میٹنگ کے اختتام پر حضورِانور نہایت شفقت سے صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ سویڈن کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں لندن آنے کی دعوت دی۔ حضورِانور نے فرمایا:صدرصاحب آپ کو جلسہ سالانہ یوکے پر آنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ وہاں خدام کیسے کام کررہے ہیں اور سیکھنا چاہیے کہ آپ نےسویڈن کے خدام کو کیسے فعال اور پُرجوش بنانا ہے۔

ایسے مواقع اور میٹنگز پر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح کے مختلف ممالک کے دورہ جات میں احمدیوں اور ان ممالک کے عہدیداران سے ملاقات کی کتنی برکات اور فوائد ہیں۔اس میٹنگ کے دوران صاف ظاہر تھا کہ نیشنل عاملہ پہلے سے زیادہ پُرجوش نظر آ رہی تھی اور اپنی ذمہ داریوں کا انہیں پہلے سے زیادہ ادراک ہو رہا تھا۔ ان احساسات کا کئی ممبران عاملہ نے بعد میں مجھ سے ذکر بھی کیا۔ چھتیس سالہ مہتمم صاحب اشاعت واحد رضی اللہ صاحب نے مجھے بتایا کہ حضورِانور نے ایسی عمدہ راہنمائی فرمائی اورایسے تعمیری تبصرہ جات فرمائے جن سے ہم اپنے کاموں میں بہت بہتری لا سکتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ حضورِانور نے اشاعت کے شعبہ کی راہنمائی فرمائی ہے ۔اگرچہ ہم کمزور ہیں اور حضورِانور بخوبی ہمارے حالات سے آگاہ ہیں پھر بھی آپ نے ہمیں ڈانٹا نہیں بلکہ نہایت محبت، شفقت اور پیار سے سکھایا۔

احمدیوں کے جذبات

اس دن پچھلے پہر میں ایک خادم ملک عمران عامر (عمر۳۶ سال) سے ملا جو ملک لال خان صاحب امیر جماعت کینیڈا کے بھتیجے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی دو سال کی بیٹی بہت شرمیلی تھی اور نئے لوگوں کے درمیان پریشان ہو جاتی تھی۔ اس لیے وہ اور ان کی اہلیہ بہت پریشان تھے کہ وہ ملاقات کے دوران حضورِانور کو دیکھ کر رونا نہ شروع کر دے۔ملک صاحب نے بتایا کہ ہماری بیٹی بہت زیادہ شرمیلی ہے اور میرے اور اپنی ماں کے علاوہ کسی کے پاس نہیں جاتی۔ وہ اپنے دادا،دادی کے ساتھ بھی نہیں کھیلتی ۔اگر عابد صاحب وہ آپ سے ملے تو وہ فوراً بھاگ جائے گی اور کہیں چھپ جائے گی۔

ملک صاحب نے مجھے حضورِانور کو دیکھنے پر اپنی بیٹی کا رد عمل بتاتے ہوئے کہا کہہم دونوں حیران تھےکہ ہماری ملاقات کے دوران اس نے حضورِانور کا ہاتھ پکڑ کر رکھا اور جونہی ہم ملاقات کر کے باہر آئے وہ کہنے لگی کہ وہ حضورِانور کو دوبارہ ملنا چاہتی ہے۔ جس طرح اس نے حضورِانور کے ساتھ ملاقات کی اس بات نے مجھ پر ثابت کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود خلافت کی محبت لوگوں اور بچوں کے دلوں میں ڈالتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بچوں کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ خلیفہ وقت امن،محبت اور سلامتی کا گہوارہ ہیں ۔

بعد ازاں انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے خود ۱۹۹۶ءمیں پاکستان میں احمدیت قبول کی تھی اور ۲۰۱۱ءمیں حضورِانور سے دعا کی درخواست کی کہ ان کے والد اور دو بہنیں بھی احمدیت قبول کر لیں۔ ملک صاحب نے بتایا کہ نہایت شفقت فرماتے ہوئے حضورِانور نے میری فیملی کے لیے دعا کی اور چند ماہ میں میری بہنوں نے احمدیت قبول کر لی۔ میرے والد صاحب نے ابھی تک بیعت تو نہیں کی لیکن جب انہیں پتا لگا کہ میں حضورِانور سے ملاقات کرنے جا رہا ہوں تو انہوں نے مجھے اپنے لیے حضورِانور کی خدمت میں دعا کی درخواست کرنے کا کہا۔

اس دن پچھلے پہر میری ملاقات Sarmad Hubnerصاحب سے ہوئی جوایک سویڈش نو مبائع ہیں اور گذشتہ چند ہفتوں میں میرے ایک اچھے دوست بن گئے تھے۔ میں نے دورے کے آغاز میں ان سے بات کی تھی کہ انہوں نے احمدیت کیسے قبول کی اور پھر انہوں نے دورے کے دوران مجھے اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔ سرمد صاحب نے بتایا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضورِانور تشریف لائے اور سویڈن جماعت کے روحانی پودے کی آبیاری کی۔ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو مسجد سے دور تھے اور اب وہ یہاں ہر روز آرہے ہیں اور جذبات سے مغلوب ہو کر دعائیں کر رہے ہیں۔

سرمد صاحب نے بتایا کہ میں واقعی اس بات پر یقین رکھتا ہوں ہر وہ جگہ جہاں خلیفہ وقت قیام فرماتے ہیں وہ دنیا کی سب سے محفوظ اور پاک جگہ ہوتی ہے کیونکہ ایسے وجود کے ہمراہ فرشتے ہوتے ہیں۔ میں کبھی بھی دوبارہ آپ سے الگ نہیں ہونا چاہتا کیونکہ خلافت ہی وہ آکسیجن ہے جو ہماری روحانیت کو بڑھاتی ہے۔ میں اس خیال سے کہ حضورِانور دو دن بعد واپس تشریف لے جائیں گے سخت غم زدہ ہوں اور پھر ہم اپنی معمول کی زندگی کی طرف اپنےخلیفہ سے ہزاروں میل دور واپس لوٹ جائیں گے ۔

حضورِانور کی مربی صاحب کے گھر تشریف آوری

دورے کے دوران میں پہلی مرتبہ سویڈن کے مشنری انچارج آغا یحییٰ خان صاحب سے ملا اور ان سےتعارف حاصل کیا۔وہ اور ان کی فیملی مسجد ناصر کے کمپلیکس کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ دورے کے آغاز پر آغا صاحب نے حضورِانور سے درخواست کی تھی کہ حضوران کے گھر تشریف لائیں ۔چنانچہ دورے کے آخری دن ۲۲؍ مئی کو حضورِانور نے اس درخواست کو شرفِ قبولیت بخشا۔بعد ازاں مربی صاحب کی بیٹی امل یحییٰ خان صاحبہ نے مجھے اپنی فیملی کے تجربات کے بارے میں بتایا کہ Gothenburg میں حضورِانور کے قیام کے دوران ہم ہر نماز کے بعد اس خیال سے تیزی سے گھر کی طرف واپس لوٹتے کہ شاید حضورِانور ہمیں اپنی تشریف آوری سے شرف بخشیں۔ گزرتے دنوں کے ساتھ ہم دل پر پتھر رکھ کر یہ قبول کر چکے تھے کہ حضورِانور بے انتہا مصروفیت کے باعث ہمارے ہاں تشریف نہ لا سکیں گے۔ تاہم ۲۲؍مئی کو ہم صوفے پر بیٹھے تھے جب ہم نے اپنے والد صاحب کو اونچی آواز سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے سنا۔ ہم نے ان کی سلام کی آواز میں خوشی اور گھبراہٹ سنی اور ہم فوراً ہی سمجھ گئے کہ حضورِانور ہمارے گھر تشریف لائے ہیں۔

امل صاحبہ نے مزید بتایا کہ ہم حضورِانور کو خوش آمدید کہنے کے لیے دروازے کی طرف دوڑے اور ہم نے خوشی سے بہتے ہوئے آنسوؤں سے حضورِانور کو السلام علیکم کہا۔

انہوں نے مجھے بتایا کہ چھ سال قبل ان کے کچن میں آگ لگ گئی تھی اور ان کی حیرانگی کی انتہا نہ رہی جب انہیں پتا چلا کہ حضورِانور کو وہ واقعہ یاد تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی حضورِانور نے فرمایا یہ وہ کچن ہے جس میں آگ لگی تھی اور پھر اس کی تعمیر نو کی گئی ہے؟

بعد ازا ں حضورِانور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تصویر ملاحظہ فرمائی جو living room میں دیوار کے ساتھ آویزاں تھی۔ اس کو دیکھنے پر حضورِانور نے فرمایا کہ یہ تصویر کچھ مدھم ہو چکی ہے اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی بہتر معیار کی تصویر سے تبدیل کر دیں۔

ہر معاملے میں حضورِانور کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے مکمل تکریم دکھائی دیتی ہے۔چنانچہ اس موقع پر بھی آپ کو حضورؑکی ایسی تصویر پسند نہ آئی جو واضح نہ ہو۔

امل صاحبہ نے مجھے بتایا کہ حضورِانور کی واپسی سے کچھ لمحے قبل انہوں نے ایک تصویر بنوانے کی درخواست کی۔ اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس بات نے مجھے فرطِ حیرت میں ڈال دیا کہ کس طرح حضورِانور ہر کسی کو اتنا خاص ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ میرے والد صاحب نے پہلی تصویر بنائی اور پھر میں نے اگلی تصویر بنائی تاکہ وہ بھی تصویر میں آجائیں۔ میرے تصویر لینے کے بعد حضورِانور نے فرمایا کہ تمہارا جی چاہتا ہو گا کہ میری حضورِانور کے ساتھ ایک ایسی تصویر بھی ہو جس میں میرے والد صاحب بھی موجود ہوں۔چنانچہ حضور نے میری بڑی بہن کو کہا کہ وہ ایک آخری تصویر لے لیں۔ اس طرح ہم سب کی حضورِانور کے ساتھ تصاویر بن گئیں جس میں سب فیملی ممبران شامل تھے۔

(مترجم:’ابو سلطان‘ معاونت :مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button