متفرق مضامین

نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)

کچھ سالوں میں دنیا میں شدید بارشیں، طوفان آئے۔ سیلا ب آیااور مزید آنے کا امکان ہے۔ دنیا کی اکثریت کا ذہن اس طرف گیا کہ یہ کہیں خدا تعالیٰ کا عذاب تو نہیں۔ بحثیں ہوئیں۔ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلے کہ یہ عذاب نہیں بلکہ حکومتی نااہلی ہے۔ بعض نے اسے گلوبل وارمنگ قرار دیا۔ جنگلات کی آگ ہو یا طوفان اور بارش۔ دنیا بھر میں ان آفات نے ایک تباہی پھیر دی۔ کیا یورپ، کیا ایشیا، کیا امریکہ اور کیا آسٹریلیا حتیٰ کے افریقہ میں بھی بارش کے کئی سالہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔

برازیل، امریکہ، ایران، چائنا، آسٹریلیا اور جرمنی سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک بھی سیلاب کی زد میں آئے۔ لیکن سب سے زیادہ سیلاب جسے فلیش فلڈ کہا جاتا ہے اس سے گذشتہ سال پاکستان کا خطہ متاثر ہوا۔ لیکن جب پاکستان کے حالات اور دنیا دیکھیں تو ایسی تباہی کہیں اورنہیں آئی۔ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی امسال سیلاب آیا ہوا ہے اور افغانستان میں بھی شدید بارشیں ہوئیں اور سیلاب آئے۔ لیکن جو بڑا نقصان پاکستان نے اٹھایا وہ کہیں اور نظر نہ آیا۔ ایک انسانی المیہ نے جنم لیا۔

۲۰۰۵ء میں جب مونگ رسول میں علی الصبح فجر کی نماز پر پانچ احمدیوں کو شہید کر دیا گیا تو اگلے ہی روز قیامت خیز زلزلہ آیا۔ پھر مئی ۲۰۱۰ء میں لاہور کی مساجد میں ۸۶؍احمدیوں کو شہید کر دیا گیا تو اس کے فوری بعد تباہ کن سیلاب نے جل تھل ایک کر دیا۔ میں اسے از خودعذاب قرار نہیں دے سکتا۔ خود پاکستان کی عوام خبروں میں اور سوشل میڈیا پر چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ہم پر عذاب آیا ہے تو میں کیوں اسے عذاب نہ کہوں۔ سب اپنے اپنے مذہبی راہنماؤں کے پرانے کلپ اور باتیں شیئر کر کے اسے عذاب الٰہی اور ناراضگی کا موجب قرار دے رہے تھے۔

آفت کا اقرار

پاکستان کی عوام اور سیاسی و مذہبی قائدین اور علماء حضرات اسے تاریخ کی سب سے بڑی ایک آسمانی آفت اور عذاب بھی قرار دے رہے ہیں۔ ۳۱ اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا۔ نقشہ کے مطابق نصف سے زائد پاکستان متاثر ہوا۔ آبادیاں، انفراسٹرکچر،فصلیں، انسانی جانیں مال مویشی سب برباد ہوگیا۔ ملک بھر میں ہونے والی طوفانی بارشوں، ہلاکت خیز سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد سوا تین کروڑ سے زیادہ تھی۔

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اپنی زندگی میں اس طرح کا سیلاب نہیں دیکھا، دیہات کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ ۲۰۱۰ء کاسیلاب سندھ اور ملحقہ علاقوں تک محدود تھا لیکن اس بار پانی چاروں طرف پھیلاہوا ہے، سیلاب سے سندھ اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جبکہ سوات، دیر، کالام بارش سے تباہی کا شکار ہوگئے ہیں۔ پورے پاکستان میں کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں، چاول کی فصل مکمل طورپر تباہ ہوگئی ہے، بجلی کے کھمبے گر گئے، ٹرانسفارمرز کو بھی نقصان پہنچا۔ میں نے اپنی زندگی میں اس طرح کا تباہ کن سیلاب نہیں دیکھا، دیہات کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں، ایک ہزار لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے، ہزاروں زخمی ہوگئے۔ (نوائے وقت لاہور صفحہ اول ۲۹ اگست ۲۰۲۲ء)

سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت سیلاب کی صورت میں اللہ کی طرف سے ایک امتحان آیا ہوا ہے۔ بڑی تعداد میں پاکستانی اس سیلابی صورتحال سے متاثر ہو چکے ہیں۔ (نوائے وقت صفحہ اول ۲۹؍اگست ۲۰۲۲ء)

سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ میں چند دنوں سے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کررہا ہوں، بلوچستان… سندھ آیا ہوں، یہاں بہت تباہی ہوئی ہے۔ اس سال سیلاب بہت بڑے پیمانے پر آیا ہے، اس صورتحال کو معمول پر آنے، لوگوں کو ریلیف دینے اور بحال کرنے میں بہت سال لگ جائیں گے۔

(روزنامہ دنیا https://dunya.com.pk/index.php/pakistan/2022-08-29/2047360)

سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے کہا کہ سیلاب انسانی المیہ کی شکل اختیار کر رہا ہے۔

( نوائے وقت27؍اگست 2022ء بحوالہnawaiwaqt.com.pk/27-Aug-2022/1602198)

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں کہا تھا کہ اس وقت پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب آیا ہوا ہے، سیلابی صورتحال انتہائی سنگین ہے۔بارشوں میں کمی نظر نہیں آرہی ہے، کئی علاقوں میں۱۱۰۰؍ملی میٹرتک بارشیں ہوئی ہیں، سندھ کے ۳۰ اضلاع ڈوب چکے ہیں، بلوچستان سے آج مواصلاتی رابطہ بھی ختم ہوگیا ہے۔(آج نیوز ویب سائیٹ)

پھر انہوں نے کہا کہ سندھ کے بیشتر اضلاع زیرآب ہیں۔خیبرپختونخوا میں بھی سیلاب کے باعث سنگین صورتحال ہے۔اس وقت ملک میں بہت پانی ہے،بحران ہے ہر طرف تباہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بارشوں اور سیلاب سے تین کروڑ لوگ براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ایک مون سون سپیل سے نکل ہی نہیں پاتے اگلا آجاتاہے۔(نوائے وقت: nawaiwaqt.com.pk/25-Aug-2022/1601607)

پھر صحافی محمد حنیف نے بی بی سی اردو میں اپنے کالم میں اس آفت کو قیامت کا منظر،عذاب اور طوفان نوح سے مشابہت دیتے ہوئے لکھا کہ ہمارے دین میں بھی ہے کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اسی طرح ایک شخص پر تشدد تمام شہریوں پر تشدد کے مترادف ہے۔ لیکن کون سے دین میں یہ لکھا ہے کہ ایک طرف طوفان نوح کی سی کیفیت ہو، انسانیت ڈوب رہی ہو، لوگ غراتے پانیوں میں اپنے بچے کھینچ کر نکالنے کی کوشش کر رہے ہوں اور ملک کے تمام پڑھے لکھے لوگ… بحث میں مصروف ہوں… خلقت کو اللہ کے عذاب سے مت ڈراؤ، وہ بھگت رہے ہیں خود اس خلقت کے عذاب سے ڈرو کہ تمھیں نہ بھگتنا پڑ جائے… لیکن اردگرد نظر دوڑاؤ اس قیامت کے منظرنامے…(بی بی سی اردو ۲۷؍اگست ۲۰۲۲ء)

نوائے وقت نے قیامت صغریٰ قرار دیتے ہوئے ۲۶؍ اگست کے اپنے اداریہ میں لکھا کہ دیکھا جائے تو ایک طرح کی قیامت صغریٰ تھی جو بلوچستان سمیت ملک کے دوسرے علاقوں میں برپا ہوئی۔

عبداللہ طارق سہیل نوائے وقت میں خدا کا عذاب میں لکھا کہ سیلاب سے ہونے والی دردناک تباہی کوکچھ افراد اللہ کا عذاب قرار دے رہے ہیں۔ دین کا علم رکھنے والے علماء(ظاہر ہے ایسے علماءبہرحال موجود ہیں جن کے پاس دین کا علم واقعتاً ہے) راہنمائی کریں کہ یہ اللہ کا عذاب ہے۔ یا حکمران طبقات کی لاپروائی کا نتیجہ ہے؟ اللہ کا عذاب اگر گناہوں پر آتا ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ پوش سوسائٹیوں میں سب اللہ کے ولی رہتے ہیں اور سیلاب زدہ علاقوں کے جھگے جھونپڑیوں اور کچے مکانوں میں رہنے والے ’’بدترین گناہ گار‘‘ہیں۔ ( نوائے وقت ۲۷؍اگست ۲۰۲۲ء)

ایس اے زاہد نے لکھا کہ کوئی بھی جاکر سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں دیکھے،جس میں ذرہ برابر بھی انسانیت ہے وہ یقیناً لرز کررہ جائےگا۔ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ انسان، مال مویشی، گھروں کاسامان، ہر شے سیلاب میں بہہ گئی ہے۔ یقین کریں کہ گائوں کے گائوں سیلاب ایسے بہا کرلے گیا ہے کہ اب وہاں ان کانام ونشاں بھی نہیں…تادم تحریر زمین پر سیلاب، پانی ہی پانی اور آسمان سے موسلادھار بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ (روزنامہ جنگ۔۲۶؍اگست ۲۰۲۲ء)

ناصر بشیر ’سیلاب زدگان: پرویز الٰہی کا امتحان‘کے عنوان سے لکھا کہ ان دنوں جنوبی پنجاب بارش اورسیلاب کے عذاب کا شکار ہے۔ بے شمار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ہزاروں جانور سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ لوگوں کے ہزاروں مکان گرگئے۔ سیلاب زدگان غذائی قلت کا شکار ہیں۔ حتیٰ کہ انہیں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔(روزنامہ جنگ۔۲۷؍اگست ۲۰۲۲ء)

صحافی اوریا مقبول جان نے ٹویٹر پر لکھا کہ عذاب کی تضحیک اڑاتے ہوئے کہا جا تا ہے کہ سیلاب غریبوں پر ہی کیوں آیا،ورجب اللہ نے دنیا کے امیر ترین شہروں کو کرونا کے عذاب میں مبتلا کیا،۶۵لاکھ مر گئےاور افریقہ کے غریب ترین ملکوں کو چھوڑ دیا گیا، اس وقت آپ نہیں بولے،اڑاؤ مذاق،ابھی قتل و غارت کا عذاب باقی ہے آجاؤ گے لپیٹ میں۔

(https://twitter.com/OryaMaqboolJan/status/1562941782249259008?s=20&t=2d0bCCz7ODMqjkVcexC-Zg)

روزنامہ پاکستان میں مصطفیٰ کمال پاشا نے لکھا کہ آج کل ہم بحیثیت قوم قدرتی آفت ’’سیلاب‘‘کا شکار ہیں پہلے ہم خشک سالی کا رونا روتے تھے، ہمارے ڈیموں میں پانی کی شدید کمی تھی پانی کی دستیابی کے حوالے سے پریشانی کن صورت حال تھی لیکن جب اللہ رب العزت نے بارشیں برسانا شروع کیں تو ہماری چیخ و پکار شروع ہو گئی۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس بار اِس کو بارانِ رحمت کہیں کہ اس نے ہماری خشک زمینوں کو سیراب کیا ہے اور خالی ڈیموں کو بھرا ہے یا اسے ’’بارانِ زحمت‘‘کیونکہ ان بارشوں نے سندھ، بلوچستان، صوبہ پنجاب اور کے پی کے بہت سے علاقوں میں تباہی مچا دی ہے…

ایسے لگ رہا ہے کہ خیر کہیں گم ہو گئی ہے، کچھ لوگ سیلاب زدگی کا شکار ہیں اور باقی بے حسی اور ناتوانی کا شکار ہوگئے ہیں کسی کو خبر نہیں کہ اہل وطن پر کس قسم کی افتاد آن پڑی ہے ہمیں قہر خداوندی کا اندازہ بھی نہیں ہے اور احساس بھی نہیں ہے،… معاشرہ بے حسی کے بڑے مقام پر فائز نظر آ رہا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ قدرت ہم سے ناراض ہو چکی ہے،لایزل کی ناراضگی ہم پر حقیقی زحمت بن کر برس رہی ہے ہم بے حس اوربے پروا اپنی ہی دُھن میں لگے ہوئے ہیں، حالات ٹھیک نہیں ہیں اللہ بھی خیر کرتا نظر نہیں آ رہا، ہمارے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ ہم صدق دِل سے اللہ توبہ کریں اور اللہ کی رحمت کے طلب گار ہوجائیں۔(روزنامہ پاکستان لاہور ۲۷؍اگست ۲۰۲۲ء)

میڈیا پر عوام چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ یہ خدا کا عذاب آیا ہے۔ خدا کی ناراضگی ہے۔ کچھ علماء مسلمانوں کو اپنے اعمال درست کرنے سودی کاروبار ختم کرنے سے خدا کی ناراضگی کو ختم کرنے کا کہہ رہا تھے۔

مذہبی راہنماؤں میں مولانا طارق جمیل صاحب نے حالیہ آفت کو انسانی گناہوں کی کثرت سے جوڑا اور انہوں نے اپنے آفیشل چینل پر ۲۷؍اگست ۲۰۲۲ء کو ویڈیو میں کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں، میں ستر کے قریب پہنچ رہا ہوں،میں نے اتنی بڑی تباہی آج تک نہیں دیکھی۔ اتنا بڑا نقصان ہر صوبہ میں کے پی کے میں،تباہی آئی ہوئی ہے۔ جنوبی پنجاب میں تباہی آئی ہوئی ہےسندھ میں۔ کوئٹہ کے دوست نے روروتے ہوئے کہ مولانا صاحب آپ تصور نہیں کر سکتے کتنی تباہی آئی ہوئی ہے… ہمیں اپنے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرنی چاہیئے۔ حضرت عائشہؓ نے ہمارے نبی پاک ﷺ سے پوچھا کہ انھلک و فینا صالحون قال نعم اذا کثر الخبث۔ یا رسول اللہ ﷺ نیک لوگ ہوتے ہوئے بھی ہم ہلاک ہو سکتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ عائشہ! جب گناہوں کی کثرت ہو جائے گی تو نیک بھی ہوں گے تو ہلاکت آئے گی۔ (https://www.youtube.com/watch?v=fGU4_4p9mWc)

عذاب کا قانون

پھر معروف مذہبی سکالر جاوید غامدی نے یہ بات تو کی کہ ایسے بڑے عذاب خدا کی ناراضگی کا پتہ دیتے ہیں اورخدائی قانون کے مطابق ایسی آفات کے آنے سے پہلے چند مراحل یعنی انبیاء کا آنا، پیغام دینا، انکار کیا جانا پھر آخری تنبیہہ اور تنبیہ سے قبل بھی توبہ کا وقت ضروری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کا نظام عام حالات میں خود کار اصولوں پر چلتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض بھی ہوتے ہیں لیکن انہوں نے بتا یا ہے کہ انہوں نے اپنی ناراضی کا اظہار اگر کبھی کرنا چاہتے ہیں یا جس طرح پرانی قوموں کی داستان قرآن سناتا ہے۔پہلے پیغمبر بھیج کر قوموں کو متنبہ کرتے ہیں۔ میں قرآن مجید میں جب ان قوموں کی داستان پڑھتا ہوں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی ناراضی کا ظہور ان کے لیے ہوا لیکن بڑے مراحل سے گزر کر ہوا۔ پہلے پیغمبروں نے آ کر انہیں دعوت دی، پیغام پہنچایا، توبہ کے لیے کہا، استغفار کے لیے کہا اس کے بعد بڑے مراحل گزرے اور پھر ایک الٹی میٹم دے کر انہوں نے کہاکہ اب اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ سنائے گا۔اللہ تعالیٰ کی عذاب یا ناراضگی کا اظہار اس طرح ایک ضابطے کے تحت ہوتا ہے اور اس کو خود قرآن نے بیان کیا ہےکہ یہ میرا ضابطہ ہے اور لن تجد لسنة اللّٰہ تبدیلا۔ اور میں اس ضابطے کے ساتھ ہی ثواب عذاب کا فیصلہ کرتا ہوں۔ اس کو ایک قانون کے طور پر طور پر بھی بیان کر دیا کہ ما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولا۔ جب تک ہم رسول بھیج کرحجت پوری نہیں کر لیتے ہم عذاب نہیں دیا کرتے۔(ماخوذ: https://youtu.be/DWqRBUJZjlQ)

لیکن اس اقرار کے بعد بھی انہوں نے پاکستان میں آنے والی آفات کو حکومتی غفلت اور مختلف زمینی توجیہات قرار دیا۔ لیکن دیکھا جائے تو اس زمانہ میں بھی ایک ایسا دعویدار موجود ہے جو ان آفات سے قبل دنیا کو خبردار کرتا رہا ہے۔

بانی جماعت احمدیہ ؑنے مسیح الزمان اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ فرمایا اور خدا تعالیٰ سے مشرف با کلام ہو کر آنے والی آفات سے آگاہ کیا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے یہ اس لیے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں اگر میں نہ آیا ہوتا تو اِن بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا۔ وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا۔ اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم اِن زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہوگا۔یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے۔

اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کیے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔

میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘ (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ۲۶۸تا۲۶۹)

سونے والو جلد جاگو یہ نہ وقت خواب ہے

جو خبر دی وحی حق نے اس سے دل بیتاب ہے

زلزلہ سے دیکھتا ہوں میں زمیں زیر و زبر

وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑا سیلاب ہے

ہے سر راہ پر کھڑا نیکوں کی وہ مولیٰ کریم

نیک کو کچھ غم نہیں ہے گو بڑا گرداب ہے

کوئی کشتی اب بچا سکتی نہیں اس سیل سے

حیلے سب جاتے رہے اک حضرت تواب ہے

ان زلازل کے ساتھ سیلابوں اور نوح کے زمانہ سے خبردار کرنا اس آیت کی واضح تشریح ہے جو جاوید غامدی صاحب نے پیش کی۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ سال ۲۰۲۲ء میں دنیا نے شدید گلوبل وارمنگ کا سامنا کیا۔ کہیں آگ کہیں، زلزلے اور کہیں مٹی اور پانی کے طوفان۔ لیکن دنیا کے بدلتے حالات اور موسم کو انسانی ترقی کے بد اثرات قرار دیا گیا۔ مذہبی دنیا اور روحانیت کے طلب گار اس بات کا عرفان رکھتےہیں کہ یہ محص گلوبل وارمنگ یا موسمیاتی تبدیلیاں نہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے وارننگز ہیں کہ اب بھی وقت ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے بڑے عذاب میں ڈھیل ہے۔ مادیت کی طرف گامزن اس دنیا نے اپنی ترقی کی چکا چوند میں اپنے خالق حقیقی کو بھلا دیا لیکن سنت اللہ اسی طور پر جاری ہے جب مخلوق اپنے خالق حقیقی کو فراموش کرنے لگتی ہے۔ تو وہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ کبھی آفات بھیج کر کبھی زلازل اور وباؤں سے۔ اب بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق دنیا پر ہر لحاظ سے اتمام حجت کے لیے ایک مبشر اور نذیر بھیجا ہے۔وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا(بنی اسرائیل: ۱۶)اور جب تک ہم کوئی رسول مبعوث نہ کریں ہم عذاب نہیں دیا کرتے۔ آج کل آفات کا زمانہ ہے۔ ان آفات کی خبر خدا تعالیٰ نے اپنے مامور کے ذریعہ سے دنیا کو دی ہے لیکن قلیلا ما یتذکرون۔ تھوڑے ہیں جو نصیحت پکڑتے ہیں۔ سال ۲۰۲۲ء میں پوری دنیا میں سیلاب کی آفت نمودار ہوئی اور دنیا نے نوح کا زمانہ دیکھا۔

گذشتہ تین چار سالوں پر نظر ڈالیں تو پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت میں ایک بار بھی زور آیا ہے۔ اور الکفر ملة واحدة کے مطابق ایک منظم طور پر جماعت احمدیہ کے مقابل تحریکات چلائی جا رہی ہیں۔ کہیں معصوموں کو شہید، مساجد کو مسمار، مقابر کی بے حرمتی، قبر کشائی اور کیا گناہ اور تدبیر رہ گئی جو انہوں نے نہ کی ہو۔ ان گذشتہ ساڑھے تین سالوں میں اتمام حجت کے لیے اور مخالفین کو اپنی شوخی سے باز رہنے کے لیے امام جماعت احمدیہ امیر المومنین حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز متعدد بارتلقین، نصائح اور تنبیہہ فرما چکے ہیں۔ لیکن مخالفین احمدیت کے سرغنوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور انہوں نے عوام کالانعام کو بھی اپنے ساتھ جہالت میں گھسیٹا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبات و خطابات میں پاکستان کی انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ،سیاسی و مذہبی راہنماؤں کو بارہا سمجھایا اور خدا تعالیٰ کے پکڑ سے بھی ڈرایا۔ لیکن جب وہ باز نہ آئے تو حضور انور نے اپنا اور اس الٰہی جماعت کا معاملہ خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیا۔ احمدی خصوصاً اور دیگر پاکستان کی دیگر اقلیتیں ایک تکلیف دہ اور صبر آزما دور سے گزریں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ عذاب میں دھیما ہے۔ لیکن یاد رکھیں قرآنِ کریم میں ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ (البروج:۱۳) سو خدا ڈھیل تو دیتا ہے لیکن جب وہ پکڑتا ہے تو وہ پکڑ نہایت سخت ہوتی ہے۔ حضور انور کے چند ارشادات درج ذیل ہیں:

٭…اللہ تعالیٰ ان شریروں کے شر ان پر الٹائے۔(الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍ستمبر۲۰۲۰ء)

٭…ان کی یہ حرکتیں اگر یہ ان سے باز نہ آئے تو ان کی تباہی یقینی ہے۔ (الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍اکتوبر۲۰۲۰ء)

٭…ان لوگوں کی اب پکڑ کے جلد سامان فرمائے۔ (الفضل انٹرنیشنل ۲۵؍دسمبر۲۰۲۰ء)

٭…ان کا مقدر ہی یہی ہے کہ وہ اسی طرح کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں تو پھر اللہ تعالیٰ جلد ان کی پکڑ کے سامان پیدا فرمائے۔(الفضل انٹرنیشنل ۰۱؍جنوری ۲۰۲۱ءصفحہ۵تا۱۰)

٭…جن لوگوں کی اصلاح اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقدر نہیں اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کے سامان جلد فرمائے۔ (الفضل انٹرنیشنل ۱۵؍جنوری۲۰۲۱ءصفحہ۵تا۱۰)

٭…پاکستان میں بعض جگہ بعض مولوی اور سرکاری اہلکار ظلموں پر اترے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے ناقابل اصلاح لوگوں کی جلد پکڑ کے سامان کرے۔ اللہ تعالیٰ کے تو علم میں ہے کن کی اصلاح ہونی ہے اور کن کی نہیں ہونی۔ جن کی نہیں ہونی تو پھر ان کی جلد پکڑ کے سامان پیدا فرمائے…یقیناً اس کی مدد آتی ہے اور ضرور آتی ہے اور اس وقت پھر ان دنیاداروں اور اپنے زعم میں طاقت اور ثروت رکھنے والے جو لوگ ہیں ان کی پھر خاک بھی نظر نہیں آتی جب اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت آتی ہے۔ (الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍جنوری۲۰۲۱ءصفحہ۵تا۱۱)

٭…جن مخالفین کی اصلاح نہیں ہونی اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کے سامان کرے۔ (الفضل انٹر نیشنل ۲۹؍جنوری ۲۰۲۱ء)

٭…اگر [عقل اور سمجھ]نہیں ہے تو پھر جو بھی اللہ تعالیٰ نے ان سے سلوک کرنا ہے وہ کرے اور جلد ہم ان سے نجات پانے والے بنیں۔ (الفضل انٹرنیشنل ۵؍فروری۲۰۲۱ء)

٭…مخالفین تو اپنی طرف سے اپنے زعم میں دائرہ تنگ کر رہے ہیں لیکن ان کو نہیں پتہ کہ ایک بالا ہستی بھی ہے، خدا تعالیٰ بھی ہے جس کی تقدیر بھی چل رہی ہے اور اس کا دائرہ بھی ان کے اوپر تنگ ہو رہا ہے اور وہ دائرہ جب تنگ ہوتا ہے تو پھر اس سے کوئی فرار نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور یہ لوگ ابھی بھی عقل سے کام لیں، انصاف سے کام لیں اور بلا وجہ کی ظلم اور تعدی سے باز آئیں۔ (الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍فروری ۲۰۲۱ء)

٭…ان شاء اللہ تعالیٰ یہ دعائیں اگر جاری رہیں تو جلد ہم دیکھیں گے کہ مخالفین کا انجام نہایت عبرتناک ہو گا۔(الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍فروری ۲۰۲۱ء)

٭… دشمن کو کیفر کردار تک پہنچائے۔(خطبہ جمعہ ۲۰؍ مئی ۲۰۲۲ء)

٭…انتہائی بدطینت قسم کے لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کرے۔ (خطبہ جمعہ ۳؍ جون ۲۰۲۲ء)

کشتی نوح۔ تعلیم کی کشتی

مذکورہ بالا اقراروں اور مسیح دوراں کی تعلیم اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پیش کر کے خاکسار نتیجہ قارئین پر چھوڑتا ہے کہ کیا یہ سیلاب خدا کا عذاب ہے یا نہیں ۔کیا خدا تعالیٰ کے فرستادہ کی تکذیب و تکفیر پر ان کو توجہ دلایا جانا، عذاب کی خبر دینا، توبہ کرنے کی طرف آمادہ کرنا، یہ ایسے امور نہیں جو خدا کے جوش و غضب کو بھڑکانے والے ہیں۔ اگر خدا نے اس زمانہ کو نوح کا زمانہ قرار دیا تو کیا اس زمانہ میں اس سے حفاظت کے لیے کوئی کشتی بھی بنائی کہ نہیں۔ تو واضح رہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو ماموریت کا الہام ہی ان الفاظ میں ہوا کہ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ

خدا تعالیٰ کے فرستادے نے اس طوفان سے بچنے کے لیے خدا کے حکم سے روحانی کشتی پہلے سے ہی تیار کر دی تھی۔ اور اِس زمانہ کے لحاظ سے یہ کشتی کوئی چھوٹی کشتی نہیں کہ صرف چند افراد اور چرند پرند اس میں بیٹھ سکیں بلکہ ہر یک جو اس تعلیم میں پر عمل کرتا ہے وہ اس طوفان سے بچایا جائے گا۔ اکتوبر ۱۹۰۲ء میں آپ نے کشتی نوح تالیف فرمائی اور اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِیْ الدَّارِ کا خدائی وعدہ پیش فرما یا اور دنیا کے سامنے وہ تعلیم پیش کی جس پر عمل کر کے ہم اس طوفان سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے میری تعلیم کو اور اس وحی کو جو میرے پر ہوتی ہے فُلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کیا جیسا کہ ایک الہام الٰہی کی یہ عبارت ہے۔ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ۔ یعنی اس تعلیم اور تجدید کی کشتی کو ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے بنا۔ جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ یہ خُدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے۔ اب دیکھو خدا نے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لیے اس کو مدار نجات ٹھہرایا جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جس کے کان ہوں سُنے۔ (اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ حاشیہ صفحہ ۴۳۵)

اللہ کرے کے دنیا ہوش کے ناخن لے اور خدا تعالیٰ کے اس فرستادہ کو پہچاننے والے ہوں۔ اور نوح کی کشتی جو اس زمانے کا حصنِ حصین ہے اس میں سوارہو کر ان مصائب اور بلایا سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے والے ہوں۔ آمین

آسماں سے ہے چلی توحیدِ خالق کی ہوا

دل ہمارے ساتھ ہیں گو منہ کریں بک بک ہزار

اسمعوا صوت السماء جاء المسیح جاء المسیح

نیز بشنو از زمیں آمد امامِ کامگار

آسماں بارد نشان الوقت می گوید زمیں

ایں دو شاہداز پئے من نعرہ زن چوں بیقرار

ایک طوفان ہے خدا کے قہر کا اب جوش پر

نوح کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہورستگار

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button