الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت سیّد میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر1 میں مکرمہ درّثمین احمد صاحبہ کے قلم سے حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کا تعارف شامل اشاعت ہے۔

حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کا خاندان دہلی کا نہایت معزز سادات خاندان تھا۔آپؓ کے والد محترم میر ناصر امیر صاحبؒ اور دادا میر ہاشم علی صاحب تھے۔آپؓ کے جدّامجد میں حضرت خواجہ بہاوٴالدین نقشبندیؒ اور حضرت خواجہ میر دردؒ کی روحانی برکات و فیوض کا سلسلہ بےحد وسیع ہے۔

آپؓ انداز۱ً ۴۶۔۱۸۴۵ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ خدا تعالیٰ نے خود آپؓ کے خاندان اور ان کے نسب اور شرافت کی گواہی یوں دی: اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھۡرَ وَالنَّسَبَ (تذکرہ ایڈیشن پنجم صفحہ۳۰)۔ آپؓ نے دہلی میں ہی پرورش پائی مگروالد محترم کی ناگہانی وفات کے سبب آپؓ اور آپؓ کے خاندان کی کفالت کا ذمہ نانا اور ماموںنے لیا۔ ۱۸۵۷ء کے نامساعد حالات کے سبب آپؓ کو خاندان کے ہمراہ ہجرت کرنا پڑی۔ ہجرت کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’سب لوگ اپنے اپنے گھروں سے قیمتی اشیاء ساتھ لے جانے کے لیے اٹھا رہے تھے میری والدہ نے(اللہ انہیں جنت نصیب کرے ) میرے والدؒ کا قرآن اٹھالیا،جو میرے پاس نشانی کے طور پر محفوظ ہے۔‘‘

آپؓ کا خاندان نہایت کس مپرسی کی حالت میںپانی پت آپؓ کے ماموں کے پاس پہنچااور یہاں آپؓ نے دو سال قیام کیا۔ اس کے بعد لوگوں کو دہلی آنے کی اجازت مل گئی تو آپؓ کا خاندان بھی دہلی میں آباد ہوگیا۔ آپؓ کی عمر بارہ سال کے قریب تھی تو آپؓ کی والدہ نے آپؓ کو تعلیم کی غرض سے آپؓ کے ماموں میر ناصر حسین صاحب کے پاس مادھوپور ضلع گورداسپور بھجوادیا۔ وہاں پر آپؓ نے باقی علوم تو حاصل کیے مگر بڑے بھائی کے مشورہ پر انگریزی نہیں پڑھی۔

آپؓ کی شادی سولہ سال کی عمر میں حضرت سید بیگم صاحبہؓ کے ساتھ قرار پائی۔ ۱۸۶۵ء میںشادی کے تین سال بعد آپؓ کے ہاں حضرت سیدہ نصرت جہاںؓ کی پیدائش ہوئی۔ پھر پانچ بچے پیدا ہوئے جو وفات پاگئے۔ ۱۸۸۱ء میںحضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ پیدا ہوئے۔ جن کے بعد مزید پانچ بچے پیدا ہوکر وفات پاگئے۔ ۱۸۹۰ء میں بمقام لدھیانہ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی پیدائش ہوئی۔

اکیس سال کی عمر تک آپؓ کا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا، چنانچہ آپؓ کی والدہ نے آپؓ کو ماموں کے پاس لاہور بھجوادیا۔ آپؓ نے ایک سال مزید تعلیم حاصل کی اور ماموں کی وساطت سے آپؓ کو ملازمت مل گئی۔آپؓ بسلسلہ ملازمت امرتسر،سٹھیالی اورکا ہنوان میں مقیم رہے کچھ وقت آپؓ کو قادیان میں بھی رہنے کا موقع ملا۔ قادیان میں قیام کے دوران آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات بھی کی۔ حضورؑ ان دنوں براہینِ احمدیہ تصنیف فرمارہے تھے۔الٰہی تصرف کے ماتحت جب آپؓ ا ہل و عیال کے ہمراہ قادیان میں سکونت پذیر ہوئے توکچھ عرصہ بعد آپؓ کا تبادلہ قادیان سے لاہور ہوگیا۔ آپؓ حضورؑ کے مشورہ پر اپنے اہل وعیال کو مناسب رہائش کے انتظام تک قادیان میں چھوڑ کر لاہور چلے گئے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے دل میں نواب صاحبؓ کی بےحد عزت تھی،میر صاحبؓ فرماتے ہیں: مجھے اس بات کا علم ہواکہ جتنے دن میرے اہل و عیال حضرت مسیح موعودؑ کے گھر پر رہے حضورؑ اس گھر میں داخل نہ ہوئے بلکہ دوسرے گھر میں رہے۔

چند دن بعد رہائش کا انتظام ہو گیاتوآپؓ اپنے اہل و عیال کو لے کر لاہور چلے گئے۔ جب براہین ِاحمدیہ کی اشاعت ہوئی تو آپؓ نے خرید کر پڑھی۔ اسی اثناء میں میر صاحبؓ نے بعض امور کے بارہ میں حضرت اقدسؑ کی خدمت میں دعا کے لیے لکھا ان میں سے ایک امر یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے نیک صالح داماد عطا کرے۔ حضرت میر صاحبؓ کا بیان ہے کہ اس کے جواب میں مجھے حضرت صاحبؑ نے تحریر فرمایاکہ آپ مجھ پر نیک ظنّی کرکے اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کردیںاور تا تصفیہ اس امر کو مخفی رکھیں۔ پہلے تو میں نے کچھ تامل کیا مگر پھر حضرت صاحبؑ کی نیکی اورنیک مزاجی پر نظر کرکے جس کا میں دل سے خواہاں تھامیں نے اپنے دل میں مقرر کر لیا کہ اسی نیک مرد سے اپنی دخترنیک اختر کا رشتہ کردوں۔

اگرچہ آپؓ کاحضرت مسیح موعودؑ سے بہت ہی عقیدت کا تعلق تھا،تاہم جب حضرت اقدسؑ کو بیعت لینے کا حکم ہوا تو آپؓ نے بیعت نہ کی جبکہ آپؓ ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ میں موجود تھے۔پھر آپؓ کاتقرر پٹیالہ ہوگیا اور حضورؑ کی دعوت پر جلسہ سالانہ قادیان ۱۸۹۱ء میں شامل ہوئے تو خدا تعالیٰ نے آپؓ پر حق آشکار کردیا اور آپؓ حضرت اقدسؑ کی غلامی میں داخل ہوگئے۔ پنشن منظور ہونے کے بعد آپؓ مستقل طور پر قادیان آگئے اور آپؑ کی خدمت پر مامور ہوگئے۔

حضرت میر صاحبؓ کی سیرت کا ایک نمایاں پہلوامانت و دیانت تھا۔ایک بار سرکاری ملازمت کے دوران افسرانِ نہر نے قاعدہ کے مطابق آپؓ سے سو روپیہ نقد ضمانت طلب کرلی۔ آپؓ کے دوسرے ساتھیوں نے تو روپیہ جمع کروادیا۔آپؓ نے کہا کہ میرے پاس رقم نہیں ہے۔ دوستوں نے ادھار لےکر جمع کروانے کا مشورہ دیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ پھر قرض کہاں سے ادا کروں گا؟ ضمانت کی رقم جمع نہ کروانے کا مطلب تھا عہدہ سے علیحدگی، آپؓ کو آخری نوٹس بھی دے دیا گیا۔آخر معاملہ چیف انجینئر تک پہنچا اور اس نے آپؓ کی دیانت داری سے متاثر ہو کر آپؓ کو رقم سے مستثنیٰ قرار دیا۔

حضرت میر نواب صاحبؓ کی طبیعت میں سختی پائی جاتی تھی لیکن کبھی آپؓ کسی سے ناراض بھی ہو جاتے تو تین روز سے زیادہ قطع تعلقی نہ کرتے اور خود سے سلام کرکے ناراضگی دُور کر لیتے۔ حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساویؓ جو خود بھی تیز طبیعت رکھتے تھے،ایک مرتبہ کسی بات پر حضرت میر صاحبؓ سے ناراض ہوگئے۔یہ ۱۹۱۳ء کی بات ہے،حضرت میر صاحبؓ جب حج سے واپس آئے تو شیخ صاحبؓ کی دکان پر آئے اور ان سے ملاطفت کی باتیں کیںاور فرمایا: ’’یہ دیگچی اور رکابی ہے۔اس میں ہم مکہ مکرمہ میں کھانا پکاتے اور کھاتے تھے۔میں نے وہیں ایامِ حج میں ہی نیت کر لی تھی کہ واپس آکر آپ کو دوں گا۔اگر آپ خوشی سے لے لیں۔‘‘ اس طرح شیخ صاحب کی دلداری بھی کی اور ان سے صلح بھی کرلی۔الغرض میر صاحبؓ صلح کرنے میں بہت پیش پیش تھے۔

حضرت میر صاحبؓ میں خداتعالیٰ کی اطاعت کا وصف اور غرباء کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ خصوصاً ایسے غرباء جو مالی کشائش نہ رکھنے کے سبب قادیان میں رہائش نہ رکھ سکتے۔آپؓ کی ذاتی کوششوں کی بدولت محلہ دارالضعفاء کا قیام عمل میں آیا۔آپؓ کے رفاہ عامہ کے کاموں کی ایک طویل فہرست ہے۔نور ہسپتال میں آپؓ نے ’ناصر وارڈ‘ تعمیر کروایا۔ احمدیہ کالج قادیان میں تعمیر ہونے والی مسجد نور بھی آپؓ کا کارنامہ ہے۔اسی طرح الدار کے سامنے اورمسجد مبارک کے سامنے اینٹوں کا فرش بنوایا۔

آپؓ نے سلسلہ کی اور حضرتِ اقدس ؑکی خدمت کو اپنے پرفرض کرلیاتھا۔حضرت صاحبؑ کی غیرموجودگی میں معاملات کی نگرانی آپؓ کے سپرد ہوتی تھی۔ حضورؑ کے آخری لمحات میں بھی آپؓ وہاں موجود تھے۔ آپؓ اُن لوگوں میںبھی شامل تھے جنہوں نے بذریعہ انتخاب حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کو خلیفۃالمسیح الاوّل چُنا، بیعت کی اور ہمیشہ اپنے عہدِ بیعت کو وفا کے ساتھ نبھایا۔ آپؓ کے اخلاص ووفا کو حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے ہمیشہ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا۔

جب حضرت مسیح موعود ؑکا وصال ہو گیا تو حضرت میر صاحبؓ کے کاموں کی نوعیت بھی بدل گئی۔ اس بارے میں آپؓ اپنی خودنوشت میں یوں رقمطراز ہیں: ’’اب میرے متعلق کوئی کام نہ رہا،کیونکہ وہ کام لینے والا ہی نہ رہا۔دنیا سے اٹھ گیا۔ میر صاحب،میرصاحب کی صدائیں اب مدہم پڑگئیں بلکہ کئی اَور میرصاحب پیدا ہوگئے۔شکر ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا غرور مجھ سے دُور ہوا اور ناز جاتا رہاکیونکہ کوئی نازبردار نہ رہا۔ حضرت صاحبؑ کی جدائی کا غم اور آپؑ کے سلسلہ کے کاموں کی سبکدوشی نے مجھے پریشان کر دیا۔‘‘

آپؓ وہ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے حضرتِ اقدس مسیح موعودؑ کے حکم پر اور حضرت خلیفہ او ل حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کی خصوصی تحریک پر قدرتِ ثانیہ کے لیے لمبی لمبی دعائوں کا التزام کیااور پہلی بار اجتماعی رنگ میں دعا کرنے پر زور دیااور پھر پوری جانفشانی کے ساتھ ان لوگوں کابھی مقابلہ کیاجو خلافت کے حق میں نہیں تھے۔اس طرح حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعدآپؓ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی نہ صرف بیعت کی بلکہ پورے اخلاص ووفا کے ساتھ خلافت کے استحکام کی خاطردُوردراز کے علاقوں کے سفر بھی کیے اور لوگوں کو خلافت کی اہمیت سے روشناس کیا۔

آپؓ ایک بہترین شاعر،بہترین مقرر اور بہترین مناظر تھے۔ آپؓ کے جس قدر بھی اوصاف بیان کیے جائیں وہ کم ہیں۔ آ پؓ کا اندازِ سخن ایک عجب شگفتگی لیے ہوئے تھا۔ دینی کاموں کی غرض سے آپؓ اکثر چندہ اکٹھا کرنے کے لیے سفر کیا کرتے تھے اور ان سفروں کے دوران آپؓ کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا،ان کو آپؓ اکثر شعری پیرائے میں بیان کرتے۔بسا اوقات آپؓ جو بات براہ راست کسی کی ذات کے بارے میں نہ کرنا چاہتے وہ بھی شعر کی صورت میں بیان کر دیتے۔اکثر سلسلہ احمدیہ کی تائید میںحمدِ الٰہی،نعتِ نبیؐ، اپنے سفر نامے اور بعض تحریکیںانہوں نے شعر میں لکھے۔وہ اپنی شاعری میں خیالی باتوں کی طرف نہ جاتے تھے۔

حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ عمر رسیدگی کے باوجود بھی ہمہ تن دینی کاموں میں مشغول رہتے۔ آپؓ آخری وقت میں بھی باوجود اعصابی کمزوری کے ہر وقت جماعتی کاموں میں مشغول رہتے، اور مسجد میں آکر نمازیں ادا کرتے۔آپؓ کے سعادت مند بیٹوں نے ایک آدمی مستقل طور پر آپ کے ساتھ رکھا ہوا تھا۔جوہر وقت آ پؓ کے ساتھ ہوتا تھا اور ہر جگہ آپؓ کے ساتھ جاتا تھا۔ آپؓ کی وفات ۱۹؍ستمبر ۱۹۲۴ء بروز جمعہ صبح ۹ بجے ہوئی اور بعد نمازِ جمعہ باغ حضرت اماں جانؓ میں ایک مجمع کثیر کے ساتھ حضرت مولانا شیرعلی صاحبؓ نے آپؓ کی نمازِ جنازہ ادا کی اور اسی روز بہشتی مقبرہ میں آپؓ کی تد فین عمل میں آئی۔ حضرت خلیفۃا لمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان دنوں یورپ کے دورہ پر تشریف فرما تھے اس لیے انہو ں نے آ پؓ کی نمازِ جنازہ غائب لندن میں ادا کی۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button