خلاصہ خطبہ جمعہ

جنگ بدر کےحالات و واقعات: خلاصہ خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۴؍جولائی۲۰۲۳ء

جنگ بدر کےحالات و واقعات

٭…کفّار کو اللہ تعاليٰ نے ان کے انجام تک پہنچايا۔ ستّر کفار مارے گئے جن ميں بہت سے رؤسا اور سردار بھي شامل تھے

٭… جنگوں ميں ابتدا کفار کي طرف سے ہوئي اور آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے مجبور ہوکر محض خود حفاظتي کي خاطر تلوار اٹھائي

٭… جنگِ بدر کے دوران آنحضورﷺ کے بعض معجزات کا بیان

٭… اہلِ مدينہ فتح کي خوشي ميں آنحضور صلي اللہ عليہ وسلم کا استقبال کرنے مدينے سے باہر امڈ آئے۔ ان مسلمانوں کي خوشي قابلِ ديد تھي

٭…جنگ بدرپر حاصل ہونے والے اموال غنیمت کی تفصیل نیز اس موقع پر پکڑے جانے والے جنگی قیدیوں کی رہائی کی بابت تذکرہ

٭… مکرم رانا عبد الحميد خان صاحب کاٹھگڑھي مربي سلسلہ و نائب ناظم مال وقفِ جديد پاکستان اور

مکرمہ نصرت جہاں احمد صاحبہ اہليہ مکرم مبشر احمد صاحب مربي سلسلہ کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۴؍جولائی۲۰۲۳ء بمطابق۱۴؍وفا ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۴؍جولائی۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد، تعوذاور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جنگِ بدر کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور واقعات کے بارے میں ذکر ہورہا تھا۔ جنگِ بدر ختم ہوئی اور کفّار کو اللہ تعالیٰ نے ان کے انجام تک پہنچایا۔

ستّر کفار مارے گئے جن میں بہت سے رؤسا اور سردار بھی شامل تھے۔

رؤسائے قریش کی تدفین کے متعلق یہ ذکر ملتا ہے، صحیح بخاری کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے اور سجدے کی حالت میں تھے کہ کفارِ مکّہ نے جانور کی بچّہ دانی آپ کے کندھوں کے درمیان رکھ دی۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں ہی رہے اور کفار ہنستے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا وہاں آئیں اور وہ بھاری چیز آپ کے کندھوں پر سے ہٹائی۔ اس موقعے پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! تُو قریش کی گرفت کر۔ پھر آپ نے عمر وبن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور بعض دیگر کفار کے نام لے کر دعا کی کہ اے اللہ! ان کی گرفت کر۔ راوی

حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! مَیں نے بدر کے روز خود ان سب کو گِرے ہوئے دیکھا۔ پھر انہیں گھسیٹ کر بدر کے گڑھے میں پھینکا گیا۔

اس موقعے پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گڑھے والے لعنت کے نیچے ہیں۔ حضرت ابو طلحہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدر کے دن کفار کے چوبیس آدمیوں کے بارے میں حکم دیا اور انہیں بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔ بدر سے واپسی پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں کے کنارے پر کھڑے ہوئے اور ان کفارِ مکّہ کو، ان کے باپوں کے ناموں سے پکارنے لگے اور فرمایا کیا اب تم کو اس بات کی خوشی ہوگی کہ کاش تم نے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کی ہوتی۔ ہم نے تو وہ سب پالیا جو اللہ نے اپنے رسول سے وعدہ کیا تھا۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعے کا ذکر کرکے فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ سے کہ اے گڑھے والو! تم نے مجھ سے جنگ کی اور دوسروں نے میری مدد کی ہے۔ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنی جگہ یہ یقین رکھتے تھے کہ ان جنگوں میں ابتدا کفار کی طرف سے ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبور ہوکر محض خود حفاظتی کی خاطر تلوار اٹھائی۔

سیرت کی کتابوں میں جنگِ بدر کے ذکر میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض معجزات کا ذکر بھی ملتا ہے۔ چنانچہ عکاشہ بن محصنؓ کے متعلق مذکور ہے کہ بدر کے دن وہ اپنی تلوار سے لڑائی کرتے رہے یہاں تک کہ وہ ان کے ہاتھ میں ٹوٹ گئی۔ اس پر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک لکڑی عنایت کی اور فرمایا کہ تم اس سے کفار کے ساتھ جنگ کرو۔

عکاشہؓ نے اس لکڑی کو لہرایا تو وہ ان کے ہاتھ میں تلوار بن گئی۔

حضرت قتادہؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ بدر کے روز ان کی آنکھ پر ضرب لگی اور ڈیلا نکل کر باہر آگیا۔ انہوں نے اسے نیچے پھینک دینے کا ارادہ کیا تو صحابہؓ نے روک لیا۔ قتادہ ؓحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ڈیلے کو اپنی ہتھیلی پر رکھا اور پھر اسے اس کی جگہ پر واپس ڈال دیا۔

قتادہ کی بینائی بالکل بحال ہوگئی اور وہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ خوبصورت لگتی تھی۔

مشرکین نے گھبراہٹ کے عالم میں بھاگتے ہوئے مکہ کا رخ کیا۔ شرم و ندامت سے انہیں سمجھ نہ آتا تھا کہ کس طرح مکّہ میں داخل ہوں۔ جب کفار نے اہلِ مکّہ کو سردارانِ قریش کی ہلاکت کی خبر دی تو انہیں یقین نہ آتا تھا۔ قریش نے مقتولین کا ماتم کرنے اور نوحہ کرنے سے لوگوں کو روک دیا۔

دوسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاہلِ مدینہ کو فتح کی خوش خبری دینے کے لیے حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓکو بالائی مدینہ جبکہ حضرت زید بن حارثہؓ کو نشیبی مدینے کی طرف بھجوایا۔

حضرت اسامہ بن زید ؓکہتے ہیں کہ ہمیں فتح کی خوش خبری تب ملی جب ہم نے حضرت رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زوجہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی قبر کی مٹی برابر کردی تھی۔

جب زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار ہوکر مدینہ میں داخل ہوئے تو منافقین اور یہود نے یہ کہنا شروع کردیا کہ مسلمانوں کو جنگ میں شکست ہوگئی ہے اور نعوذ باللہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی جنگ میں مارے گئے ہیں، اسی لیے زید آپ کی اونٹنی پر سوار ہوکر آرہے ہیں۔ جب زید بن حارثہؓ نے فتح کی خوش خبری سنائی اور سردارانِ قریش کے نام لے لے کر بتایا کہ فلاں فلاں سردارانِ قریش مارے گئے ہیں تو منافقین کہنے لگے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ لگتا ہے جنگ میں شکست اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی وجہ سے زید کا دماغ الٹ گیا ہے۔

اہلِ مدینہ فتح کی خوشی میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرنے مدینے سے باہر امڈ آئے۔ ان مسلمانوں کی خوشی قابلِ دید تھی۔

اس جنگ میں مسلمانوں کو مالِ غنیمت میں ۱۵۰؍اونٹ اور دس گھوڑے ملے۔ اس کے علاوہ ہرقسم کا سامان، ہتھیار، کپڑے، بےشمار کھالیں، رنگا ہوا چمڑا اور اون وغیرہ بھی مالِ غنیمت میں حاصل ہوا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حصہ بھی دیگر صحابہؓ کے برابر رکھا۔ صحابہ کرام ؓنے ایک تلوار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رکھ لی۔ اسی طرح ایک اونٹ جو ابو جہل کی ملکیت میں سے تھا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا تھا۔ کتبِ سیرت میں اس تلوار اور اونٹ کو کافی اہمیت دی گئی ہے۔ اس تلوار کا نام ’ذوالفقار‘ تھا۔ بعد میں دیگر غزوات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس تلوار کو اپنے پاس رکھتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ تلوار عباسی خلفا ءکے پاس رہی۔ اسی طرح وہ اونٹ صلح حدیبیہ تک آپ کے پاس رہا اور صلح حدیبیہ کے موقعے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس اونٹ کو قربانی کے طور پر اپنے ساتھ لے کر گئے۔

مالِ غنیمت کی تقسیم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء کے ورثا ءکو ان کا حصّہ دیا۔

اسی طرح مدینے میں موجود نائبین اور دیگر اصحاب جو مختلف ذمہ داریوں کی ادائیگی کی وجہ سے جنگ میں شامل نہ ہوسکے تھے، انہیں بھی ان کا حصّہ دیا۔

جنگِ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کردیا گیا۔ فدیے کی رقم ایک ہزار سے چار ہزار درہم تک تھی۔

جو فدیہ نہ دے سکتا تھا اس کے لیے شرط تھی کہ وہ مدینے کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے تو اسے رہا کردیا جائے گا۔

اسی طرح بعض قیدیوں کو کم فدیے یا بنا فدیے کے بھی چھوڑ دیا گیا۔

جنگِ بدر سے متعلق تفاصیل آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

۱۔رانا عبد الحمید خان صاحب کاٹھگڑھی
مربی سلسلہ و نائب ناظم مال وقفِ جدید پاکستان۔

مرحوم گذشتہ دنوں ستّر برس کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نے مئی ۱۹۷۹ءمیں خدمات سلسلہ کا آغاز کیا اور مختلف جگہوں پر خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ اگست ۱۹۸۵ء سے دسمبر ۱۹۸۶ء تک یوگنڈا میں رہے۔ نظامت ارشاد وقفِ جدید کے تحت مختلف جگہوں پر بطور مربی سلسلہ خدمات کی توفیق پاتے رہے۔ ۱۹۹۳ء میں نائب ناظم مال وقفِ جدید مقرر ہوئے جہاں تاوفات خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ مرحوم کو خدا تعالیٰ نے ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا تھا۔ آپ کے بیٹے ڈاکٹر عبدالرؤوف خان صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ ڈنمارک کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔ مرحوم کا خلافت سے بڑا گہرا تعلق تھا۔ نظامِ جماعت کی بڑی اطاعت کرنے والے، دعا گو، متوکل، وقف زندگی کے عہد کو آخری دم تک نبھانے والے، سادہ طبیعت کے مالک تھے۔

۲۔مکرمہ نصرت جہاں احمد صاحبہ اہلیہ مکرم مبشر احمد صاحب مربی سلسلہ امریکہ

جوگذشتہ دنوں وفات پاگئی تھیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ اپنے خاوند اور بچوں کے ہمراہ ۱۹۷۲ء میں امریکہ گئی تھیں۔ واشنگٹن میں انہیں خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ ۱۹۸۸ء میں مبشر صاحب نے زندگی وقف کی تو مرحومہ نے ان کا بھرپور ساتھ نبھایا۔ آپ بڑی دعاگو، خلافت کی فرمانبردار، لجنہ اماء اللہ کی تنظیم میں خدمات کرنے والی، نیک خاتون تھیں۔

حضورِ انور نے دونوں مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button