حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مرسَلوں کے مخالفین سے اللہ تعالیٰ کا سلوک

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۳؍ جنوری ۲۰۰۹ء)

سورۃ العنکبوت کی آیت ۶۹ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِالۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہٗ (العنکبوت: ۶۹)اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ کر افتراء کرتا ہے اس سے زیادہ ظالم اَور کون ہو سکتا ہے؟ یا اُس سے (زیادہ ظالم کون ہو سکتاہے) جو حق کو اُس وقت جھٹلاتا ہے جب وہ اُس کے پاس آتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’افتراء کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور مفتری ہمیشہ خائب و خاسر رہتا ہے۔ قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰی (طٰہٰ: ۶۲)‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۵۴۵)

اور آنحضرتﷺ کو فرمایا کہ اگر تُو افتراء کرے تو تیری رگ جان ہم کاٹ ڈالیں گے اور ایسا ہی فرمایا وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا (العنکبوت: ۶۹) کہ ایک شخص ان باتوں پر ایمان رکھ کر افتراء کی جرأت کیونکر کر سکتا ہے؟ یعنی اللہ تعالیٰ آنحضرتﷺ کو بڑا واضح طور پر فرماتا ہے کہ جو جھوٹ بولنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ پر افتراء کرنے والے ہیں ہم ان کی جو رگ جان ہے وہ کاٹ دیں گے اور ان کو خائب وخاسر کریں گے۔ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے گا ذلیل و رسوا ہو جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ایک شخص ان باتوں پر ایمان رکھ کر افتراء کی جرأت کیونکر کر سکتا ہے۔ پھر فرمایا کہ ظاہری گورنمنٹ میں اگر ایک شخص فرضی چپڑاسی بن جائے تو اس کو سزا دی جاتی ہے اور وہ جیل میں بھیجا جاتا ہے تو کیا خداتعالیٰ کی ہی مقتدر حکومت میں یہ اندھیر ہے کہ کوئی محض جھوٹا دعویٰ مامور من اللہ ہونے کا کرے اور پکڑا نہ جائے بلکہ اس کی تائید کی جائے۔ اس طرح تو دہریت پھیلتی ہے۔ خداتعالیٰ کی ساری کتابوں میں لکھا ہے کہ مفتری ہلاک کیا جاتا ہے‘‘۔ (الحکم جلد۸نمبر۱۲مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۷۔ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد ۳صفحہ۶۲۴)

تو جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر الزام دیتے ہیں ان کا بھی اس بات میں ردّ کیا گیا ہے کہ ایک ظاہری حکومت کی طرف منسوب کرکے اگر کوئی آدمی بات کرتا ہے، چاہے کسی افسر کا چپڑاسی بن کے کسی کے پاس حکم لے کے چلا جائے اور جھوٹ بولے اور پکڑا جائے تو اس کو بھی سزا ملتی ہے۔ تو کیا خداتعالیٰ کی طرف جو باتیں منسوب کی جاتی ہیں یا کوئی شخص جو یہ کہتا ہے کہ مَیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور وہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اتنی بھی طاقت نہیں کہ اس کو پکڑ لے اور سزادے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھے۔ یعنی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جب انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے بات کرتے ہیں تو وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہوں یا اللہ تعالیٰ کی طرف جو باتیں وہ منسوب کر رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ نہ کرے۔

پس اللہ تعالیٰ کا مختلف جگہوں پر قرآن کریم میں اس حوالے سے فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بنیادی اور اصولی بات ہے کہ جو بھی خداتعالیٰ پر افتراء کرے گا، جھوٹ بولے گاوہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آ ئے گا۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ حق اور سچائی کو جھٹلانے والا جو دوسرا گروہ ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی کی نافرمانی کرنے والا ہوگا تو وہ بھی خداتعالیٰ کی پکڑ میں آئے گا۔

تو دو قسم کے گروہوں کا یہاں ذ کر ہے۔ ایک وہ جو اللہ تعالیٰ پر غلط افتراء کرے اللہ تعالیٰ اسے بھی پکڑتا ہے۔ دوسرا وہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کو جھٹلائے اللہ تعالیٰ اسے بھی پکڑتا ہے اور دونوں ہی گروہ اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں۔ پس انبیاء کا انکارکرنے والے جب یہ کہتے ہیں کہ اس نے اپنی طرف سے باتیں بنا لیں اور خداتعالیٰ نے اس کو قطعاً نبوت کا درجہ دے کر نہیں بھیجا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا افتراء کرے گا ہم اسے پکڑیں گے۔ جو نشانیاں اور ثبوت نبی کے لئے ظاہر ہوئیں انہیں دیکھ کر انہیں قبول کرنے کی کوشش کرو۔ نبوت اپنے روشن نشانوں کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور ہر نیا دن یہ روشن نشان دکھاتا چلا جاتا ہے۔ پس منکرین نبوت کو یہ ایسی دلیل دی گئی ہے کہ ان میں عقل ہو تو یقیناً ہوش کریں اور ہوش کرنی چاہئے۔ یہ الزامات آنحضرتﷺ سے پہلے انبیاء پر بھی لگے تھے اور پھر آنحضرتﷺ کی ذات مقدس پر بھی لگے تھے اور یہی الزامات آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پر بھی لگ رہے ہیں۔ سورۃ زمر کی اس آیت سے پہلے کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تعلیم کو جامع بتا کر یہ اعلان کیا تھا کہ اس جامع تعلیم کے بعد اب کوئی اعتراض کرنے کا جواز نہیں رہتا۔ قرآن کریم اپنی ذات میں خود بھی بہت بڑا نشان ہے۔ بلکہ اس کی ہر ہر آیت اور ہر ہر لفظ ایک اعجاز ہے اور اللہ تعالیٰ نے کفّار کو اس کو قبول کرنے کی نصیحت فرمائی لیکن اس کے باوجود کفار نے انکار کیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سختی اور سزا سے کام لیا اور پھر ان لوگوں نے آنحضرتﷺکو قبول کیا۔

پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم میرے بھیجے ہوؤں کا انکار کرتے ہو تو اس دنیا میں یا اگلے جہان میں میری پکڑ کے نیچے آتے ہو۔ پس عقل کا تقاضا یہی ہے کہ اس ہٹ دھرمی کو چھوڑو۔ اگلی آیت میں بتایا کہ تقویٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوف کا دل میں ہونے کا اظہاریہی ہے کہ جو سچائی کے پیغام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوا ہے اس کو قبول کرو۔ کیونکہ یہی چیز تمہیں کامیابیاں بھی عطا کرے گی اور تقویٰ میں مزید بڑھائے گی۔ اور یہ بھی ایک نبی کے سچا ہونے کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کامیابیاں نصیب کرتا چلا جاتا ہے۔

سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْکَذَّبَ بِاٰیٰتِہ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ (یونس: ۱۸) پس جو اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھے یا اس کے نشانات کو جھٹلائے اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا۔ یقیناً مجرم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ دونوں طر ح کے مجرم کامیاب نہیں ہوں گے۔ نہ وہ کامیاب ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر بہتان لگاتے ہوئے یہ کہے کہ مَیں خداتعالیٰ کی طرف سے ہوں۔ نہ وہ کامیاب ہو سکتے ہیں جو ایک سچے نبی کا انکار کرنے والے ہوں۔ پس اس سے بھی ظاہر ہے کہ دو قسم کے لوگ ہیں جو سزا سے نہیں بچ سکتے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ایک وہ جو غلط دعویٰ کرکے اسے خداتعالیٰ کی طرف منسوب کریں اور دوسرے وہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے پیغام لانے والے کا مقابلہ کریں اور یہ ایسی بات ہے جو ہر عقل رکھنے والا سمجھ سکتا ہے۔ تبھی تو فرعون کی قوم کے ایک آدمی نے کہا تھا کہ وَاِنْ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیْہِ کَذِبُہٗ وَاِنْ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبْکُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ (المومن: ۲۹) کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا۔ اگر وہ سچا ہے تو اس کی کی ہوئی بعض انذاری پیشگوئیاں تمہارے متعلق پوری ہو جائیں گی۔

پس ان مسلمانوں کے لئے بھی جو آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے مسیح مو عود کو نہیں مانتے غور کرنے کا مقام ہے۔ مسلمانوں کے پاس تو ایک ایسی جامع اور محفوظ کتاب ہے جس کی حفاظت کا خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایاہے اور غیر بھی باوجود کوشش کے اس میں کسی قسم کی تحریف تلاش نہیں کر سکے۔ چودہ سو سال سے وہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جمع کرکے مسلمانوں کو ہوشیار کیا ہے کہ یہ قصے کہانیاں نہیں، تمہاری حالت بھی پہلی قوموں جیسی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ (یونس: ۱۸) کہ مجرم لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوتے، تسلی دلا دی ہے کہ بے شک جھوٹے دعویدار ہو سکتے ہیں لیکن وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اور کامیابی کا معیار کیا ہے؟ یہ ہے کہ اپنی تعلیم اور بعثت کے مقصد کو وہ دنیا میں پھیلا نہیں سکتے جس طرح خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والے پھیلاتے ہیں۔ بے شک ان کی چھوٹی سی جماعت بھی بن سکتی ہے۔ ان کے پاس دولت بھی جمع ہو سکتی ہے۔ یہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن جو خداتعالیٰ کی طرف سے دعویدار ہو کر آتا ہے وہ ایک روحانی مقصد کو لے کر آتا ہے۔

انبیاء آئے تو وہ یا نئی شریعت لے کر آئے تاکہ دنیا میں ایک روحانی انقلاب پیدا کریں اور انسان کو خداتعالیٰ کے قریب کریں یا پرانی تعلیم کی تجدید کے لئے آئے تاکہ بھٹکے ہوؤں کو پھر سے اس تعلیم کے مطابق جو شرعی نبی لائے تھے خداتعالیٰ کے قریب کریں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والوں کابنیادی معیار ہے۔ اگر کوئی د عویٰ کرتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے لیکن یہ دو مقصد حاصل نہیں کرتا تو خداتعالیٰ پر افتراء باندھ رہا ہے۔ اگر وہ لوگوں میں روحانی انقلاب پیدا نہیں کر رہا اگر وہ لوگوں کو خداتعالیٰ کے قرب کی طرف راہنمائی نہیں کر رہا، ان میں ایک انقلاب پیدا نہیں کر رہا تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غلط ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button