متفرق مضامین

عورت کی تخلیق کا مقصد اور مقام (قسط چہارم۔ آخری)

عورت بحیثیت ساس

ایک ساس کو چاہیے کہ اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ بہو سے نہ لے بلکہ اس کو اپنی بیٹی سمجھے کیونکہ بہو کو بیٹی سمجھیں گے تو ہی بیٹا آپ کے پاس رہے گا۔ ورنہ گھر کے مسائل سے تنگ آ کر وہ بھی اپنے بیوی بچوں کو لے کر الگ ہو جائے گا۔ اس لیے ایک اچھی ماں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی ساس بننے کی بھی کوشش کریں۔

ساس اور بہو بھی ہمارے خاندانی نظام کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان کے تعلقات کی سازگاری کا خاندانی نظام پر مثبت اثر پڑتا ہے اور ان کے تعلقات کی خرابی پورے خاندانی نظام پر منفی اثر ڈالتی ہے۔

عورت بحیثیت نانی، دادی

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’بعض خاندان ایسے ہیں جو شادی کے بعد لڑکی کو طعنہ دیتے ہیں کہ جہیز لے کر نہیں آئی، اولاد نہیں ہوتی، اس کی تو لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اس طرح لڑکے والے لڑکی کو طعنے دیتے ہیں تو پھر علیحدگی ہو جاتی ہے۔ بعض دادیاں، نانیاں پاکستان سے دیہاتی ماحول سے آئی ہیں اور دیہاتی اثر ان پر غالب ہے اور ان کی اس جاہلانہ سوچ کی وجہ سے بعض رشتے خراب ہو جاتے ہیں ‘‘۔ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۸؍ستمبر ۲۰۱۲ء)

چونکہ عورت زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھ کر نانی، دادی تک کی عمر کو پہنچتی ہے، اس لیے چاہیے کہ اپنی اولاد در اولاد کو گھر میں امن، محبت، بھائی چارے اور اخوت کے ساتھ رہنے کے لیے اپنا اہم اور مضبوط کردار ادا کرے۔

صلہ رحمی میں عورت کا کردار

صِلہ رحمی کےضمن میں رشتہ داروں کے حقوق بیان کرتے ہوئے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’صلہ رحمی بھی بڑا وسیع لفظ ہے اس میں بیوی کے رشتہ داروں کے بھی وہی حقوق ہیں جو مرد کے اپنے رشتے داروں کے ہیں۔ ان سے بھی صلہ رحمی اتنی ہی ضروری ہے جتنی اپنوں سے۔ اگر یہ عادت پیدا ہو جائے اور دونوں طرف سے صلہ رحمی کے یہ نمونے قائم ہو جائیں تو پھر کیا کبھی اس گھر میں تُو تکار ہو سکتی ہے؟ کوئی لڑائی جھگڑا ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ کیونکہ اکثر جھگڑے ہی اس بات سے ہوتے ہیں کہ ذرا سی بات ہوئی یا ماں باپ کی طرف سے کوئی رنجش پیدا ہوئی یا کسی کی ماں نے یا کسی کے باپ نے کوئی بات کہہ دی، اگر مذاق میں ہی کہہ دی اور کسی کو بری لگی تو فوراً ناراض ہو گیا کہ میں تمہاری ماں سے بات نہیں کروں گا، میں تمہارے باپ سے بات نہیں کروں گا۔ میں تمہارے بھائی سے بات نہیں کروں گا پھر الزام تراشیاں کہ وہ یہ ہیں اور وہ ہیں تو یہ زود رنجیاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر، یہی پھربڑے جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں ۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍ جولائی ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍ جولائی ۲۰۰۴ء)

رحمی رشتوں کی اہمیت بتاتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:’’پھر صلہ رحمی ہے۔ آپس میں جو رشتہ دار ہیں ان کو ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت کا سلوک اور تعلق بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس میں ترقی کریں۔ صلہ رحمی کیا ہے؟ عورتیں اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ اپنے خاوندوں کے رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ ساسیں جو ہیں وہ اپنی بہوؤں کا خیال رکھیں۔ اپنی بہوؤں کے رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ ایک پیار اور محبت کی فضاء پیدا کریں تاکہ جماعت کی جو ترقی کی رفتار ہے وہ پہلے سے تیز ہو۔ جو اکائی میں، جو ایک ہونے میں، جو محبت میں اﷲ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں و ہ پُھوٹ میں اور لڑائیوں میں نہیں ہوتے۔ تو اﷲ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنےکی کوشش کریں۔ ‘‘(خطاب فرمودہ ۲؍ نومبر۲۰۰۸ء برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ)

فرمایا’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تقویٰ سے بعید ہے۔ یہ تقویٰ نہیں ہے۔ تم تو پھر تقویٰ سے دور چلتے چلے جا رہے ہو۔ اس لیے اپنے رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو۔ ماں باپ صرف خود ہی خیال نہ رکھیں اپنے بچوں کو بھی ان رحمی رشتوں کا تقدس اور احترام سکھائیں۔ تب ہی ایک پاک معاشرہ قائم ہو سکتا ہے اور خود بھی اس کے تقدس کا خیال بہت زیادہ رکھیں کیونکہ ماں باپ کے نمونے جو ہیں وہ بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔‘‘(خطاب فرمودہ ۲۳؍جولائی۲۰۱۱ء برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ)

(مرسلہ: آمنہ نورین۔ جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button