حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

تحریرات حضرت مسیح موعودؑ کی روشنی میں نیک اولاد کے لیے دعا

(انتخاب از: خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۴؍ جولائی ۲۰۰۳ء)

مِری اولاد جو تِری عطا ہے

ہر اِک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے

دنیاوی نعما ء کی بھی دعا کی ہے لیکن سب سے بڑھ کر یہ دعا کی ہے کہ

یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا

جب آوے وقت میری واپسی کا

(درّثمین اردو۔ صفحہ ۴۸ تا ۴۹)

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ان دعاؤں کو بھی سنا اور حضرت زکریا علیہ السلام کی یہ دعا آپؑ کو بھی دو بار الہاماً سکھائی گئی۔ چنانچہ پہلا الہام مارچ ۱۸۸۲ء میں ہوا اور دوسری بار ۱۸۹۳ء میں یہ الہام ہوا:

’’رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِّنَ السَّمَآءِ۔ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ۔ رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُالْفَاتِحِیْنَ۔‘‘

اے میرے ربّ! مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر۔ اے میرے ربّ! مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تُو خیرالوارثین ہے۔ اے میرے ربّ! امّت محمدیہ کی اصلاح کر۔ اے ہمارے ربّ! ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کردے۔ اور تُو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ (تذکرہ، صفحہ ۴۷، مطبوعہ ۱۹۶۹ء )

پھر نومبر ۱۹۰۷ء میں آپؑ کو الہام ہوا۔ بہت لمبا الہام ہے عربی میں ، اس کا کچھ حصہ مَیں پڑھتاہوں ۔

’’سَأَھَبُ لَکَ غُلَامًا زَکِیًّا۔ رَبِّ ھَبْ لِیْ ذُرِّیَۃً طَیِّبَۃً اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ اسْمُہٗ یَحْیٰی‘‘ مَیں ایک پاک اور پاکیزہ لڑکے کی خوشخبری دیتا ہوں اے میرے خدا پاک اولاد مجھے بخش۔مَیں تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتاہوں جس کا نام یحییٰ ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ محض دنیا کے لئے کرتے ہیں ۔ محبت دنیا ان سے کراتی ہے۔ خدا کے واسطے نہیں کرتے۔ اگر اولاد کی خواہش کرے تو اس نیت سے کرے وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(الفرقان:۷۵) پرنظر کرکے کرے کہ کوئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے جو اعلاء کلمۃالاسلام کا ذریعہ ہو جب ایسی پاک خواہش ہو تو اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ زکریا کی طرح اولاد دیدے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی نظر اس سے آگے نہیں جاتی کہ ہمارا باغ ہے یا اَور مِلک ہے، وہ اس کا وارث ہو اور کوئی شریک اس کو نہ لے جائے۔ مگر وہ اتنا نہیں سوچتے کہ کمبخت جب تُو مر گیا تو تیرے لئے دوست دشمن اپنے بیگانے سب برابر ہیں ۔ مَیں نے بہت سے لوگ ایسے دیکھے اور کہتے سنے ہیں کہ دعا کرو کہ اولاد ہوجائے جو اس جائداد کی وارث ہو۔ ایسا نہ ہو کہ مرنے کے بعد کوئی شریک لے جاوے۔ اولاد ہوجائے خواہ وہ بدمعاش ہی ہو، یہ معرفت اسلام کی رہ گئی ہے …

پس یاد رکھو کہ مومن کی غرض ہر آسائش، ہر قول و فعل، حرکت و سکون سے گو بظاہر نکتہ چینی ہی کا موقعہ ہو مگر دراصل عبادت ہوتی ہے۔ بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ جاہل اعتراض سمجھتا ہے مگر خدا کے نزدیک عبادت ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس میں اخلاص کی نیت نہ ہو تو نماز بھی لعنت کا طوق ہوجاتی ہے۔‘‘ ( البدر ۸؍مارچ ۱۹۰۴ء،ملفوظات جلد سوم صفحہ ۵۷۹،۵۷۸)

پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’فنا فی اللہ ہوجانا اور اپنے سب ارادوں اور خواہشات کو چھوڑ کر محض اللہ کے ارادوں اور احکام کا پابند ہوجانا چاہئے کہ اپنے واسطے بھی اور اپنی اولاد، بیوی بچوں ، خویش و اقارب اور ہمارے واسطے بھی باعثِ رحمت بن جاؤ۔ مخالفوں کے واسطے اعتراض کا موقعہ ہرگز ہرگز نہ دینا چاہئے…(فرماتے ہیں :) خدا تعالیٰ کی نصرت انہی کے شامل حال ہوتی ہے جو ہمیشہ نیکی میں آگے ہی آگے قدم رکھتے ہیں ، ایک جگہ نہیں ٹھہرجاتے اور وہی ہیں جن کا انجام بخیر ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ ان میں بڑا شوق ذوق اور شدت رقت ہوتی ہے مگر آگے چل کر بالکل ٹھہر جاتے ہیں اور آخر ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دُعا سکھلائی ہے کہ اَصْلِحْ لِیْ فِی ذُرِّیَّتِیْ (الاحقاف:۱۶)میرے بیوی بچوں کی بھی اِصلاح فرما۔ اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے۔ دیکھو پہلا فتنہ حضرت آدم ؑپر بھی عورت ہی کی وجہ سے آیا تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ کے مقابلہ میں بلعم کا ایمان جو حَبط کیا گیا اصل میں اس کی وجہ بھی توریت سے یہی معلوم ہوتی ہے کہ بلعم کی عورت کو اس بادشاہ نے بعض زیورات دکھاکر طمع دیدیا تھا اور پھر عورت نے بلعم کو حضرت موسیٰ ؑ پر بَد دعا کرنے کے واسطے اُکسایا تھا۔ غرض اُن کی وجہ سے بھی اکثر انسان پر مصائب شدائد آ جایا کرتے ہیں تو اُن کی اِصلاح کی طرف بھی پوری توجہ کرنی چاہئے اور ان کے واسطے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔‘‘ (الحکم ۲؍مارچ ۱۹۰۸ء،ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۴۵۶ و ۴۵۷۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)

پھر آپؑ نے فرمایا:’’یہ منع نہیں بلکہ جائز ہے کہ اس لحاظ سے اولاد اور دوسرے متعلقین کی خبرگیری کرے کہ وہ اس کے زیر دست ہیں تو پھر یہ بھی ثواب اور عبادت ہی ہوگی اور خدا تعالیٰ کے حکم کے نیچے ہوگا…

غرض ان سب کی غوروپرداخت میں اپنے آپ کو بالکل الگ سمجھے اور اُن کی پرورش محض رحم کے لحاظ سے کرے نہ کہ جانشین بنانے کے واسطے بلکہ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا کا لحاظ ہو کہ یہ اولاد دین کی خادم ہو۔ لیکن کتنے ہیں جو اولاد کے واسطے یہ دعا کرتے ہیں کہ اولاد دین کی پہلوان ہو۔ بہت ہی تھوڑے ہوں گے جو ایسا کرتے ہوں ۔ اکثر تو ایسے ہیں کہ وہ بالکل بے خبر ہیں کہ وہ کیوں اولاد کے لئے کوششیں کرتے ہیں اور اکثر ہیں جو محض جانشین بنانے کے واسطے اَور کوئی غرض ہوتی ہی نہیں ، صرف یہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شریک یا غیر اُن کی جائداد کا مالک نہ بن جاوے۔ مگر یاد رکھو کہ اس طرح پر دین بالکل برباد ہو جاتا ہے۔

غرض اولاد کے واسطے صرف یہ خواہش ہو کہ وہ دین کی خادم ہو۔ اسی طرح بیوی کرے تاکہ اس سے کثرت سے اولاد پیدا ہو اور وہ اولاد دین کی سچی خدمت گزار ہو اور نیز جذباتِ نفس سے محفوظ رہے۔ اس کے سوا جس قدر خیالات ہیں وہ خراب ہیں ۔ رحم اور تقویٰ مدنظر ہو تو بعض باتیں جائز ہوجاتی ہیں ۔ اس صورت میں اگر مال بھی چھوڑتا ہے اور جائداد بھی اولاد کے واسطے چھوڑتا ہے تو ثواب ملتا ہے۔ لیکن اگر صرف جانشین بنانے کا خیال ہے اور اس نیت سے سب ہمّ وغم رکھتا ہے تو پھر گناہ ہے۔‘‘ (الحکم ۱۰؍مارچ ۱۹۰۴ء،ملفوظات جلد سوم۔ صفحہ ۵۹۹، ۶۰۰)

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں :’’جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دیندار اور متقی ہو اور خدا تعالیٰ کی فرمانبردار ہو کر اس کے دین کی خادم بنے بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے اور باقیات صالحات کی بجائے اس کا نام باقیات سیئات رکھنا جائز ہوگا۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں صالح اور خداترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نراایک دعویٰ ہی ہوگا جب تک کہ وہ اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے۔‘‘ (الحکم ۲۴؍ستمبر۱۹۰۱ء،ملفوظات جلد۱ صفحہ ۵۶۰)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button