الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ

(گذشتہ سوموار کے الفضل ڈائجسٹ سے پیوستہ۔ دوسرا اور آخری حصہ)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ آصفہ احمد صاحبہ کے قلم سے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی سیرت و سوانح پر مضمون شامل اشاعت ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ ایک عظیم الشان عالم باعمل اور زندہ جاوید انسان تھے۔ آپؓ کی ارفع شان،علم کی گہرائی اور خداداد بصیرت حضرت مسیح موعودؑ کے اس ارشاد سے ظاہر ہے ۔ فرماتے ہیں: ’’میں رات دن خداتعالیٰ کے حضور چلّاتا اور عرض کرتا تھا کہ اے میرے ربّ! میرا کون نا صر و مددگار ہے۔ میں تنہا ہوں۔ اور جب دعا کا ہاتھ پے در پے اٹھا اورفضائے آسمانی میری دعائوں کے ساتھ بھر گئی۔تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو شرف قبولیت بخشا اور ربّ العالمین کی رحمت نے جوش مارا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا … اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے۔ … جب وہ میرے پاس آکر مجھ سے ملا تو میں نے اسے اپنے ربّ کی آیتوں میں سے ایک آیت پایا اورمجھے یقین ہو گیا کہ یہ میری اس دعا کا نتیجہ ہےجو میںہمیشہ کیا کرتا تھا۔ اورمیری فراست نے مجھے بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے اور میں لوگوںکی مدح کرنا اور ان کے شمائل کی اشاعت کرنا اس خوف سے برا سمجھتا تھا۔ کہ مبادا انہیں نقصان پہنچائے مگر میں اسے ان لوگوں سے پاتا ہوں جن کے نفسانی جذبات شکستہ اورطبعی شہوات مٹ گئی ہیں اوران کے متعلق اس قسم کا خوف نہیں کیاجاسکتا … او ر وہ میری محبت میںقسم قسم کی ملامتیں اور بدزبانیاںاور وطن مالوف اور دوستوںسے مفارقت اختیار کرتا ہے اور میرا کلام سننے کے لیے اس پر وطن کی جدائی آسان ہے اور میرے مقام کی محبت کے لیے اپنے اصلی وطن کی یاد بھلا دیتا ہے اور ہر ایک امر میںمیری اس طرح پیروی کرتاہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام)

نیز فرمایا: ’’دل میں از بس آرزو ہے کہ اَور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں۔مولوی صاحب پہلے راست بازوں کا ایک نمونہ ہیں۔جزاھم اللہ خیرالجزاء‘‘(ازالہ اوہام)

حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑکے زمانہ میںحضرت خلیفۃ ا لمسیح الاوّلؓ بیمار ہو گئے۔ حضرت مسیح موعودؑ آپؓ کو دیکھنے کے لیے تشریف لاتے تھے۔ ایک دن آپؓ کی طبیعت کچھ زیادہ ناساز تھی۔ اپنے مکان میں واپس تشریف لا کرحضرت صاحب نے ایک الماری میںسے کچھ دوائیں نکالیں اور حضرت اماں جانؓ کے دالان میں ہی زمین پر بیٹھ گئے اور ان دوائوں میں سے کچھ دوائیں نکال نکال کر کاغذ کے ٹکڑوں پر رکھنی شروع کردیں۔ حضرت مسیح موعودؑکی فکرمندی کودیکھ کرحضرت اماںجانؓ بھی آکر حضورؑ کے پاس بیٹھ گئیں اور جیسے کوئی کسی کو تسلی دیتا ہے اس طرح سے حضورؑ سے کلام کرنا شروع کردیا کہ جماعت کے بڑے بڑے عالم فوت ہو رہے ہیں۔ مولوی برہان الدین صاحب جہلمیؓ فوت ہوگئے، مولوی عبدالکریم صاحبؓ بھی فوت ہوگئے، خداتعالیٰ مولوی صاحب کو صحت دے۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا: ’’یہ شخص ہزار عبدالکریم کے برابر ہے ۔‘‘

ایک دفعہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کو کچھ رقم کی ضرورت پیش آئی تو آپؓ نے حضرت اقدسؑ سے دو صد یا کم و بیش روپیہ منگوایا۔کچھ دنوں کے بعد اتنا روپیہ حضورؑ کی خدمت میں واپس پیش کردیا تو حضورؑنے فرمایا کہ ’’مولوی صاحب !کیا ہمارا اور آپ کا روپیہ الگ الگ ہے۔آپ اور ہم دو نہیں ہیں۔آپ کا روپیہ ہمارا اور ہمارا روپیہ آپ کاہے۔‘‘

٭…حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ سر سیّد مرحوم بانی مدرسہ علیگڑھ کی قومی خدمات کے معترف تھے اور اس سلسلہ میں ہمیشہ ان کی امداد فرماتے رہتے تھے مگر ان کے مذہبی معتقدات سے اپنے اختلاف کا برملا اظہار فرما دیا کرتے تھے۔ حضورؓ نے کسی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا: ’’مجھ خاکسار کی (سر) سیّد سے خط و کتابت رہی ہے۔ مَیں نے ان کوایک بار کسی تقریب پر عرض کیا تھا ، جاہل علم پڑھ کر عالم بنتا ہے اور عالم ترقی کر کے حکیم ہو جاتا ہے حکیم ترقی کرتے کرتے صوفی بن جاتا ہے مگر صوفی ترقی کرتا ہے تو کیا بنتا ہے؟ قابل غور ہے جس کے جواب میں سرسیّد نے لکھا کہ وہ نورالدین بنتا ہے۔‘‘

٭…آپؓ کے دورِ خلافت کے چند کارنامے یہ ہیں:

۱۔باقاعدہ بیت المال کا محکمہ قائم کیا۔

۲۔آپؓ کے مشورہ سے حضرت مصلح موعودؓ نے انجمن تشحیذالاذہان کے زیرانتظام پبلک لائبریری قائم کی۔

۳۔حضورؓ کی آغازِ خلافت ہی سے یہ خواہش تھی کہ حضرت مسیح موعودؑکی یاد میں ایک دینی مدرسہ قائم ہو۔ یکم مارچ ۱۹۰۹ء کو آپؓ نے اس مدرسہ کی بنیاد رکھی جس کا نام حضرت مولانا شیرعلی صاحبؓ کی تجویز پر مدرسہ احمدیہ رکھا گیا۔

۴۔ اخبار ’’نور‘‘ جاری کیا گیا۔

۵۔ حضورؓ نے 5؍مارچ ۱۹۱۰ء کو مسجد نور کی بنیاد رکھی۔

۶۔تعلیم الاسلام ہائی اسکول کی عمارت کی بنیاد رکھی۔

۷۔ مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی اور ۲۱؍جنوری۱۹۱۰ء کو احمدی عورتوں نے پہلی بار مسجد میں نماز جمعہ ادا کی۔

۸۔فروری ۱۹۱۱ء میں حضورؓ کی اجازت سے حضرت مصلح موعودؓ نے انجمن انصاراللہ کی بنیاد ڈالی اور حضورؓ نے فرمایا: ’’میں بھی آپ کے انصاراللہ میں شامل ہوں۔‘‘

۹۔حضورؓ نے اپنے خرچ پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ اور حضرت شیخ محمد یوسف صاحبؓ کو سنسکرت پڑھانے کے لیے ایک پنڈت کا انتظام کیا۔

۱۰۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۸؍جون ۱۹۱۳ء کو ایک اخبار جاری کیا جس کا نام حضورؓ نے ’’فضل‘‘ تجویز فرمایا۔

۱۱۔احمدی عورتوں کی تربیت کے لیے پہلا رسالہ ’’احمدی خواتین‘‘ ۱۹۱۲ء میں جاری ہوا۔

٭…حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی شاندار لائبریری میں تفسیر، حدیث اسماء الرجال، فقہ، اصول فقہ، کلام، تاریخ، تصوف، سیاست، منطق، فلسفہ، صرف ونحو، ادب،کیمیا، طب، علم جراحی، علم ہیئت اور غیر مذاہب کی نادر کتب موجود تھیں۔ ہندوستان کے اہل علم کو آپؓ کی اس لائبریری کا علم تھا چنانچہ سرسید اور علامہ شبلی نعمانی جیسے علماء بھی اس سے فائدہ اٹھایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ سر شاہ محمد سلیمان جج فیڈرل کورٹ آف انڈیا کو سپین کی ایک نادر کتاب کی ضرورت پیش آئی جو ہندوستان کی کسی مشہور لائبریری میں میسر نہ آسکی تو آخر انہیں علم ہوا کہ اس کا ایک قلمی نسخہ قادیان میںموجود ہے۔جس پر انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی اجازت سے یہ نسخہ عاریتاً حاصل کیا اور بحفاظت واپس بھجوایا۔

محترم عبدالقادر صاحب(سابق سوداگرمل)بیان کرتے ہیں کہ متعدد غیر ملکی سیاح قادیان آیا کرتے تھے تو سب سے زیادہ جو بات انہیں تعجب میں ڈالا کرتی تھی وہ چھوٹے سے گاؤں قادیان کی عظیم الشان لائبریری تھی۔

٭…تصانیف: ۱۔فصل الخطاب فی مسئلہ فاتحۃالکتاب۔ ۲۔فصل الخطاب المقدمۃ اہل الکتاب۔۳۔ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات۔۴۔ تصدیق براہین احمدیہ۔ ۵۔ابطال الوہیت مسیحؑ۔۶۔ردّتناسخ۔۷۔خطوط جواب شیعہ و ردّ نسخ قرآن ۔ ۸۔تفسیر سورۃ جمعہ۔ ۹۔نورالدین بجواب ’ترک اسلام‘۔ ۱۰۔دینیات کا پہلا رسالہ۔ ۱۱۔وفات مسیح موعودؑ۔ ۱۲۔درس القرآن۔ ۱۳۔خطبات نور۔ ۱۴۔روحانی علوم۔ ۱۵۔مجربات نورالدین۔ ۱۶۔تفسیر احمدی۔

حضورؓ کے حالاتِ زندگی شائع کرنے کا پہلا خیال مکرم اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی کو آیا۔ چنانچہ اُن کی خواہش پر حضورؓ نے اپنے حالات زندگی لکھوائے جو ۱۹۱۲ء میں ’’مرقاۃالیقین فی حیات نورالدین‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔

٭…احباب جماعت کے لیے چند قیمتی نصائح:

۱۔اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کے لیے استغفار، لاحول، الحمدللہ اوردرود کو بہت توجہ سے پڑھو۔

۲۔متکبر،منافق،کنجوس، غافل، بےوجہ لڑنے والے،کم ہمت، مذہب کو لہوولعب سمجھنے والے اور بے باک لوگوں سے تعلق نہ رکھو۔

۳۔نماز مومن کا معراج ہے۔تمام عبادتوں کی جامع ہے۔ کبھی اس میں غفلت نہ کرو۔ …بے کس اور بے بس لوگوں کے ساتھ سلوک کیا جاوے۔

۴۔اپنے فرض منصبی کے ادا کرنے اور اپنے بڑوں کے ادب اور اپنے برابروں کی مدارت بقدر امکان کرو۔

۵۔والدین اور اپنے افسروںکے راضی رکھنے میں کوشش کروجہاں تک دین اجازت دیوے۔

۶۔ہر کام احتیاط اور عاقبت اندیشی سے کرو۔

۷۔جو کام ہو، اللہ ہی کے لیے ہو۔کھانا ہویا پہننا،سونا ہو یا جاگنا ،اٹھنا ہو یا بیٹھنا،دوستی ہو یا دشمنی۔

۸۔ہر ایک مشکل میں دعا سے کام لو۔

۹۔ بعض لوگ دعا کے واسطے مجھے اس طرح سے کہتے ہیںکہ گویا میں خدا کا ایجنٹ ہوں اور بہرحال ان کا کام کرادوں گا۔ خوب یاد رکھو! میں ایجنٹ نہیں ہوں میں اللہ کا ایک عاجز بندہ ہوں … دعائوں میں تڑپنا اور قسم قسم کے الفاظ میں دعا کرنا مجھے بتایا گیا ہے … اسی کے آگے سجدہ کرو، اسی سے دعا مانگو۔ روزہ، نماز، دعا، وظیفہ، طواف، سجدہ، قربانی اللہ کے سوا دوسرے کے لیے جائز نہیں۔

۱۰۔گناہ سے بچنے کے کئی علاج ہیں۔موت کو یاد رکھنا، قرآن کریم کو پاس رکھنا اورکثرت سے استغفار کرنا … اورکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْن پر عمل اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنا بھی گناہ سے بچنے کے ذرائع میں سے ہے۔ غرض کسی شخص پر ایک بات زیادہ اثر کرتی ہے اور کسی پر دوسری۔انسان اگر کوشش میں لگا رہے تو آخر کامیاب ہوہی جاتاہے۔

میں نے حضرت مسیح موعودؑ سے دریافت کیا کہ انسان گناہ سے کس طرح بچ سکتا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایاکہ آدمی بہت کثرت سے استغفار کرنے سے بچ جاتا ہے۔

بدی سے بچنے کا یہ گر ہے کہ انسان علم الٰہی کا مراقبہ کرے سوچے اور فکر کرے اور بار بار اس بات کو دل میں لائے اور اس پر اپنا یقین جمائے کہ خدا علیم ہےخبیر ہے،وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے۔میرے ہر فعل کی اس کو خبر ہے۔اس طرح ریاضت کرنے سے انسان بدی سے بچ جاتا ہے۔

٭…حضرت حافظ عبدالجلیل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حاجی غلام جبار سکنہ بریلی کے ذمہ چار ہزار روپیہ قرض تھا۔ وہ حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حال بیان کر کے دعا کی درخواست کی۔حضورؓ نے اپنی جیب سے پانچ روپے نکال کر انہیں دیے اور فرمایا جب بھی کچھ روپیہ ہاتھ لگے اس کے ساتھ شامل کرلو اور جب ایک سو روپیہ ہو جائےتو فوراً ادا کردو۔ اس نصیحت پر عمل سے دو سال میںقرض ادا ہو گیا۔

٭…قادیان میں چھوٹے بچوں کی ایک انجمن ہمدردانِ اسلام تھی۔ آپؓ اکثر وہاں تشریف لے جاتے اور بچوں کو اُن کی عمر کے مطابق پیاری پیاری باتیں سناتے۔

آپؓ کے بیٹے میاں عبدالحئی صاحب نے قرآن ختم کیا تو آپؓ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: بیٹا! ہم تم سے دس باتیں چاہتے ہیں:۱:قرآن شریف پڑھو۔ ۲: پھر اسے یاد کرو۔ ۳:پھر اس کا ترجمہ پڑھو۔ ۴:پھر اس پر عمل کرو۔ ۵: پھر اس طرح ساری زندگی گذارو یہاں تک کہ تمہیں موت آجائے۔ ۶:قرآن پڑھائو۔ ۷:پھر یاد کرائو۔ ۸: پھر ترجمہ سنائو۔ ۹:پھر عمل کروائو۔ ۱۰: پھر اسی حالت میںتم کو موت آجائے۔

٭…بیٹی کی شادی پر اسےرخصت کرتے وقت آپؓ نے یہ نصائح لکھ کر اُس کی گود میں رکھ دیں:بچہ! اپنے مالک ،رازق ،اللہ کریم سے ہر وقت ڈرتے رہنا اور اس کی رضامندی کا ہر دم طالب رہنا، اور دعا کی عادت رکھنا، نماز اپنے وقت پر اور منزل قرآن کریم کی بقدر امکان بدوں ایام ممانعت شرعیہ ہمیشہ پڑھنا۔ زکوٰۃ، روزہ، حج کا دھیان رکھنا اور اپنے موقع پر عملدرآمد کرتے رہنا۔ گلہ، جھوٹ، بہتان، بیہودہ قصّے کہانیاں یہاں کی عورتوں کی عادت ہے اور بےوجہ باتیں شروع کر دیتی ہیں۔ ایسی عورتوں کی مجلس زہر قاتل ہے۔ ہوشیار، خبردار رہنا۔ہم کو ہمیشہ خط لکھنا۔علم دولت ہے بےزوال ہمیشہ پڑھنا۔ چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کو قرآن پڑھانا۔ زبان کو نرم ،اخلاق کو نیک رکھنا۔پردہ بڑی ضروری چیز ہے۔ قرآن شریف کے بعد ریاحین العابدین کو ہمیشہ پڑھتے رہنا۔ مرأ ۃ العروس اور دوسری کتابیں پڑھو اور اس پر عمل کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ وناصر ہو اور تم کو نیک کاموں میں مدد دیوے۔ والسلام نورالدین

٭… وفات سے ایک دو روز پہلے حضورؓ نے اپنی اہلیہ محترمہ کو ایک کاغذپر کچھ لکھ کر دیا اور فرمایا کہ میرے بعد اسے پڑھنا، دین ودنیا کے خزائن کی چابی ہے۔ آپؓ کی وفات کے بعد اسے کھولا گیاتو اس میں لکھا تھا:

۱۔پانچ وقت نماز کی پابندی رہے۔

۲۔شرک سے نفرت تامہ ہو۔

۳۔جھوٹ، چوری، بدنظری، حرص و بخل، عدم استقلال، بزدلی،بے وجہ مخلوق کا خوف تم میں نہ ہو بلکہ اس کی جگہ پابندی نماز، وحدت الٰہیہ، صداقت،عفت،غضّ بصر، ہمت بلند، شجاعت، استقلال میں اللہ کے فضل سے ترقی ہو۔ آمین

٭…۱۳؍مارچ ۱۹۱۴ء کو ساعتِ وصال قریب دیکھ کر حضورؓ نے اپنے صاحبزادہ عبدالحئی کو بلواکر الوداعی الفاظ کہے۔ پھر فرمایا : ’’تم کو خدا کے سپرد کرتا ہوں اور مجھے اطمینان ہے کہ وہ ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ اسی روز عین جمعہ کے وقت وفات پائی۔

آپؓ کا آسمانی نام ’عبدالباسط‘تھا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button