یادِ رفتگاں

صبر اور حوصلہ کی داستان، ہماری امی جان مختاراں بیگم صاحبہ

(صائمہ حنا۔ برکینافاسو)

ہفتہ۱۶؍جنوری ۲۰۲۱ء کے دن موبائل فون پر وہ روح فرسا خبر آئی جس کو پڑھنے کی ہمت تھی نہ سننے کی۔ دل اس کے لیے تیار تھا نہ دماغ ساتھ دے رہا تھا۔

ابھی رات ہی کو تو ہماری سب بہنوں کی امی جان سے ویڈیو کال ہوئی تھی کسی طرح بھی یہ گمان میں نہیں آسکتا تھا کہ یہ امی جان سے ہماری آخری بات ہوگی۔ اب بعد میں احساس ہوتا ہے کہ جس طرح انہوں نے ہم سب کو خدا حافظ کہا تھا شاید اللہ تعالیٰ نے انہیں کوئی اشارہ دے دیا تھا۔

امی جان کو نمونیا کی شکایت ہوئی تو چند دن فضل عمر ہسپتال ربوہ میں داخل رہیں۔ اسی دوران ہمارے بھائی جرمنی سے امی جان کے پاس پہنچ گئے۔ طبیعت میں بہتری آئی تو ڈاکٹروںنے ہسپتال سے فارغ کر کے گھر بھیج د یا تھا۔ علاج ابھی جاری تھا لیکن کھانا پینا سب کچھ معمول کےمطابق تھا۔ جس دن امی جان اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوئیں اس دن صبح ناشتہ کیا بھائی اور ابوجان سے باتیں کیں۔ دوائی وغیرہ دینے کے بعد بھائی نے امی جان کو بستر پر لٹایا۔ ہماری ایک عزیزہ امی کے پاس ہی بیٹھی تھی۔ بھائی چند لمحوں کے لیے کمرے سے باہر نکلے ہی تھے کہ امی جان کی طبیعت اچانک خراب ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنے پیارے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں۔ ڈاکٹر کوبلانے کا موقع ملا نہ کہیں لے کر جانے کا۔ ڈاکٹر کو کال کی تو وہ بہت جلد پہنچ گئے لیکن ا س وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

بلانے والا ہے سب سےپیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

قبولیت دعا

جب کورونا کی عالمگیر وبا شروع ہوئی تو امی جان یہ دعا کیا کرتی تھیں کہ اے خدا مجھے کرونا سے وفات نہ دینا۔ بےشک ہر انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور ایک نہ ایک روز اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے تاہم امی جان کو فکر تھی کہ ایسی بیماری سے وفات نہ ہو کہ میرے عزیز و اقارب اچھے طریق سے تدفین میں شامل نہ ہوسکیں۔ جب آپ بیمار ہوئیں تو آپ کا کرونا ٹسٹ کیاگیا جو نیگیٹو تھا۔ آپ کے جنازے میں بہت سارے لوگوں نے شرکت کی۔ تدفین کے تمام امور بخیریت سرانجام پائے۔ بیرون ملک سے بھی عزیزو اقارب تدفین پر پہنچ گئے۔

امی جان سے آخری ملاقات

میرے میاں مربی سلسلہ ہیں۔ امی جان سےآخری ملاقات ہماری گذشتہ رخصت کے موقع پر پانچ سال قبل ہوئی تھی۔ ۲۰۲۱ءمیں رخصت پر پاکستان جانے کی تیاری تھی۔ امی جان کی میرے بچوں سے بات ہوتی تو بتاتیں کہ وہ کس قدر بے تابی سے ہمارے آنے کا انتظار کر رہی تھیں۔ بچے بھی بہت پُرجوش اور خوش تھے کہ چند ماہ بعد نانو کے پاس جاکر بہت انجوائے کرنے والے تھے۔ لیکن تقدیر کے دھارے زندگی کو کسی اور طرف موڑ کر لے گئے۔ ملاقاتوں کی تمنائیں دل میں رہ گئیں۔ ملنے کی آس پھل پھول نہ سکی۔ ماں کے سینے پر سر رکھ کر باتیں کرنے کا احساس، حسرت میں بدل گیا۔

امی جان بیمار ہوئیں تو جرمنی سےبھائی فوراً ان کے پاس پہنچ گئے۔ ہمیں تسلی دیتے رہے کہ امی کی طبیعت ٹھیک ہے اس لیے ایمرجنسی سفر کرنے کی ضرورت نہیں۔ تاہم میرے میاں نے از خو دمجھے کہا کہ میں امی جان کے پا س چلی جاؤں اور ان سے مل آؤں۔ حضور انو رکی خدمت میں اجازت کے لیے لکھا تو اجازت بھی عطا ہوگئی۔ ۲۱؍جنوری کو میری روانگی تھی لیکن قدرتوں کے مالک خدا کی تقدیر غالب آئی۔ میں جنازے تک پہنچ تو گئی لیکن امی جان ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی تھیں۔

خاندانی تعارف

ہماری امی جان مکرمہ مختاراں بیگم صاحبہ اہلیہ رشید احمداٹھوال صاحب مکرم نذیر احمد جٹ صاحب دارالیمن غربی ربوہ کی بیٹی تھیں۔ آپ ۱۹۴۹ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں۔آپ کےخاندان کا تعلق قادیان کے نزدیک اٹھوال گاؤں سے تھا۔آپ کے خاندان میں احمدیت آغاز میں ہی آگئی تھی جب خلافت ثانیہ کے دور میں ایک مناظرے کے بعد سارا اٹھوال گاؤں احمدی ہو گیا تھا۔

جماعتی خدمات

امی جان ۱۹۹۴ء میں محلہ دارالیمن کی صدر لجنہ مقرر ہوئیں۔ پھر انہیں کئی ٹرمز تک یہ خدمت پوری تن دہی کے ساتھ سرانجام دینے کی توفیق ملی۔مجموعی طو رپر آپ کو سترہ سال محلہ کی عاملہ لجنہ میں خدمت کی توفیق عطا ہوئی۔آپ نے محلہ میں لجنہ ممبرات کی مستعد ٹیمیں بنائیں اور تربیت کا مثالی کام کیا۔ آپ کو چندہ لینے کا ہنر آتا تھا اگر کسی کے پا س نقد رقم نہ ہو تی تو اس سے مرغی کے انڈے وغیرہ خرید لیتیں اور ان سے رقم چندے میں شامل کر وا لیتیں۔ آپ کی قیادت میں ہمارا محلہ ربوہ کے صف اول کے محلہ جات میں جا پہنچا۔ جب آپ محلہ کی صدر لجنہ نہیں تھیں تو ہر نئی آنے والی صدر سے مکمل تعاون کرتی رہیں۔ ہر صدر سے یہی درخواست کرتیں کہ لجنہ کا کوئی بھی کام ہو میں حاضر ہوں۔ اپنا گھر محلہ کی لجنہ کے لیے وقف کیا ہوا تھا۔ہم نے بچپن سے دیکھا کہ آئے روز گھر میں جماعتی سرگرمیاں جاری رہتیں۔ خواتین کےلیے ریفریشمنٹ بھی گھر سے تیار ہوتی۔ملنسار، ہر دلعزیز،خوش گفتار اور ہنس مکھ تھیں،گفتگو کرنے کا بہت بہترین انداز تھا،اپنی خوبصورت گفتگو سے دوسروں کا دل موہ لیتی تھیں۔

خلافت کی مطیع و فرمانبردار

آپ خلافت کی مطیع اور فرمانبردار تھیں۔ ایم ٹی اے پر خطبہ جمعہ بہت غور سے سنتیں۔ کئی بار دیکھا گیا کہ خطبہ کے دوران آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ خطبات میں ہونے والی تحریکات پر فوری عمل کرنا بھی آ پ کی عادات میں شامل تھا۔

تبلیغ کا شوق

آپ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ اکثر ربوہ کے ارد گرد دیہات میں دور تک تبلیغ کے لیے نکل جاتیں۔ ایک دفعہ ایک گاؤں میں گئیں تو اسی وقت گھر والوں کا ایک بچہ پیٹ میں درد کی تکلیف سے بلک رہا تھا۔ خاتون خانہ اس بچے کو آپ کے پاس لے آئی کہ آپ لوگ تبلیغ کے لیے آئے ہیں تو اس بچے کے لیے کچھ کریں۔ امی جان بتایا کرتی تھیں کہ مجھے اور تو کچھ نہیں سوجھا۔ میں نے پانی منگوا کر اس پرسورہ فاتحہ دم کر کے وہ پانی بچے کو پلا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری لاج رکھی اور اس بچےکو شفا عطا فرمائی۔ اس واقعہ کا وہاں بہت اچھا اثر ہوا۔

مالی قربانی

آپ مالی قربانی میں غیر معمولی جوش کے ساتھ حصہ لیتیں۔مالی قربانی کرتے یا خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے انہیں کبھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے والدین کا یہی طریق رہا کہ جس دن حضور انور تحریک جدید اور وقف جدید کے نئے سال کااعلان فرماتے اسی دن اپنا پورا وعدہ ادا کر کےفرض سے سبکدوش ہو جاتے۔اس کے علاوہ بھی جو کوئی مالی تحریک جماعت کی طرف آتی ا س میں فوری اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔

ایک دفعہ ہمارے محلہ میں مرکزی نمائندگان نے تحریک جدید کے چندے کی تحریک کی اور کہا کہ ایک مبلغ بنانے پر ایک لاکھ روپیہ خرچ آتا ہے۔ ہے کوئی ایسی قربانی کرنے والا جو ایک مبلغ کو تیار کرنے کا خرچ ادا کر ے؟ آپ نے فوری طو رپر بغیر کسی سے مشورہ کیےایک لاکھ روپیہ کا وعدہ لکھوادیا اس وقت ابو جان بھی مسجد میں تھے۔ ان کو پتا نہیں چلا کہ کس خاتون نے ایک لاکھ روپے کا وعدہ لکھوایا ہے۔ گھر آ کر امی جان سے کہنے لگے کہ آج مسجد میں کسی عورت نے ایک لاکھ روپے چندہ تحریک جدید لکھوایا ہے پتا نہیں کون ہے وہ؟ امی جان کہنے لگیں وہ میں ہی ہوں۔ میں نے ایک لاکھ کا وعدہ لکھوایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی ادئیگی کی بھی توفیق دی۔

امی جان کئی بار اپنا زیور راہ مولیٰ میں قربان کر نے کی توفیق پا چکی تھیں۔آپ کے نام وکالت مال اول ربوہ اور سیدنا حضور انور ایدہ اللہ کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ۲۰۱۴ء میں بھی دو عدد سونے کے کڑے چندہ میں دینے کی توفیق عطا ہوئی تھی۔ آپ کے نام خط میں حضورانور نے فرمایا:’’وکالت مال اول ربوہ کی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ آپ نے تحریک جدید میں بطور چندہ ۲ عدد طلائی کڑے پیش کیے ہیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔

اللہ تعالیٰ آپ کی اس قربانی کو قبول فرمائے، دین و دنیا کی نعمتوں سے مالامال کرے اور اس کے پیار کی نظر ہمیشہ آپ پر رہے۔‘‘

امی جان کی زندگی حضور انور کی دعاؤں کی قبولیت کا نمونہ تھی۔ دین و دنیا کی حسنات بھی آپ کو عطا ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی ہمیشہ آپ پر رہی۔

غریب پروری

امی جان کی عادت تھی کہ ضرورت مندوں کی مدد بہت کیا کرتی تھیں۔ کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا۔محلے میں کئی غریب بچیو ں کی شادی میں مدد دی۔ شادی والے گھرجاکر معلوم کرتیں کہ کس چیز کی ضرورت ہے۔ پھر کسی کو برتنوں کا سیٹ توکسی کو کپڑے اور کسی کو دیگر سامان مہیا کر دیتیں۔

آپ ہمیشہ اپنے پاس نقدی رکھتیں اور جب بھی کوئی ضرورت مند آتا اسے ضرور کچھ نہ کچھ دیتیں۔ ایک درجن سے زائد ایسی خواتین تھیں جو ہر ماہ باقاعدگی سے آپ کے پاس آتیں اور ان کا جیسے ماہانہ وظیفہ آپ نے لگا رکھا تھا۔ بعض خواتین کو تو آپ پیغام بھیج کر بلا لیتیں اور مدد کرتیں۔ گھر کی ملازم خواتین اوربچیوں کا بہت خیال رکھتیں۔ان کو کسی چیز کے کھانےپینے سے منع نہ کرتیں ان کو بھی وہی کھانا دیتیں جو سب کے لیے پکایا جاتا۔بعض اوقات محسوس ہوتا کہ صرف ایک ملازمہ ہی امی جان کی شفقت سے مستفید نہیں ہو رہی بلکہ اس کی پوری فیملی اس فیاضی سے فائدہ اٹھارہی ہے۔گھر میں پھل دار پودے تھے گھر آنے والے مہمانوں کو ا ن کا پھل اتار کر دے دیتیں کبھی کسی کو پھل لینے سے منع نہ کرتیں۔

ایک دفعہ اپنے ایک رشتہ دار بچے کو سکول سے پیدل گھر جاتے ہوئے دیکھ لیا۔تو اسے کہا کہ شام کو گھر آنا۔ جب وہ گھر آیا تو اس کے لیے سائیکل منگوا کر رکھی ہوئی تھی جو اسے پیش کر دی کہ اس پر سکول جایا کرو۔ وہ بچہ جو اب ایک پختہ عمر کا نوجوان ہے آج بھی ا س بات کو یا درکھے ہوئے ہے۔

قرآن مجید سے عشق

آپ کو قرآن مجید سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ آپ نے محلے کی بہت سی بچیوں اور بچوں کو قرآن مجید پڑھایا۔ آپ نے ایک ٹارگٹ مقرر کیا ہوتا تھا کہ روزانہ اتنا حصہ تلاوت کرنی ہے اور سال میں قرآن مجید کے اتنے دور مکمل کرنے ہیں۔ اگر کبھی کسی وجہ سے ناغہ ہوجا تا تو بعد میں زیادہ تلاوت کر کے اپنا ہدف پورا کر لیتیں۔ لجنہ کی طرف سے قرآن مجید باترجمہ پڑھنے کی تحریک ہوئی تو آخری عمر میں بہت کوشش کرکے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنا شروع کردیا۔ آپ نے وفات سے قبل سیکرٹری تعلیم القرآن کو دس پارے ترجمہ کے ساتھ سنا دیے۔

صبر اور حوصلے کی چٹان

ہمارا ایک بھائی تلا ش روز گار میں نوے کی دہائی کے شروع میں اور دوسرا ۱۹۹۴ء میں جرمنی چلاگیا۔ امی جان ۱۹۹۵ءمیں جرمنی جلسہ پر گئیں۔ جلسہ کے بعد امی جان ابھی جرمنی میں ہی تھیں کہ ستمبر میں ہمارے بھائیوں کو ایک خوفناک کار حادثہ پیش آیا جس میں دونوں بھائی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ یہ بہت تکلیف دہ خبر تھی۔ امی جو اتنے چاؤ سے بیٹوں کو ملنے گئی تھیں دو جوان بیٹوں کی نعشوں کے ساتھ پاکستان واپس آئیں۔ یہ ایک ایسا حادثہ تھا کہ جس نے سارے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا۔ ا س تکلیف دہ صدمہ کو جس صبر اور ہمت سے آپ نے برداشت کیا وہ بہت غیر معمولی تھا۔

محلے میں آپ کے صبر اور حوصلے کی مثال دی جاتی تھی۔ایک بار آپ ایک جگہ تبلیغ کے لیے گئیں تو وہاں خاتون خانہ سے باتیں شروع ہوئیں۔ اس خاتون کو جب پتا چلا کہ آپ دارالیمن سے آئی ہیں تو اس نے کہا اس محلے میں کچھ عرصہ قبل دو جوان اموات ہوئی ہیں۔جرمنی سے جنازہ آیا تھا۔ سنا ہے ان نوجوانوں کی ماں نے بڑا صبر اور حوصلہ دکھایا ہے۔ وہ یہ باتیں کر رہیں تھی اور امی جان سنتی رہیں۔ آخر پر اسے بتایا کہ جس عورت کا آپ ذکر کر رہی ہیں وہ میں ہی ہوں۔

۱۹۹۵ءسے ۲۰۲۱ء کے چھبیس سالوں میں ہم نے امی جان کی زبان پر بھائیوں کی وفات کا تذکرہ سنا نہ کبھی آنسو بہاتے دیکھا۔ بطور ماں آپ کے دل پر کیا گزرتی تھی وہ سارے رازو نیاز بس اپنےخد اسے ہی تھے۔ کسی انسان کے سامنے اپنے آپ کو ایک لمحہ کے لیے بھی کمزور نہ پڑنے دیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے نام ایک خط محررہ ۲۶؍نومبر ۱۹۹۵ءمیں بیٹوں کی وفات پر تعزیت کرتے ہوئے تحریر فرمایا:’’کل آپ کے جوان سال بیٹوں عزیزم محمد احمد اور کبیر احمد ظہیر کی حادثاتی موت کی اطلاع کابہت افسوس ہوا ہے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ان پیارے بیٹوں او رجماعت کے مخلص خدام کو غریق رحمت فرمائے۔ اور صبر جمیل عطا فرمائے۔ بہت تکلیف دہ خبر ہے اور آپ کے غم کا جب خیال آتا ہے تو دل سے بار بار خدا کے حضور دعا نکلتی ہے کہ وہ اپنی بے پایاں رحمت نازل فرمائے اور ہمت اور توفیق دے اور صبر کی طاقت کو بڑھائے اور راضی برضا رہنے کی توفیق دے۔ میری طرف سے دلی تعزیت کا پیغام ہے۔ مرحومین کی بہنوں اور بھائی کو بھی خاص طو رپر تسلی کا پیغام ہے۔ اللہ تعالیٰ حامی و ناصر ہو۔ نماز جنازہ غائب ان شاء اللہ پڑھادوں گا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے امام وقت کی دعا کو شرف قبولیت عطا فرمایا اور امی جان کی صبر کی طاقت کو بڑھا دیا اورآپ کو راضی برضا رہنا بھی آگیا۔

واقفین زندگی کا احترام

آپ واقفین زندگی،مربیان اور جماعتی عہدیداران کا ہمیشہ بہت احترام کرتیں۔ کہا کرتی تھیں کہ میں اپنے بیٹے وقف نہیں کر سکی شاید اس لیے اللہ تعالیٰ نے جلد دونوں کو اپنے پاس واپس بلا لیا۔بیٹیوں کی شادی کا موقع آیا تو امی جان کی خواہش تھی کہ اگر سب بیٹیوں کے لیےمربیان اور واقفین زندگی کے رشتے میسر آ جائیں تو وہ سب کے رشتے ان سے کر دیں۔ بہرحال ہم چاروں بہنوں میں سے میرا رشتہ نعیم احمدباجوہ صاحب مربی سلسلہ کے ساتھ ہوا۔ واقف زندگی ہونے کے ناطےمیرے میاں سے بہت احترام کا تعلق تھا۔ جب بھی بات ہوتی تو یہی کہتیں کہ نعیم مجھے تم سے زیادہ پیارا ہے۔

جنازہ اور تدفین

آپ کی وفات پر بے شمار لوگوں کے اظہار تعزیت موصول ہوئےان میں سے صدرصاحبہ لجنہ اماء اللہ ربوہ کی طرف سےموصول ہو نے والا خط درج ذیل ہے۔ آپ نے خاکسار کے نام تحریر کیا:’’آپ کی والدہ مکرمہ مختار بیگم صاحبہ سابقہ صدر حلقہ کی وفات کا پڑھ کر بہت افسوس ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ بہت مخلص اور نیک خاتون تھیں سادہ مزاج تھیں۔ بہت اخلاص سے اپنی صدارت کے دوران لجنہ کی خدمت کی‘‘

سیدنا حضرت امیر المومنین نے از راہ شفقت بہشتی مقبرہ دارالفضل میں آپ کی تدفین کی اجازت عطا فرمائی۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۹؍اپریل ۲۰۲۱ءکے خطبہ جمعہ میں امی جان کا ذکر خیر فرمایا اور آپ کی نماز جنازہ پڑھا کر ہم سب کی ڈھارس بندھائی۔ آپ نے خطبہ جمعہ میں امی جان کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:’’ایک خاتون ہیں مختاراں بی بی صاحبہ اہلیہ رشید احمد اٹھوال صاحب دارالیمن ربوہ۔ یہ نعیم (احمد) باجوہ صاحب پرنسپل جامعہ مبشرین برکینا فاسو کی ساس ہیں۔ ۱۶؍جنوری کو ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ لجنہ دارالیمن غربی کی مجلس عاملہ میں مجموعی طور پر سترہ سال ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ مختلف ممالک میں ان کو مالی قربانیوں کی توفیق ملی اور لاکھوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کو مالی قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ وفات سے چند گھنٹے پہلے بھی ان کی آنکھ کھلی تو انہوں نے کہا کہ میری چوڑیاں کہاں ہیں؟ اور فوراً اپنے بیٹے کو کہا کہ یہ چوڑیاں بیچ کے تو صدر صاحب کو دے کے آؤ جو تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپے کی تھیں۔ وہ ایم ٹی اے کے لیے قربان کر دیں کہ ڈش لگوا دیں۔ پھر ان کے دو بیٹے ۱۹۹۵ء میں جرمنی میں کار کے حادثے میں وفات پا گئے تھے۔ بڑے حوصلے سے صدمہ برداشت کیا اور کبھی اس حادثے کا ذکر نہیں کیا نہ شکوہ کیا۔ اس صدمے کو اللہ تعالیٰ کی رضا، راضی برضا رہ کر برداشت کیا۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا اور جوش تھا۔ ربوہ کے ارد گرد کے دیہات میں تبلیغ کے لیے دور دور تک نکل جاتی تھیں۔ قرآن مجید سے عشق تھا۔ خود قرآن کریم کی تلاوت باقاعدگی سے کرنے کے علاوہ محلے کے بچوں کو قرآن مجید اور یسرنا القرآن پڑھایا۔ مرحومہ موصیہ بھی تھیں۔ میاں کے علاوہ ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ تین بیٹیاں لندن میں ہیں ایک برکینا فاسو میں ہیں۔ یہاں بھی جو بیٹیاں ہیں وہ جماعت کا کام کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۹؍ اپریل ۲۰۲۱ء) (الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍اپریل ۲۰۲۱ء صفحہ ۵تا۱۰)

اللہ تعالیٰ امی جان کو اپنے پیاروں میں داخل فرمائے۔ ان سے پیار اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان کی دعائیں ہمارے حق میں قبول فرماتا چلا جائے۔ اور ہمیں امی جان کے نیک نمونے قائم رکھنے کی توفیق دے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button