متفرق مضامین

قرآن و حدیث سے دعوت و تبلیغ کے لیے چندراہنما اصول

(احسن سلیمان۔مربی سلسلہ)

دعوت حق کے لیے صرف کلمۃ الحق پر ہی اکتفا نہیں کیا جا سکتا، بلکہ مخاطب کی نفسیات، اس کے خیالات اور رجحانات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے

اس دنیا میں ہمیں ایک سادہ سی مثال نظر آتی ہے کہ جیسے ایک کسان فصل اگانے کے لیے صرف بیج کی صحت اور پائیداری کا ہی خیال نہیں رکھتا بلکہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ زمین اس بیج کے موافق ہے کہ نہیں اگر زمین موافق نہیں تو پھر کیا کیا اصلاحات کرنا پڑیں گی۔ کھاد ڈالنا پڑے گی، سپرے کرنا پڑے گی، اسی طرح کسان موسمی حالات کو بھی مد نظر رکھتا ہے۔ بعینہٖ دعوت حق کے لیے صرف کلمۃ الحق پر ہی اکتفا نہیں کیا جا سکتا، بلکہ مخاطب کی نفسیات، اس کے خیالات اور رجحانات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اس حوالہ سےقرآن و حدیث پر اگر نظر ڈالیں تو وہ ہماری بھرپور راہنمائی کرتے ہیں۔ ذیل میں قرآن و حدیث سے دعوت و تبلیغ کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔

سہل اور آسان فہم اسلوب بیان اختیار کرنا

انسان فطرتی طور پر سہل پسند ہے اور آسانی کی طرف اس کا جھکاؤ زیادہ ہے۔ اس لیے دعوت و تبلیغ میں انسان کےاس فطرتی رجحان کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مبلغ کو چاہیے کہ ایسا اسلوب اختیا ر کرے جو آسان فہم ہو اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’یسّروا ولا تعسّروا و بشّروا ولا تنفروا ‘‘یعنی آسانی پیدا کرو اور سختی نہ کرو اور خوشخبری دو اور نفرت نہ پھیلاؤ۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ’’ ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنایا ہے پس کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔‘‘(القمر:۳۳) سورۃ القمر میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو کئی دفعہ دہرایا ہے اور اس تکرار سے یہ اصل بتا دیا کہ وعظ و نصیحت اور دعوت و تبلیغ کے لیے آسان فہم اسلوب استعمال کیا جائے۔

مذہبی حمیت اور غیرت کو بھڑکانے سے گریز

ایک داعی الی اللہ کو چاہیے کہ مخاطب کی مذہبی غیرت اور حمیت کو بھڑکانے سے گریز کرے۔ ہر شخص کے اعتقادات ہوتے ہیں جن پر وہ اپنے پورے ایمان اور سچے دل سے کاربند ہوتا ہے۔ ہر مذہب و فرقہ کا پیروکار اپنے مذہبی اعتقادات کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔لہٰذا داعی کو چاہیے کہ وہ کسی بھی حال میں مخاطب کے اند ر مذہبی حمیت و غیرت کو نہ بھڑکنے دے اگر مخاطب کے عقائد باطل ہیں تو اس کی اصلاح کا راستہ یہ ہے کہ احترام اور دلائل کے ساتھ ان کا ردّ کیا جائے۔ حق پرستی کے جوش یا باطل کی مخالفت کے جذبہ سے مغلوب ہو کر تبلیغ نہ کی جائے اگر ایسا ہوگا تو مخاطب سیدھے راستے پر آنے کے بجائے مزید گمراہی میں چلا جائے گا اور بدلے میں اینٹ کا جواب پتھر سے دےگا۔ سورہ انعام میں داعیانِ حق کو اسی چیز سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ اور تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے۔‘‘ ( الانعام : ۱۰۹)لہٰذا اس اصول کو ہمیشہ کاربند رکھنا چاہیے۔

مقام و منصب کا لحاظ

دعوت و تبلیغ میں مخاطب کے مقام و مرتبہ کو بھی ملحوظ ِ خاطر رکھنا ضروری ہے اندازِ گفتگو مخاطب کی نفسیات اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے ہو نا چاہیے۔اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ ؑاور حضرت ہارونؑ کو فرعون کو ہدایت دینے کی غرض سے بھیجا تو ہدایت فرمائی کہ’’تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ۔ یقیناً اس نے سر کشی کی ہے۔ پس اس سے نرم بات کہو ہو سکتا ہے وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جاۓ۔ ‘‘(طٰہ : ۴۵،۴۴)

بےشک فرعون گمراہی میں تھا، جاہل اور جابر تھا لیکن وہ دنیاوی جاہ و شوکت کا مالک بھی تھا اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ اس کے اس مرتبے کو مدّنظر رکھتے ہوئے بات کرنا۔ لہٰذا اس اصول کو بھی ایک داعی کو مدّ نظر رکھنا چاہیے۔

مخاطب کی درجہ بندی

ایک داعی کو چاہیے کہ وہ مخاطب کے علم و فضل،معرفت اور روحانیت،اور ذہنی استعداد کے مطابق کلام کرے۔بعض لوگ ذہنی لحاظ سے تیز اور جلد بات کو سمجھ سکتے ہیں لیکن بعض ذہنی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں یا بات کو جلد سمجھ نہیں سکتے۔ اس لیے سب کو ایک ہی پلڑے میں نہیں تولنا چاہیے ہر کسی سے اس کی ذہنی استعداد کے مطابق بات کرنی چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق بات کرو ‘‘

موقع محل اور حکمت سے تبلیغ

تبلیغ کے میدان میں سب سے اہم چیز موقع محل کا خیال رکھنا اور حکمت سے کام لینا ہے۔داعی کو چاہیے کہ ایسے مواقع تلاش کرے جبکہ مخاطب کا ذہن بات سننے کے لیے تیار ہوجائے۔جیسے ایک کسان فصل کی تیاری کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں کو مدّ نظر رکھتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ موسم مناسب نہیں تو کھیت میں بیج نہیں ڈالتا کیونکہ اسے پتا ہے کہ اس وقت اگر میں نے بیج بویا تو سوائے بیج کے ضیاع کے کچھ فائدہ نہ ہو گا اسی طرح ایک داعی کو بھی چاہیے کہ جب وہ دیکھے کہ مخاطب کا ذہن ابھی تیار نہیں ابھی وہ اعتراضات اورنکتہ چینیوں میں مشغول ہے تو اس سے بات نہ کرے اگر ایسی حالت میں وہ اسے مخاطب کرے گا تو مخاطب مزید گمراہ ہو گا۔ اسی اصول کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یو ں بیان فرمایا ہے۔’’اور جب تو دیکھے ان لوگوں کو جو ہماری آیات سے تمسخر کرتے ہیں تو پھر ان سے الگ ہو جا یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں۔‘‘( الانعام : ۶۹ )

اسی طرح حکمت سے وعظ و نصیحت کرنی چاہیے تمام عقلی و نقلی دلائل میسر ہونے چاہئیں گہرا مطالعہ ہونا چاہیے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔‘‘(النحل:۱۲۶)

مخاطب کی مصروفیات کا خیال رکھنا

داعی الی اللہ کو چاہیے کہ وہ مخاطب کی مصروفیات کا بھی خیال رکھے۔اگر مخاطب اپنے کسی کام میں مصروف ہے تو اسے تبلیغ نہ کرے یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر فارغ ہو جائے۔ اس کی مصروفیات میں اگر اس کو تبلیغ کی جائے گی تو اس کا اس پر اثر نہیں ہو گا بلکہ الٹا اس کی طبیعت پر گراں گزرے گا اور وہ اس طرف توجہ نہیں دے گا۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا قول ہیں کہ لوگوں کو قرآن سے بیزار نہ کرو اور میں تمہیں اس حال میں نہ دیکھوں کہ تم کسی جماعت کے پاس جاؤ اور وہ اپنے کسی کام میں مشغول ہوں۔(صحیح بخاری،کتاب الدعوات )

طویل گفتگو اور تکرار سے گریز

ایک داعی کو چاہیے کہ وہ اپنی بات کو طوالت سے بچاۓ اور اپنی بات کو بار بار نہ دہراۓ کیوں کہ یہ بات بیزار ی کا باعث بنتی ہے۔اس حوالہ سے نبی کریم ﷺ کا اسوہ مد نظر رکھنا چاہیے احادیث اور مختلف تاریخی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نہایت مختصر اور پر اثر گفتگو فرمایا کرتے تھے۔آپؐ صحابہ کو وقفہ وقفہ سے واعظ فرمایا کرتے تھے تاکہ وہ بیزار نہ ہوں آپؐ کے خطبات نہایت مختصر اور جامع ہوا کرتے تھے اس کی ایک درخشاں مثال آپ ﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع ہے جسے انسانی حقوق کا پہلا چارٹر بھی کہا جاتا ہے۔یہ خطبہ صحیح بخاری کتاب العلم میں موجود ہے۔

پس یہ وہ چند راہنما اصول ہیں جن کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے ہم مؤثر دعوت الی اللہ کر سکتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرماۓ اور دوسروں کے لیے ہدایت کا باعث بناۓ۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button