بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات(قسط۵۸)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭… غیر حافظ کے قرآن کریم سے دیکھ کر لقمہ دینے کے متعلق فقہ المسیح کے حوالے کی وضاحت
٭… قبر میں کیے جانے والے سوالات کے بارے میں وضاحت

سوال: مصر سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں نماز تراویح میں غیر حافظ کے قرآن کریم سے دیکھ کر لقمہ دینے کے متعلق فقہ المسیح کا درج ذیل حوالہ بھجوا کر لکھا ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس طرح نماز کیسے ادا کی جا سکتی ہے؟

رمضان شریف میں تراویح کے لیےکسی غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر حافظ کو بتلانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے فرمایا:میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ اس کے متعلق نہیں دیکھا۔ اس پر مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے جائز قراردیا ہے۔

فرمایا: جائز ہے تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے اوراس کے لیے یہ انتظام بھی ہوسکتا ہے کہ ایک ہی شخص تمام تراویح میں بیٹھ کر نہ سنتا رہے بلکہ چار آدمی دو دو رکعت کے لیے سنیں اس طرح ان کی بھی چھ چھ رکعتیں ہو جائیں گی۔

عرض کیا گیا فقہ اس صورت کو جائز ٹھہراتی ہے؟فرمایا: اصل غرض تو یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن کریم سننے کی عادت ڈالی جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فتویٰ تو ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے جیسے کوئی کھڑا ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر ہی پڑھ لے اوربیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر پڑھ لے یا جس طرح کسی شخص کے کپڑے کو غلاظت لگی ہو اوروہ اسے دھو نہ سکے تو اسی طرح نماز پڑھ لے، یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ضرورت کی بات ہے۔ (اخبارالفضل قادیان دارالامان نمبر۶۶، جلد۱۷، مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۲ ) (فقہ المسیح صفحہ ۲۱۸، ۲۱۹)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۰؍جون ۲۰۲۲ء میں اس بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:نماز کے دوران عام طریق یہی ہے کہ اگر امام بھول جائے یا قرآن کریم کی تلاوت میں کوئی سہو کر دے تو اگر کسی مقتدی کو قرآن کریم کا وہ حصہ جو امام تلاوت کر رہا ہے، یاد ہو تو وہ امام کو لقمہ دے سکتا یا اس کی درستی کرا سکتا ہے۔ لیکن قرآن کریم سے دیکھ دیکھ کر کسی مقتدی کا امام کو لقمہ دینا جائز نہیں۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اپنی کتاب ذکر حبیب میں بیان کرتے ہیں:’’ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ قرآن شریف کی لمبی سورتیں یاد نہیں ہوتیں اور نماز میں پڑھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ کیا ایسا کر سکتے ہیں کہ قرآن شریف کو کھول کر سامنے کسی رحل یا میز پر رکھ لیں یا ہاتھ میں لے لیں اور پڑھنے کے بعد الگ رکھ کر رکوع سجود کر لیں اور دوسری رکعت میں پھر ہاتھ میں اٹھا لیں۔ حضرت صاحبؑ نے فرمایا۔’’اس کی کیا ضرورت ہے۔ آپ چند سورتیں یاد کر لیں اور وہی پڑھ لیا کریں۔‘‘ (ذکر حبیب صفحہ۱۳۶، مطبوعہ ضیاءالاسلام پریس ربوہ)

پس انسان کو جتنا قرآن کریم یاد ہووہ اسے نمازوں میں پڑھے۔ اور مزید قرآن کریم یاد کرنے کی کوشش کرتا رہے، کیونکہ قرآن کریم کو یاد کرنا اور اسے پڑھنا یہ بھی ایک نیکی اور قابل ثواب عمل ہے۔

یہی وجہ ہے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد خلافت میں مجلس افتاء میں یہ معاملہ پیش ہونے پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۷؍ جون ۱۹۷۱ء کو اس بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ ’’نوافل میں بھی قرآن مجید سے دیکھ کر پڑھنا مستحب نہیں۔ نیز اس کی اجازت دینے سے حفظ قرآن کی ترغیب کا مقصد بھی فوت ہو جاتا ہے، لہٰذا اس طریق کو اختیار کرنا ناپسندیدہ ہے۔‘‘(رجسٹر فیصلہ جات مجلس افتاء صفحہ۴۹غیر مطبوعہ)

کتب حدیث و فقہ میں بعض ایسے آثار ملتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ کرامؓ جن میں حضرت عثمانؓ، حضرت انسؓ اور حضرت عائشہ ؓوغیرہ شامل ہیں جب نوافل پڑھتے تو کسی شخص کو قرآن دے کر پاس بٹھا لیتے جو ان کے بھولنے پر انہیں لقمہ دےدیتا یا کسی ایسے شخص کی اقتدا میں وہ نوافل ادا کرتے جو قرآن سے دیکھ کر انہیں امامت کرواتا۔(کشف الغمۃ عن جمیع الامۃ لشیخ عبدالوھاب الشعرانی۔کتاب الصلاۃ، فصل فی الفتح علی الامام)( صحیح بخاری کتاب الاذان بَاب إِمَامَةِ الْعَبْدِ وَالْمَوْلَى)

فقہاء اربعہ میں سے امام ابو حنیفہ ؒ کا مسلک یہ ہے کہ نماز میں قرآن کریم سے دیکھ کر پڑھنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ جبکہ امام شافعیؒ نیز امام احمد ؒ کے ایک قول کے مطابق نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اور امام مالک ؒ نیز امام احمد ؒ کے ایک دوسرے قول کے مطابق نفل نماز میں ایسا کرنا جائز ہے لیکن فرض نماز میں یہ جائز نہیں ہے۔(کتاب المیزان للشعرانی، باب صفۃ الصلوٰۃ۔جلد ۲ صفحہ ۴۷ مطبوعہ عالم الکتب ۱۹۸۹ء )

ان آثار اور فقہاء کی آراء پر تبصرہ فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جہاں تک قاری یا سامع کا نماز کے دوران قرآن کریم سے دیکھ کر پڑھنے اور سامع کا پڑھ کے لقمہ دینے کا مسئلہ ہے۔میرے نزدیک تو امام ابو حنیفہ ؒ کا مو قف ہی درست ہے (یعنی ایسا کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ناقل) یہ جو مثا لیں دی گئی ہیں کہ مثلاً حضرت عا ئشہؓ کے غلام ذ کوان قرآن کریم سے پڑھ کر ان کی امامت کرواتے تھے یہ حدیث نہیں بلکہ اثر ہے اور ایسا اثر نہیں جس کی اجازت حضرت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہو۔ ایسے اہم دینی معاملات میں اثر کی وہ حیثیت نہیں جو حدیث کی ہے۔(مکتوب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ بنام سیکر ٹری صاحب مجلس افتا ء مورخہ ۱۱؍مئی ۱۹۹۳ء)

اسی طرح فقہ احمدیہ میں بیان ان امور کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو ہدایت فرمائی:

فقہ احمدیہ کا یہ صفحہ ربوہ بھجوا دیں کہ یہ روایا ت قا بل قبول کیسے ہو گئیں یہ تو ساری لغوباتیں ہیں اس زمانہ میں تو قرآن اس شکل میں مو جو د ہی نہیں تھا جس میں آج ہما رے سامنے ہے۔اس وقت تو پتھروں، کھالو ں اور درختوں کے پتوں اور چھا لوں پر لکھا ہو تا تھا۔ غلطی پرکیا لقمہ دینے کے لئے وہ پتھر اور کھالیں وغیرہ مسجد میں رکھتے تھے۔ یہ ایسی باتیں ہیں کہ جو کسی صورت بھی قبول نہیں کی جا سکتیں۔ ہماری فقہ میں جو ایسی اوٹ پٹا نگ باتیں راہ پا چکی ہیں ان کا از سر نو جا ئزہ لینا ضروری ہے۔ (فیکس بنام دارالافتاء از پرائیویٹ سیکرٹری صاحب لندن مورخہ ۰۶؍جنوری ۱۹۹۸ء )

اس مسئلہ پر مزید راہنمائی کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:نمازکے دوران قرآن کریم پڑھ پڑھ کر یاددہانیاں کروانے کا کوئی جواز نہیں۔ نہ آنحضور ﷺ کے زمانہ میں ایسا ہوا اور نہ ہی بعد میں خلفائے راشدین کے زمانہ میں ایسا ہوا۔ اگر کوئی قاری غلطی کرتا تھا تو مقتدیوں میں سے اگر کسی کو یاد ہوتا تو وہ درستی کرا دیتا ورنہ اسے خدا کے حضور قابل معافی سمجھا گیا۔(مکتوب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بنام دارالافتاء ربوہ مورخہ یکم جولائی ۱۹۹۲ء)

پس اس بارے میں میرا بھی موقف یہی ہے کہ قرآ ن کریم کا جتنا حصہ کسی کو یاد ہو اسی کو وہ نمازوں میں پڑھ لے اور مزید قرآن کریم یاد کرنے کی کوشش کرے۔

لیکن اگر کسی کی ایسی مجبوری ہو کہ اسے قرآن کریم کا کچھ بھی حصہ یاد نہ ہو تو پھر یہ انتہائی مجبوری کی حالت ہے، اور یہ انتہائی مجبوری ہر جگہ بہرحال نہیں ہوتی۔ پس اس مجبوری کی صورت میں وقتی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں مروی اس روایت سے استفادہ ہو سکتا ہے، لیکن جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی اس روایت کو ضرورت اور مجبوری کی ہی حالت میں جائز قرار دیا ہے، اسے مستقل عادت بنانا میرے نزدیک درست نہیں۔

سوال: آسٹریلیا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ جب ہم وفات پا جاتے ہیں تو دو فرشتے آ کر سوال کرتے ہیں کہ تمہارا دین کیاہے، تمہارا نبی کون ہے اور تمہارا معبود کون ہے۔ اور ہمیں زبانی جواب دینا پڑے گا اور پھر روح پرواز کر جائے گی؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۸؍ جون ۲۰۲۲ء میں اس کے بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: قبر میں سوال وجواب اور عذاب قبر سے متعلق مختلف روایات کتب احادیث میں پائی جاتی ہیں۔ آپ نے اپنے سوال میں جو بات پوچھی ہے۔ اس کے بارے میں سنن ابی داؤد میں ایک روایت بیان ہوئی ہے۔ حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک انصاری کے جنازہ کے ساتھ نکلے اور ایک قبر پر جا پہنچے جس میں ابھی لحد نہیں بنائی گئی تھی۔ پس رسول اللہ ﷺ وہاں بیٹھ گئے اور ہم بھی نہایت خاموشی کے ساتھ آپؐ کے اردگرد بیٹھ گئے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے۔ پھر آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور دو یا تین مرتبہ فرمایا کہ قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ (اس روایت کے ایک راوی جریر کی روایت میں ہے کہ اس موقع پر)حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جب مردہ کو دفن کرنے والے واپس چلے جاتے ہیں تو مردہ ان کے جوتوں کی دھمک سنتا ہے۔ اس وقت اس مردہ سے کہا جاتا ہے کہ اے شخص! تیرا رب کون ہے اور تیرا مذہب کیا ہے اور تیرا نبی کون ہے ؟ (اس روایت کے ایک راوی ھناد کہتے ہیں کہ) حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اوراسے بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ وہ دونوں اسے کہتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے۔ وہ دونوں کہتے ہیں کہ یہ کون شخص ہے جو تمہارے درمیان مبعوث ہوا تھا؟ وہ کہتا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ ہیں۔ وہ دونوں پوچھتے ہیں کہ یہ تمہیں کیسے معلوم ہوا ؟ وہ کہتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ہے، اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی۔ (جریر کی روایت میں یہ بھی اضافہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ کے فرمان يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ کا یہی مطلب ہے۔حضور ﷺ نے فرمایاپھر آسمان سے ایک آواز لگانے والا آواز لگائے گا کہ میرے بندہ نے سچ کہا۔ پس اس کے لیے جنت کا بستر بچھا دو، اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو اور اسے جنت کے کپڑے پہنا دو۔حضور ﷺ نے فرمایا کہ پھر جنت کی ہوا اور خوشبو اس کے پاس آتی ہے اور اس کی قبر حد نگاہ تک کشادہ کردی جاتی ہے۔ اور فرمایا کہ کافر جب مرتا ہے تو اس کی روح کو جسم میں لوٹایا جاتا ہے اور دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا۔ وہ کہتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا۔ وہ دونوں کہتے ہیں کہ یہ آدمی کون ہے جو تم میں بھیجا گیا؟وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا۔ پس آسمان سے ایک منادی آواز لگاتا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا، پس اس کے لیے آگ کا بستر بچھا دو اور اسے آگ کا لباس پہنادو اور اس کے لیے جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔حضورﷺ نے فرمایا کہ جہنم کی گرمی اور گرم ہوا اس کے پاس آتی ہے اور اس کی قبر اس قدر تنگ کردی جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتی ہیں۔ (جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ) پھر اس پر ایک اندھا اور بہرا فرشتہ مقرر کردیا جاتا ہے، جس کے پاس لوہے کا ایک ایسا گرز ہوتا ہے کہ اگر اسے پہاڑ پر مارا جائے تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائے۔ فرمایا کہ وہ فرشتہ اس گرز سے اس مردہ کو مارتا ہے جس کی آواز مشرق ومغرب کے درمیان ہر چیز سنتی ہے سوائے جن وانس کے۔ پس وہ مردہ مٹی ہوجاتا ہے پھر اس میں دوبارہ روح ڈال دی جاتی ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب السنۃ بَاب فِي الْمَسْأَلَةِ فِي الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ)

ان روایات کے بارے میں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ ان میں بیان ہونے والے امور زیادہ تر تمثیلی باتوں پر مبنی ہیں، انہیں صرف ظاہر پر لگانا درست نہیں۔ قبر کے حوالہ سے اس کی ایک مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے کہ ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقۡبَرَہٗ۔(سورۃ عبس:۲۲)یعنی اللہ تعالیٰ نے اس انسان کو مار دیا اور پھر اسے قبر میں رکھا۔ جبکہ انسان کو قبر میں اللہ تعالیٰ نہیں رکھتا بلکہ انسان ہی دوسرے انسان کو قبر میں دفناتے ہیں۔ اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کی اس دنیا میں قبر بنتی ہی نہیں، مثلاً جو ڈوب جائیں اور ان کی نعش ہی نہ ملے، یا جنہیں کوئی درندہ کھا جائے۔اسی طرح جن لوگوں کو جلا دیا جاتا ہے، ان کی بھی کہیں قبر نہیں بنتی۔ پس یہاں پر اصل میں اُس قبر کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ انسان کی وفات کے بعد اخروی زندگی میں بناتا ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کے تحت تفسیری نوٹ میں تحریر فرماتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں تو انسان کو اس کے رشتہ دار قبر میں رکھتے ہیں۔ لیکن اصل قبر انسان کی وہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ انسان کی روح کو رکھتا ہے۔ (تفسیر صغیر صفحہ ۸۰۳ حاشیہ نمبر۶)

پس جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ یہ سب روحانی اور تمثیلی باتیں ہیں، جن کا وقوع پذیر ہونا اس دنیاوی زندگی کے ختم ہونے پر اللہ تعالیٰ کے حضورجزا و سزا کے لیے انسان کے پیش ہونے پر ہو گا۔ اور یہ سب باتیں اس دنیا میں کی جانے والی نیکیوں کے نتیجہ میں اخروی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے انعامات اور جزا کی غیر معمولی فراوانی اور ان کی اہمیت، اسی طرح اس دنیا میں کی جانے والی بد عملیوں کے نتیجہ میں اخروی زندگی میں ملنے والی سزا کی شدت کے اظہار اور اس کی تکالیف کا انسان کو احساس دلانے کے لیے بیان کی گئی ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button